جگدیش سونی (۸۰ سال) نے اپنے تین بیٹوں کے ساتھ ۱۵ ایکڑ زمین میں دھان کی بوائی کی تھی، مگر خشک سالی کی وجہ سے پوری فصل برباد ہو گئی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایک دانہ گھر نہیں آیا۔ فیملی کے اوپر ایک لاکھ روپے کا قرض ہے، جسے واپس کرنے کے لیے پھوٹی کوڑی نہیں ہے۔ گھر میں کھانے تک کے لالے پڑ گئے ہیں۔
جب جنوری ۲۰۱۶ میں چھتیس گڑھ حکومت نے ریاست کے خشک سالی سے متاثرہ تمام لوگوں کو معاوضہ دینے کا اعلان کیا تھا، تو ان کے اندر امید پیدا ہوئی تھی کہ ان کی پریشانی تھوڑی کم ہوگی۔ مگر جگدیش سونی کا نام خشک سالی سے متاثرہ کسانوں کی فہرست سے غائب تھا۔
یہ بزرگ کسان افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’پٹواری نہ کھیت گیا، نہ ملنے آیا، اس نے غلط لوگوں کو معاوضہ بانٹا، مرنا تو ہے ہی، وہ سامنے آیا تو گولی مار دوں گا!‘‘
ریاست کی راجدھانی رائے پور سے تقریباً ۲۵ کلومیٹر دور اچھوٹی گاؤں کے سینکڑوں کسانوں کا یہی حال ہے۔ یہاں ۲۰۰ کسانوں میں حکومت نے صرف ۹۹ کو ہی خشک سالی سے راحت کا اہل مانا ہے۔
سرپنچ ہیم ساہو بتاتے ہیں، ’’گاؤں کے پاس سے تاندول نہر نکلتی ہے، لیکن اس سال وقت پر پانی نہیں چھوڑنے سے اچھوٹی سمیت نہر کے کنارے آباد کئی گاؤوں (ناردھا، چیٹوا، مورن مندا، اوٹے بندھ، گوڑی، ملپوری وغیرہ) کے کھیتوں کی فصل ۷۵ فیصد سے زیادہ سوکھ گئی۔‘‘
اس کے باوجود درگ ضلع کی کلکٹر آر سنگیتا یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ سروے میں بڑے پیمانے پر گڑبڑیاں ہوئی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’کچھ لوگوں کے نام شاید چھوٹ گئے ہوں، لیکن سروے کی کارروائی بالکل صحیح ہے۔‘‘
خشک سالی سے خراب ہوئی فصل کے بعد معاوضہ کے تعین اور تقسیم کے کھیل نے ریاست کے کسانوں کی کمر توڑ دی ہے۔ متاثرین کے لیے مختص بجٹ ’اونٹ کے منہ میں زیرہ‘ کی مانند ہے، لیکن اس میں بھی دھاندلیوں کا عالم یہ ہے کہ چوطرفہ شکایتوں کا انبار لگ گیا ہے۔
ریاستی حکومت نے معاوضے کی تقسیم کے لیے ایسی شرطیں بنائیں کہ زیادہ تر خشک سالی سے متاثرہ کسان راحت کی رقم سے باہر ہو گئے۔ مشترکہ خاندانوں میں رہنے والے ۲۵ ایکڑ تک کے کئی چھوٹے کسان خاندانوں کی ۳۰-۲۰ فیصد سے زیادہ فصل خراب ہونے پر بھی ان کا نام راحت پانے والوں کی فہرست میں نہیں ہے۔
ریاست میں ۴۶ء۳۷ لاکھ کسان ہیں جن میں ۸۰ فیصد سے بھی زیادہ چھوٹے کسان ہیں جن کے پاس دو ایکڑ سے بھی کم زمین ہے۔ اسی طرح، چھتیس گڑھ میں ۸۵ء۴۶ لاکھ ہیکٹیئر زرعی زمین ہے جس میں زیادہ تر ۳۰ فیصد کھیتی کی زمین پر ہی سینچائی کی سہولت ہے۔ یعنی ۷۰ فیصد سے زیادہ کسانوں کے پاس سینچائی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ اس میں بھی جن کے پاس سینچائی کے ذرائع تھے، انہوں نے مختلف اسباب سے اپنے کھیت میں دھان کی کھیتی کی سینچائی نہ کر پانے کا دعویٰ کیا تھا۔ مگر حکومت نے اس زمرہ کے کسانوں کو معاوضہ دینے پر کوئی غور ہی نہیں کیا، جب کہ اس سال سوکھے کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح کافی نیچے ہو جانے سے ٹیوب ویل کام نہیں کر رہے تھے۔ وہیں، سینچائی کے دوران بجلی کی سپلائی میں بھی بھاری کٹوتی کی گئی تھی۔
نتیجتاً کئی علاقوں میں بھوک اور نقل مکانی دھیرے دھیرے اپنا پیر پھیلا رہی ہے۔ جن کے نام راحت والی فہرست میں ہیں وہ بھی تاخیر کی وجہ سے پریشان ہو رہے ہیں۔ کسانوں کی فصل خراب ہونے کی وجہ سے ان کی بچت کے تمام پیسے بھی خرچ ہو چکے ہیں۔
درگ میں اچھوٹی گاؤں کے رِکھی رام ساہو بتاتے ہیں، ’’گاؤں کا ہر کسان بھاری قرض میں ڈوبا ہوا ہے۔ کئی کسانوں کے پاس تو اگلے سال بونے کے لیے بیج بھی نہیں ہیں۔ ایسے میں اگلے سال انہیں اپنے کھیت خالی چھوڑنے پڑیں گے۔‘‘ کسانوں کی فصل خراب ہونے کی وجہ سے ان کی بچت کے تمام پیسے بھی خرچ ہو گئے ہیں۔ ظاہر ہے اس سال کی خشکی نے تو کسانوں کی زندگی میں گہرا زخم دیا ہی ہے، ساتھ ہی سرکاری راحت سے بھی انہیں محروم کر دیا گیا ہے۔ حالت یہ ہے کہ کسانوں کے پاس کھیتوں میں بونے تک کے لیے بیج نہیں بچے ہیں۔ اسے دیکھتے ہوئے اگلے سال بوائی کی امید پر بھی پانی پھرتا دکھائی دے رہا ہے۔
راج ناند گاؤں، مہا سمندر، جانجگیر چامپا اور درگ ضلعے کے گاؤوں میں پہنچ کر سرکاری دعووں کی پول کھل جاتی ہے۔ یہاں کسانوں کے چہروں پر فکرمندی، دکھ، بے چینی اور غصہ دکھائی دیتا ہے۔
ریاست کی رمن سنگھ حکومت نے مرکز کی نریندر مودی حکومت سے سوکھا راحت کے لیے چھ ہزار کروڑ روپے مانگے تھے۔ مرکز نے ۱۲ سو کروڑ روپے کا راحت پیکیج مختص کیا۔ ریاستی حکومت نے تقریباً ۸۰۰ کروڑ روپے کی رقم خشک سالی سے متاثرہ کسانوں کو معاوضہ دینے کے لیے رکھی۔
مالیات اور ڈیزاسٹر مینیجمنٹ محکمہ کی مانیں تو ریاست میں معاوضہ کی رقم بانٹنے کا کام پورا ہو چکا ہے اور اس سے زیادہ رقم تقسیم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
محکمہ کے سکریٹری کے آر پسدا کے مطابق، ’’کسی ضلع سے سوکھا راحت کے لیے مزید رقم کی مانگ نہیں آنے کے بعد یہ فیصلہ لیا گیا ہے۔‘‘ محکمہ نے خشک سالی کے متاثرین میں صرف ۳۸۰ کروڑ روپے ہی تقسیم کیے ہیں۔
ماہرین کی رائے میں خشک سالی کے متاثرین کے لیے حکومت کی یہ رقم ویسے ہی بہت کم ہے، اس میں بھی اتنی بندر بانٹ ہوئی ہے کہ ریاست کے لاکھوں اہل کسانوں تک راحت پہنچی ہی نہیں ہے۔ کئی علاقوں میں کسانوں نے لاگت نہ نکلنے کے ڈر سے اپنی فصلوں کو مویشیوں کے حوالے کر دیا ہے۔ اب ایسے کسانوں کو بھی انتظامیہ سوکھا راحت کی فہرست کے قابل نہیں مان رہی ہے۔
کئی ضلعوں میں کسانوں کے ذریعے راحت کی رقم میں گڑبڑیوں کو لے کر احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ کئی کسان تنظیمیں حکومت کے خلاف سڑکوں پر اتر آئی ہیں۔
کسان لیڈر راج کمار گپتا بتاتے ہیں، ’’سوکھا راحت کے لیے مرکز سے ملے ۱۲ سو کروڑ میں سے کسانوں کو صرف ۳۸۰ کروڑ روپے بانٹنے کا مطلب یہ ہے کہ بقیہ ۸۲۰ کروڑ روپے حکومت اپنی جھولی میں ڈالنا چاہتی ہے۔ حکومت نے یہ کمال معاوضہ کی تقسیم میں کئی طرح کی شرطیں جوڑ کر زیادہ تر کسانوں کو متاثرین کی فہرست سے باہر کرکے دکھایا ہے۔‘‘
ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ریاست کے تقریباً دس لاکھ کسانوں کے دھان نہیں بیچنے کے باوجود اگر حکومت دو چار کسانوں کو ہی خشک سالی سے متاثرہ بتا رہی ہے تو یہ اپنے آپ میں ایک بڑا تضاد ہے۔
مشکل کی اس گھڑی میں ریاست کے کسانوں کے سامنے اب سب سے بڑا سوال ہے کہ کیا کھائیں اور کیا کمائیں؟
مہا سمند ضلع کے باگ باہرا، پتھورا، بسنا، جھلپ، سرائے پالی، بھنور پور علاقے کے سینکڑوں خاندان نقل مکانی کر چکے ہیں۔ جانجگیر چامپا میں بلودہ علاقے کے منریگا مزدوروں کو تین مہینے سے پیسے نہیں ملے ہیں۔ یہاں بھی نقل مکانی نے دستک دے دی ہے۔
ہولی کے بعد، یعنی گزشتہ کچھ ہفتوں میں اس علاقے کے ۳۰ سے ۴۰ فیصد گھروں میں تالے لٹکے ہیں۔
مگر ریاست میں مالیات اور ڈیزاسٹر مینیجمنٹ محکمہ کے سکریٹری کے آر پسدا کے مطابق، ’’حکومت نے ہر اہل کسان کو متعینہ پالیسی کے مطابق مناسب معاوضہ دیا ہے۔‘‘ ان کے مطابق، ’’کچھ ضلعوں سے شکایتیں آ رہی ہیں۔ لیکن اس سے نمٹنے کے لیے ضروری ہدایتیں ضلع کلکٹروں کو جاری کر دی گئی ہیں۔‘‘
ماہرین کی رائے میں حکومت کی معاوضہ پالیسی میں ہی کھوٹ ہے۔ اب فصل کٹ گئی ہے، لہٰذا خالی کھیت کو دیکھ کر نقصان کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ ایسے میں سرکاری اہلکار بارش کی حالت اور دھان کی فروخت کی بنیاد پر نقصان کا اندازہ لگا رہے ہیں۔
نقل مکانی کے بارے میں پسدا کا کہنا ہے، ’’ہمارے پاس کسی بھی ضلع سے نقل مکانی کی اطلاع نہیں ملی ہے۔ معمولی سطح کی نقل مکانی تو ہر سال ہوتی ہے۔ مگر اس سال منریگا کے تحت ۱۳ لاکھ مزدوروں نے انتظامیہ سے کام مانگا ہے۔ اس کے علاوہ سوکھا راحت کی اسکیموں کے تحت کئی کام کیے جانے ہیں۔ ان میں پینے کا پانی اور سینچائی کی اسکیموں سے جڑے کاموں کو ترجیح دی جائے گی۔‘‘
چھتیس گڑھ حکومت کے وزیر زراعت برج موہن اگروال کا کہنا ہے، ’’حکومت نے ایڈمنسٹریٹو افسران کو یہ ذمہ داری تھی کہ وہ کسانوں کو راحت کی رقم بانٹیں، شکایتیں تو ملتی ہی ہیں، پھر بھی مجھے لگتا ہے کہ کسانوں میں اسے لے کر زیادہ غصہ نہیں ہے۔‘‘
ماہر زراعت اور ریاست میں عام آدمی پارٹی کے ریاستی کنوینر سنکیت ٹھاکر کہتے ہیں، ’’حکومت خشک سالی سے نمٹنے کے نام پر معاوضہ بانٹنے کا دکھاوا کرکے اپنی ذمہ داری سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔ راحت کے لیے ضروری رقم بہت ہی کم ہے اور اس میں بھی جم کر بد انتظامی ہو رہی ہے۔‘‘
ٹھاکر کے مطابق، ’’کسانوں کو اس وقت خصوصی تحفظ دینے کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ طبقہ غریب ہے، مجبوری میں مہاجرت کر رہا ہے، حالات زیادہ بگڑے تو یہ خود کشی بھی کرنے لگے گا۔ انہیں محض منریگا کے بھروسے نہیں چھوڑا جا سکتا ہے۔‘‘
یہ اسٹوری راجستھان پتریکا کے رائے پور، چھتیس گڑھ ایڈیشن میں ۲۹ فروری، ۲۰۱۶ کو شائع ہوئی۔
مترجم: محمد قمر تبریز