’’بیس سال پہلے – جب نالے صاف تھے – پانی شیشے کی طرح شفاف ہوا کرتا تھا۔ گرے ہوئے سکّے [ندی کی تلی میں] کو اوپر سے دیکھا جا سکتا تھا۔ ہم سیدھے یمنا سے پانی پی سکتے تھے،‘‘ ماہی گیر رمن ہلدر کہتے ہیں، جو اپنی بات پر زور دینے کے لیے اپنے ہاتھ سے چلّو بنا کر اسے گندے پانی میں ڈالتے ہیں، پھر اسے اپنے منھ تک لاتے ہیں۔ ہمیں عجیب سا منھ بناتے ہوئے دیکھ، وہ شرمیلی ہنسی کے ساتھ اسے اپنی انگلیوں کے درمیان سے نیچے گر جانے دیتے ہیں۔

آج کی یمنا میں، پلاسٹک، لپیٹنے والے فوائل، کوڑا کرکٹ، اخبار، مردہ نباتات، کنکریٹ کے ملبے، کپڑوں کے ٹکڑے، کیچڑ، سڑے ہوئے کھانے، بہتے ہوئے ناریل، کیمیاوی فوم اور جل کُمبھی راجدھانی کے اس شہر کی اشیاء اور خیالی کھپت کی ایک سیاہ تصویر پیش کرتی ہیں۔

یمنا کا محض ۲۲ کلومیٹر (یا بمشکل ۱ء۶ فیصد) حصہ قومی راجدھانی خطہ سے ہوکر بہتا ہے۔ لیکن اتنے چھوٹے سے حصے میں جتنا کچرا اور زہر آکر گرتا ہے، وہ ۱۳۷۶ کلومیٹر لمبی اس ندی کی کل آلودگی کا ۸۰ فیصد ہے۔ اسے تسلیم کرتے ہوئے، نیشنل گرین ٹربیونل (این جی ٹی) کی نگرانی کمیٹی کی ۲۰۱۸ کی رپورٹ میں دہلی کی ندی کو ’سیور لائن‘ قرار دے دیا گیا۔ اس کے نتیجہ میں پانی میں آکسیجن کی شدید کمی سے بڑے پیمانے پر مچھلیوں کی موت ہو جاتی ہے۔

پچھلے سال، دہلی میں ندی کے جنوبی حصہ کے کالندی کُنج گھاٹ پر ہزاروں مچھلیاں مردہ پائی گئیں، اور ندی کے دہلی والے حصے میں دیگر آبی زندگی تقریباً ایک سالانہ واقعہ بن گئی ہے۔

’’ندی کے حیاتیاتی نظام کو برقرار رہنے کے لیے محلول آکسیجن (پانی میں آکسیجن کی مقدار) کی سطح ۶ یا اس سے زیادہ ہونی چاہیے۔ مچھلی کے زندہ رہنے کے لیے محلول آکسیجن کی یہ سطح ۴-۵ ہونی چاہیے۔ یمنا کے دہلی والے حصے میں، یہ سطح صفر سے ۰ء۴ کے درمیان ہے،‘‘ پرینک ہیرانی کہتے ہیں، جو شکاگو یونیورسٹی میں ٹاٹا سینٹر فار ڈیولپمنٹ کے واٹر-ٹو-کلاؤڈ پروجیکٹ کے ڈائرکٹر ہیں۔ یہ پروجیکٹ ندیوں کی حقیقی آلودگی کا خاکہ تیار کرتا ہے۔

PHOTO • People's Archive of Rural India

’وہاں کوئی مچھلی نہیں ہے [کالندی کُنج گھاٹ پر]، پہلے بہت ہوتی تھی۔ اب صرف دو چار کیٹ فِش ہی بچی ہیں‘، رمن ہلدر (درمیان میں) کہتے ہیں

