دو ہفتے تک ہوئی موسلا دھار بارش، عثمان آباد ضلع کے کھیتوں میں کی گئی چار مہینوں کی محنت پر پانی پھیرنے کے لیے کافی تھی۔ اکتوبر کے مہینے میں بادلوں کی گڑگڑاہٹ کے ساتھ طوفانی بارش ہوئی تھی اور تیز آندھی کی وجہ سے گھروں کی چھتیں اڑ گئیں، جانوروں کو نقصان پہنچا اور میلوں تک کی فصل تباہ ہو گئی تھی۔
مہاراشٹر کے عثمان آباد ضلع میں واقع مہا لنگی گاؤں کی رہنے والی کسان شاردا اور پانڈورنگ گنڈ کی کھیتی بھی اس وقت کی خطرناک بارش میں تباہ ہو گئی تھی۔ ۴۵ سالہ شاردا کہتی ہیں، ’’ہمیں تقریباً ۵۰ کوئنٹل سویابین کا نقصان ہوا، جس کی کھیتی ہم نے کی تھی۔ ہمارے کھیتوں میں گھٹنوں تک پانی بھرا ہوا تھا۔ اس نے سب کچھ تباہ کر دیا۔‘‘
ہندوستانی محکمہ موسمیات کے اعداد و شمار کے مطابق، اکتوبر ۲۰۲۰ میں عثمان آباد ضلع میں ۲۳۰ اعشاریہ ۴ ملی میٹر بارش ہوئی تھی۔ ضلع کے اس مہینہ کے اوسط سے ۱۸۰ فیصد زیادہ ہوئی بارش کا واقعہ بے حد چونکا دینے والا ہے۔
ایسے حالات میں پانڈو رنگ اور شاردا جیسے کسان بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔
جب موسم کی مار کے آگے لاچار ۵۰ سالہ پانڈورنگ کی آنکھوں کے سامنے ان کی لگائی گئی فصل بارش کی وجہ سے تباہ ہو رہی تھی، تب زرعی منڈی میں سویابین ۳۸۸۰ روپے فی کوئنٹل کی کم از کم امدادی قیمت پر فروخت ہو رہی تھی۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو، انہیں اور شاردا کو تقریباً ۱۹۴ ہزار روپے کی کل قیمت کی سویابین کا نقصان ہوا۔ شاردا بتاتی ہیں، ’’ایک بات یہ بھی ہے کہ اس کی کھیتی میں تقریباً ۸۰ ہزار روپے کی لاگت بھی آئی تھی۔ بیج، کھاد، حشرہ کش اور تمام دیگر چیزیں خریدنی ہی پڑتی ہیں۔ میں اس کی کھیتی میں چار مہینوں سے بھی زیادہ وقت تک کی گئی کمر توڑ محنت کا تو ذکر بھی نہیں کر رہی۔ لیکن ایسی بارش کا اندازہ نہیں تھا اور ایسے حالات میں ہم کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے۔‘‘
اس قسم کی غیر متوقع آفت سے خود کو بچانے کے لیے میاں بیوی نے پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کے تحت سویابین کی فصل کا انشورنس کروایا تھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے ۲۰۱۶ میں اس بیمہ اسکیم کا افتتاح کیا گیا تاکہ ’’کسانوں کو بوائی سے پہلے اور فصل تیار ہونے کے بعد آنے والی ناگزیر قدرتی آفات سے ہوئے نقصان کی بڑے پیمانے پر تلافی کو یقینی بنایا جا سکے۔‘‘
پانڈورنگ نے ۱۹۸۰ روپے کا پریمیم بھی بھرا، جو کہ کل لاگت ۹۹ ہزار روپے کا ۲ فیصد ہے اور انہوں نے ۲ اعشاریہ ۲ ہیکٹیئر کی زمین (۵ ایکڑ سے تھوڑا زیادہ) پر فصل لگائی تھی۔ اسکیم کے التزامات کے مطابق، خریف کی فصلوں (مثلاً سویابین، باجرا، ارہر، کپاس اور دیگر فصلیں جن کی کھیتی جولائی-اکتوبر کے سیزن میں کی جاتی ہے) کی کل لاگت کی زیادہ سے زیادہ ۲ فیصد رقم کسانوں کے ذریعے پریمیم کی شکل میں دینی ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں زیر معاہدہ زرعی بیمہ کمپنی (اس معاملے میں بجاج آلیانز جنرل انشورنس کمپنی لمیٹڈ) کو قابل ادائیگی بقایا رقم مرکزی اور ریاستی حکومت کے ذریعے مشترکہ طور پر ادا کی جانی ہے۔
حالانکہ، گنڈ فیملی کو ہوئے نقصان کی قیمت ڈھائی لاکھ روپے سے بھی زیادہ ہے، اور جب پانڈورنگ انشورنس کلیم کرنے گئے تو انہیں کمپنی کی طرف سے محض ۸۰۰۰ روپے نقصان کی تلافی کے طور پر دیے گئے۔
پانڈورنگ اور شاردا کو انشورنس کے پیسوں کی بہت ضرورت ہے۔ مارچ ۲۰۲۰ میں کووڈ۔۱۹ شروع ہونے کے بعد پورے مراٹھواڑہ علاقے میں، جس کے دائرے میں عثمان آباد بھی آتا ہے، کسانوں کو لگاتار نقصان اٹھانا پرا۔ زرعی اقتصادیات کی رفتار بے حد سست پڑ گئی تھی اور سیلاب کی وجہ سے ہوئی فصلوں کی بربادی نے روپے پیسے کو لیکر کنبوں کی فکرمندی بڑھا دی تھی۔
عثمان آباد کے زرعی محکمہ کے اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۲۰-۲۱ میں ضلع کے ۹۴۸۹۹۰ کسانوں نے خریف سیزن میں فصل بیمہ کروایا تھا۔ کسانوں نے مشترکہ طور پر ۴۱ اعشاریہ ۸۵ کروڑ روپے کا پریمیم بھی بھرا تھا۔ ریاستی اور مرکزی حکومت کے ذریعے قابل ادا رقم بالترتیب ۳۲۲ اعشاریہ ۹۵ کروڑ اور ۲۷۴ اعشاریہ ۲۱ کروڑ روپے تھی۔ بجاج آلیانز کو کسانوں اور حکومتوں سے کل ملا کر ۶۳۹ اعشاریہ صفر ۲ کروڑ روپے حاصل ہوئے تھے۔
لیکن، جب پچھلے سال اکتوبر میں معمول سے کہیں زیادہ بارش کی وجہ سے فصلیں برباد ہو گئیں، تب بجاج آلیانز نے فصل بیمہ اسکیم کے تحت صرف ۷۹۱۲۱ کسانوں کے نقصان کی تلافی کرتے ہوئے ان میں ۸۶ کروڑ ۹۶ لاکھ روپے تقسیم کیے۔ اور اس طرح بیمہ کمپنی نے بقیہ ۵۵۲ کروڑ ۶ لاکھ روپے کو اپنے پاس ہی بنائے رکھا۔
۲۰ اگست کو بیمہ کمپنی کی ویب سائٹ پر درج پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کے شکایت نمٹانے والے افسر کو پاری (پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا) کی طرف سے بھیجے گئے ای میل سوالنامہ پر ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔ وہی سوالنامہ ۳۰ اگست کو کمپنی کے ترجمان کو بھیجا گیا، انہوں نے اس رپورٹر کو بتایا کہ بجائے آلیانز کی طرف سے ان سوالوں پر نہ تو کوئی تبصرہ کیا جائے گا، نہ ہی کوئی جواب دیا جائے گا۔
دیگر کسانوں کے ذریعے بیمہ اسکیم کے تحت ملنے والی رقم کو پانے کے لیے داخل کی گئی عرضی کو کیوں منظوری نہیں ملی، اس سوال کا ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا ہے۔ کسانوں کو لگتا ہے کہ نقصان کے ۷۲ گھنٹے کے اندر کمپنی کو مطلع کرنے جیسی باریکی پر عمل نہ کر پانے کو، کمپنی کی طرف سے ان کو ان کا واجب معاوضہ نہ دینے سے انکار کرنے کے لیے، بہانے کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔
عثمان آباد شہر سے تقریباً ۲۵ کلومیٹر دور واقع وڈگاؤں کے رہائشی ۵۵ سالہ وبھیشن واڈکر گزارش کے لہجہ میں کہتے ہیں کہ ضابطوں کو کسانوں کے حق میں ہونا چاہیے، نہ کہ بیمہ کمپنیوں کے۔ وہ کہتے ہیں، ’’معاوضہ کی مانگ کرتے ہوئے، جس پر ہمارا حق ہے، لگتا ہے جیسے ہم فقیر ہو گئے ہیں۔ ہم نے انشورنس پریمیم بھی جمع کیا ہے اور ہم فصل بیمہ کے تحت ملنے والی نقصان کی تلافی کی رقم کے حقدار ہیں۔‘‘
وبھیشن کو اکتوبر ۲۰۲۰ میں سویابین کی تقریباً ۶۰-۷۰ کوئنٹل پیداوار کا نقصان ہوا۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں نے اسے اپنے کھیت میں ہی جمع کر رکھا تھا اور بارش سے حفاظت کے لیے اسے پلاسٹک شیٹ سے ڈھانپ بھی دیا تھا۔‘‘ لیکن، پلاسٹک کی شیٹ سے کھیت میں چل رہی تیز ہوا اور موسلا دھار بارش سے پوری طرح تحفظ نہ مل سکا۔ بارش اتنی تیز تھی کہ ان کے کھیت کی مٹی بھی کٹ کٹ کر بہنے لگی۔ ان کا کہنا ہے، ’’پوری فصل برباد ہو گئی، بس ۲-۳ کوئنٹل ہی بچا پایا۔ اتنے کا میں کروں گا بھی کیا؟‘‘
ان کی ۶ ایکڑ زمین پر اگائی جانے والی فصل کا ۱۱۳۴۰۰ روپے کا بیمہ کیا گیا تھا، جس کے بدلے میں انہوں نے ۲۲۶۸ روپے کا پریمیم بھرا تھا۔ اور چونکہ وہ کمپنی کی ویب سائٹ پر آن لائن جاکر یا کمپنی کے ٹول فری نمبر پر کال کرکے ۷۲ گھنٹے کے اندر کمپنی کو نقصان کے بارے میں اطلاع نہیں دے پائے، اس لیے ان کی عرضی کو خارج کر دیا گیا۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہم اپنی فصل بچانے کی فکر کریں، کھیت سے پانی بہہ جانے کا انتظام کریں یا اس بات کی فکر کریں کہ کمپنی کو کیسے اطلاع دینی ہے؟ ہم سے یہ امید کیسے کی جا سکتی ہے کہ ہم ۷۲ گھنٹے کے اندر بیمہ کمپنی کو اطلاع دیں، جب کہ بارش کا قہر دو ہفتے تک لگاتار جا ری رہا؟‘‘
بادل پھٹنے کی وجہ سے درخت ٹوٹ گئے اور بجلی کے کھمبھے بھی گر گئے۔ وبھیشن کہتے ہیں، ’’ہمارے گھروں میں کئی دنوں تک بجلی نہیں تھی۔ ہم اپنا فون تک چارج نہیں کر سکے تھے۔ اور ان کی (انشورنس کمپنی کی) ہیلپ لائن صبح ۹ بجے سے رات ۹ بجے کے درمیان ہی کام کرتی ہے۔ اس کا سیدھا مطلب ہے کہ آپ کے پاس کمپنی کو مطلع کرنے کے لیے ۳۶ گھنٹے کا ہی وقت ہے، نہ کہ ۷۲ گھنٹے کا۔ ایسے حالات میں ہمیشہ فوراً فیصلہ نہیں لیا جا سکتا۔ بیمہ اسکیم کے اصول و ضوابط ہمارے لیے نا انصافی پر مبنی ہیں۔‘‘
دسمبر ۲۰۲۰ میں ہوئی ایک میٹنگ میں عثمان آباد کے ضلع مجسٹریٹ کوستبھ دیوے گاؤنکر نے کسانوں اور کمپنی کے اہلکاروں کی موجودگی میں پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کے ضابطوں کا جائزہ لیتے ہوئے بجاج آلیانز کو ۷۲ گھنٹے کے اندر مطلع کرنے کے ضابطہ میں ڈھیل دینے کی ہدایت کی تھی۔ لیکن، ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
بیمہ کمپنی کے ذریعے ظالمانہ رویہ اپناتے ہوئے کسانوں کی عرضی کو خارج کر دیے جانے کے خلاف ۱۵ کسانوں کے ایک گروپ نے ۷ جون ۲۰۲۱ کو ممبئی ہائی کورٹ میں ایک رِٹ عرضی دائر کی۔ عرضی میں بجاج آلیانز کے علاوہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے زرعی محکمہ اور عثمان آباد کے ضلع مجسٹریٹ اس معاملے میں مدعا علیہ ہیں۔ عرضی کو رکن اسمبلی کیلاش پاٹل اور رکن پارلیمنٹ راجے نمبالکر کی حمایت حاصل تھی۔ دونوں لیڈر عثمان آباد ضلع سے ہی ہیں اور دونوں مہاراشٹر کی مخلوط حکومت میں برسر اقتدار پارٹی شیو سینا کے عوامی نمائندے ہیں۔
کیلاش پاٹل اور ان کے ذریعے عرضی کی حمایت کی بات کو واضح کرتے ہوئے نمبالکر کہتے ہیں، ’’بارش کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار کے برباد ہو جانے کے بعد، مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے کسانوں کو معاوضہ دیے۔ اب جب کہ ان حکومتوں کو کسانوں کے نقصان اٹھانے کا احساس ہے، تو پھر دعووں کا نمٹارہ نہ کرنے کے لیے بیمہ کمپنی باریکیاں کیوں تلاش کر رہی ہے؟ اسی وجہ سے کیلاش پاٹل کے ساتھ میں نے بھی عرضی کی حمایت کی ہے۔‘‘
کورٹ سے جو بھی نتیجہ نکلے، لیکن ابھی عالم یہ ہے کہ عثمان آباد کے کسانوں کا پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا سے بھروسہ اٹھتا جا رہا ہے، کیوں کہ وہ اس پر بھروسہ کر پانے میں مشکلوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ مراٹھی روزنامہ ’سکال‘ میں ۳ اگست ۲۰۲۱ کو شائع ایک رپورٹ کے مطابق، عثمان آباد میں پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کے لیے درخواست دینے والے کسانوں کی تعداد میں ہر سال بڑی تعداد میں کمی درج کی جا رہی ہے۔ ۲۰۱۹ میں ضلع کے ۱۱ لاکھ ۸۸ ہزار کسانوں نے پریمیم جمع کیا تھا، جب کہ ۲۰۲۰ میں صرف ۹ لاکھ ۴۸ ہزار کسانوں نے ہی ایسا کیا۔ اس سال یہ تعداد مزید کم ہو کر ۶ لاکھ ۶۷ ہزار ہو گئی ہے، جو کہ پچھلے سال کے مقابلے تقریباً ایک تہائی کم ہے۔
فصل بیمہ کا مقصد کسانوں کو غیر متوقع حالات سے بچانا ہے۔ وبھیشن کہتے ہیں، ’’لیکن ایسے وقت میں بیمہ اسکیم خود تصور سے عاری ہو گئی ہے۔ اس سے ہمیں اُس طرح کی یقین دہانی بالکل بھی نہیں ملتی جیسی کہ ملنی چاہیے۔ موسم کا مزاج انتہائی بے ترتیب ہو جانے کے بعد، قابل اعتماد فصل بیمہ ہونا ضروری ہو گیا ہے۔‘‘
وبھیشن نے گزشتہ دو دہائیوں میں بارش کے پیٹرن میں آئی قابل ذکر تبدیلیوں پر غور کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’مانسون کے چاروں مہینوں میں بغیر بارش والے دنوں کی تعداد کافی بڑھ گئی ہے۔ لیکن، جب بارش ہوتی ہے تو موسلا دھار ہوتی ہے۔ یہ کھیتی کے لیے تباہی کی طرح ہے۔ پہلے مانسون کے سیزن میں باقاعدہ بارش ہوا کرتی تھی۔ لیکن، اب یا تو قحط ہے یا پھر سیلاب۔‘‘
مراٹھواڑہ کے کسانوں نے تقریباً دو دہائی قبل سویابین کی کھیتی شروع کی، کیوں کہ اس کی فصل موسم کی بے ترتیبی کا سامنا بہتر طریقے سے کر سکتی ہے۔ وبھیشن کہتے ہیں، ’’لیکن اب کی موسمی بے ترتیبی تو سویابین کے لیے بھی کچھ زیادہ ہی ہے۔ اکتوبر ۲۰۲۰ میں ہوئی بارش کی یاد آتے ہی ابھی بھی ہمارا دل دہل جاتا ہے۔‘‘
عثمان آباد کے ضلع مجسٹریٹ کی رپورٹ سے کسانوں کو ہوئے نقصان کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کل ساڑھے چھ لاکھ ایکڑ قابل کاشت زمینوں، جس کا دائرہ تقریباً ۵ لاکھ فٹ بال میدانوں کے کچھ رقبہ کے برابر ہے، پر بارش کا بری طرح اثر پڑا۔ چار لاکھ ۱۶ ہزار کسانوں کی ملکیت والی تقریباً ایک تہائی قابل کاشت زمین برباد ہو گئی۔ اس کے علاوہ، خطرناک سیلاب میں چار لوگوں اور ۱۶۲ دودھ دینے والے مویشیوں کی موت ہوئی۔ ۷ گھر پوری طرح تباہ ہو گئے، وہیں ۲۲۷۷ کو جزوی طور پر نقصان پہنچا۔
۳۴ سالہ گوپال شندے، اکتوبر ۲۰۲۰ میں جن کی ۶ ایکڑ زمین سیلاب سے متاثر ہوئی تھی، کہتے ہیں کہ اگر کبھی کسانوں کو بیمہ کی ضرورت تھی، تو وہ اسی سال تھی۔ وہ کہتے ہیں، ’’کووڈ۔۱۹ کی لہر کے بعد ہمیں اس لیے بھی نقصان اٹھانا پڑا، کیوں کہ مہینوں تک بازار بند تھے۔ اہم فصلوں کی قیمت بے حد کم ہو گئی۔ بہت سے کسان تو لاک ڈاؤن کی وجہ سے اپنی فصل کا اسٹاک بازار تک بھی نہیں لے جا سکے۔ ان دنوں ہمارے پاس بمشکل ہی کچھ کھانے کو ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ ایسے دنوں میں بھی بیمہ کمپنی نے ہمارے خرچوں پر منافع کمایا۔‘‘ گوپال کو بارش کی وجہ سے سویابین کی ۲۰ کوئنٹل کی پیداوار کا نقصان اٹھانا پڑا اور بیمہ کی رقم کے طور پر انہیں صرف ۱۵ ہزار روپے ملے۔‘‘
بہت سے کسانوں نے کھیتی سے ہونے والی کمائی کے نقصان کی تلافی کے لیے تعمیراتی مقامات پر مزدوری کی، سیکورٹی گارڈ کا کام کیا یا کوئی دوسرا عارضی کام تلاش کیا اور انہیں وبائی مرض کے دوران اس سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ پانڈورنگ گنڈ نے ٹرک ڈرائیور کا کام کیا، جس سے کووڈ۔۱۹ کے شروع ہونے سے پہلے ہر مہینے وہ ۱۰ ہزار روپے کما لیتے تھے۔ شاردا کہتی ہیں، ’’آمدنی کا وہ اہم ذریعہ ہمارے ہاتھ سے چلا گیا جس کی وجہ سے فیملی کا گزارہ ہو رہا تھا۔‘‘
وہ ابھی بھی دو سال پہلے اپنی ۲۲ سالہ بیٹی سونالی کی شادی کے لیے لیا گیا قرض ادا کر رہے ہیں۔ شاردا کہتی ہیں، ’’ہم نے اس کی شادی کے لیے تقریباً دو لاکھ روپے قرض لیے تھے۔‘‘ کام چھوٹ جانے کی وجہ سے پانڈورنگ تھوڑا فکرمند بھی تھے کہ تبھی ان کی آمدنی کا آخری ذریعہ جو بچا ہوا تھا (سویابین کی فصل)، بارش کی وجہ سے وہ بھی ہاتھ سے چلا گیا۔
پچھلے سال نومبر مہینے میں اپنی ہی زمین پر واقع درخت سے لٹک کر پانڈورنگ نے جان دے دی۔
اب کھیتی کی پوری ذمہ داری شاردا کے کندھوں پر ہے، لیکن یہ فیملی چلانے کے لیے کافی نہیں ہے۔ ان کے ۱۷ سالہ بیٹے ساگر نے عثمان آباد میں دہاڑی مزدوری کرنا شروع کر دیا ہے، جب کہ ان کا چھوٹا بیٹا ۱۵ سالہ اکشے موبائل کی ایک دکان پر ڈلیوری بوائے کا کام کرتا ہے۔ دونوں کو اپنی پڑھائی چھوڑنی پڑی ہے۔ پانڈورنگ کی خودکشی کی وجہ سے موت ہو گئی، لیکن فیملی کے بقیہ لوگوں کی زندگی منجھدار میں اٹکی ہوئی ہے۔
اسٹوری کی اس سیریز کو، رپورٹر کو آزادانہ صحافتی گرانٹ کے توسط سے پولٹزر سنٹر کی م دد حاصل ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز