پارس ماڈیکر نے لاتور شہر میں اپنے اسکول کے بند ہونے پر ویسا ہی ردِ عمل ظاہر کیا تھا جیسا کہ ۱۱ سال کے کچھ بچے کر سکتے ہیں۔ وہ خوش تھا کہ اس کا چوتھی کلاس کا امتحان ردّ کر دیا گیا ہے اور امید کر رہا تھا کہ اس چھٹی کو مزید آگے بڑھا دیا جائے گا۔
لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کے والد، ۴۵ سالہ سری کانت کی ڈرائیور کی نوکری چلی گئی تھی اور انہیں مجبوری میں واحد ایسی نوکری کرنی پڑی، جسے وہ حاصل کر سکتے تھے – وہ بھی اپنی پچھلی آمدنی سے دو تہائی سے بھی کم مزدوری پر۔ ۲۵ مارچ کو لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد، اس کی ماں، ۳۵ سالہ سریتا کی بھی باورچی کے طور پر نوکری چلی گئی تھی۔
پارس دن کا شروعاتی حصہ، اپنے سر پر پتّے دار سبزیاں رکھ کر بیچنے میں گزارتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جن دو علاقوں میں یہ غریب طالب علم سبزیاں بیچتا ہے، انہیں سرسوتی اور لکشمی کالونی (علم اور دولت کی دیوی کے نام پر) کہا جاتا ہے۔ اس کی ۱۲ سال کی بہن، سرشٹی، رام نگر اور سیتا رام نگر کالونیوں میں جاکر سبزیاں بیچتی ہے۔
’’میں آپ کو بتا نہیں سکتا کہ ہر شام میری گردن میں کتنا سخت درد ہوتا ہے! گھر پہنچنے پر میری ماں گرم کپڑے کے ساتھ میری تیل مالش کرتی ہے، تاکہ اگلی صبح میں پھر سے بوجھ اٹھاکر لے جا سکوں،‘‘ چھوٹا پارس بتاتا ہے۔ سرشٹی کا مسئلہ الگ ہے: ’’دوپہر کے آس پاس میرے پیٹ میں بری طرح سے درد ہونے لگتا ہے،‘‘ وہ کہتی ہے۔ ’’دوپہر کا کھانا کھانے سے پہلے میں لیموں پانی پیتی ہوں – اس سے مجھے تھوڑی راحت ملتی ہے۔‘‘ لاک ڈاؤن سے پہلے دونوں بچوں میں سے کسی نے بھی کبھی جسمانی محنت نہیں کی تھی۔ اب وہ سب سے خراب حالات میں، ایک وقت کی روٹی کمانے کے لیے باہر گلیوں میں گھوم رہے ہیں۔
پارس اور سرشٹی ۲ اپریل سے ہی، صبح ۸ بجے سے ۱۱ بجے کے درمیان لاتور میں اپنے اپنے راستوں پر سبزیاں بیچ رہے ہیں۔ اس دوران، ان میں سے ہر ایک ۴-۵ کلوگرام وزن کے ساتھ تین کلومیٹر کی دوری طے کرتا ہے۔ سرشٹی کو زیادہ مشکل پیش آتی ہے، کیوں کہ اس کے پاس تقریباً ایک کلو کا تراز اور ۵۰۰ گرام کا ایک بٹّہ بھی ہوتا ہے، جو اس کے وزن کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ پارس کے پاس سبزیوں کا الگ الگ گٹھر ہوتا ہے، جسے اس کی ماں باندھ کر دیتی ہیں، اور ہر گٹھر کی قیمت پہلے سے ہی طے ہوتی ہے۔ وہ دن کے جس وقت یہ کام کرتے ہیں، اس میں لاتور کا اوسط درجہ حرارت تقریباً ۲۷ ڈگری سیلسیس سے بڑھ کر ۳۰ ڈگری ہو جاتا ہے۔
وہ سبزیاں اور دیگر اجناس کہاں سے حاصل کرتے ہیں؟ ہاں، سرشٹی کا کام ان کے صبح ۸ بجے کے کام سے پہلے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ ’’ہر صبح ۶ بجے، میں گولائی جاتی ہوں (ان کے گھر سے پانچ کلومیٹر دور، لاتور کی بنیادی سبزی منڈی)۔‘‘ وہ اپنے والد یا ۲۳ سالہ اپنے پڑوسی گووند چوہان کے ساتھ جاتی ہیں، جو ریاستی پولس کے امتحان کی تیاری کر رہے ہیں۔ گولائی تک آنے جانے کے لیے وہ گووند کا اسکوٹر استعمال کرتے ہیں (جس کے بدلے وہ ان سے ایک پیسہ بھی نہیں لیتے، پٹرول کے بھی نہیں)۔ وہ جب اجناس کے ساتھ لوٹتے ہیں، تو ان کی ماں ان کے لیے ٹوکریاں یا دیگر برتن پیک کرتی ہیں۔
’’ہمیں یہ چُننے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے کہ کیا بیچنا ہے۔ ہمارے والد یا گووند بھیا جس چیز کا بھی انتظام کر دیتے ہیں، ہم وہی بیچتے ہیں،‘‘ پارس بتاتا ہے۔ ’’ہم [روزانہ] ۳۵۰-۴۰۰ روپے کے اجناس جوٹ کے بورے میں بھرکر لاتے ہیں،‘‘ سرشٹی بتاتی ہے۔ ’’لیکن ہماری کمائی [کل ملاکر] ۱۰۰ روپے سے بھی کم ہو پاتی ہے۔‘‘
ان کے والد، سری کانت، ایک ڈرائیور کے طور پر روزانہ ۷۰۰-۸۰۰ روپے کما لیتے تھے – اور انہیں ہر ماہ کم از کم ۲۰ دن کام مل جاتا تھا۔ ڈیوٹی پر ہونے کے دوران، ان کے کھانے کا بھی خیال رکھا جاتا تھا۔ لیکن، لاک ڈاؤن کی وجہ سے سب کچھ ختم ہو گیا۔ سری کانت اب پرانے اوسا روڈ پر واقع لکشمی کالونی میں چوکیدار کا کام کرتے ہیں، یہ وہی جگہ ہے جہاں پارس سبزیاں بیچتا ہے۔ اس نوکری سے سری کانت کو ماہانہ صرف ۵۰۰۰ روپے ملتے ہیں – جو کہ ڈرائیور کے طور پر ان کی آمدنی سے تقریباً ۷۰ فیصد کم ہے۔
فیملی کو سری کانت کے نئے کام کی جگہ کے پاس ہی ایک گھر بھی ڈھونڈنا پڑا – اور لاک ڈاؤن کے شروعاتی دنوں میں وہ یہاں آ گئے تھے۔ لیکن یہاں کا ماہانہ کرایہ ۲۵۰۰ روپے ہے – یعنی ان کی ماہانہ آمدنی کا ۵۰ فیصد – جب کہ پہلے والی جگہ پر وہ ۲۰۰۰ روپے کرایہ دیتے تھے۔
لاک ڈاؤن سے پہلے، نہ تو سرشٹی نے اور نہ ہی پارس نے کبھی سوچا تھا کہ انہیں اتنی محنت کرنی پڑے گی۔ دونوں محنتی طالب علم رہے ہیں
لاک ڈاؤن سے پہلے، ان کی ماں سریتا مقامی سائیں میس میں باورچی کے طور پر کام کرتی تھیں اور ہر ماہ ۵۰۰۰ روپے کما کر گھر لاتی تھیں۔ ’’میری ماں صبح ۹ بجے سے دوپہر کے ۳ بجے تک اور پھر شام ۵ بجے سے رات کے ۱۱ بجے تک وہاں کام کرتی تھیں۔ صبح میں گھر سے روانہ ہونے سے قبل وہ ہمارے لیے کھانا بنا دیا کرتی تھیں،‘‘ سرشٹی بتاتی ہے۔ اب سریتا کی کوئی کمائی نہیں ہے اور وہ پارس اور سرشٹی کے (بیچنے کے لیے) لے جانے کے لیے پیداوار کی تقسیم کا انتظام کرتے ہوئے گھر بھی چلا رہی ہیں۔
لاک ڈاؤن سے پہلے دونوں ہی بچوں میں سے کسی نے بھی کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ انہیں اتنی محنت کرنی ہوگی۔ دونوں محنتی طالب علم رہے ہیں۔ پارس نے چوتھی جماعت میں اپنے پہلے ٹرم میں ۹۵ فیصد اور سرشٹی نے ۵ویں جماعت میں ۸۴ فیصد نمبرات حاصل کیے۔ ’’میں ایک آئی اے ایس افسر بننا چاہتا ہوں،‘‘ پارس کہتا ہے۔ ’’میں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں،‘‘ سرشٹی کہتی ہے۔ ان کے اسکول نے – چھترپتی شیواجی پرائمری اسکول، ایک سرکاری امداد یافتہ پرائیویٹ ادارہ – دونوں کی فیس معاف کر دی ہے۔
میں جب پارس اور سرشٹی سے بات کر رہی تھی، اس وقت دور درشن آرکائیو کچھ پرانے گانے بجا رہا تھا، ’لوگوں کے لیے کوارنٹائن کے دن کو پرسکون بنانے کے لیے‘۔ جس گیت نے میری توجہ مبذول کی، وہ ۱۹۵۴ کی ہندی فلم، بوٹ پالش کا ایک گانا تھا:
’’او ننہے منے بچے
تیری مٹھی میں کیا ہے
مٹھی میں ہے تقدیر ہماری،
ہم نے قسمت کو بس میں کیا ہے۔‘‘
کاش، سرشٹی اور پارس کے لیے ایسا ہو سکتا!
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)