ڈل جھیل کے گھاٹ نمبر ۱۵ پر گلزار احمد بھٹ لکڑی کی ایک بینچ پر خاموش بیٹھے ہیں۔ سری نگر کے دیگر شکارہ چلانے والوں کی طرح ہی، انہوں نے ۲ اگست سے بمشکل کسی بھی گاہک کو دیکھا ہے، جب حکومت جموں و کشمیر نے سیاحوں کو کشمیر چھوڑنے کے لیے ایک ایڈوائزری جاری کی تھی ’’اس نے ہمارے مستقبل کو غیر یقینی بنا دیا۔ یہاں پر رہتے ہوئے میرے ۱۸ برسوں کے دوران، میں نے کبھی بھی اتنی بڑی تعداد میں بُکنگ [ردِ ہوتے ہوئے] نہیں دیکھی،‘‘ ۳۲ سالہ گلزار کہتے ہیں۔
حکومت کے ذریعے ۱۰ اکتوبر کو ایڈوائزری واپس لیے جانے کے بعد کچھ سیا شکارہ کی سواری کے لیے پہنچے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ٹریول ایجنٹوں کے ذریعے لائے گئے تھے، جنہوں نے ان سے کافی پیسے اینٹھے۔ ’’اگر گاہک سیدھے ہمارے پاس آتا ہے، تو ڈل جھیل کے پانی پر شکارہ سے ایک گھنٹہ کی سیر کے بدلے ہم اس سے ۶۰۰ روپے [سرکاری طور پر منظور شدہ قیمت] مانگتے ہیں۔ اسی سواری کے لیے ایجنٹ ہمیں صرف ۲۵۰ روپے دیتا ہے۔ موجودہ حالات میں، ہم منع بھی نہیں کر سکتے،‘‘ ۴۲ سالہ مہراج الدین پکتو کہتے ہیں، جو نومبر کے وسط میں بھی سیاحوں کا انتظار کر رہے تھے، ابھی بھی کڑاکے کی سردی کے دوران اپنی فیملی کی دیکھ بھال میں کامیاب ہونے کی امید کر رہے ہیں۔
شکارہ یا تو ڈونگی مالکوں کے ذریعے چلایا جاتا ہے یا اسے کھینے والوں کو فی موسم تقریباً ۳۰ ہزار روپے میں کرایے پر دے دیا جاتا ہے۔ شکارہ چلانے والا چھ مہینے کے سیاحتی موسم میں ۲ لاکھ روپے سے ڈھائی لاکھ روپے تک کمانے کی امید کر سکتا ہے۔ کرایہ اور دیگر اخراجات کے بعد، اس کے پاس تقریباً ۱۸۰۰۰۰ روپے بچ جاتے ہیں۔ اس آمدنی کو ۱۲ مہینے تک چلانا پڑتا ہے – اور یہ ۱۵ ہزار روپے ماہانہ ہو جاتا ہے۔ آف سیزن میں، شکارہ والوں کے پاس کوئی کام نہیں ہوتا، یا وہ چھوٹے موٹے کام کرتے ہیں، اور ان میں سے کچھ فروخت کے لیے یا اپنے اہل خانہ کے لیے جھیلوں سے مچھلیاں پکڑنے کا کام کرتے ہیں۔
وادی میں سیاحت کا موسم موٹے طور پر مئی سے اکتوبر تک ہوتا ہے۔ اس سال کشمیر میں نومبر کے پہلے ہفتہ تک اور شروعاتی برف باری کے بعد، شکارہ کی سیر کی خواہش رکھنے والے سیاحوں کے آنے کا امکان اور بھی کم ہے۔ پچھلا سال (۲۰۱۸) بھی سیاحتی اعتبار سے کمزور تھا، جب صرف ۸ء۵ لاکھ سیاحوں – ہندوستانی اور بین الاقوامی – نے وادیٔ کشمیر کا دورہ کیا۔ اس سال یہ تعداد کتنی کم ہوئی ہے، یہ ابھی تک صاف نہیں ہے۔
لیکن، اگست سے لے کر اب تک ڈل جھیل سمیت کشمیر کے مختلف آبی ذخائر میں چلائے جانے والے سبھی ۴۸۰۰ شکارے کو بھاری نقصان ہوا ہے، یہ کہنا ہے آل جے اینڈ کے ٹیکسی شکارہ مالکان ایسوسی ایشن اور آل جے اینڈ کے شکارہ ورکرس ایسوسی ایشن کے صدر، ۶۰ سالہ ولی محمد بھٹ کا۔ یہی حال ڈل جھیل، نگین جھیل، مانس بل جھیل اور جہلم ندی پر موجود ۹۶۰ ہاؤس بوٹ مالکوں کا ہے، کشمیر ہاؤس بوٹ مالکان ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری، عبدالرشید کلّو کہتے ہیں۔
’’صرف ڈل جھیل [جس پر ۳۷ گھاٹ یا شکارہ کھڑی کرنے کی جگہ ہے] کے شکارہ والوں کو ۸ کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے،‘‘ بھٹ کا اندازہ ہے۔ کچھ لوگوں نے شکارہ خریدنے کے لیے مختلف ذرائع سے قرض لیا ہے – ایک نئے شکارہ کی قیمت تقریباً ۱ء۵ لاکھ روپے ہے – اور اب وہ اس کی قسط چکانے کے لائق نہیں ہیں، وہ بتاتے ہیں۔ بھٹ آگے کہتے ہیں کہ کچھ لوگ ساہوکاروں کے دباؤ کو برداشت نہیں کر سکے اور قرض چکانے کے لیے انہوں نے اپنے شکارے بیچ دیے۔ ایسے کنبوں کے لیے اب تک سرکاری معاوضہ کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، جن کی گزر بسر کا واحد ذریعہ شکارہ ہیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)