موڈا موڈانڈ اوڈالے
مڈو سکّیا تانگ اوڈالے
[بھاگنے، دوڑنے سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا
سوچو اور دھیرے دھیرے جاؤ۔ آپ کو سونا ملے گا]
الو کرومبا آدیواسی جو کبھی نیل گری پہاڑیوں کے
جنگلوں میں رہتے تھے، کہتے ہیں کہ یہ کہاوت ’صحیح‘ شریک حیات کو تلاش کرنے کے
مطلوبہ عمل کی بہترین ترجمانی کرتی ہے۔ ان میں سے ایک – روی وشوناتھن – کے لیے یہ
ان کے تعلیمی سفر پر بھی صادق آتی ہے، جنہوں نے دھیمی شروعات کی لیکن اب بھرتھیار
یونیورسٹی، کوئمبٹور سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے ہیں۔ وہ نہ صرف اس ڈگری کو
حاصل کرنے والے اپنی کمیونٹی کے پہلے شخص ہیں، بلکہ ان کا پی ایچ ڈی تھیسس بھی الو
کرومبا زبان کی ساخت اور گرام پر جمع کی گئی اب تک کی پہلی دستاویز ہے۔ اتفاق سے،
وشوا (جیسا کہ وہ کہلانا پسند کرتے ہیں) ۳۳ سال کے ہیں، ان کی شادی ہونی ابھی باقی
ہے، اور انھوں نے ’صحیح‘ شریک حیات تلاش کرنے میں بھی کوئی جلد بازی نہیں کی ہے۔
وشوا بن گوڈی میں بڑے ہوئے، یہ ایک الو کرومبا بستی ہے جو تمل ناڈو کے نیل گری ضلع کے کوٹا گری قصبہ کے قریب واقع ہے۔ بچوں کے والدین صبح میں ۷ بجے جب کام کے لیے نکل جاتے ہیں، تو بچے تین کلومیٹر دور، اراوینو میں واقع گورنمنٹ ہائی اسکول کی طرف نکل پڑتے ہیں، اپنی روایتی تعلیم حاصل کرنے۔
یہیں سے اسکرپٹ الگ ہونی شروع ہوتی ہے۔ زیادہ تر دنوں میں، جب والدین کام پر چلے جاتے، تو اکثر بچے آس پاس کے جنگلوں میں دوڑ کر نکل جاتے اور سارا دن وہیں گزارتے، جب کہ دوسرے بچے اینٹ کے اپنے چھوٹے مکانوں کے سامنے بنے سیمنٹ والے برآمدے میں مختلف کھیل کھیلنے میں مصروف ہو جاتے۔ ’’ہماری کمیونٹی میں، اسکول جانا کبھی ترجیح نہیں رہا۔ ہم میں سے ۲۰ بچے اسکول جانے کی عمر میں تھے، لیکن جس وقت ہم اسکول کے دروازے پر پہنچتے، ان میں سے صرف مٹھی بھر ہی وہاں مشکل سے بچ جاتے،‘‘ وشوا بتاتے ہیں۔ مسئلہ یہ تھا کہ بچے صرف اپنی مادری زبان میں بات کرتے تھے، جب کہ ٹیچرس – اگر وہ کبھی نظر آ جاتے – صرف ریاست کی سرکاری زبان، تمل میں بات کرتے تھے۔
ایک انجان زبان، کمیونٹی کے بزرگوں کا بڑے پیمانے پر یہ ماننا کہ اسکولنگ سے کوئی فائدہ نہیں ہے، یکساں ذہن والے دوستوں کا ایک گینگ اور لبھانے والی کھلی جگہیں – ظاہر ہے وشوا نے اکثر اسکول چھوڑا۔ ان کے والدین پڑوس کی جاگیروں میں یومیہ مزدور کے طور پر کام کرتے تھے – ان کی والدہ چائے کی پتی توڑتیں اور ان کے والد بارش کے پانی کے لیے نالے صاف کرتے اور ڈلیوری ٹرکس سے کھاد کے ۵۰ کلوگرام کے بورے اتارتے۔ سال میں کم از کم دو بار، ان کے والد الو کرومبا کے دیگر مردوں کے ساتھ جنگلوں میں پتھر کی چٹانوں سے شہد اکٹھا کرنے نکل پڑتے۔ انگریزوں نے سال ۱۸۰۰ کی ابتدا میں جب نیل گری پر حملہ کیا، اس سے پہلے جنگلوں سے ادویاتی پودے اکٹھا کرنے کے ساتھ ساتھ، یہی کمیونٹی کا ذریعہ معاش تھا، لیکن انگریزوں نے جنگل کے بڑے بڑے حصوں کو چائے کے باغات میں تبدیل کر دیا، اور قبائلیوں کو جنگل سے باہر نکال دیا اور آس پاس کی بستیوں میں رہنے پر مجبور کر دیا۔
وشوا کے لیے، اگر پرائمری اسکول میں جانے کے لیے کوئی بولنے والا نہیں تھا، وہیں سیکنڈری اسکول بھی اپنی نئی چنوتیاں لے کر آیا۔ اس کے والد اکثر بیمار رہنے لگے اور کام کرنے کی حالت میں نہیں رہے، اس کی وجہ سے فیملی کو چلانے کی ذمہ داری چھوٹے لڑکے پر آ پڑی جو یومیہ مزدور کی شکل میں کام کرنے لگا، اور کبھی کبھار ہی اسکول جا پاتا۔ دل کا دورہ پڑنے سے جب ان کے والد کی موت ہوئی، تب ان کی عمر صرف ۱۶ سال تھی، وہ اپنے پیچھے میڈیکل بل کا ۳۰ ہزار روپے کا قرض چھوڑ گئے۔ وشوا نے اسکول جانا چھوڑ دیا، ڈرائیونگ لائیسنس بنوایا اور جس جاگیر میں ان کی ماں کام کرتی تھیں وہیں چلے گئے، جاگیر کے پِک اَپ ٹرک کو چلا کر ۹۰۰ روپے ماہانہ کمانے لگے۔
اپنے قرض کو چکانے اور اسکولنگ دوبارہ شروع کرنے کے لیے ان کو اور ان کی ماں کو ہفتہ میں ساتوں دن تین سال تک کام کرنا پڑا اور اپنی ایک ایکڑ زمین کو پٹّہ پر دینا پڑا۔ ’’میرے والدین اسکول کبھی نہیں گئے، لیکن انھوں نے میری دلچسپی دیکھی اور چاہا کہ میں اپنی تعلیم جاری رکھوں۔ میں نے پڑھائی اس لیے چھوڑی کیوں کہ میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا، لیکن میں جانتا تھا کہ میں اسے دوبارہ شروع کروں گا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
آخرکار انھوں نے تعلیم کو جاری رکھا، اور ۲۱ سال کی عمر میں، اپنی کلاس کے باقی بچوں سے زیادہ عمر کا ہونے کے باوجود، وشوا کے ہاتھ میں آخر کار ان کے سیکنڈری اسکول کا لیونگ سرٹیفکیٹ آ گیا۔
یہاں کے بعد ان کے تعلیمی سفر میں کبھی رکاوٹ نہیں آئی۔ انھوں نے کوٹا گری سے ہائی سیکنڈری اسکولنگ کی اور پھر ۷۰ کلومیٹر دور، کوئمبٹور کے گورنمنٹ آرٹس کالج گئے۔ یہاں سے انھوں نے تمل لٹریچر میں بی اے کیا، پھر دو ماسٹرس کیے – پہلا تمل لٹریچر میں اور دوسرا لسانیات میں۔ انھوں نے اپنی تعلیم کا خرچ قبائلی تنظیموں، ریاستی حکومت، غیر سرکاری تنظیموں اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے ذریعہ حاصل کردہ وظیفوں اور گرانٹس سے پورا کیا۔
تمل لٹریچر پڑھنے کے دوران، انھوں نے ٹوڈا، کوٹا اور ایرولا جیسی نیل گری کی دیگر آدیواسی برادریوں پر سماجی و لسانی تحقیقی پیپرس حاصل کیے۔ تاہم، الو کرومبا کے بارے میں انھیں پتہ چلا کہ ان کے صرف کلچر اور ڈریس کو ڈاکیومنٹ کیا گیا ہے، زبان کو نہیں۔ اسی لیے انھوں نے کہاوتوں اور پہیلیوں کو ڈاکیومنٹ کیا، اور پھر گرامر کی طرف متوجہ ہوئے۔
لسانیات کے اسکالر کے طور پر، انھیں اس بات کا شدید احساس ہے کہ زبانیں کیسے ختم ہو رہی ہیں، اور انھیں خوف ہے کہ دستاویز شدہ اور کوڈی فائیڈ گرامر کے بغیر، خود ان کی زبان بھی نہیں بچے گی۔ ’’میں چاہتا تھا کہ تمام بولنے والوں کی موت سے پہلے پارٹس آف اسپیچ، گرامر کے اصول اور سنٹیکس کی درجہ بندی کر دی جائے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
ہندوستان کی ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق، کرومبا کی کل آبادی ہے ۶۸۲۳، اور الو کرومبا کہتے ہیں کہ ان کی آبادی صرف ۱۷۰۰ ہے۔ (دیگر ہیں: کاڈو کرومبا، جینو کرومبا، بیٹّا کرومبا اور مُلّو کرومبا)۔ میسور کے سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف انڈین لینگویجز کے مطابق، کوئی بھی زبان ’خاتمہ کے دہانے‘ پر تب پہنچتی ہے جب اس کے بولنے والےل ۱۰ ہزار سے کم ہو۔ یہ بات کرومبا کے تمام فرقوں پر صادق آتی ہے۔
اسکرپٹ نہ ہونے کی وجہ سے اس کا کوڈی فکیشن مشکل ہو چکا ہے، جیسا کہ وشوا کو پتہ چلا جب انھوں نے اسے تحریر کرنے کے لیے تمل سے ’مدد‘ لی۔ بہت سی آوازوں کا ترجمہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ’’میری زبان میں مٹی سے پودے کو نکالنے کی تحریک کو ’کھٹ‘ کہتے ہیں۔ تمل اسکرپٹ میں یہ آواز نہیں ہے،‘‘ وہ نشاندہی کرتے ہیں۔
اپریل ۲۰۱۸ میں وشوا کو پی ایچ ڈی کی ڈگری ملنے کی امید ہے، جس کے بعد وہ کسی یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے لیے اپلائی کریں گے۔ ایسا کرنے والے وہ پہلے الو کرومبا ہوں گے۔ ’’یہاں تک پہنچنے میں مجھے لمبا وقت لگا ہے،‘‘ وہ حیرت کے ساتھ کہتے ہیں۔
اس نوجوان مرد کے لیے اگلا سنگ میل تدریسی شعبہ سے نہیں ہے، بلکہ شادی ہے۔ ’’میری کمیونٹی میں ۲۰ سال کی عمر سے پہلے ہی شادی کرنی ہوتی ہے، لیکن میں نے اس کی مخالفت کی کیوں کہ میں پہلے پی ایچ ڈی حاصل کرنا چا ہتا تھا۔‘‘ تو کیا اب یہ ہونے والا ہے؟ ’’ہاں،‘‘ وہ کہتے ہیں، شرماتے ہوئے، ’’میں نے اسے [لڑکی کو] دوسری بستی میں دیکھا ہے۔ یہ [شادی] چند ہی مہینوں میں ہو جائے گی۔‘‘
مضمون نگار کی اسٹون فاؤنڈیشن، کوٹا گری کی الو کرومبا این سیلوی کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہیں، جنہوں نے اس مضمون کے لیے اپنا وقت اور جانکاری دی۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)