ہندوستان کا زرعی بحران زراعت سے آگے نکل چکا ہے۔
یہ معاشرہ کا بحران ہے۔ شاید تہذیبی بحران بھی، اس لیے کہ دنیا بھر کے چھوٹے کسانوں اور مزدوروں کی ایک بڑی آبادی اپنے ذریعہ معاش کو بچانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ زرعی بحران اب صرف زمین کے ہاتھ سے نکل جانے سے ہی متعلق نہیں ہے۔ نہ ہی یہ انسانی زندگی کے زیاں، نوکریوں اور پیداواریت کے کھونے سے متعلق ہے۔ بلکہ یہ خود ہماری انسانیت کا زیاں ہے۔ ہماری انسان نوازی محدود ہوتی جا رہی ہے۔ ہم زمین سے بے دخل کیے جا چکے لوگوں کی تکلیفوں کو آرام سے بیٹھ کر دیکھتے رہے، جس میں وہ ۳ لاکھ سے زیادہ کسان شامل ہیں، جنہوں نے گزشتہ ۲۰ برسوں میں خود کشی کر لی۔ باوجود اس کے – ’سرکردہ ماہرین اقتصادیات‘ – ہمارے آس پاس اتنے وسیع پیمانے پر موجود تکلیفوں کا مذاق اڑاتے رہے، یہاں تک کہ انھوں نے یہ ماننے سے بھی انکار کر دیا کہ کوئی بحران موجود ہے۔
نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو (این سی آر بی) نے اب سے دو سال تک کے کسانوں کی خودکشی کے اعداد و شمار شائع نہیں کیے ہیں۔ اس سے پہلے کے بھی چند برسوں کے اعداد و شمار، جو بڑی ریاستوں نے فرضی طریقے سے جمع کیے تھے اسے اس ایجنسی نے شائع کیا ہے۔ مثال کے طور پر، چھتیس گڑھ اور مغربی بنگال اور بہت سی دیگر ریاستوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے یہاں کسانوں نے ’کوئی خودکشی‘ نہیں کی ہے۔ سال ۲۰۱۴ میں، ۱۲ ریاستوں اور ۶ یونین علاقوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے یہاں ’کسانوں کی کوئی خودکشی نہیں ہوئی‘۔ سال ۲۰۱۴ اور ۲۰۱۵ کی این سی آر بی رپورٹوں میں طریق کار میں بڑی، شرمناک خامیاں تھیں – جس کا مقصد خودکشی کی تعداد کو کم کرکے دکھانا تھا۔
لیکن پھر بھی یہ تعداد لگاتار بڑھ رہی ہے۔
دریں اثنا، کسان اور مزدور بڑے پیمانے پر احتجاج کر رہے ہیں۔ کسانوں کو گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا – جیسا کہ مدھیہ پردیش میں ہوا۔ معاہدوں کو لے کر ان سے مذاق کیا گیا، انھیں دھوکہ دیا گیا، جیسا کہ مہاراشٹر میں ہوا۔ اس کے بعد نوٹ بندی نے انھیں برباد کر دیا، جیسا کہ ہر جگہ ہوا۔ ملک کے ہر کونے میں ان کا غم و غصہ بڑھ رہا ہے۔ اور ایسا صرف کسانوں میں ہی نہیں ہو رہا ہے، بلکہ مزدوروں میں بھی ہو رہا ہے جنہیں منریگا کے تحت روزگار نہیں مل رہا ہے۔ اس کی وجہ سے ماہی گیروں، جنگلوں میں رہنے والی برادریوں، دستکاروں، مظلوم آنگن واڑی کامگاروں میں بھی غم و غصہ پھیل رہا ہے۔ ان لوگوں میں بھی جو اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بھیجتے ہیں، لیکن ریاستیں خود اپنے اسکولوں کو بھی ختم کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ یہ غم و غصہ، کم تر درجے کے سرکاری ملازمین اور ٹرانسپورٹ اور پبلک سیکٹر کے کامگاروں میں بھی ہے جن کی نوکریوں پر خطرہ منڈلا رہا ہے۔
اور دیہی علاقوں کا بحران اب صرف دیہاتوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ مطالعے بتاتے ہیں کہ ۲۰۱۳-۱۴ اور ۲۰۱۵-۱۶ کے درمیان روزگار میں تیزی سے کمی آئی ہے۔
سال ۲۰۱۱ کی مردم شماری نے اس ناامیدی سے متحرک سب سے بڑی ہجرت کی طرف اشارہ کیا جو ہم نے آزاد ہندوستان میں دیکھا ہوگا۔ اور اپنا ذریعہ معاش چھن جانے کی وجہ سے لاکھوں غریب دیگر گاؤوں، دیہی قصبوں، شہری علاقوں، بڑے شہروں کی طرف کوچ کر چکے ہیں – نوکریوں کی تلاش میں جو کہ وہاں نہیں ہے۔ سال ۲۰۱۱ کی مردم شماری میں ۱۹۹۱ کے اعداد و شمار کے مقابلے تقریباً ۱۵ ملین کم کسان (’بنیادی کاشت کار‘) دکھائے گئے ہیں۔ اور اب آپ دیکھ رہے ہیں کہ جو لوگ کبھی اناج پیدا کرنے کا فخریہ کام کیا کرتے تھے، اب وہ گھریلو نوکروں کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ ان غریبوں کا استحصال دیہات اور شہر دونوں جگہوں کے امیروں کے ذریعہ کیا جا رہا ہے۔
سرکار کسی بھی طرح ان کی باتوں کو سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہی حال نیوز میڈیا کا بھی ہے۔
میڈیا اگر کبھی ان مسائل پر توجہ کرتا ہے، تو وہ بھی زیادہ تر ’قرض معافی‘ کے مطالبات تک ہی خود کو محدود کر لیتا ہے۔ حالیہ دنوں میں، انھوں نے کسانوں کے کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کے مطالبہ کو پہچانا ہے – پیداوار کی لاگت (سی او پی ۲) + ۵۰ فیصد۔ لیکن میڈیا سرکار کے ان دعووں کو چیلنج نہیں کر رہا ہے کہ اس نے اس مطالبہ کو پہلے ہی پورا کر دیا ہے۔ نہ ہی وہ اس بات کا تذکرہ کر رہا ہے کہ کسانوں کے قومی کمیشن (ان سی ایف؛ جو سوامی ناتھن کمیشن کے نام پر مشہور ہے) نے اتنے ہی سنگین، دیگر بہت سے مسائل کو اجاگر کیا تھا۔ این سی ایف کی کچھ رپورٹس پارلیمنٹ میں بغیر کسی بحث کے ۱۲ سال سے یونہی پڑی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ قرض معافی کی اپیلوں کی ملامت کرتے ہوئے، میڈیا اس بات کا ذکر نہیں کرے گا کہ بڑی تعداد میں نان پرفارمنگ ایسٹس، جو بینکوں کو ڈبو رہے ہیں، اس کے لیے کارپوریٹ اور تاجر ذمہ دار ہیں۔
شاید اب ایک بہت ہی بڑے، جمہوری احتجاج کا وقت آ گیا ہے، جب پارلیمنٹ سے بھی یہ مطالبہ کیا جائے کہ کسانوں کے اس بحران اور متعلقہ امور کو لے کر ۲۱ دنوں کا ایک خصوصی اجلاس بلایا جائے۔ دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس۔
پارلیمنٹ کا یہ خصوصی اجلاس کن اصولوں پر مبنی ہوگا؟ ہندوستانی آئین پر۔ خصوصی طور سے، اس کے سب سے اہم حصہ، ریاستی پالیسی کے ڈائریکٹو اصولوں پر۔ آئین کا یہ باب ’’آمدنی میں غیر برابری کو کم کرنے‘‘ اور ’’اسٹیٹس، سہولیات، مواقع میں غیر برابری کو ختم کرنے.....‘‘ پر زور دیتا ہے۔ ان اصولوں میں کہا گیا ہے کہ ’’ایک ایسا سماجی نظام بنایا جائے، جس میں انصاف، سماجی، اقتصادی اور سیاسی، تمام اداروں کو قومی زندگی کے بارے میں جانکاری دیں گے۔‘‘
کام کرنے کا حق، تعلیم کا حق، سوشل سیکورٹی کا حق۔ تغذیہ اور عوامی صحت کی سطح کو بڑھانا۔ بہتر معیارِ زندگی کا حق۔ ایک ہی قسم کے کام کے لیے عورتوں اور مردوں کو برابر اُجرت۔ انصاف اور انسانیت پر مبنی کام کے حالات۔ ان اہم اصولوں میں سے یہ چند ہیں۔ سپریم کورٹ ایک سے زائد بار یہ کہہ چکا ہے کہ ڈائریکٹو اصول اتنے ہی اہم ہیں جتنے کہ ہمارے بنیادی حقوق۔
پارلیمنٹ کے اس خصوصی اجلاس کا ایجنڈہ کیا ہوگا؟ چند مشورے جن میں حالات سے وابستہ دیگر لوگ ترمیم و اضافہ کر سکتے ہیں:
۳ دن: سوامی ناتھن کمیشن رپورٹ پر بحث – ۱۲ سال سے یہ ہونا باقی ہے۔ اس نے دسمبر ۲۰۰۴ سے اکتوبر ۲۰۰۶ کے درمیان پانچ رپورٹس جمع کی تھیں، جس میں صرف ایم ایس پی کا ہی ذکر نہیں تھا، بلکہ متعدد مسائل کا احاطہ کیا گیا تھا۔ ان میں سے چند کے نام یوں ہیں: پید آوری، سود مندی، استقامت؛ ٹکنالوجی اور ٹکنالوجی کی خرابی؛ خشک زمین پر کھیتی، قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور استحکام – اور بھی بہت کچھ۔ ہمیں زرعی تحقیق و ٹکنالوجی کو بھی روکنے کی ضرورت ہے۔ اور آنے والی ماحولیاتی تباہی کا سامنا کرنے کی ضرورت ہے۔
۳ دن: لوگوں کی گواہی۔ اس بحران کے شکار لوگوں کو پارلیمنٹ کے سنٹرل ہال سے بولنے کی اجازت دی جائے اور ملک کو بتایا جائے کہ یہ بحران کیا ہے، اور اس نے ان لوگوں اور اسی طرح کے بے شمار لاکھوں لوگوں کو کس طرح متاثر کیا ہے۔ اور یہ صرف کھیتی کے بارے میں نہیں ہے۔ بلکہ اس کو لے کر بھی ہے کہ صحت اور تعلیم کے تیزی سے پرائیویٹائزیشن نے دیہی غریبوں، بلکہ تمام غریبوں کو کیسے برباد کر دیا ہے۔ صحت پر ہونے والا خرچ دیہی فیملی کے قرض کا سب سے تیزی یا دوسرے سب سے تیزی سے بڑھنے والا عنصر ہے۔
۳ دن: پیسے کا بحران۔ قرض بغیر رکے تیزی سے لگاتار بڑھ رہا ہے۔ ہزاروں کسانوں کی خودکشی کے پیچھے یہ سب سے بڑی وجہ رہی ہے، اس کے علاوہ اس نے لاکھوں دیگر لوگوں کو بھی برباد کیا ہے۔ ایسی حالت میں یہ کسان اکثر اپنی زمین کا زیادہ تر حصہ یا تمام حصہ کھو دیتے ہیں۔ ادارہ جاتی کریڈٹ کی پالیسیوں نے ساہوکاروں کی واپسی کے لیے زمین تیار کی ہے۔
۳ دن: ملک کا پانی کا بڑا بحران۔ یہ قحط سے بھی زیادہ بڑا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ حکومت ’معقول قیمت طے کرنے‘ کے نام پر پانی کے پرائیویٹائزیشن پر تُلی ہوئی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پانی پینے کے حق کو بنیادی انسانی حق تسلیم کیا جائے – اور کسی بھی سیکٹر میں زندگی عطا کرنے والے اس وسیلہ کے پرائیویٹائزیشن پر پابندی عائد کی جائے۔ سماجی کنٹرول اور مساوی رسائی، خاص کر بے زمینوں کے لیے یقینی بنائی جائے۔
۳ دن: خواتین کسانوں کے حقوق۔ زرعی بحران کو تب تک حل نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ ان عورتوں کے مسائل کو حل نہ کر لیا جائے جو کھیتوں اور کھلیانوں پر سب سے زیادہ کام کرتی ہیں – اس میں زمین پر ان کا مالکانہ حق بھی شامل ہے۔ پروفیسر سوامی ناتھن نے، راجیہ سبھا میں خواتین کسانوں کی حقداری کا بل ، ۲۰۱۱ متعارف کرایا تھا (جو ۲۰۱۳ میں گِر گیا) جو اس بحث کے لیے شروعاتی نکتہ فراہم کر سکتا ہے۔
۳ دن: بے زمین مزدوروں، عورت و مرد دونوں، کے حقوق۔ مایوسی کی حالت میں چونکہ کئی سمتوں میں بڑی تیزی سے مہاجرت ہو رہی ہے، اس لیے یہ بحران اب صرف دیہاتوں تک محدود نہیں ہے۔ یہ جہاں پر بھی ہے، وہاں پر زراعت میں کی گئی کوئی بھی عوامی سرمایہ کاری ان کی ضروریات، ان کے حقوق، ان کے پس منظر کا خیال رکھے۔
۳ دن: زراعت پر بحث۔ ہم آج سے اگلے ۲۰ سالوں کے لیے کس قسم کی کاشت کاری چاہتے ہیں؟ کاپوریٹ کے منافع والی؟ یا پھر ان برادریوں اور کنبوں کے ذریعہ جن کے لیے یہ ان کی زندگی کی بنیاد ہے؟ زراعت میں ملکیت اور کنٹرول کی دیگر شکلیں بھی ہیں، جن کے لیے ہمیں دباؤ بنانے کی ضرورت ہے – مثال کے طور پر سنگھ کرشی (مشترکہ کاشت کاری) جو کیرالہ کی کڈومبا شری تحریک کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اور ہمیں زمین کی اصلاح کے نامکمل ایجنڈہ کو بھی تازہ کرنا ہے۔ درج بالا تمام بحثوں کے بامعنی ہونے کے لیے – اور یہ نہایت ضروری ہے – ان میں سے ہر ایک میں آدیواسی اور دلت کسانوں اور مزدوروں کے حقوق پر بھی توجہ ڈالی جانی چاہیے۔
ظاہر ہے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی کھل کر اس کی مخالفت نہیں کرے گی، لیکن اسے عملی جامہ کون پہنائے گا؟ اس کو خود محروم کسان یقینی بنائیں گے۔
اس سال مارچ میں، ۴۰ ہزار کسانوں اور مزدوروں نے ان میں سے کچھ مطالبات کو لے کر ناسک سے ممبئی تک ایک فتہ تک مارچ کیا ۔ ممبئی کی گھمنڈی سرکار نے یہ کہتے ہوئے اسے خارج کر دیا کہ مارچ نکالنے والے ’شہری ماؤنواز‘ ہیں، جن سے وہ بات نہیں کرے گی۔ لیکن چند گھنٹوں کے اندر جیسے ہی یہ بڑا مجمع ریاستی قانون ساز اسمبلی کا محاصرہ کرنے کے لیے ممبئی میں داخل ہوا، سرکار کے ہوش ٹھکانے آ گئے۔ یہ گاؤں کے غریب تھے، جو اپنی سرکار کو ٹھیک کر رہے تھے۔
مارچ نکالنے والے نہایت ہی مہذب لوگوں نے ممبئی میں ایک انوکھا رشتہ قائم کیا۔ نہ صرف شہر میں کام کرنے والا طبقہ ان کی حمایت میں گھروں سے باہر نکلا، بلکہ متوسط طبقہ بھی ان کی مدد کے لیے آگے بڑھا، جن میں کچھ لوگ اپر مڈل کلاس کے بھی تھے۔
ہمیں یہ کام قومی سطح پر کرنے کی ضرورت ہے – جس کا حجم ۲۵ گنا سے بھی زیادہ ہو۔ بے دخل لوگوں کا ایک لمبا مارچ – صرف کسانوں اور مزدوروں کا نہیں، بلکہ ان تمام لوگوں کا جو اس بحران سے تباہ ہو چکے ہیں۔ اور سب سے ضروری، ان لوگوں کا جو اس سے متاثر تو نہیں ہوئے – لیکن اپنے جیسے انسانوں کی تکلیفوں کو دیکھ کر ان کے اندر ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوا ہے۔ جو لوگ انصاف اور جمہوریت کے لیے کھڑے ہیں۔ ایک ایسا مارچ جو ملک کے ہر کونے سے شروع ہو، اور راجدھانی میں آکر اکٹھا ہو جائے۔ کوئی لال قلعہ کی ریلی نہیں، جنتر منتر پر کوئی کھوپڑی نہیں۔ یہ مارچ پارلیمنٹ کو گھیرے – اسے کہنے، سننے اور عمل کرنے کے لیے مجبور کر دے۔ جی ہاں، وہ دہلی پر قبضہ کریں گے۔
زمین سے شروعات کرنے میں ہو سکتا ہے کہ مہینوں لگ جائیں، یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اس چیلنج کو کسانوں، مزدوروں اور دیگر لوگوں کی تنظیموں کے ایک وسیع و عریض اتحاد سے پورا کیا جا سکتا ہے۔ اسے حکمرانوں – اور ان کے میڈیا – کے زبردست عتاب کا سامنا کرنا پڑے گا، جو اسے ہر موڑ پر دبانے کی کوشش کریں گے۔
لیکن یہ کیا جا سکتا ہے۔ غریبوں کو کمزور مت سمجھئے - چاپلوسی کرنے والا طبقہ نہیں، بلکہ یہی لوگ ہیں جو جمہوریت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
یہ جمہوری احتجاج کی سب سے بڑی شکل ہوگی – جس میں دس لاکھ یا اس سے زیادہ لوگ اپنے نمائندوں کو کام کرنے پر مجبور کر رہے ہوں گے۔ اگر بھگت سنگھ آج زندہ ہوتے، تو ان کے بارے میں کہہ سکتے تھے: وہ بہروں کو سننے لائق، اندھوں کو دیکھنے لائق اور گونگوں کو بولنے لائق بنا سکتے ہیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)