دو سال میں کم از کم ۱۳ ہلاکتیں، شاید ۱۵۔ کئی مویشی مارے اور کھا لیے گئے۔ سبھی یوتمال ضلع کے ۵۰ مربع کلومیٹر کے علاقے میں، جو کسانوں کی خودکشی اور زرعی بحران کی وجہ سے بدنام ہے۔ گزشتہ ہفتے تک، وِدربھ کی رالیگاؤں تحصیل میں اپنے دو بچوں کے ساتھ گھوم رہی ایک شیرنی نے گاؤوں والوں اور جنگلات کے افسروں کے درمیان دہشت پیدا کر دی تھی۔ تقریباً ۵۰ گاؤوں میں کھیتی باڑی کے کام متاثر ہوئے۔ زرعی مزدور اکیلے کھیتوں میں جانے کو تیار نہیں تھے یا ڈر کے مارے گروپ میں جاتے تھے۔
’تِچا بندوبست کرا‘‘ (’’شیرنی کو ٹھکانے لگاؤ‘‘)، کام پر نہ جانے کا ایک عام بہانہ تھا۔
بڑھتے غصے اور عوام کے دباؤ نے محکمہ جنگلات کے افسروں کو، ٹی- ۱ یا اَوَنی (’’ارض‘‘) نام کی شیرنی کو پکڑنے یا مارنے کے لیے بے بس کر دیا تھا۔ یہ ایک پیچیدہ اور چیلنج بھرے آپریشن میں بدل گیا، جس میں تقریباً ۲۰۰ جنگلاتی اہلکار، کھوجی، تیز نشانے باز، مہاراشٹر محکمہ جنگلات کے اعلیٰ افسران اور وسط ہندوستان کے کئی ماہرین شامل تھے۔ یہ سبھی چوبیسوں گھنٹے چلنے والے اس آپریشن کے لیے ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے، جو ۲ نومبر کو ٹی- ۱ کو مارنے کے ساتھ ختم ہوا۔ (دیکھیں ٹی۔ ۱ شیرنی کے علاقے میں: ہلاکت کی سرگزشت اور ’میں جب انھیں گھر واپس دیکھتی ہوں، تو شیرنی کا شکریہ ادا کرتی ہوں‘ )
تب تک – ۲۰۱۶ کے وسط سے – شیرنی نے کئی لوگوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ ان دو برسوں میں اس کے ناگہانی شکار کون تھے؟
*****
ایک: سونابائی گھوسلے، عمر ۷۰ سال، پاردھی خانہ بدوش قبیلہ؛ بوراٹی گاؤں، ۱ جون ۲۰۱۶
سونابائی ٹی- ۱ کی پہلی شکار تھیں۔ ۱ جون ۲۰۱۶ کی صبح، وہ اپنے کھیتوں میں بکریوں کے لیے چارہ لانے گئی تھیں۔ ’’میں یہ کام تیزی سے ختم کرکے لوٹ آؤں گی،‘‘ جانے سے پہلے انھوں نے اپنے بیمار شوہر، وامن راؤ (جن کا اب انتقال ہو چکا ہے) سے کہا، ان کے بڑے بیٹے سبھاش بتاتے ہیں۔
یہی ان کا روز کا معمول تھا۔ جلدی اٹھنا۔ گھر پر اپنا کام ختم کرنا۔ پھر کھیتوں میں جاکر وہاں سے مویشیوں کے لیے چارہ لانا۔ لیکن اس دن، سونا بائی واپس نہیں لوٹیں۔
’’انھوں نے دوپہر میں ہمیں بتایا کہ وہ ابھی تک کھیت سے واپس نہیں لوٹی ہیں،‘‘ بوراٹی میں اپنے دو کمرے کی جھونپڑی کے برآمدے میں بیٹھے، سبھاش بتاتے ہیں۔ ’’میں نے انھیں دیکھنے کے لیے ایک لڑکے کو بھیجا، لیکن اس نے لوٹ کر ہمیں بتایا کہ وہ کہیں نہیں نظر آئیں، صرف ان کی پلاسٹک کی بوتل وہاں پڑی تھی۔‘‘ اس کے بعد سبھاش اور کچھ دیگر لوگ کھیت کی طرف گئے۔
انھوں نے اپنے پانچ ایکڑ کھیت کے ایک کونے میں، خشک زمین پر نشان دیکھے جیسے کہ کسی کو گھسیٹا گیا ہو، اس کھیت پر وہ کپاس، ارہر اور جوار کی کھیتی کرتے ہیں۔ ’’ہم نے نشان کا پیچھا کیا اور کھیت سے ۵۰۰ میٹر کی دوری پر جنگل کے ایک حصہ میں ان کی مسخ شدہ لاش پائی،‘‘ سبھاش یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’ہم حیران تھے۔‘‘
ٹی۔ ۱ – جسے مقامی لوگ اَونی بھی کہتے ہیں – کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ مارچ ۲۰۱۶ کے آس پاس اس علاقہ میں آئی تھی۔ کچھ لوگوں نے اسے دیکھنے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن جب تک سونابائی کی موت نہیں ہو گئی تب تک بہت سے لوگ اپنے درمیان شیر کی موجودگی سے انجان تھے۔ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ وہ رالیگاؤں تحصیل کے درمیان والے علاقے میں ٹپیشور وائلڈ لائف سینکچوری سے آئی تھی، جو یہاں سے تقریباً ۵۰ کلومیٹر دور مغرب میں، یوتمال ضلع میں واقع ہے۔ اس کی حرکتوں پر نظر رکھنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ شاید ۲۰۱۴ میں یہاں پہنچی اور اسے اپنا علاقہ بنا لیا۔ دسمبر ۲۰۱۷ میں اس نے دو بچوں، ایک نر اور ایک مادہ کو جنم دیا۔
سونابائی کی فیملی کو مہاراشٹر کے محکمہ جنگلات سے ۱۰ لاکھ روپے کا معاوضہ ملا ہے۔
تبھی سے، میں نے رالیگاؤں تحصیل میں جن لوگوں سے بات کی، انھوں نے بتایا کہ کس طرح سے شیرنی اپنے شکار (مرد یا خاتون) کو گردن سے پکڑکے ’’خون چوستی ہے‘‘۔
*****
دو: گجانن پوار، عمر ۴۰ سال، کمبی او بی سی برادری؛ سراٹی گاؤں، ۲۵ اگست ۲۰۱۷
جب ہم وہاں پہنچتے ہیں تو اندوکلابائی پوار گھر پر اکیلی ہوتی ہیں۔ ان کا چھوٹا بیٹا، ۴۰ سالہ گجانن، ۲۵ اگست ۲۰۱۷ کو ٹی- ۱ کے ذریعے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ وہ لونی اور بوراٹی گاؤوں کے درمیان واقع سراٹی گاؤں میں، جھاڑیدار جنگل سے سٹے اپنے کھیت پر تھا۔ اس دوپہر، شیرنی پیچھے سے آئی اور اس پر جھپٹی۔ گاؤں والوں کو اس کی لاش ۵۰۰ میٹر دور، جنگل کے اندر ایک جھاڑی میں پڑی ہوئی ملی۔
’’چار مہینے پہلے، گجانن کی دو جوان بیٹیوں سے فکرمند میرے شوہر کی موت ہو گئی،‘‘ اندوکلابائی کہتی ہیں۔ ان کی بہو منگلا، وردھا ضلع کے ایک گاؤں میں اپنے والدین کے گھر واپس چلی گئی ہے۔ ’’وہ اتنی خوفزدہ ہے کہ شیرنی کو جب تک پکڑا یا مار نہیں دیا جاتا، وہ یہاں نہیں رہنا چاہتی،‘‘ اندوکلابائی کہتی ہیں۔
اس سانحہ کے بعد سے ہی، سراٹی گاؤں میں لوگ رات کو پہرہ دیتے ہیں۔ کچھ نوجوان اَونی کو پکڑنے کے لیے، یومیہ مزدوری پر، محکمہ جنگلات کے آپریشن میں شامل ہوئے ہیں۔ ’’کپاس توڑنے کے لیے مزدور ڈھونڈنا مشکل ہو رہا ہے؛ کوئی بھی آدمی ڈر کے مارے کھیتوں میں نہیں جانا چاہتا،‘‘ ایک نوجوان دیہاتی اور مراٹھی روزنامہ ’دیشونتی‘ کے اسٹرنگر، رویندر ٹھاکرے کہتے ہیں۔
اندوکلابائی کا بڑا بیٹا، وشنو، فیملی کی ۱۵ ایکڑ زمین پر کھیتی کرتا ہے۔ وہ ربیع کے موسم میں کپاس اور سویابین، اور تھوڑا گیہوں اُگاتا ہے۔
گجانن اپنے کھیت میں کام کرتے وقت پیچھے سے آئی شیرنی کو دیکھ کر دنگ رہ گیا ہوگا، ان کی ماں کہتی ہیں، جو بہت غصے میں ہیں۔ ’’میں نے اپنے بیٹے کو اس شیرنی کے حملے میں کھو دیا جو کہیں سے نہیں آئی تھی۔ محکمہ جنگلات کو اسے مار دینا چاہیے، تبھی ہم دوبارہ عام زندگی بسر کر پائیں گے۔‘‘
*****
تین: راما جی شیندرے، عمر ۶۸ سال، گونڈ گوواری آدیواسی قبیلہ؛ لونی گاؤں، ۲۷ جنوری ۲۰۱۸
کلابائی ابھی بھی اس سال جنوری میں اُس سرد شام کی یادوں سے دنگ ہیں۔ ان کے ۷۰ سالہ شوہر راماجی نے اپنے دو ایکڑ کھیت پر کھڑی گیہوں کی فصل سے جنگلی سور اور نیل گائے کو دور رکھنے کے لیے تھوڑی دیر پہلے ہی آگ جلائی تھی۔ کلابائی کھیت کے دوسرے سرے پر کپاس توڑ رہی تھیں۔ اچانک ایک شور سنائی دیا اور انھوں نے ایک شیرنی کو اپنے شوہر کے اوپر پیچھے سے چھلانگ لگاتے ہوئے دیکھا۔ ٹی- ۱ جھاڑیوں سے نکلی تھی اور راماجی کو ان کی گردن سے پکڑ لیا تھا۔ پل بھر میں ہی ان کی موت ہو گئی، کلابائی کہتی ہیں۔
راماجی کھیت کی دیکھ بھال کرتے، جب کہ ان کے بیٹے دوسرے کے کھیتوں پر مزدور کے طور پر کام کرتے تھے۔ ’’ہم دونوں نے شادی کرنے کے بعد سے ہی اپنی زندگی کے ہر ایک دن کھیتی کی ہے،‘‘ کلابائی کہتی ہیں۔ ’’یہ ہماری زندگی تھی۔‘‘ اب، انھوں نے کھیت پر جانا بند کر دیا ہے، وہ بتاتی ہیں۔ ’’ملا دھڑکی بھرتے [مجھے ڈر لگتا ہے]۔‘‘
*****
چار: گلاب راؤ موکاشے، عمر ۶۵ سال، گونڈ آدیواسی قبیلہ؛ ویڈشی گاؤں، ۵ اگست ۲۰۱۸
بڑے بھائی نتھوجی انھیں جنگل کے اندر جانے سے منع کرتے رہے، لیکن گلاب راؤ نے ان کی ایک نہ سنی۔ وہ ۵ اگست کی صبح تھی۔
’’مجھے اس خطرے کا پتہ چل گیا جب ہماری گایوں نے ڈکارنا شروع کر دیا اور بے چین ہو گئیں؛ انھوں نے شاید کچھ سونگھ لیا تھا،‘‘ بزرگ نتھوجی اس دن کے واقعہ کو یاد کرکے ورہاڈی بولی میں بتاتے ہیں۔
کچھ منٹ بعد ہی انھوں نے ایک شیرنی کو غراتے اور اپنے بھائی کے اوپر چھلانگ لگاتے دیکھا۔ یہ بہت بڑا جانور تھا، گلاب راؤ کو بچنے کا بالکل بھی موقع نہیں ملا۔ نتھوجی بے یار و مددگار دیکھتے رہے۔ وہ شیرنی کے اوپر چیخے، پھتر اٹھا کر پھینکا۔ جانور ان کے بھائی کی لاش کو وہیں چھوڑ جنگل کی جھاڑی میں غائب ہو گیا۔ ’’میں مدد لینے کے لیے گاؤں کی طرف بھاگا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’میرے ساتھ گاؤں کے کئی لوگ آئے اور ہم اپنے بھائی کی لاش کو واپس گھر لانے میں کامیاب رہے... اسے مسخ کر دیا گیا تھا۔‘‘
نتھوجی صدمے اور خوف سے باہر نہیں نکل پائے ہیں۔ دونوں بھائی باقاعدگی کے ساتھ گاؤں کے تقریباً ۱۰۰ مویشیوں کو پاس کے جنگلوں میں چرانے لے جایا کرتے تھے – ویڈشی گاؤں رالیگاؤں کے جنگلوں کے کافی اندر ہے، جہاں ٹی- ۱ دو سال سے شکار کی تلاش میں گھوم رہی تھی۔
اگست ۲۰۱۸ میں، ٹی- ۱ نے تین لوگوں کو ہلاک کر دیا تھا، جس کی شروعات گلاب راؤ سے ہوئی تھی۔ دوسرا آدمی پڑوس کے وہیر گاؤں کا تھا، جسے ۱۱ اگست کو مارا گیا اور تیسرا پمپل شینڈا میں ۲۸ اگست کو مارا گیا۔
گلاب راؤ کے بیٹے کشور کو تبھی سے محکمہ جنگلات کے ذریعے ۹۰۰۰ روپے ماہانہ تنخواہ پر گارڈ کی شکل میں مقرر کیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے گاؤں کے چرواہے اب ساتھ مل کر اپنے مویشیوں کو چرانے لے جاتے ہیں۔ ’’ہم ساتھ رہتے ہیں۔ ہم جنگل کے کافی اندر نہیں جاتے کیوں کہ شیرنی کہیں بھی چھپی ہو سکتی ہے...‘‘
*****
پانچ: ناگوراؤ جُنگھرے، عمر ۶۵ سال، کولام آدیواسی قبیلہ؛ پمپل شینڈا گاؤں (کلمب تحصیل میں، رالیگاؤں تحصیل کی سرحد کے ساتھ)، ۲۸ اگست ۲۰۱۸
وہ ٹی- ۱ کے آخری شکار تھے۔
جُنگھرے کے پاس پانچ ایکڑ زمین تھی اور وہ مویشی پالتے تھے۔ وہ ہر صبح اپنی گایوں کو چرانے کے لیے پاس کے جنگل کے ایک حصے میں لے جاتے تھے، جب کہ ان کے بیٹے کھیت پر کام کرتے یا یومیہ مزدوری پر دوسرے کے کھیتوں میں کام کرنے جاتے تھے۔
اینٹ اور مٹی کی جھونپڑی میں بیٹھی ان کی بیوی، رینوکابائی یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ۲۸ اگست کو ان کی گایوں نے شام کو گھر آکر بہت شور مچایا، لیکن ان کے شوہر واپس نہیں آئے۔ ’’مجھے لگا کہ کچھ گڑبڑ ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
گاؤں والوں کا ایک گروپ فوراً جنگل کی طرف بھاگا، جہاں جُنگھرے عام طور پر اپنی گایوں کو چرانے کے لیے جاتے تھے۔ اس بار بھی انھوں نے گھسیٹنے کے نشان دیکھے – اور جنگل میں ایک کلومیٹر اندر جانے کے بعد ان کی لاش کو دیکھا۔ ’’شیر نے گردن سے ان کا خون چوسنے کے بعد انھیں گھسیٹا تھا،‘‘ رینوکابائی کہتی ہیں۔ ’’اگر لاش کو ڈھونڈنے میں ہمیں دیر ہو جاتی، تو شاید یہ ہمیں کبھی نہیں ملتی...‘‘
اس حادثہ کے بعد، ان کے بڑے بیٹے کرشنا کو گاؤں کے مویشی چرانے والوں اور گلہ بانوں کے ساتھ جنگل میں رہنے کے لیے ایک فاریسٹ گارڈ کے طور پر بھرتی کیا گیا تھا۔ چھوٹا بیٹا وشنو اپنے گاؤں میں یا ریاست کے پانڈھرک وڈ-یوتمال قومی شاہراہ پر پڑوسی گاؤں موہادی میں یومیہ مزدور کے طور پر کام کرتا ہے۔
کولام نے ڈر کے مارے کھیتی کرنا بند کر دیا ہے۔ ’’مجھے اب اپنے بیٹے کی جان کا ڈر ہے،‘‘ رینوکابائی کہتی ہیں۔ ’’اس نے اپنی فیملی کے لیے [ایک گارڈ کے طور پر] یہ نوکری لی ہے؛ اس کی دو بیٹیاں ہیں۔ لیکن میں نہیں چاہتی کہ شیرنی کو پکڑے جانے تک وہ یہ کام کرے۔‘‘
اور ہاتھی سے موت
ارچنا کُل سنگھے، عمر ۳۰ سال، گونڈ آدیواسی برادری؛ چاہند گاؤں، ۳ اکتوبر ۲۰۱۸
موت جب پیچھے سے آئی، تو وہ اپنی جھونپڑی کے سامنے گوبر اکٹھا کر رہی تھیں۔ گھنٹوں پہلے، چاہند گاؤں سے تقریباً ۳۵ کلومیٹر دور لونی کے پاس، جنگلات کے افسروں کے بیس کیمپ پر بندھا ایک ہاتھی اپنی زنجیر سے خود کو چھڑانے کے بعد مشتعل ہو گیا تھا۔ وہ پیچھے سے آیا، ارچنا کو اپنی سونڈ میں اٹھایا اور غصے میں کچھ میٹر دور کپاس کے کھیت میں پھینک دیا۔ اس سے پہلے کہ کسی کو پتہ چل پاتا کہ آخر ہوا کیا ہے، جائے حادثہ پر ہی ان کی موت ہو گئی۔
’’میں برآمدے میں دانت صاف کر رہا تھا، سورج ابھی نکلا نہیں تھا،‘‘ ارچنا کے گھبرائے ہوئے شوہر موریشور، جو کہ ایک زرعی مزدور ہیں، اپنے پانچ سال کے بیٹے نچیکیت سے لپٹتے ہوئے کہتے ہیں۔ ہم نے ایک تیز آواز سنی، ہاتھی ہمارے پڑوسی کے گھر کو روندتا ہوا پیچھے سے آیا اور جھونپڑیوں کے سامنے سڑک کی طرف بھاگ گیا۔‘‘
ہاتھی نے پڑوسی پوہنا گاؤں میں ایک اور شخص کو زخمی کر دیا تھا، جس کے تین دن بعد اس کی موت ہوگئی۔ اس کے بعد ہی وہ قومی شاہراہ پر پکڑا اور قابو کیا جا سکا۔
موریشور کی ماں مندابائی کہتی ہیں کہ ان کی بہو کی موت ان کی فیملی کے لیے ایک عذاب ہے۔ ’’میں اپنے پوتے کے لیے فکرمند ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
گجراج – چندرپور ضلع کے تاڈوبا اندھاری ٹائیگر ریزرو سے بلایا گیا ہاتھی – ان پانچ ہاتھیوں میں سے ایک تھا جسے محکمہ جنگلات نے ٹی- ۱ کا پتہ لگانے کے کام میں لگا رکھا تھا، لیکن بعد میں اسے واپس بھیج دیا تھا۔ چار دیگر ہاتھی، جو پہلے بچاؤ اور پکڑنے کے آپریشن میں استعمال کیے گئے، مدھیہ پردیش سے آئے تھے۔ لیکن وہ بھی تب واپس بھیج دیے گئے جب اہلکاروں نے اس حادثہ کے بعد آپریشن کو کچھ دنوں کے لیے روک دیا تھا۔ محکمہ نے اس بات کی جانچ شروع کر دی ہے کہ گجراج مشتعل کیوں ہو گیا تھا۔
*****
ٹی- ۱ کے مارے جانے کے بعد، ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ گاؤں کے جن لوگوں کو گارڈ کی نوکری ملی تھی ان کا کیا ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ محکمہ جنگلات معاوضہ کے حصہ کے طور پر انھیں دیگر کاموں کے لیے اپنے پاس ہی رکھے۔ سبھی متاثرین کے کنبے ۱۰ لاکھ روپے بطور معاوضہ پانے کے حقدار ہیں۔ کچھ کو مل چکا ہے، باقیوں کے لیے کاغذی کارروائی چل رہی ہے۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)