اس سال ۱۰ اپریل کو رات ۱۰:۳۰ بجے، حی الرحمن انصاری ممبئی کے لوک مانیہ تلک ٹرمنس پر تھے۔ وہ جھارکھنڈ کے رانچی ضلع کے ہٹیا ریلوے اسٹیشن تک جانے والی ہٹیا ایکسپریس کا انتظار کر رہے تھے، جو رات ۱۲:۳۰ بجے وہاں آنے والی تھی۔ ہٹیا ریلوے اسٹیشن سے رحمن آٹورکشہ لیکر بس اسٹینڈ جائیں گے، اور وہاں سے اپنے گاؤں، پڑوس کے چترا ضلع میں واقع اسڑھیا جانے والی بس پکڑیں گے۔
اس پورے سفر میں انہیں ڈیڑھ دن کا وقت لگے گا۔
لیکن ٹرین میں بیٹھنے سے پہلے، اسٹیشن کے ایک پرسکون کونے میں کھڑے، ۳۳ سالہ رحمن نے ہمیں بتایا کہ وہ ایک سال میں دوسری بار ممبئی سے کیوں جا رہے تھے۔
جب وہ ٹرین سے گھر جانے کا انتظار کر رہے تھے، اس سے کچھ دن پہلے ان کے نئے آجر نے انہیں بتایا تھا کہ کام دھیما ہو گیا ہے۔ ’’انہوں نے کہا، ’رحمن، معاف کرو، ہم تمہیں کام پر نہیں رکھ پائیں گے۔ تم بعد میں پھر سے کوشش کر سکتے ہو‘۔‘‘ اور اس طرح انہوں نے اپنی تازہ ترین نوکری کھو دی – جو ابھی شروع بھی نہیں ہوئی تھی۔
رحمن ۱۰ سال پہلے جمشیدپور کے کریم سٹی کالج سے ماس کمیونی کیشن میں گریجویشن (بی اے) کرنے کے بعد ممبئی آ گئے تھے۔ انہوں نے ویڈیو ایڈیٹر کے طور پر پروجیکٹ پر مبنی کام لینا شروع کیا، جس سے ان کی اتنی کمائی ہو جاتی تھی کہ وہ اس شہر میں اپنا خرچ چلا سکیں اور کچھ پیسے گھر بھیج سکیں۔
لیکن مارچ ۲۰۲۰ میں، ملک گیر کووڈ- ۱۹ لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد انہوں نے اپنی نوکری کھو دی – اور اس کے ساتھ ہی ان کی ۴۰ ہزار روپے کی ماہانہ تنخواہ بھی چلی گئی۔ رحمن نے باندرہ مغرب کے لال مٹی علاقے میں، اپنے گاؤں کے چار دیگر لوگوں کے ساتھ کرایے کے ایک چھوٹے سے کمرے میں رہنا جاری رکھا۔ ان میں سے ہر ایک آدمی کرائے کے لیے ۲۰۰۰ روپے ادا کرتا تھا۔ یہ مشکل تھا، وہ یاد کرتے ہیں – ایک وقت ایسا بھی آیا جب ان کے پاس راشن تک کے پیسے نہیں تھے۔
’’پچھلے سال، مجھے حکومت مہاراشٹر سے کسی بھی طرح کی کوئی مدد نہیں ملی،‘‘ رحمن نے بتایا۔ ایک پرانے ساتھی کارکن نے انہیں کچھ چاول، دال، تیل اور کھجور دیے تھے۔ ’’مجھے اُس وقت بہت برا لگتا تھا اور میں کسی سے اس بارے میں بات بھی نہیں کر سکتا تھا۔‘‘
اس لیے، پچھلے سال مئی کے وسط میں، رحمن نے اپنے گاؤں لوٹنے کے لیے سفر کے خرچ کے لیے تین مہینے کا کرایہ بچایا۔ وہ اور ان کے ساتھ کمرے میں رہنے والے سبھی لوگوں نے گھر جانے کے لیے ایک پرائیویٹ بس کرائے پر لی، جس کے لیے انہیں فی سیٹ ۱۰ ہزار روپے ادا کرنے پڑے۔ انہوں نے اپنے مکان مالک سے درخواست کی کہ وہ بعد میں کرایہ ادا کر دیں گے۔
گاؤں لوٹنے کے بعد، رحمن اپنے پانچ بھائیوں کے ساتھ اپنی فیملی کے ۱۰ ایکڑ کھیت پر کام کرنے لگے، جہاں وہ فصلوں کی بوائی اور کٹائی کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ ان کے والدین، ان کے بھائی، ان کی فیملی، سبھی گاؤں میں ایک ساتھ رہتے ہیں۔ رحمن کی بیوی، ۲۵ سالہ سلمی خاتون اور ان کے بچے، ۵ سالہ اخلاق اور ۲ سالہ سائمہ ناز، ان کے ساتھ رہتے ہیں۔
وبائی مرض سے پہلے رحمن، گھریلو اخراجات اور اپنا کھیت چلانے کے لیے فیملی کے ذریعہ لیے گئے قرض کی ادائیگی کے لیے، ۱۰-۱۵ ہزار روپے بھیجا کرتے تھے۔ جب لاک ڈاؤن کی پابندیوں میں چھوٹ دی گئی، تو امکانی نوکری کا موقع انہیں واپس ممبئی لے آیا۔ تقریباً ۱۰ مہینے تک دور رہنے کے بعد، وہ فروری ۲۰۲۱ کے آخر میں لوٹے تھے۔
تب تک، ان کے اوپر مکان مالک کا ۱۰ مہینے کا کرایہ بقایہ ہو چکا تھا۔ کھیت میں کام کرکے بچائی گئی رقم اور لکھنؤ میں چھوٹے موٹے ایڈیٹنگ کے کاموں کے ذریعہ حاصل کی گئی آمدنی سے، رحمن نے ممبئی پہنچنے کے بعد نو مہینے کا کرایہ – ۱۸ ہزار روپے چُکایا۔
لیکن اس سے پہلے کہ وہ ایک نئے دفتر میں نئے سرے سے شروعات کر پاتے، مہاراشٹر میں ۵ اپریل سے جزوی لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا گیا (مکمل لاک ڈاؤن ۱۴ اپریل سے لگایا گیا)۔ تیزی سے پھیلتی کووڈ- ۱۹ کی دوسری لہر نے پروجیکٹوں کو دھیما کر دیا اور رحمن کے نئے آجر نے انہیں مطلع کیا کہ وہ اب انہیں کام پرنہیں رکھ سکتے۔
کام تلاش کرنے کی غیریقینیت رحمن کو پہلے بہت زیادہ متاثر نہیں کرتی تھی۔ ’’جب مجھے کوئی پروجیکٹ ملتا ہے، تو یہ کبھی چھ مہینے کے لیے ہوتا ہے، کبھی دو سال کے لیے یا کبھی تین مہینے کے لیے بھی۔ میں اس کا عادی ہو گیا ہوں،‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’لیکن جب دفاتر اچانک بند ہو جائیں، تو بہت مشکل ہوتی ہے۔‘‘
اس سے پہلے، اگر کسی ایک دفتر میں کام ٹھیک سے نہیں چلا، تو وہ ہمیشہ دیگر مقامات پر درخواست کر سکتے تھے۔ ’’اب، کہیں اور کام پانا بھی مشکل ہے۔ وبائی مرض کے سبب، آپ کو کورونا ٹیسٹ کروانا پڑتا ہے، سینیٹائز کرنا ہوتا ہے... اور لوگ اجنبیوں کو اپنی عمارت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔ ہمارے لیے یہ بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے،‘‘ رحمن نے بتایا۔
وہ اپنے گاؤں میں رہنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرنا چاہتے تھے، لیکن انہوں نے کہا، ’’لیکن میں اس قسم کا کام [ویڈیو ایڈیٹنگ] وہاں نہیں کر سکتا۔ جب آپ کو پیسے کی ضرورت ہو، تو شہر جانا ہی پڑتا ہے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز