ریڈیو پر کرناٹک موسیقی کی آوازیں مایلاپور کی ایک چھوٹی سی گلی میں نیلے رنگ کے ایک تنگ کمرے میں گونج رہی ہیں۔ ہندو دیوی- دیوتاؤں کی تصویریں دیواروں پر آویزاں ہیں، اور کٹہل کی لکڑی اور چمڑے کے ٹکڑے فرش پر بکھرے پڑے ہیں۔ ہتھوڑوں، کیلوں، ٹیوننگ کے لیے لکڑی کی کھونٹی اور پالش کرنے کے لیے ارنڈی کے تیل کے درمیان بیٹھے جیسوداس اینتھنی اور ان کے بیٹے ایڈوِن جیسوداس اس کمرے میں کام کر رہے ہیں۔ وسط چنئی کے اس پرانے رہائشی علاقے میں، کمرے کے باہر مندر کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔
یہ دونوں استاد کاریگر مردنگم بناتے ہیں، یہ ایک ڈھول ہے جو کرناٹک (جنوبی ہندوستانی کلاسیکی) موسیقی میں سنگت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ’’میرے پردادا نے تنجاوور میں مردنگ بنانا شروع کیا تھا،‘‘ چنئی سے ۳۵۰ کلومیٹر دور، پرانے شہر کا ذکر کرتے ہوئے ایڈوِن کہتے ہیں۔ ان کے والد اوپر دیکھتے ہیں اور مسکرانے لگتے ہیں، پھر دو دائرہ کار چمڑے کے ٹکڑے کے کناروں کے چاروں طرف سوراخ کرنا جاری رکھتے ہیں۔ اس کے بعد وہ دونوں ٹکڑوں کو پھیلاتے ہیں اور انھیں چمڑے کی پتلی پٹیوں سے ایک کھوکھلے فریم کے کھلے کنارے پر باندھ دیتے ہیں۔ آلہ موسیقی کی ’باڈی‘ یا ریزونیٹر کے باہر ایک سرے سے دوسرے سرے تک موٹے چمڑے کی پٹیاں کھینچی اور موڑی بھی جاتی ہیں۔ مردنگ بنانے کا پورا عمل (وہ ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ پر کام کرتے ہیں) میں تقریباً سات دن لگتے ہیں۔
یہ فیملی تقریباً ۵۲۰ کلومیٹر دور، کاموتھی شہر کے بڑھئی سے فریم خریدتی ہے؛ یہ کٹہل کی سوکھی لکڑی سے بنایا گیا ہے، جس کی ریشہ داری اور چھوٹے سوراخ یہ یقینی بناتے ہیں کہ آلہ کی پِچ موسم کی تبدیلی سے بھی نہ بدلے۔ گائے کا چمڑا ویلور ضلع کے انبور شہر سے خریدا گیا ہے۔
ہم جب ایڈوِن سے ملے، تو وہ تنجاوور ضلع میں کاویری ندی کے کنارے سے لائے گئے پتھر کو کوٹ رہے تھے۔ کوٹا گیا پتھر، پسے ہوئے چاول اور پانی کے ساتھ ملا کر کَپّی مردنگم کے دونوں سروں پر چمڑے پر لگایا جاتا ہے۔ یہ طبلہ جیسی آواز پیدا کرتا ہے اور ایڈوِن کی فیملی چنئی کی کرناٹک سنگیت منڈلیوں میں کَپّی کے فن میں مہارت کے لیے مشہور ہے۔ (کُچی مردنگم میں زیادہ لمبی آواز پیدا کرنے کے لیے اس کے دائیں سرے کے پاس بانس کی چھوٹی چھوٹی پٹّیوں کے ساتھ لکڑی کا ایک موٹا فریم ہوتا ہے۔)
آلہ کا دایاں سرا، کرنئی، مختلف قسم کے چمڑے کی تین پرتوں سے بنا ہوتا ہے – باہری دائرہ، اندرونی دائرہ اور ایک حصہ جس کے بیچ میں کالا دائرہ ہوتا ہے۔ بایاں سرا، جسے تھوپّی کہا جاتا ہے، ہمیشہ دائیں سرے سے آدھا اِنچ بڑا ہوتا ہے۔
