ہر صبح پوری شیخ فیملی کام پر نکل پڑتی ہے۔ فاطمہ وسطی سرینگر کے بٹہ مالو علاقے کی جھگی جھونپڑی کالونی میں واقع اپنے گھر سے روزانہ صبح ۹ بجے نکلتی ہیں اور شام کے ۵ بجے تک شہر میں تقریباً ۲۰ کلومیٹر کا چکر لگاتے ہوئے پھینکی ہوئی بوتلیں اور گتّے اکٹھا کرتی ہیں۔ ان کے شوہر محمد قربان شیخ کبھی کبھی چلتے چلتے اور آگے بڑھ جاتے ہیں اور کوڑا اٹھاتے ہوئے شہر کی سرحد کے پار ۳۰ کلومیٹر کے دائرہ میں واقع قصبوں اور گاؤوں تک چلے جاتے ہیں۔ فاطمہ کی ہی طرح وہ بھی اس کے لیے تین پہیہ والے ٹھیلے کا استعمال کرتے ہیں، جس میں پیچھے کی طرف ٹیمپو جیسا نظر آنے والا عارضی کنٹینر بنا ہوتا ہے۔ ۱۷ سے ۲۱ سال تک کی عمر کے ان کے دونوں بیٹے اور بیٹی بھی سرینگر میں کوڑا چننے کا کام کرتے ہیں۔
پانچوں لوگ مل کر سرینگر کے گھروں، ہوٹلوں، تعمیراتی مقامات، سبزی منڈیوں، اور کئی دیگر جگہوں سے روزانہ نکلنے والے کل ۴۵۰-۵۰۰ ٹن کچرے کے ایک چھوٹے حصے کی صفائی کرتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار سرینگر میونسپل کارپوریشن کے ذریعے فراہم کی گئی ہیں۔
شیخ فیملی کے ساتھ ساتھ کوڑا اٹھانے والے دوسرے لوگوں کو میونسپل کارپوریشن کے ویسٹ مینجمنٹ پراسس سے پوری طرح جوڑا نہیں گیا ہے۔ میونسپل کمشنر اطہر عام خان کے مطابق، تقریباً ۴۰۰۰ لوگوں کو شہر کا ٹھوس کچرا اکٹھا کرنے اور اسے ایک جگہ جمع کرنے کے لیے، صفائی ملازم کے طور پر مستقل یا ٹھیکہ پر نوکری پر رکھا گیا ہے۔ سرینگر میونسپل کارپوریشن کے چیف سینٹیشن آفیسر نذیر احمد کہتے ہیں، ’’حالانکہ، کباڑ والے ہمارے کافی کام آتے ہیں۔ وہ پلاسٹک کچرے کو لے لیتے ہیں، جو ۱۰۰ سالوں میں بھی ضائع نہیں ہو سکتے۔‘‘
کباڑ والے نہ صرف ’ذاتی طور پر با روزگار‘ ہیں، بلکہ وہ کسی طرح ذاتی تحفظ کے انتظام کے بغیر انتہائی خطرناک حالات میں کام کرتے ہیں اور کووڈ۔۱۹ وبائی مرض کے بعد تو ان کے سر پر ایک اور تلوار لٹک گئی ہے۔ ۴۰ سالہ فاطمہ کہتی ہیں، ’’میں نے اللہ کا نام لیکر دوبارہ کام کرنا شروع کیا (جنوری ۲۰۲۱ میں لاک ڈاؤن میں تھوڑی ڈھیل دیے جانے کے بعد)۔ میں نیک ارادوں کے ساتھ اپنی فیملی کا پیٹ بھرنے کے لیے کام کرتی ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میں وبائی مرض سے متاثر ہونے سے محفوظ رہوں گی۔‘‘
ٹھیک اسی طرح کے خوف کے سایہ میں ۳۵ سالہ محمد کبیر بھی کام کرتے ہیں، کیوں کہ انہیں بھی اوپر والے پر کچھ ویسا ہی یقین ہے۔ وہ وسطی سرینگر کے صورہ علاقے میں واقع ایک جھگی جھونپڑی کالونی میں رہتے ہیں اور ۲۰۰۲ سے کوڑا بیننے کا کام کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’اگر میں بھی متاثر ہوگیا، تو مجھے سب سے زیادہ فیملی کے متاثر ہو جانے کا ڈر رہے گا۔ لیکن میں انہیں بھوک کی وجہ سے تڑپ کر مرنے نہیں دے سکتا، اس لیے میں اپنا کام کرنے کے لیے گھر سے نکل پڑتا ہوں۔ جب کورونا کی بیماری پھیلنے لگی تھی، میں نے اپنے ٹھیکہ دار سے ۵۰ ہزار روپے کا قرض لیا تھا۔ اب مجھے قرض ادا کرنا ہے، اس لیے خطرے کا احساس ہوتے ہوئے بھی میں کام کے لیے نکل پڑا۔‘‘ کبیر کی ۶ رکنی فیملی کا پیٹ بھرنے کے لیے ان کی کمائی ہی واحد ذریعہ ہے۔ ان کی فیملی میں ان کی بیوی اور دو بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں، جن کی عمر ۲ سال سے ۱۸ سال کے درمیان ہے۔
وہ اور دوسرے صفائی ملازمین کئی دیگر خطروں کا بھی سامنا کرتے ہیں۔ شمالی سرینگر کے ایچ ایم ٹی علاقے میں رہنے والے ۴۵ سالہ ایمان علی بتاتے ہیں، ’’ہمیں تو اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ کوڑے میں کیا ہے، اس وجہ سے کئی بار بلیڈ سے ہاتھ کٹ جاتا ہے، تو کبھی استعمال کیے گئے انجیکشن کی سوئی چبھ جاتی ہے۔‘‘ اس قسم کے زخموں سے تحفظ کے لیے بالکل عارضی قدم اٹھاتے ہوئے، وہ ہر مہینے کسی سرکاری اسپتال یا کلینک پر ٹٹنس کی سوئی لگواتے ہیں۔
ہر دن تقریباً ۵۰-۸۰ کلو تک کوڑا بیننے کے بعد صفائی ملازمین اپنی اپنی جھونپڑی کے پاس کھلی جگہ پر، اکٹھا کیے گئے کوڑے سے الگ الگ قسم کی چیزوں کو نکال کر ایک ساتھ رکھتے ہیں۔ اس کے بعد وہ پلاسٹک، گتاّ، المونیم، ٹن اور دیگر دوسرے میٹیریل کو پلاسٹک کی بڑی بڑی بوریوں میں بھر کر رکھتے ہیں۔ محمد قربان شیخ بتاتے ہیں، ’’اگر یہ کچھ ٹن ہوتا ہے، تو کباڑ کے ڈیلر اپنا ٹرک بھیج دیتے ہیں۔ لیکن عام طور پر ہم ان کو اکٹھا کرکے اس طرح رکھتے نہیں ہیں۔ ہم نے جو کباڑ جمع کیا ہوا ہوتا ہے اسے ہم فروخت کر دیتے ہیں اور اس کے لیے ہمیں ۴-۵ کلومیٹر دور ڈیلروں کے پاس جانا پڑتا ہے۔‘‘ ڈیلر، پلاسٹک کے لیے ۸ روپے فی کلو کے حساب سے پیسے دیتے ہیں اور گتّے کے لیے فی کلو ۵ روپے۔
کوڑا بین کر گزر بسر کرنے والے شیخ عام طور پر مہینے میں ۱۵-۲۰ دن کام کرتے ہیں اور بقیہ دن جمع کیے ہوئے کوڑے کو اس کی قسم کے حساب سے الگ کرتے ہیں۔ کباڑ فروخت کرنے سے، ان کی ۵ رکنی فیملی کی ہر مہینے مجموعی طور پر ۲۰ ہزار روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔ فاطمہ کہتی ہیں، ’’اسی پیسے سے ہمیں ۵ ہزار روپے ہر مہینے گھر کا کرایہ دینا ہوتا ہے، کھانے کا انتظام کرنا ہوتا ہے، ٹھیلے کے رکھ رکھاؤ کے لیے خرچ کرنا ہوتا ہے اور دیگر دوسری بنیادی ضروریات کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ سیدھے سیدھے کہیں تو، جو ہم کماتے ہیں اسی سے ہمارا پیٹ بھرتا ہے۔ ہمارا کام اُس طرح کا نہیں ہے کہ پیسے کی بچت ہو جائے۔‘‘
ان کی فیملی کے ساتھ ساتھ، کوڑا بیننے والے دیگر لوگ بھی عام طور پر فروخت کے لیے پہلے سے ہی کسی خاص کباڑ ڈیلر سے بات طے کرکے رکھتے ہیں۔ شہر کے شمال میں واقع بمنہ کے کباڑ ڈیلر ریاض احمد کے اندازہ کے مطابق، سرینگر کے الگ الگ حصوں میں تقریباً ۵۰-۶۰ کباڑ ڈیلر ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’وہ (کوڑا بیننے یا کباڑ اکٹھا کرنے والے) ہمارے کباڑ خانہ میں روزانہ تقریباً ایک ٹن پلاسٹک اور ڈیڑھ ٹن گتّا لیکر آتے ہیں۔‘‘
کبھی کبھی ایمان حسین جیسے بچولیے بھی اس کام میں مصروف مل جاتے ہیں۔ ۳۸ سالہ ایمان حسین شمالی سرینگر کے ایچ ایم ٹی علاقے میں واقع اپنی جھگی جھونپڑی کالونی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’میں کوڑا بیننے والوں اور کباڑ ڈیلروں کے درمیان بچولیے کا کام کرتا ہوں۔ مجھے کوڑا بیننے والوں سے جمع کیے گئے پلاسٹک کے معیار کے حساب سے، فی کلو ۵۰ پیسے سے ۲ روپے تک کا کمیشن ملتا ہے۔ مہینے میں عام طور پر میری کمائی ۸ ہزار سے ۱۰ ہزار روپے تک ہو جاتی ہے۔‘‘
جس قسم کے کوڑے کی ری سائیکلنگ نہیں ہو پاتی ہے، اسے وسطی سرینگر کے سید پورہ علاقے کے اچن صورہ ڈمپنگ گراؤنڈ میں پھینک دیا جاتا ہے۔ یہاں کی ۶۵ ایکڑ کی زمین کو ۱۹۸۶ سے میونسپل کارپوریشن کے ذریعے ڈمپنگ گراؤنڈ کے طور پر استعمال میں لایا جانے لگا، سرینگر میں ٹھوس کچرے بڑھنے کے ساتھ ساتھ جس کی توسیع دھیرے دھیرے ۱۷۵ ایکڑ کے رقبہ تک ہو گئی۔
میونسپل کارپوریشن سے غیر روایتی طور پر منسلک ڈمپنگ گراؤنڈ میں کباڑ اکٹھا کرنے والے تقریباً ۱۲۰ لوگوں کو پلاسٹک جمع کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے؛ اور یہ بتاتے ہوئے چیف سینٹیشن آفیسر نذیر احمد کہتے ہیں کہ ’وہ ہر دن تقریباً ۱۰ ٹن پلاسٹک جمع کرتے ہیں۔‘
ایک طرف بڑھتی شہرکاری کے ساتھ ساتھ، پلاسٹک کے کچرے اور دیگر دوسری قسم کے فضلوں میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے، تو دوسری طرف کشمیر میں بار بار تمام طرح کی سرگرمیوں پر لگی پابندی اور لاک ڈاؤن لگائے جانے کی وجہ سے کچرا اکٹھا کرنے والوں کو کباڑ ڈیلروں سے قرض لینے پر مجبور ہونا پڑا ہے یا پھر ان مہینوں میں کھانے پینے کے لیے وہ مقامی مسجدوں پر منحصر رہے ہیں۔
اس قسم کی مشکلوں کے علاوہ ایک اور مسئلہ ہے، جو ان کی پریشانی کا سبب ہے: ایمان حسین کہتے ہیں، ’’ہمارے کام کی وجہ سے لوگوں کی نظر میں ہماری کوئی عزت نہیں ہے۔ کچھ ہم پر چوری کا الزام لگاتے ہیں، جب کہ ہم نے کبھی چوری نہیں کی۔ ہم صرف لوگوں کے ذریعے پھینک دیے گئے پلاسٹک اور کارڈ بورڈ جمع کرتے ہیں۔ لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ ہم اپنا کام بے حد ایمانداری کے ساتھ کرتے ہیں۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز