’’مجھے ہنسنا نہیں آتا،‘‘ سڑکوں پر اپنے فن کا مظاہرہ
کرنے والی ۱۱ سالہ لکشمی پرساد کہتی ہیں، جو چھتیس گڑھ کے برگاؤں کی رہنے والی ہیں۔
لکشمی، جن کا سایہ آپ خاکہ اور تصویر میں دیکھ رہے ہیں، کا تعلق نٹ برادری سے ہے۔
یہ دلتوں کی ایک جماعت ہے جو رسیوں پر قلابازی میں مہارت رکھنے کی وجہ سے مشہور
ہے۔ لوگوں کے لیے تفریح کا سامان مہیا کرنے والے یہ فنکار دو بڑے کھمبوں کے بیچ
بندھی رسی پر لکڑی کا ایک بڑا ڈنڈا اپنے ہاتھوں میں لے کر چلتے ہیں۔ اس میں زمین
سے کم از کم ۸ یا ۱۰ فٹ اوپر، ۲۵ سے ۳۰ فٹ لمبی رسی باندھی جاتی ہے۔ آٹھ سال تک کی
عمر کے فنکار اپنا پیٹ پالنے کے لیے مختلف ریاستوں کے گاؤوں اور شہروں میں اپنا
ہنر دکھاتے ہیں اور کافی لمبی دوری طے کرکے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں۔ لکشمی
کی فیملی چھتیس گڑھ کے جانجگیر۔چامپا ضلع کے پام گڑھ بلاک میں واقع اپنے گھر کو چھوڑ،
وہاں سے ایک ہزار کلومیٹر دور، مہاراشٹر کے کولہاپور اور سانگلی ضلعوں میں اپنے اس
فن کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ ان کی یہ تصویر کولہاپور کے اِچلکرنجی سے باہر کھینچی گئی
ہے۔
ان کے پاس مسکرانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ ان کا یہ فن، جو کبھی گاؤوں اور شہروں میں لوگوں کی تفریح کا بہترین ذریعہ ہوا کرتا تھا، اب زوال آمادہ ہے۔ وجہ: تفریح کی دوسری قسموں سے مقابلہ، اور معاش کے دوسرے ذرائع تلاش کرنے کی نوجوان نسل کی کوشش۔
لکشمی کو اپنا یہ خطرناک کرتب دن میں کم از کم چھ بار دکھانا پڑتا ہے، ایسا ایک بار کرنے میں انھیں ۴۵ سے ۶۰ منٹ لگتے ہیں۔ آمدنی دیکھنے والوں کے رحم و کرم پر منحصر ہے، جو انھیں اداس کر دیتی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کے باوجود، مجھے پیسوں کے لیے بھیک مانگنی پڑتی ہے۔ لوگ کم از کم ایک روپیہ یا زیادہ سے زیادہ ۱۰ روپے دیتے ہیں – جس سے روزانہ کی آمدنی ۴۰۰ روپے سے بھی کم ہوتی ہے۔‘‘
ان کے والد، بھاگوت پرساد (۳۶) بتاتے ہیں کہ تقریباً ۲۳۰۰ لوگوں کی آبادی والے ان کے گاؤں، برگاؤں میں ۲۰ سے کم لوگ اب بھی رسیوں پر کیے جانے والے اس کرتب کی پریکٹس کر رہے ہیں۔ ’’پہلے، ہر گھر میں کم از کم ایک نٹ فنکار ہوا کرتا تھا۔ آج، گاؤں میں کوئی بھی اس فن کے لیے پیسے نہیں دیتا، اسی لیے ہمیں ہر سال ہزار کلومیٹر دور مہاراشٹر آنا پڑتا ہے۔‘‘
تصویر اور خاکہ: سنکیت جین
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)