چونسٹھ سالہ جیسوداس اور ۳۱ سالہ ایڈوِن، دسمبر- جنوری میں سالانہ مارگاژی میوزک فیسٹول کے دوران ہر ہفتے ۳ سے ۷ مردنگ بناتے ہیں، اور سال کے باقی دنوں میں دیگر آلات کی مرمت کے علاوہ، تقریباً ۳ سے ۴ ہر ہفتے بناتے ہیں۔ ہر ایک مردنگم سے وہ ۷۰۰۰ روپے سے ۱۰ ہزار روپے کے درمیان کماتے ہیں۔ دونوں ہفتے میں سات دن کام کرتے ہیں – جیسوداس صبح ۹ بجے سے رات ۸ بجے تک اور ایڈوِن کام سے لوٹنے کے بعد شام کو (وہ چاہتے ہیں کہ ہم ان کی نوکری کی کسی بھی تفصیل کا ذکر نہ کریں)۔ فیملی کا ورکشاپ ان کے گھر سے ۱۵ منٹ کی پیدل دوری پر ہے۔
’’ہم اس وراثت کو جاری رکھے ہوئے ہیں، حالانکہ ہم دلت عیسائی ہیں،‘‘ ایڈون کہتے ہیں۔ ان کے دادا، اینٹونی سیباسٹین، جو کہ ایک مشہور مردنگ کاریگر تھے، کو کرناٹک موسیقاروں کے ذریعے ان کے کام کے لیے پذیرائی کی گئی، لیکن ایک آدمی کے طور پر انھیں عزت نہیں دی گئی، ایڈون یاد کرتے ہیں۔ ’’میرے دادا مردنگم بناتے اور بیچتے تھے، لیکن جب وہ آلہ موسیقی پہنچانے کے لیے صارفین کے گھر جاتے، تو وہ انھیں چھونے سے منع کر دیتے اور پیسے فرش پر رکھ دیتے تھے۔‘‘ ایڈون کو لگتا ہے کہ ذات کا مسئلہ ’’اتنا برا نہیں ہے جتنا یہ ۵۰ سال پہلے ہوا کرتا تھا،‘‘ لیکن زیادہ تفصیل میں جائے بغیر کہتے ہیں کہ یہ تفریق آج بھی جاری ہے۔
جب وہ اپنے والد کے ساتھ مل کر بنائے گئے ایک مردنگم کو بجاتے ہیں، تو آواز کے بارے میں ان کی گہری سمجھ واضح طور پر نظر آتی ہے۔ لیکن، ایڈون کہتے ہیں کہ انھیں اپنی ذات اور مذہب کی وجہ سے آلہ موسیقی کو بجانے کی ٹریننگ سے محروم رکھا گیا۔ ’’استاد مجھ سے کہا کرتے تھے کہ میرے اندر موسیقی کی سمجھ ہے۔ انھوں نے کہا کہ میرے ہاتھ بجانے لائق ہیں۔ لیکن جب میں نے انھیں سکھانے کے لیے کہا، تو انھوں نے منع کر دیا۔ کچھ سماجی رکاوٹیں ابھی بھی موجود ہیں...‘‘
ایڈون کی فیملی عزت دار کرناٹک موسیقاروں کی عام طور سے ہندو اونچی ذات کے صارفین کے ساتھ کام کرتی ہے اور یہ ان کے ورکشاپ کی دیواروں پر عیاں ہے، جو ہندو دیوی- دیوتاؤں کی تصویروں سے سجے ہیں، حالانکہ مردنگم کاریگر لُز چرچ آف اَور لیڈی آف لائٹ ، مایلاپور کے رکن ہیں۔ ’’مجھے معلوم ہے کہ میرے دادا اور ان کے والد عیسائی تھے۔ ان سے پہلے، فیملی ہندو تھی،‘‘ ایڈون کہتے ہیں۔
استادوں کے ذریعے مردنگم بجانے کی ٹریننگ دینے سے انکار کرنے کے باوجود، انھیں امید ہے کہ مستقبل الگ ہوگا۔ ’’ہوسکتا ہے کہ میں آلہ نہ بجا پاؤں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’لیکن جب میرے بچے ہوں گے، تو میں یقینی بناؤں گا کہ وہ ایسا کریں۔‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)