راجندر بڑی شدت سے چائے کی کچھ پتیاں اور ایک کلی تلاش کر رہے ہیں۔ ڈھلان والی پہاڑی پر قطاربند طریقے سے لگائی گئی چائے کی جھاڑیوں پر وہ انگلیاں پھیرتے ہوئے چل رہے ہیں۔ ان کی بیوی سُمنا دیوی، پاس میں ہی ایک ٹوکری لیے تیار کھڑی ہیں۔ ہمالیہ کے اس دھولادھار پہاڑی سلسلے پر، چائے کی گھنی جھاڑیوں کے پار کئی اونچے اوہی کے درخت ہیں۔
یہ کٹائی کا وقت ہے، لیکن راجندر سنگھ کا چائے کی پتیاں ڈھونڈنا کچھ کام نہیں آیا ہے۔ وہ کانگڑا ضلع کے ٹانڈہ گاؤں میں واقع چائے کے باغات میں روزانہ آتے ہیں، اور ان کے ساتھ یا تو ان کی بیوی سُمنا ہوتی ہیں یا ان کا ۲۰ سالہ بیٹا آرین ہوتا ہے۔ اپریل اور مئی کے مہینے میں چائے کی پتیاں توڑی جاتی ہیں۔ لیکن، ابھی تک باغ میں توڑنے کے لیے انہیں تیار پتیاں نہیں مل رہی ہیں۔
ہماچل پردیش کی پالم پور تحصیل میں وہ اپنی چائے کی پتیوں کے خشک ہو جانے سے فکرمند ہیں، اور کہتے ہیں، ’’گرمی آ گئی ہے اور بارش کا کوئی نام و نشان تک نہیں ہے!‘‘
راجندر کی تشویش جائز ہے، کیوں کہ گزشتہ دو برسوں میں بہت کم بارش ہوئی ہے۔ سال ۲۰۱۶ کی ایف اے او کی بین حکومتی رپورٹ کے مطابق، ’’چائے کے باغات کو ہوئے نقصان کی وجہ بے ترتیب بارش ہے۔‘‘ رپورٹ میں، چائے کے باغات پر ماحولیاتی تبدیلی سے ہونے والے اثرات کے بارے میں مطالعہ کیا گیا ہے، خاص طور پر فروری سے اپریل کے درمیان بارش کی سب سے زیادہ ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے بعد، اپریل میں توڑی گئی شروعاتی چائے کی پتیوں کی قیمت فی کلو ۸۰۰ روپے اور کبھی کبھی ۱۲۰۰ روپے تک پہنچ جاتی ہے۔
سال ۲۰۲۲ راجندر کے لیے خاص ہونے والا تھا، کیوں کہ انہوں نے مزید دو ہیکٹیئر زمین کرایے پر لی تھی۔ انہوں نے بتایا، ’’مجھے لگا کہ اس بار میری آمدنی بڑھ جائے گی۔‘‘ اب کل تین ہیکٹیئر میں چائے اُگانے کی وجہ سے وہ اس سیزن میں تقریباً ۴۰۰۰ کلو تک پتیاں حاصل کرنے کی امید میں تھے۔ انہوں نے ۲۰ ہزار روپے کرایے پر باغات لیے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ مزدوروں کو دیا جانے والا پیسہ پیداواری لاگت کا ۷۰ فیصد ہوتا ہے۔ ان کے مطابق، ’’ایک باغ کے رکھ رکھاؤ میں بہت زیادہ محنت اور پیسے خرچ ہوتے ہیں۔‘‘ اس کے علاوہ، پتیوں کو تیار کرنے پر الگ سے خرچ آتا ہے۔
یہ فیملی لبانا برادری سے تعلق رکھتی ہے، جو ہماچل پردیش میں دیگر پس ماندہ طبقہ (او بی سی) کے طور پر درج ہے۔ ’’ہمارے دادا پردادا یہی کام کرتے تھے۔‘‘ جب لمبی بیماری کے بعد ان کے والد کی موت ہوئی، تب محض ۱۵ سال کی عمر سے انہوں نے اپنی فیملی کے کھیتوں میں کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ اپنے چاروں بھائی بہنوں میں سب سے بڑے تھے، اور اس لیے انہیں اسکول چھوڑ کر کھیتی سنبھالنی پڑی۔
پوری فیملی چائے کے باغوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ، پتیوں کے مشروب کے طور پر تیار ہو جانے تک مل کر کام کرتی ہے۔ ان کی بیٹی آنچل گریجویشن کی پڑھائی کر رہی ہے، اور نرائی (گھاس پھوس نکالنے) اور پیکنگ میں مدد کرتی ہے۔ ان کا بیٹا آرین نرائی گڑائی سے لے کر تڑائی، چھنٹائی اور پیکنگ تک ہر طرح سے ہاتھ بٹاتا ہے۔ آرین، ریاضی میں گریجویشن کر رہا ہے اور تھوڑا بہت پڑھانے کا کام بھی کرتا ہے۔
کانگڑا کے چائے کے باغات میں کالی اور ہرے رنگ کی چائے پیدا ہوتی ہے اور یہ دونوں قسمیں مقامی گھروں میں کافی مقبول ہیں۔ چائے کی پتیاں چھانٹنے اور پیکنگ کا کام کرنے والی سُمنا بتاتی ہیں، ’’یہاں شاید ہی آپ کو چائے کی دکان دیکھنے کو ملے۔ ہر گھر میں آپ کا تواضع چائے سے کیا جائے گا۔ ہم اپنی چائے میں دودھ یا چینی نہیں ملاتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے دوا کی طرح ہے۔‘‘ راجندر جیسے زیادہ تر چائے کے کسانوں کے پاس، چائے کی تازہ پتیوں کو رول کرنے اور بھوننے کے لیے آلات کے ساتھ ساتھ، ان تمام کارروائیوں کو انجام دینے کے لیے ایک چھوٹا عارضی کمرہ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، وہ دیگر پروڈیوسرز کی چائے کی پتیوں کو بھی تیار کرتے ہیں اور اس کے لیے وہ تیار چائے کے فی کلو پر ۲۵۰ روپے لیتے ہیں۔
سال ۱۹۸۶ میں، ان کے والد نے اپنی وفات سے ٹھیک پہلے قرض لے کر اور زمین فروخت کر کے ۸ لاکھ کی مشین خریدی تھی، تاکہ ان کی فیملی تازہ پتیوں کو تیار کر سکے۔ حالانکہ، ان کا قرض ابھی تک ادا نہیں ہوا ہے۔
یہاں کانگڑا ضلع میں، راجندر جیسے چھوٹے کسانوں کا ریاست کی چائے کی پیداوار پر غلبہ ہے۔ سال ۲۰۲۲ میں، ریاست کے محکمہ زراعت کے ذریعے شائع ایک رپورٹ کے مطابق، ۹۶ فیصد کسانوں کے پاس دو ہیکٹیئر سے بھی چھوٹے باغات ہیں۔ آدھے سے زیادہ باغات پالم پور تحصیل میں ہیں، اور باقی بیج ناتھ، دھرم شالہ اور دیہرا تحصیل میں ہیں۔
ڈاکٹر سنیل پٹیال بتاتے ہیں، ’’ہماچل کے صرف کچھ ضلعوں میں ہی چائے کی کھیتی کی جا سکتی ہے، کیوں کہ ان ضلعوں میں ہی چائے کی فصل کے لیے ضروری ایسڈک مٹی بھی ہے، جس کی پی ایچ سطح ۵ء۴ سے ۵ء۵ ہے۔‘‘ ڈاکٹر پٹیال ریاست کے محکمہ زراعت میں تکنیکی افسر (چائے) ہیں۔
بالی ووڈ کی کئی فلموں میں کانگڑا کے چائے کے باغات اور پہاڑوں کا نظارہ دکھایا جاتا ہے۔ حال ہی میں، ماورائی طاقتوں پر مبنی فلم ’بھوت پولیس‘ کی شوٹنگ یہیں کی گئی تھی۔ راجندر بتاتے ہیں، ’’کئی سیاح اپنے کیمرے سے ہمارے باغات کی شوٹنگ کرتے ہیں، لیکن ان سب چیزوں کے بارے میں انہیں کچھ خاص پتہ نہیں ہوتا ہے۔‘‘
*****
ہماچل پردیش میں، چائے کے باغات پوری طرح سے پہاڑوں کی بارش پر منحصر ہیں۔ عام طور پر جب گرمی بڑھتی ہے، تو بارش ہوتی ہے، جس سے چائے کے پودوں کو راحت ملتی ہے۔ پٹیال بتاتے ہیں، ’’بغیر بارش کے درجہ حرارت میں اضافہ ہونا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ چائے کے پودوں کو نمی کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اب [۲۰۲۱ اور ۲۰۲۲ میں] موسم کافی گرم رہنے لگا ہے۔‘‘
ہندوستانی محکمہ موسمیات (آئی ایم ڈی) کے اعداد و شمار کے مطابق، مارچ اور اپریل ۲۰۲۲ میں، کانگڑا ضلع میں بارش میں ۹۰ فیصد سے زیادہ کی کمی دیکھی گئی۔ اس کے بعد، جب اپریل اور مئی ۲۰۲۲ میں پتیوں کو توڑا گیا اور پالم پور کوآپریٹو چائے فیکٹری بھیجا گیا، تو چائے کی پیداوار صرف ایک لاکھ کلو کی ہوئی۔ سال ۲۰۱۹ کے اسی مہینے میں اس سے تین گنا زیادہ پیداوار ہوئی تھی۔
راجندر کو بھی نقصان اٹھانا پڑا۔ سال ۲۰۲۲ کے مئی ماہ کے آخر میں، پاری سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس سیزن میں وہ صرف ایک ہزار کلو چائے کی پتیاں ہی اُگا پائے۔ اس میں سے آدھی پیداوار کو تیار کرکے مقامی بازاروں میں بیچنے کے لیے ان کی فیملی نے گھر پر ہی رکھا، اور باقی کو پالم پور کی فیکٹری میں بھیج دیا۔ ان کا بیٹا آرین کہتا ہے، ’’چار کلو سبز پتیوں سے ایک کلو چائے تیار ہوتی ہے۔ فروخت کے لیے ہم نے ایک ایک کلو کے سو پیکٹ تیار کیے تھے۔‘‘ ایک کلو کالی چائے کی قیمت ۳۰۰ روپے اور ایک کلو ہری چائے کی قیمت ۳۵۰ روپے ہے۔
ہندوستان میں چائے کا بڑا حصہ آسام، مغربی بنگال اور تمل ناڈو کے نیلگری میں اُگایا جاتا ہے۔ ٹی بورڈ انڈیا کی ویب سائٹ پر بتایا گیا ہے کہ ۲۲-۲۰۲۱ میں، ہندوستان نے ۱۳۴۴ ملین کلو چائے پیدا کی ہے اور اس میں تقریباً ۵۰ فیصد حصہ داری چھوٹے کسانوں کی رہی۔ کامرس اور صنعت کی مرکزی وزارت کے تحت آنے والا یہ ادارہ آگے کہتا ہے، ’’چھوٹے کسان زیادہ تر غیر منظم ہوتے ہیں اور کھیتی کی تقسیم شدہ یا بکھری نوعیت کے سبب، ان کی چائے کی قیمت بہت کم ہوتی ہے۔‘‘
ہماچل کی چائے کا مقابلہ دیگر علاقوں کی چائے سے ہوتا ہے۔ ڈاکٹر پرمود ورما بتاتے ہیں، ’’ریاست کے اندر، سیب پیدا کرنے والوں کو ترجیح دی جاتی ہے، اور [مقامی] انتظامیہ کی بھی اس پر زیادہ توجہ رہتی ہے۔‘‘ ڈاکٹر پرمود، پالم پور میں واقع ہماچل پردیش ایگریکلچر یونیورسٹی میں چائے ٹیکنالوجسٹ ہیں اور ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے چائے پر تحقیق کر رہے ہیں۔
چائے کے باغات کا رقبہ کم ہونے کی وجہ سے بھی چائے کی پیداوار میں کمی آئی ہے۔ کانگڑا ضلع میں ۲۱۱۰ ہیکٹیئر میں چائے اگائی جاتی ہے، لیکن صرف آدھے رقبہ – یعنی ۸۳ء۱۰۹۶ ہیکٹیئر میں ہی سرگرمی سے کھیتی کی جاتی ہے۔ بقیہ زمین کو یا تو خالی چھوڑ دیا گیا ہے یا وہاں گھر بنا لیے گئے ہیں۔ ایسی زمینوں پر گھر بنانا ہماچل پردیش سیلنگ آن لینڈ ہولڈنگز ایکٹ، ۱۹۷۲ کی خلاف ورزی ہے۔ اس قانون کے مطابق، چائے کے لیے محفوظ زمین کو فروخت یا کسی دیگر مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے۔
ٹانڈہ گاؤں میں راجندر کے پڑوسی جاٹ رام بھامن کہتے ہیں، ’’کچھ سال پہلے میرے کھیت کے ٹھیک پیچھے چائے کے باغات تھے۔ لیکن اب وہاں گھر بن گئے ہیں۔‘‘ وہ اور ان کی بیوی اجنگیا بھامن اپنے ۱۵ کنال (تقریباً تین چوتھائی ہیکٹیئر) میں چائے اگاتے ہیں۔
تقریباً ۸۷ سالہ جاٹ رام اُس دور کو یاد کرتے ہیں جب باغات سے کافی منافع ہوتا تھا اور آس پاس بہت سارے باغ ہوا کرتے تھے۔ چائے کی پہلی کھیتی ۱۸۴۹ میں کی گئی تھی اور ۱۸۸۰ آتے آتے، کانگڑا کی چائے نے لندن اور ایمسٹرڈم کے بازاروں میں اپنی الگ پہچان بنا لی تھی۔ سال ۲۰۰۵ میں، کانگڑا کو اس کے انوکھے ذائقہ کے لیے جغرافیائی نشان (جی آئی ٹیک) ملا۔
ٹانڈہ گاؤں میں چائے کی ۱۰ کنال زمین (تقریباً آدھا ہیکٹیئر) کے مالک ۵۶ سالہ جسونت بھامن یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’وہ سنہرا دور تھا۔ ہم اپنے گھروں میں پتیوں کو (روایتی) مشینوں سے تیار کرتے تھے اور امرتسر میں بیچتے تھے۔ اس وقت امرتسر بہت بڑا بازار تھا۔‘‘
جسونت ۱۹۹۰ کی دہائی کا ذکر کر رہے ہیں۔ مقامی ٹی (چائے) بورڈ کے مطابق، اُس وقت کانگڑا میں ایک سال میں ۱۸ لاکھ ٹن تیار چائے کی پیداوار ہوتی تھی۔ چائے کو امرتسر کے بازاروں میں سڑک کے راستے پہنچایا جاتا تھا۔ کانگڑا سے امرتسر کا فاصلہ ۲۰۰ کلومیٹر سے زیادہ ہے اور یہیں سے چائے نیلامی کے لیے بین الاقوامی بازار میں پہنچتی تھی۔ آج یہ پیداوار آدھے سے بھی کم، یعنی تقریباً ۸ لاکھ ۵۰ ہزار ٹن ہو گئی ہے۔
راجندر نے پاری کو پرانا بل دکھاتے ہوئے کہا، ’’اس وقت [فی ہیکٹیئر پر] ہم اچھی کمائی کر لیتے تھے۔ چائے تیار ہوتے ہی سال میں ہم بازار کے کئی چکر لگا لیتے تھے۔ میں ایک چکر میں تقریباً ۱۳ ہزار سے ۳۵ ہزار روپے تک کما لیتا تھا۔‘‘
اب وہ دور نہیں رہا۔ جسونت بتاتے ہیں، ’’امرتسر میں بہت پنگا (جھگڑا) ہونے لگا۔‘‘ کانگڑا کے چائے کے باغ کے مالک، ہندوستان میں چائے کی نیلامی کے بڑے مرکز کولکاتا جا کر بسنے لگے۔ زیادہ تر کسان گھر پر چائے کو تیار کرنا چھوڑ، پالم پور، بیر، بیج ناتھ اور سدھ باڑی کے سرکاری کارخانوں میں پروسیسنگ کے لیے جانے لگے، کیوں کہ کارخانے کی چائے، نیلامی کے لیے سیدھے کولکاتا بھیجی جاتی تھی۔ حالانکہ، یہ کارخانے بند ہونے لگے اور مقامی کسانوں کو ریاست کی مدد ملنی بند ہو گئی۔ آج صرف ایک کوآپریٹو فیکٹری کام کر رہی ہے۔
کولکاتا نیلامی مرکز، کانگڑا سے تقریباً ۲۰۰۰ کلومیٹر دور ہے، جس سے نقل و حمل کی لاگت، گودام کی فیس اور مزدوری میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اس سے، کانگڑا کے چائے کے باغات کے مالکوں کے منافع میں کمی آئی ہے، اور ان کے لیے آسام، مغربی بنگال اور نیلگری کے دیگر چائے کی پیداوار کرنے والوں کے ساتھ مقابلہ کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
ڈاکٹر پرمود ورما بتاتے ہیں، ’’کانگڑا کی چائے کی برآمد اب کانگڑا چائے کے طور پر نہیں، بلکہ خریداروں اور تجارتی کمپنی کے ذریعے دیے گئے الگ الگ ناموں کے ساتھ کی جاتی ہے۔ کولکاتا کے خریدار کم قیمت پر چائے خرید کر، اچھی قیمت پر اسے بیچتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ان کے پاس برآمد کی بھی اچھی سہولت نہیں ہے۔‘‘
*****
راجندر کے مطابق، ’’مجھے باغ کے لیے تقریباً ۱۴۰۰ کلو کھاد کی ضرورت پڑتی ہے، جس پر تقریباً ۲۰ ہزار روپے تک کا خرچ آتا ہے۔‘‘ پہلے ریاستی حکومت کھاد پر ۵۰ فیصد سبسڈی دیتی تھی، مگر اب گزشتہ پانچ برسوں میں اسے بند کر دیا گیا ہے۔ لیکن اس کی صفائی نہ تو ریاستی محکمہ کو دی گئی ہے اور نہ ہی کسی اور کو۔
چائے کی کھیتی پوری طرح محنت و مزدوری پر منحصر ہے۔ مزدوروں کی ضرورت اپریل سے اکتوبر تک پڑتی ہے، اور پھر نومبر سے چھنٹائی کے لیے ان کی ضرورت ہوتی ہے۔ ریاست نے چھنٹائی کے لیے مشینیں دستیاب کروائی ہیں اور راجندر اور ان کے بیٹے مزدوری کی لاگت بچانے کے لیے خود ہی مشین چلاتے ہیں، لیکن پھر بھی انہیں پٹرول پر پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔
پچھلے سال، اس فیملی نے تین مزدوروں کو ۳۰۰ روپے یومیہ کی اجرت پر رکھا تھا۔ راجندر کو ان کی چھٹی کرنی پڑی تھی۔ ’’توڑنے کے لیے کچھ تھا نہیں، تو انہیں [مزدوروں کو] رکھنے کا کیا مطلب تھا۔ ہم مزدوری کیسے دیتے؟‘‘ ہر سال اپریل سے اکتوبر تک چائے کی پتیاں توڑنے کے دوران پہاڑوں پر مزدوروں کی بھیڑ ہوتی ہے، لیکن سال ۲۰۲۲ میں ٹھیک اسی سیزن میں کوئی ایک مزدور بھی بہت مشکل سے نظر آتا تھا۔
گھٹتے منافع اور سرکاری مدد نہ ملنے سے، یہاں کے نوجوانوں کا مستقبل غیر یقینی کا شکار ہو گیا ہے۔ جاٹ رام کہتے ہیں کہ ان کے بچوں کے پاس سرکاری نوکریاں ہیں۔ وہیں، ان کی بیوی اجنگیا کہتی ہیں، ’’مجھے نہیں معلوم کہ ہمارے بعد کون [باغ کی] دیکھ بھال کرے گا۔‘‘
راجندر کے بیٹے آرین بھی اب یہ کام نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ آرین کہتے ہیں، ’’میں نے انہیں [اپنے والدین کو] معاش کے لیے جدوجہد کرتے دیکھا ہے۔ فی الحال تو میں اپنے والدین کے ساتھ کام کر رہا ہوں، لیکن آئندہ میں یہ کام نہیں کروں گا۔‘‘
راجندر کے اندازہ کے مطابق، سال کے آخر تک انہوں نے تقریباً ڈھائی لاکھ روپے کی کمائی کی تھی، جس میں سے زیادہ تر کمائی اکتوبر تک ہوئی جب چائے کا سیزن ختم ہونے کو آتا ہے۔ اسی کمائی سے انہیں کرایہ، لاگت اور دیگر اخراجات پورے کرنے تھے۔
راجندر نے بتایا کہ ۲۰۲۲ میں فیملی کا گزارہ بچت کے سہارے نہیں چل سکا۔ انہوں نے اپنی دو گایوں کا دودھ بیچ کر، دیگر چھوٹے باغات کی پتیوں کو تیار کر کے، اور آرین کے ٹیوشن سے ہونے والی ۵۰۰۰ روپے کی آمدنی سے روزمرہ کے خرچ چلائے۔
سال ۲۰۲۲ میں منافع اتنا کم ہوا کہ راجندر اور سُمنا نے کرایے پر لیے دو ہیکٹیئر کے باغ واپس کر دیے۔
مترجم: محمد قمر تبریز