دوپہر کا وقت ہے اور مہاراشٹر کے اُلہاس نگر میں بوندا باندھی تھوڑی دیر پہلے ہی رکی ہے۔

ایک آٹو رکشہ، تھانے ضلع کے سینٹرل ہاسپیٹل الہاس نگر کے دروازے پر آ کر رکتا ہے۔ بائیں ہاتھ میں سفید و سرخ رنگ کا ایک ڈبہ پکڑے، گیانیشور اس آٹو رکشہ سے باہر نکلتے ہیں۔ پیچھے ان کی بیوی ارچنا ہیں، جو گیانیشور کا کندھا پکڑ کر چلنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ بارش کی وجہ سے کیچڑ بھرا پانی چاروں طرف بہہ رہا ہے، جس سے ہو کر انہیں گزرنا پڑتا ہے۔

گیانیشور اپنی شرٹ کی جیب سے ۵۰۰-۵۰۰ روپے کے دو نوٹ نکالتے ہیں اور رکشہ ڈرائیور کو پکڑا دیتے ہیں۔ ڈرائیور اس میں سے کچھ پیسے انہیں واپس کرتا ہے۔ گیانیشور اس سکّہ کو چھونے کے بعد کہتے ہیں، ’’پانچ روپے‘‘، اور پھر بڑی احتیاط سے اسے اپنی جیب میں رکھ لیتے ہیں۔ ۳۳ سالہ گیانیشور جب تین سال کے تھے، تو آنکھوں میں السر ہونے کی وجہ سے ان کی بینائی چلی گئی تھی۔

ارچنا، اُلہاس نگر کے جس ہسپتال میں اپنا ڈائیلاسس کراتی ہیں، وہ امبرناتھ تعلقہ کے ونگنی قصبہ میں واقع ان کے گھر سے ۲۵ کلومیٹر دور ہے، جہاں تک جانے کے انہیں ایک طرف کا کرایہ ۴۸۰ سے ۵۲۰ روپے تک ادا کرنا پڑتا ہے۔ گیانیشور بتاتے ہیں، ’’میں نے [اس بار یہاں آنے کے لیے] اپنے دوست سے ۱۰۰۰ روپے اُدھار لیے ہیں۔ مجھے [اسپتال تک کا سفر کرنے کے لیے] ہر بار پیسے اُدھار لینے پڑتے ہیں۔‘‘ آٹو رکشہ سے اترنے کے بعد میاں بیوی دھیرے دھیرے چلنا شروع کرتے ہیں، اور ہسپتال کی دوسری منزَل پر واقع ڈائلیسس روم میں جانے کے لیے احتیاط سے ایک ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں۔

ارچنا جزوی طور پر نابینا ہیں، اور اسی سال مئی میں ممبئی کے لوک مانیہ تلک میونسپل جنرل ہاسپیٹل نے انہیں بتایا کہ انہیں کڈنی کی خطرناک بیماری ہے۔ گیانیشور بتاتے ہیں، ’’اس کی دونوں کڈنی فیل ہو چکی ہے۔‘‘ اس کی وجہ سے ۲۸ سالہ ارچنا کو ہر ہفتے تین بار ہیمو ڈائلیسس کی ضرورت پڑتی ہے۔

سینٹرل ہاسپیٹل الہاس نگر کے نیفرولوجسٹ، ڈاکٹر ہاردک شاہ بتاتے ہیں، ’’کڈنی (گردے) جسم کے ضروری اعضا ہوتے ہیں – یہ آپ کے جسم سے فضلہ اور اضافی سیال کو باہر نکالتے ہیں۔ جب یہ کام کرنا بند کر دیتے ہیں، تو انسان کو زندہ رہنے کے لیے ڈائلیسس یا ٹرانس پلانٹ (دوسرے گردے لگانے) کی ضرورت پڑتی ہے۔‘‘ ہندوستان میں ہر سال گردے کی بیماری کے آخری مرحلہ میں پہنچ چکے تقریباً ۲ء۲ لاکھ نئے مریض سامنے آتے ہیں، جس کی وجہ سے ڈائلیسس کی مانگ مزید بڑھ جاتی ہے، جب کہ ۴ء۳ کروڑ مریض پہلے سے ہی ڈائلیسس کرا رہے ہیں۔

Archana travels 25 kilometres thrice a week to receive dialysis at Central Hospital Ulhasnagar in Thane district
PHOTO • Jyoti Shinoli
Archana travels 25 kilometres thrice a week to receive dialysis at Central Hospital Ulhasnagar in Thane district
PHOTO • Jyoti Shinoli

بائیں: تھانے ضلع کے سینٹرل ہاسپیٹل الہاس نگر میں واقع ڈائلیسس والا کمرہ۔ دائیں: یہاں آ کر ڈائلیسس کرانے کے لیے ارچنا کو ہفتہ میں تین بار ۲۵ کلومیٹر کی دوری طے کرنی پڑتی ہے

ارچنا الہاس نگر کے اسپتال میں پردھان منتری نیشنل ڈائلیسس پروگرام (پی ایم این ڈی پی) کے تحت ڈائلیسس کراتی ہیں، جسے ۲۰۱۶ میں خط افلاس کے نیچے (بی پی ایل) زندگی گزارنے والے ان مریضوں کے مفت علاج کے لیے شروع کیا گیا تھا، جن کی کڈنی فیل ہو چکی ہے۔ یہ سروس ملک کے ضلعی اسپتالوں میں مہیا کرائی جاتی ہے۔

گیانیشور کہتے ہیں، ’’ڈائلیسس کے لیے مجھے پیسے خرچ نہیں کرنے پڑتے، لیکن سفر کا خرچ برداشت کرنا میرے لیے بہت مشکل ہے۔‘‘ ارچنا کو ڈائلیسس کے لیے ہر بار اسپتال لے جاتے وقت انہیں اپنے دوستوں اور پڑوسیوں سے قرض لے کر آٹو رکشہ کا کرایہ چکانا پڑتا ہے۔ لوکل ٹرین سے یہ سفر سستا تو ہے، لیکن محفوظ نہیں ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’وہ [ارچنا] بہت کمزور ہے اور اسٹیشن کی سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتی۔ میں نابینا ہوں، ورنہ میں اسے گود میں اٹھا کر لے جاتا۔‘‘

*****

الہاس نگر کے سرکاری اسپتال میں ان کا ڈائلیسس مہینہ میں ۱۲ بار ہوتا ہے، جس کے لیے انہیں ہر مہینے ۶۰۰ کلومیٹر کی دوری طے کرنی پڑتی ہے۔

سال ۲۰۱۷ کے ایک مطالعہ کے مطابق ہندوستان میں ڈائلیسس کرانے والے تقریباً ۶۰ فیصد مریضوں کو ہیمو ڈائلیسس کی سہولت حاصل کرنے کے لیے ۵۰ کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے، اور تقریباً ایک تہائی مریض اسپتال سے ۱۰۰ کلومیٹر سے زیادہ کی دوری پر رہتے ہیں۔

ہندوستان میں ڈائلیسس کے تقریباً ۴۹۵۰ مراکز ہیں، جن میں سے زیادہ تر پرائیویٹ سیکٹر کے ہیں۔ پی ایم این ڈی پی کو ملک کی ۳۵ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے ۵۶۹ ضلعوں میں پھیلے ۱۰۴۵ مراکز میں نافذ کیا جا رہا ہے۔ ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق، اس پروگرام کے لیے مجموعی طور پر ۷۱۲۹ ہیمو ڈائلیسس مشینوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

ڈائریکٹریٹ آف ہیلتھ سروسز، ممبئی کے کو-ڈائرکٹر، نتن امبیڈکر بتاتے ہیں کہ مہاراشٹر میں مفت ڈائلیسس کے ۵۳ مراکز ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’مزید مراکز قائم کرنے کے لیے ہمیں نیفرولوجسٹ، ٹیکنیشین درکار ہیں۔‘‘

Archana and Dnyaneshwar at their home in Vangani in 2020
PHOTO • Jyoti Shinoli

سال ۲۰۲۰ میں ونگنی میں واقع اپنے گھر پر ارچنا اور گیانیشور

اسپتال کے ائیرکنڈیشنڈ ڈائلیسس روم کے باہر بیٹھے ہوئے گیانیشور کہتے ہیں، ’ارچو کو زندگی بھر ڈائلیسس کی ضرورت پڑے گی۔ میں اسے کھونا نہیں چاہتا‘۔ان کی بیوی ارچنا کو اسی کمرے میں چار گھنٹے تک ڈائلیسس دیا جاتا ہے

ارچنا اور گیانیشور، ونگنی ٹاؤن میں رہتے ہیں جہاں پر ایک بھی سرکاری اسپتال نہیں ہے۔ دوسری طرف، ضلع کے ۲۰۲۱ کے سماجی اور اقتصادی تجزیہ میں بتایا گیا ہے کہ تھانے میں تقریباً ۷۱ پرائیویٹ اسپتال ہیں۔ گیانیشور کہتے ہیں، ’’کچھ پرائیویٹ اسپتال ہمارے گھر سے [صرف] ۱۰ کلومیٹر دور ہیں، لیکن ایک بار کے ڈائلیسس کے لیے وہ ۱۵۰۰ روپے وصول کرتے ہیں۔‘‘

اسی لیے، ۲۵ کلومیٹر دور واقع سینٹرل ہاسپیٹل الہاس نگر نہ صرف ارچنا کے ڈائلیسس بلکہ فیملی میں کسی بھی میڈیکل ایمرجنسی کے لیے پہلا متبادل بن چکا ہے۔ گیانیشور اس اسپتال تک پہنچنے کے تمام واقعات ایک ایک کرکے بتاتے ہیں۔

ارچنا نے ۱۵ اگست، ۲۰۲۲ کو چکر آنے اور پیروں میں جھنجھلاہٹ ہونے کی شکایت کی۔ گیانیشور کہتے ہیں، ’’میں اسے ایک مقامی پرائیویٹ کلینک لے کر گیا، جہاں اسے کمزوری دور کرنے کی کچھ دوائیں دی گئیں۔‘‘

لیکن، ۲ مئی کی رات کو ان کی طبیعت تیزی سے بگڑنے لگی اور سینے میں درد ہونے کی وجہ سے وہ بیہوش ہو گئیں۔ گیانیشور بتاتے ہیں، ’’اس نے حرکت کرنا بند کر دیا۔ میں بری طرح ڈر گیا۔‘‘ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ طبیعت بگڑنے کے بعد اس دن وہ کس طرح ارچنا کو لے کر چار پہیوں والی کرایے کی ایک گاڑی سے ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال کے چکر لگاتے رہے۔

گیانیشور بتاتے ہیں، ’’سب سے پہلے میں اسے سینٹرل ہاسپیٹل الہاس نگر لے گیا، جہاں اسے فوراً آکسیجن پر رکھا گیا۔ بعد میں، انہوں نے مجھے اسے کلوا [الہاس نگر سے ۲۷ کلومیٹر دور] کے چھترپتی شیواجی مہاراج ہسپتال لے جانے کو کہا کیوں کہ اس کی حالت کافی نازک ہوگئی تھی۔ لیکن کلوا ہسپتال پہنچنے پر ہمیں بتایا گیا کہ وہاں کوئی مفت آئی سی یو بیڈ نہیں ہے؛ انہوں نے ہمیں ساین ہسپتال بھیج دیا۔‘‘

اُس رات ارچنا اور گیانیشور کو کرایے کی ایک ٹیکسی سے تقریباً ۷۸ کلومیٹر کا سفر کرنا پڑا اور ایمرجنسی میڈیکل کیئر حاصل کرنے کے لیے ۴۸۰۰ روپے خرچ کرنے پڑے۔ تب سے ابھی تک انہیں اس معاملے میں کوئی راحت نہیں ملی ہے۔

*****

ارچنا اور گیانیشور بنیادی طور سے مہاراشٹر کے اورنگ آباد ضلع کے رہنے والے ہیں، اور ہندوستان کی اسی ۲۲ فیصد آبادی کا حصہ ہیں، جو پلاننگ کمیشن کے ذریعے ۲۰۱۳ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، خط افلاس کے نیچے زندگی گزارتی ہے۔ ارچنا کے اس علاج کی وجہ سے اس جوڑے کو ’تباہ کن صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات‘ کا بھی بوجھ برداشت کرنا پڑا ہے۔ اس قسم کے اخراجات کا سامنا تب کرنا پڑتا ہے جب کسی کو کھانے کے علاوہ بقیہ چیزوں پر ہر مہینے ۴۰ فیصد سے زیادہ خرچ کرنا پڑے۔

اکیلے ہر مہینے ۱۲ دنوں کے سفر پر اس جوڑے کو ۱۲۰۰۰ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ہر مہینے دواؤں پر الگ سے ۲۰۰۰ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔

The door to the dialysis room prohibits anyone other than the patient inside so Dnyaneshwar (right) must wait  outside for Archana to finish her procedure
PHOTO • Jyoti Shinoli
The door to the dialysis room prohibits anyone other than the patient inside so Dnyaneshwar (right) must wait  outside for Archana to finish her procedure
PHOTO • Jyoti Shinoli

بائیں: ڈائلیسس والے کمرے کے باہر لکھا ہوا ہے کہ ’ڈائلیسس والے علاقے میں مریضوں کے علاوہ، ان کے ساتھ آنے والا کوئی بھی رشتہ دار کمرے کے اندر انتظار نہیں کرے گا‘۔ دائیں: گیانیشور کمرے کے باہر ارچنا کے ڈائلیسس ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں

دریں اثنا، ان کی آمدنی گھٹتی ہی جا رہی ہے۔ ارچنا کی بیماری سے پہلے، دونوں میاں بیوی ونگنی سے ۵۳ کلومیٹر دور واقع تھانے ریلوے اسٹیشن کے باہر فائلیں اور کارڈ ہولڈرز بیچ کر ایک دن میں تقریباً ۵۰۰ روپے کما لیتے تھے۔ لیکن، کبھی ۱۰۰ روپے کی آمدنی ہوتی تھی، تو کسی دن ایک بھی پیسے کی نہیں ہوتی تھی۔ گیانیشور بتاتے ہیں، ’’ہم ہر مہینے تقریباً ۶۰۰۰ روپے کماتے تھے – اس سے زیادہ کبھی نہیں۔‘‘ (یہ بھی پڑھیں: وبائی مرض کے دوران ’چھونے کے ذریعے دنیا‘ کو دیکھنا )

اس آمدنی سے کسی طرح ان کے گھر کا ماہانہ ۲۵۰۰ روپے کا کرایہ ادا ہو جاتا اور گھریلو اخراجات پورے ہو جاتے تھے۔ لیکن ارچنا کے علاج کی وجہ سے ان کی مالی حالت تیزی سے بگڑتی جا رہی ہے۔

فیملی میں چونکہ ارچنا کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی بھی نہیں ہے، اس لیے گیانیشور کام کے لیے باہر نہیں نکل پاتے۔ وہ کہتے ہیں، ’’وہ بہت کمزور ہے۔ وہ کسی کی مدد کے بغیر نہ تو گھر میں ادھر ادھر چل سکتی ہے اور نہ ہی ٹوائلٹ استعمال کر سکتی ہے۔‘‘

دوسری طرف، قرض کا بوجھ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ گیانیشور اپنے دوستوں اور پڑوسیوں سے پہلے ہی ۳۰ ہزار روپے کا قرض لے چکے ہیں؛ مکان کا دو مہینے کا کرایہ بھی ابھی باقی ہے۔ ارچنا کے ڈائلیسس کے لیے سفر کے اخراجات کا انتظام کرنا اب ان کے بھاری پڑ رہا ہے اور میاں بیوی اس کے لیے فکرمند رہنے لگے ہیں۔ ان کی مسلسل آمدنی کا اب ایک ہی ذریعہ بچا ہے، اور وہ ہے سنجے گاندھی نرادھار پنشن اسکیم کے تحت انہیں ہر مہینے ملنے والی ۱۰۰۰ روپے کی پنشن۔

اسپتال کے ائیرکنڈیشنڈ ڈائلیسس روم کے باہر بیٹھے ہوئے گیانیشور کہتے ہیں، ’’ارچو کو زندگی بھر ڈائلیسس کی ضرورت پڑے گی۔ میں اسے کھونا نہیں چاہتا۔‘‘ ان کی بیوی ارچنا کو اسی کمرے میں چار گھنٹے تک ڈائلیسس دیا جاتا ہے۔ باتیں کرتے وقت گیانیشور کی آواز کانپنے لگتی ہے اور وہ پان کے دھبوں سے گندی ہو چکی ایک دیوار کے اوپر اپنا سر ٹکا لیتے ہیں۔

ارچنا اور گیانیشور، ہندوستان کی ایک بڑی آبادی کی طرح ہی حفظان صحت کی خدمات تک رسائی میں اپنی جیب سے زیادہ اخراجات (او او پی ای) کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ سال ۲۰۲۰-۲۱ کے اقتصادی سروے کے مطابق، ہندوستان میں ’’دنیا کے سب سے زیادہ او او پی ای افراد رہتے ہیں، جو تباہ کن اخراجات اور غربت کی سطح میں براہ راست اضافہ کرنے والے لوگ ہیں۔‘‘

When Archana goes through her four-hour long dialysis treatment, sometimes Dnyaneshwar steps outside the hospital
PHOTO • Jyoti Shinoli
Travel expenses alone for 12 days of dialysis for Archana set the couple back by Rs. 12,000 a month
PHOTO • Jyoti Shinoli

بائیں: ارچنا جب چار گھنٹے تک چلنے والا ڈائلیسس کرانے جاتی ہیں تو گیانیشور کبھی کبھی اسپتال کے باہر چلے جاتے ہیں۔ دائیں: اکیلے ہر مہینے ۱۲ دنوں کے سفر پر اس جوڑے کو ۱۲۰۰۰ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں

جن سواستھیہ ابھیان کے قومی کو-کنوینر، ڈاکٹر ابھے شکلا کہتے ہیں، ’’دیہی علاقوں میں ڈائلیسس کیئر تک رسائی ناکافی ہے۔ پی ایم این ڈی پی کے تحت، یہ مراکز سب ڈسٹرکٹ سطحوں پر قائم کیے جانے چاہئیں، اور ہر ایک میں تین بیڈ کی سہولت فراہم کی جانی چاہیے۔ اس کے علاوہ، سرکار کو مریضوں کے آنے جانے کا خرچ بھی برداشت کرنا چاہیے۔‘‘

جیب سے زیادہ اخراجات کا اثر مریضوں پر دوسری طرح سے بھی پڑ رہا ہے۔ مثال کے طور پر، اس کی وجہ سے وہ اپنی صحیح خوراک پر دھیان نہیں دے پا رہے ہیں۔ ارچنا سے کھانے میں مقوی غذائیں اور کبھی کبھی اس میں پھل کو بھی شامل کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ لیکن، اس جوڑے کے لیے اب تو دن میں ایک وقت کے کھانے کا انتظام کرنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ گیانیشور کہتے ہیں، ’’ہمیں دوپہر یا رات کا کھانا ہمارے مکان مالک دیتے ہیں؛ کبھی کبھی میرا دوست کھانے کے لیے کچھ بھیج دیتا ہے۔‘‘

کسی دن انہیں کچھ بھی کھانے کو نہیں ملتا۔

گیانیشور نے اپنی زندگی میں کبھی کھانا نہیں پکایا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’[دوسروں سے] کھانا کیسے مانگوں؟ اس لیے، میں پکانے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں نے ایک مہینہ کے لیے چاول، گیہوں کا آٹا اور کچھ دال خریدی ہے۔‘‘ جس دن گیانیشور کو کھانا پکانا پڑتا ہے اُس دن ارچنا اپنے بستر پر لیٹی ہوئی انہیں بتاتی رہتی ہیں کہ پکانا کیسے ہے۔

مرض اور طبی نگہداشت تک رسائی حاصل کرنے کے بھاری اخراجات کے دوہرے بوجھ میں مبتلا ارچنا جیسے مریضوں کی حالت یہ بتا رہی ہے کہ لوگوں کو فراہم کی جانے والی حفظان صحت کی خدمات کو فوری طور پر بہتر کرنے اور مریضوں کی جیب سے زیادہ اخراجات کو بڑے پیمانے پر کم کرنے کی ضرورت ہے۔ سال ۲۰۲۱-۲۲ میں، عوام کی صحت پر ہونے والا خرچ ملک کی جی ڈی پی کا ۱ء۲ فیصد تھا۔ سال ۲۰۲۰-۲۱ کے اقتصادی سروے میں بتایا گیا تھا کہ ’’ عوام کی صحت پر ہونے والے خرچ کو جی ڈی پی کے ۱ فیصد سے بڑھا کر ڈھائی سے ۳ فیصد کرنا – جیسا کہ نیشنل ہیلتھ پالیسی ۲۰۱۷ میں بتایا گیا تھا – مجموعی حفظان صحت کے اخراجات کو ۶۵ فیصد او او پی ای سے گھٹا کر ۳۰ فیصد کر سکتا ہے۔‘‘

ارچنا اور گیانیشور کو ان اقتصادی اصطلاحات اور تجاویز کی کوئی سمجھ نہیں ہے۔ وہ تو بس ارچنا کے ڈائلیسس کے لمبے، مہنگے دورہ کے بعد اپنے گھر واپس جانا چاہتے ہیں۔ ارچنا کے ہاتھوں کو نرمی سے پکڑے ہوئے، وہ انہیں اسپتال کے باہر لاتے ہیں اور ایک آٹو رکشہ کو آواز لگاتے ہیں۔ پھر تیزی سے اپنی جیب کو ٹٹولتے ہیں کہ اس میں صبح کے سفر کے بعد بچے ہوئے ۵۵۰ روپے صحیح سلامت رکھے ہوئے ہیں یا نہیں۔

ارچنا پوچھتی ہیں، ’’گھر جانے کے لیے پورے پیسے ہیں نا؟‘‘

’’ہاں…‘‘ گیانیشور جواب دیتے ہیں، حالانکہ ان کی آواز میں ایک طرح کی بے یقینی صاف جھلک رہی ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Jyoti Shinoli

ज्योति शिनोली, पीपल्स आर्काइव ऑफ़ रूरल इंडिया की एक रिपोर्टर हैं; वह पहले ‘मी मराठी’ और ‘महाराष्ट्र1’ जैसे न्यूज़ चैनलों के साथ काम कर चुकी हैं.

की अन्य स्टोरी ज्योति शिनोली
Editor : Sangeeta Menon

संगीता मेनन, मुंबई स्थित लेखक, संपादक और कम्युनिकेशन कंसल्टेंट हैं.

की अन्य स्टोरी Sangeeta Menon
Translator : Qamar Siddique

क़मर सिद्दीक़ी, पीपुल्स आर्काइव ऑफ़ रुरल इंडिया के ट्रांसलेशन्स एडिटर, उर्दू, हैं। वह दिल्ली स्थित एक पत्रकार हैं।

की अन्य स्टोरी Qamar Siddique