اُدّنڈرایونیپالم گاؤں کے ایک کسان، گِنجو پّلی شنکر راؤ نے ۲۰۱۷ میں، ۱۰۰۰ مربع گز کا وہ رہائشی پلاٹ وجے واڑہ کے خریداروں کو بیچ دیا، جو انھیں راجدھانی امراوتی کے شہر میں الاٹ کیا گیا تھا۔ اس کے انھیں ۲ کروڑ روپے ملے، جس میں سے انھوں نے ۸۰ لاکھ روپے اپنے ۹۰ سال پرانے گھر کو ٹھیک کرنے میں لگائے اور اسے دو منزلہ گھر میں بدل دیا۔ ’’میں نے اس گھر کی دوبارہ تعمیر میں اس پیسے کا استعمال کیا، ایک شیورولے اور ایک موٹربائک خریدی، اپنی بیٹی کو آگے کی تعلیم کے لیے آسٹریلیا بھیج دیا، اور کچھ پیسہ اس کی شادی کے لیے بھی بچا لیا،‘‘ وہ خوشی سے کہتے ہیں۔
اُدّنڈرایونیپالم گاؤں گُنٹور ضلع میں کرشنا ندی کے شمالی ساحل پر ۲۹ گاؤوں میں سے ایک ہے، جہاں آندھرا پردیش کی نئی ’سبز‘ راجدھانی، امراوتی بنائی جا رہی ہے۔ ریاست کے ذریعے امراوتی سسٹین ایبل کیپٹل سٹی ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کے لیے لینڈ پولنگ اسکیم (ایل پی ایس) کے تحت پہلے مرحلہ میں ہی ۳۳ ہزار ایکڑ سے زیادہ زمین تحویل میں لی جا رہی ہے۔
یہ سبھی ۲۹ گاؤوں اب نئی عمارتوں سے بھرے پڑے ہیں، کچھ کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے اور کچھ زیر تعمیر ہیں۔ ۲۰۱۴ میں نئی راجدھانی کا اعلان ہونے کے بعد سے ہی ان گاؤوں میں ریئل اسٹیٹ ایجنسیوں کی بھیڑ لگ گئی ہے۔ سب سے زیادہ منافع حاصل کرنے والوں میں اونچی ذات کے زمیندار ہیں، بنیادی طور پر کمّا برادری کے لوگ۔ ’’میرے جیسے تقریباً ۹۰ فیصد زمین مالکوں نے اپنی [مختص] زمین کا ایک حصہ بیچ دیا ہے اور مکان بنا لیے ہیں،‘‘ شنکر راؤ کہتے ہیں (اوپر کے کور فوٹو میں دائیں طرف، اپنے پڑوسی نرینا سُبّا راؤ کے ساتھ)۔
شنکر راؤ کی ۲۰ ایکڑ زمین میں سے، آندھرا پردیش کیپیٹل ریجن ڈیولپمنٹ اتھارٹی (اے پی سی آر ڈی اے) نے انھیں ایل پی ایس کی شرطوں کے تحت، نئی راجدھانی میں ایک ہزار مربع گز کے ۲۰ رہائشی پلاٹ اور ۴۵۰ مربع گز کے ۲۰ کمرشیل پلاٹ مختص کیے ہیں۔ ان ’نو ترقی یافتہ‘ پلاٹس کو تقریباً ایک دہائی میں کسانوں کو سونپ دیا جائے گا۔ اور ۱۰ برسوں تک، کسانوں کو ہر سال فی ایکڑ کے ۳۰ سے ۵۰ ہزار روپے دیے جائیں گے – جو زمین کی قسم پر منحصر ہوگا۔ اے پی سی آر ڈی اے باقی زمینوں کو سڑکوں، سرکاری عمارتوں، صنعتوں اور شہری سہولیات کی تعمیر کے لیے اپنے پاس رکھ لے گا۔
شنکر راؤ کی طرح دیگر لوگ بھی اپنی ’مختص‘ زمینیں بیچ رہے ہیں (حقیقی پلاٹ ابھی تک ان کے قبضے میں نہیں ہیں)۔ یہاں ریئل اسٹیٹ بازار میں قیاس آرائیاں عروج پر ہیں۔ ۲۰۱۴ میں، جب راجدھانی خطہ کے لیے کام شروع ہوا تھا، تب زمین کی قیمت یہاں فی ایکڑ تقریباً ۷۰ لاکھ روپے تھے (جب کہ ۱۹۹۶ میں صرف ۳ لاکھ روپے تھی)۔ گاؤوں کے کسانوں کا کہنا ہے کہ یہاں اب ایک ایکڑ زمین ۵ کروڑ روپے کی ہو سکتی ہے، یہ اندازہ اس لین دین پر مبنی ہے جو کاغذ پر نہیں ہیں۔
لیکن ریئل اسٹیٹ میں اُچھال چنندہ ہے۔ یہاں کے بہت سے دلت (اور کچھ او بی سی) کسانوں کے پاس چھوٹے پلاٹ ہیں – آندھرا پردیش زمینی اصلاح (زرعی زمین پر سیلنگ) قانون، ۱۹۷۳ کے تحت ریاست کے ذریعے انھیں ایک ایکڑ زمین ’سونپی‘ گئی ہے۔ ’’’تفویض شدہ‘ زمین مالکوں کے مقابلے پٹّہ والے زمین مالکوں کو بہتر پیکیج [نوترقیاتی یافتہ پلاٹ] دیا جا رہا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمیں بھی ان کے جیسا ہی پیکیج ملے،‘‘ مالا برادری کے ۳۸ سالہ دلت کسان، پُلی مٹّیا کہتے ہیں، جن کے پاس اُدّنڈرایونیپالم میں ایک ایکڑ ’تفویض شدہ‘ زمین ہے، جسے انھوں نے ابھی تک لینڈ پولنگ کے لیے نہیں دیا ہے۔
تفویض شدہ زمین کی سالانہ رقم پٹّہ والی زمین جتنی ہی ہے (۳۰ ہزار روپے سے ۵۰ ہزار روپے تک)، لیکن اس کی ایک ایکڑ زمین کے لیے اے پی سی آر ڈی اے نے ۸۰۰ مربع گز کے رہائشی پلاٹ اور ۲۵۰ مربع گز کے کمرشیل پلاٹ تقسیم کیے ہیں۔ اور کرشنا ندی کے جزیروں پر تفویض شدہ زمین کے لیے یہ تقسیم اور بھی کم ہے، ۵۰۰ مربع گز کے رہائشی پلاٹ اور ۱۰۰ مربع گز کے کمرشیل پلاٹ۔
راجدھانی خطہ کے گاؤوں کے زیادہ تر زمین مالک جہاں اپنی زمین سے الگ ہو چکے ہیں، وہیں ۴۰۶۰ کسانوں نے لینڈ پولنگ کے لیے ابھی تک اپنی رضامندی نہیں دی ہے۔ انہی میں سے ایک ہیں ۶۲ سالہ پُلی یونا، جو ادنڈرایونیپالم کوآپریٹو جوائنٹ اسائنڈ فارمرس سوسائٹی کے نائب صدر ہیں، یہ تقریباً ۵۰۰ دلت کسانوں کی ایک تنظیم ہے جو ساتھ مل کر تقریباً ۶۰۰ ایکڑ ’تفویض شدہ‘ زمین پر کھیتی کرتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ۲۹ گاؤوں انتہائی زرخیز کرشنا-گوداوری ڈیلٹا میں واقع ہیں، جو سال بھر کئی فصلوں کی پیداوار کرتے ہیں۔ ’’ہمارے پاس [صرف] ۱۵-۲۰ فیٹ نیچے زیر زمین پانی ہے اور تقریباً ۲۰ سینچائی پروجیکٹ ہیں،‘‘ مٹیا کہتے ہیں۔ ’’یہ کثیر فصلی زمین ہے، جس سے بازاروں کا تعاون ملنے پر اچھا منافع ہوتا ہے۔ لیکن کھاد کی دکانوں کو ۲۰۱۵ میں اے پی سی آر ڈی اے کے ذریعے جبراً بند کرا دیا گیا، اور کھاد و حشرہ کش خریدنے کے لیے ہمیں اب وجے واڑہ اور گنٹور جانا پڑتا ہے۔ سرکار پوری کوشش کر رہی ہے کہ کسانوں اور زراعت کے لیے برے حالات پیدا کیے جائیں، تاکہ وہ ہمیں جبراً باہر نکال سکے۔
زرعی قرض کی کمی بھی کئی چھوٹے کسانوں کو مالی بحران کی جانب دھکیل رہی ہے۔ مئی ۲۰۱۸ میں طوفان آنے کے سبب اپنی ایک ایکڑ زمین پر کیلے کی فصل برباد ہونے کے بعد، یونا کو ۴ لاکھ روپے کا نقصان ہوا اور وہ بینکوں اور ساہوکاروں کے کل ۶ لاکھ روپے کے قرضدار بن گئے۔ کسانوں کے اندازہ کے مطابق، آندھی نے ادنڈرایونیپالم میں تقریباً ۳۰۰ ایکڑ میں فصلوں کو برباد کیا اور تقریباً ۱۰ خاندانوں کو نقصان پہنچایا تھا۔ نتیجتاً، گاؤں کے کئی دیگر لوگوں کی طرح ہی، یونا بھی جولائی سے اکتوبر ۲۰۱۸ کے زرعی موسم میں اپنی زمین پر کھیتی نہیں کر سکے۔ ’’بینکوں نے ۲۰۱۴ سے قرض دینا بند کر دیا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں، ’’اور بینک اہلکاروں کا کہنا ہے کہ سرکار نے انھیں امراوتی راجدھانی خطہ کے گاؤوں کو قرض نہ دینے کا حکم دیا ہے۔‘‘
دریں اثنا، برسراقتدار تیلگو دیشم پارٹی کے کٹر حامی شنکر راؤ نے اس پلاٹ کو ۲ کروڑ روپے میں بیچنے کے بعد کام کرنا بند کر دیا ہے۔ ’’میں سیٹھ کی زندگی جی رہا ہوں۔ مجھے اب مزہ آ رہا ہے۔ کسی بھی سرکاری ملازم کے ریٹائر ہونے سے ۱۰ سال پہلے ہی میں زراعت سے ریٹائر ہو گیا۔‘‘ وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’اس علاقہ میں جس طرح کی ترقی ہو رہی ہے وہ حیران کن ہے۔‘‘
مقامی اخباروں کے مطابق، ’پلاٹ ڈیولپمنٹ کو سمجھنے کے لیے‘، اے پی سی آر ڈی اے نے راجدھانی کے لیے اپنی زمین دینے والے کچھ کسانوں کو سنگاپور کے کئی سفر کرائے ہیں۔ ان میں سے ایک، کمّا کسان بٹّولا ناگ ملّیشور راؤ (۵۹) بھی ہیں، جو ادنڈرایونیپالم میں ۱۵ ایکڑ زمین کے مالک ہیں۔ وہ ستمبر ۲۰۱۷ میں چھ دنوں کے لیے سنگاپور گئے تھے۔ ’’میں امراوتی میں ترقی کو لے کر شک میں مبتلا تھا، لیکن سنگاپور کی ترقی کو دیکھنے کے بعد مجھے یقین ہے کہ امراوتی کو بھی اسی طرز پر تیار کیا جائے گا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
ان کے بیٹے بٹولا تروپتی راؤ (۲۳)، جو ایک آئی ٹی پیشہ ور ہیں اور ایک دہائی کے بعد امریکہ سے لوٹے ہیں، انھیں اتنی امید نہیں ہے۔ ’’میں امراوتی میں کاروبار شروع کرنے کے لیے، مئی ۲۰۱۷ میں لوٹا تھا۔ لیکن تعمیر شروع ہونے کے چار سال بعد بھی یہاں کوئی مناسب بنیادی ڈھانچہ نہیں ہے۔ اس علاقے میں اگر خراب سڑکیں، بجلی میں کٹوتی اور خراب موبائل سگنل ہیں، تو کمپنیاں یہاں اپنی شاخیں کیوں کھولیں گی؟‘‘ وہ پوچھتے ہیں۔ ’’ابھی تک ’میگا ورلڈ کلاس‘ امراوتی صرف کاغذوں اور پاور پوائنٹ پریزنٹیشن میں ہی موجود ہے۔ ہمیں وہاں تک پہنچنے سے پہلے ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ اگر آپ مقامی پس منظر کو شامل کیے بغیر امراوتی کو سنگاپور بنانا چاہتے ہیں، تو یہ بیوقوفی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘
دسمبر ۲۰۱۴ میں، نیشنل الائنس آف پیپلز موومینٹس (این اے پی ایم) کی ایک ٹیم نے راجدھانی خطہ کے گاؤوں کا دورہ کیا۔ ایک سابق آئی اے ایس افسر، ایم جی دیو سہایم، جو ۱۹۶۰ کی دہائی میں چنڈی گڑھ راجدھانی شہر پروجیکٹ کے ایڈمنسریٹر تھے، نے ٹیم کی قیادت کی تھی۔ وہ کہتے ہیں، ’’ریئل اسٹیٹ اقتصادیات کے لیے کسان اقتصادیات کی یہ بربادی مجھے اولیور گولڈ اسمتھ کی ۱۷۷۰ کی ایک دیہی نظم ’ دی ڈیزرٹیڈ ولیج ‘ کی یاد دلاتی ہے۔ نظم کی یہ لائنیں – ’’زمین پر بیماری جوت رہے ہیں، جو تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے / دولت جمع تو ہو رہی ہے، آدمی مرتے جا رہے ہیں‘‘ – امراوتی میں جو کچھ ہو رہا ہے، اسے بیان کرتی ہیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)