دہلی میں ندی کے شمال مشرقی رام گھاٹ پر گھاس والے ایک حصہ میں مچھلی پکڑنے کے جال کے بغل میں بیٹھے، ۵۲ سالہ ہلدر اور ان کے دو دوست مزے سے سگریٹ پی رہے ہیں۔ ’’میں تین سال پہلے کالندی کنج گھاٹ سے یہاں آیا تھا۔ وہاں کوئی مچھلی نہیں ہے، پہلے بہت ہوا کرتی تھی۔ اب صرف دو چار کیٹ فِش ہی بچی ہیں۔ ان میں سے کافی کچھ گندی ہیں اور ایلرجی، دانے، بخار اور دست کا سبب بنتی ہیں،‘‘ وہ ہاتھ سے بنے ہوئے ایک جال کو کھولتے ہوئے کہتے ہیں، جو دور سے سفید بادل کے ایک ٹکڑے جیسا نظر آتا ہے۔

پانی کی گہرائی میں رہنے والی دیگر انواع کے برعکس، کیٹ فِش سطح پر تیرنے اور سانس لینے کے قابل ہے – اور اسی لیے دوسروں کے مقابلہ زیادہ بہتر طریقے سے زندہ رہتی ہے۔ اس حیاتیاتی نظام کے شکاری زہرآلود پانی میں رہنے والی مچھلیوں کو کھانے سے اپنے جسم میں زہریلی اشیاء کو جمع کر لیتے ہیں، دہلی میں مقیم ماہر بحریات دِویہ کرناڈ بتاتی ہیں۔ ’’تو یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ کیٹ فِش – ایک مردہ خور – کو کھانے والے لوگوں پر اس کا اثر پڑتا ہے۔‘‘

*****

ہندوستان میں تقریباً ۸۷ فیصد مچھلی پکڑنے کا امکان ۱۰۰ میٹر گہرے پانی میں دستیاب ہے، ان امور پر سرگرم غیر منافع بخش گروپ، ریسرچ کلیکٹو کے ذریعے شائع کردہ Occupation of the Coast: the Blue Economy in India کا کہنا ہے۔ ان میں سے اکثر تک ملک کی ماہی گیر برادریوں کی رسائی ہے۔ یہ صرف غذا کو ہی نہیں، بلکہ روزمرہ زندگی اور ثقافتوں کو بھی فروغ دیتی ہے۔

’’اب آپ ماہی گیروں کی چھوٹی سی اقتصادیات کو بھی توڑ رہے ہیں،‘‘ نیشنل پلیٹ فارم فار اسمال اسکیل فِش ورکرز (اِن لینڈ) (NPSSFWI) کے سربراہ پردیپ چٹرجی کہتے ہیں۔ ’’وہ مقامی مچھلی کی سپلائی مقامی بازاروں میں کرتے ہیں، اور اگر آپ کو نہ ملے، تو آپ دور کے کسی مقام سے مچھلی لائیں گے، دوبارہ ٹرانسپورٹ کا استعمال کریں گے، جو بحران میں اضافہ کرتا ہے۔‘‘ زیر زمین پانی کی طرف منتقلی کا مطلب ہے ’’مزید توانائی کا استعمال کرنا، جس کے نتیجہ میں آبی سائیکل کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہوتی ہے۔‘‘

اس کا مطلب ہے، وہ بتاتے ہیں، ’’آبی ذخائر متاثر ہوں گے، اور ندیاں پانی سے دوبارہ نہیں بھر پائیں گی۔ پھر بھی اسے ٹھیک کرنے اور ندی سے صاف، پینے لائق پانی حاصل کرنے کے لیے، روایتی ذرائع سے زیادہ توانائی کی ضرورت ہوگی۔ اس طرح، ہم قدرت پر مبنی اقتصادیات کو جبراً توڑ رہے ہیں، اور محنت، غذا اور پیداوار کو کارپوریٹ سائیکل میں ڈال رہے ہیں جس میں توانائی اور سرمایہ لگتا ہے... دریں اثنا، ندیوں کو ابھی بھی کچرے پھینکنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔‘‘

صنعتیں جب ندی میں فضلے چھوڑتی ہیں، تو اس کا پتہ سب سے پہلے ماہی گیروں کو لگتا ہے۔ ’’ہم بدبو سے بتا سکتے ہیں، اور جب مچھلیاں مرنے لگتی ہیں،‘‘ ۴۵ سالہ منگل ساہنی کہتے ہیں، جو ہریانہ – دہلی سرحد پر واقع پلّا میں رہتے ہیں، جہاں سے یمنا راجدھانی میں داخل ہوتی ہے۔ ساہنی، بہار کے شیوہر ضلع میں اپنی ۱۵ رکنی فیملی کا پیٹ پالنے کو لیکر فکرمند ہیں۔ ’’لوگ ہمارے بارے میں لکھ رہے ہیں، لیکن ہماری زندگی میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے، بلکہ یہ اور بدتر ہو چکی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں، اور ہمیں خارج کر دیتے ہیں۔

When industries release effluents into the river, fisherfolk are the first to know. 'We can tell from the stench, and when the fish start dying', remarks 45-year-old Mangal Sahni, who lives at Palla, on the Haryana-Delhi border, where the Yamuna enters the capital
PHOTO • Shalini Singh
Palla, on the Haryana-Delhi border, where the Yamuna enters the capital
PHOTO • Shalini Singh

’صنعتیں جب ندی میں فضلے چھوڑتی ہیں، تو اس کا پتہ سب سے پہلے ماہی گیروں کو لگتا ہے۔ ’’ہم بدبو سے بتا سکتے ہیں، اور جب مچھلیاں مرنے لگتی ہیں،‘ ۴۵ سالہ منگل ساہنی (بائیں) کہتے ہیں، جو ہریانہ – دہلی سرحد پر واقع پلّا میں رہتے ہیں، جہاں سے یمنا راجدھانی میں داخل ہوتی ہے (دائیں)

سینٹرل میرین فشریز ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، روایتی طور پر سمندری مچھلی پکڑنے والی برادریوں کے ۴۰ لاکھ لوگ ہندوستان کے سمندری ساحلوں پر پھیلے ہوئے ہیں، جو تقریباً ۸ء۴ لاکھ کنبوں سے ہیں۔ لیکن اس سے شاید ۷-۸ گُنا لوگ مچھلی پکڑنے کی اقتصادیات سے جڑے ہیں یا اس پر منحصر ہیں۔ اور، NPSSFWI کے چٹرجی کہتے ہیں کہ، وہ ۴۰ لاکھ لوگ درون ملکی ماہی گیر ہو سکتے ہیں۔ عشروں سے، لاکھوں لوگ کل وقتی یا منظم سرگرمی کے طور پر مچھلی پکڑنے کا کام چھوڑ رہے ہیں۔ ’’تقریباً ۶۰-۷۰ فیصد سمندری ماہی گیر دوسرے کاموں کی طرف رخ کر رہے ہیں، کیوں کہ یہ برادری زوال پذیر ہے،‘‘ چٹرجی کہتے ہیں۔

لیکن، شاید راجدھانی میں ماہی گیروں کا ہونا ایک عجیب بات ہے، اس لیے یمنا کے دہلی والے حصے میں کتنے ماہی گیر ہیں، اس کا نہ تو کوئی ریکارڈ ہے اور نہ ہی کوئی شائع شدہ ڈیٹا۔ اس کے علاوہ، ساہنی جیسے کئی مہاجر ہیں، جن کا شمار کرنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ زندہ بچے ماہی گیر اس بات سے ضرور اتفاق کرتے ہیں کہ ان کی تعداد گھٹ رہی ہے۔ لانگ لیو یمنا تحریک کی قیادت کرنے والے ریٹائرڈ وائلڈ لائف آفیسر، منوج مشرا کو لگتا ہے کہ آزادی سے پہلے کے ہزاروں کل وقتی ماہی گیروں میں سے اب سو سے بھی کم بچے ہیں۔

’’یمنا سے ماہی گیروں کا غائب ہونا اس بات کی علامت ہے کہ ندی مر چکی ہے یا مر رہی ہے۔ وہ اس بات کے اشارے ہیں کہ ابھی کیا صورتحال ہے،‘‘ ریسرچ کلیکٹو کے سدھارتھ چکرورتی کہتے ہیں۔ اور جو چل رہا ہے، ’’وہ ماحولیاتی بحران میں مزید اضافہ کر رہا ہے، جس میں انسانوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ حیاتیاتی تنوع ماحولیات کو دوبارہ زندگی بخشتا ہے، لیکن یہ عمل رک گیا ہے،‘‘ چکرورتی کہتے ہیں۔ نتیجتا، یہ لائف سائیکل کو متاثر کر رہا ہے، اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے کہ عالمی سطح پر کاربن کے اخراج کا ۴۰ فیصد حصہ سمندروں کے ذریعے جذب کر لیا جاتا ہے۔‘‘

*****

دہلی میں ۴۰ فیصد سیور کنکشن نہیں ہونے کے سبب، بے شمار ٹن انسانی فضلے اور دیگر مواد سیپٹک ٹینکوں اور دیگر ذرائع سے، پانی میں بہا دیے جاتے ہیں۔ این جی ٹی کا کہنا ہے کہ ۱۷۹۷ (غیر قانونی) کالونیوں میں سے ۲۰ فیصد سے بھی کم میں سیور کی پائپ لائنیں تھیں، ’’رہائشی علاقوں میں ۵۱۸۳۷ صنعتیں غیر قانونی طریقے سے چل رہی ہیں، جن کے فضلے سیدھے نالوں میں گرتے ہیں اور آخر میں ندی میں چلے جاتے ہیں۔‘‘

موجودہ بحران کو ایک ندی کی موت کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے، انسانی سرگرمیوں کے پیمانے، پیٹرن اور اقتصادیات سے اس کے تعلق کے سیاق و سباق میں۔

اب چونکہ بہت کم مچھلی پکڑ میں آ رہی ہے، اس لیے ماہی گیروں کی آمدنی بھی تیزی سے گھٹنے لگی ہے۔ پہلے، مچھلی پکڑنے سے ان کی کافی کمائی ہو جاتی تھی۔ ہنرمند ماہی گیر کبھی کبھی ایک مہینے میں ۵۰ ہزار روپے تک کما لیتے تھے۔

رام گھاٹ پر رہنے والے ۴۲ سالہ آنند ساہنی، نوجوانی میں بہار کے موتیہاری ضلع سے دہلی آئے تھے۔ ’’میری کمائی ۲۰ سال میں آدھی ہو گئی ہے۔ اب ایک دن میں مجھے ۱۰۰-۲۰۰ روپے ملتے ہیں۔ مجھے اپنی فیملی چلانے کے لیے دیگر طریقے کھوجنے پڑتے ہیں – مچھلی کا کام اب مستقل نہیں رہا،‘‘ وہ مایوسی سے کہتے ہیں۔

تقریباً ۳۰-۴۰ ملاح فیملی – یا ماہی گیر اور کشتی چلانے والی برادری – یمنا سے کم آلودہ مقام، رام گھاٹ پر رہتی ہے۔ وہ کچھ مچھلیاں تو اپنے کھانے کے لیے رکھ لیتے ہیں، باقی کو سونیا وہار، گوپال پور اور ہنومان چوک جیسے ارد گرد کے بازاروں میں (مچھلی کی انواع کی بنیاد پر) ۵۰-۲۰۰ روپے فی کلو میں بیچتے ہیں۔

PHOTO • People's Archive of Rural India

رام گھاٹ پر رہنے والے آنند ساہنی کہتے ہیں، ’مجھے اپنی فیملی چلانے کے لیے دیگر طریقے کھوجنے پڑتے ہیں – مچھلی کا کام اب مستقل نہیں رہا‘

*****

بارش اور درجہ حرارت میں اتار چڑھاؤ کے ساتھ ماحولیاتی بحران یمنا کے مسئلہ کو اور بڑھاتا ہے، تیرواننت پورم واقع ماحولیاتی صلاح کار، ڈاکٹر رادھا گوپالن کہتی ہیں۔ پانی کی مقدار اور معیار سے سمجھوتہ اور ماحولیاتی تبدیلی کی غیر یقینیت مسئلہ کو اور بڑھا دیتی ہے، جس سے پکڑی جانے والی مچھلی کے معیار اور مقدار میں بھاری گراوٹ آ رہی ہے۔

’’آلودہ پانی کے سبب مچھلیاں مر جاتی ہیں،‘‘ ۳۵ سالہ سنیتا دیوی کہتی ہیں؛ ان کے ماہی گیر شوہر نریش ساہنی یومیہ مزدوری ڈھونڈنے باہر گئے ہوئے ہیں۔ ’’لوگ آتے ہیں اور تمام طرح کے کچرے پھینک کر چلے جاتے ہیں، آج کل خاص طور سے پلاسٹک۔‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ مذہبی تقریبات کے دوران لوگ پکے ہوئے کھانے بھی پھینک دیتے ہیں جیسے کہ پوڑی، جلیبی اور لڈو، جس سے ندی کی سڑاند بڑھ رہی ہے۔

اکتوبر ۲۰۱۹ میں، ۱۰۰ سے زیادہ سالوں میں پہلی بار، دہلی میں دُرگا پوجا کے دوران مورتیوں کو پانی میں ڈبونے پر پابندی لگا دی گئی تھی، این جی ٹی کی اس رپورٹ کے بعد کہ اس طرح کی سرگرمیاں ندی کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا رہی ہیں۔

مغلوں نے ۱۶ویں اور ۱۷ویں صدی میں دہلی کو اپنا دارالحکومت بنایا تھا، اس پرانی کہاوت کو سچ کرتے ہوئے کہ شہر بنانے کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں: ’دریا، بادل، بادشاہ۔‘ ان کے آبی نظام، جسے ایک طرح سے فن کی ایک شکل تصور کیا جاتا تھا، آج تاریخی کھنڈرات کی شکل میں موجود ہے۔ انگریزوں نے ۱۸ویں صدی میں پانی کو محض ایک وسیلہ سمجھا، اور یمنا سے دوری بنانے کے لیے نئی دہلی کی تعمیر کی۔ مرورِ زمانہ کے ساتھ آبادی میں بے پناہ اضافہ ہوا اور شہرکاری ہونے لگی۔

دہلی کے ماحولیات کی کہانیاں (Narratives of the Environment of Delhi) نامی کتاب ( انڈین نیشنل ٹرسٹ فار آرٹ اینڈ کلچرل ہیریٹیج کے ذریعے شائع) میں پرانے لوگ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیسے، ۱۹۴۰ سے ۱۹۷۰ کے عشروں کے درمیان، دہلی کے اوکھلا علاقے میں مچھلی پکڑنا، کشتی بانی، تیراکی اور سیرو تفریح زندگی کا ایک حصہ ہوا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ گنگا کی ڈالفن مچھلی کو بھی اوکھلا بیراج سے آگے کے بہاؤ میں دیکھا گیا تھا، جب کہ ندی میں پانی کم ہونے پر کچھوے ندی کے کنارے آکر دھوپ سینکتے تھے۔

’’یمنا کا خطرناک طور پر زوال ہوا ہے،‘‘ آگرہ کے ماہر ماحولیات، برج کھنڈیلوال کہتے ہیں۔ اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے ذریعے گنگا اور یمنا ندیوں کو ۲۰۱۷ میں زندہ ہستی قرار دیے جانے کے فوراً بعد، کھنڈیلوال نے اپنے شہر میں سرکاری افسروں کے خلاف ’قتل کی کوشش‘ کا معاملہ درج کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کا الزام ہے: وہ یمنا کو دھیما زہر دے کر مار رہے تھے۔

اس درمیان، مرکزی حکومت ملک بھر میں آبی گزرگاہوں کو بندرگاہوں سے جوڑنے کے لیے ساگر مالا پروجیکٹ شروع کر رہی ہے۔ لیکن ’’اگر بڑی مال بردار کشتیوں کو ندی کے ساحلی علاقوں میں لایا جاتا ہے، تو یہ ندیوں کو دوبارہ آلودہ کریں گی،‘‘ NPSSFWI کے چٹرجی وارننگ دیتے ہیں۔

Pradip Chatterjee, head of the National Platform for Small Scale Fish Workers
PHOTO • Aikantik Bag
Siddharth Chakravarty, from the Delhi-based Research Collective, a non-profit group active on these issues
PHOTO • Aikantik Bag

بائیں: نیشنل پلیٹ فارم فار اسمال اسکیل فِش ورکرز (اِن لینڈ) کے سربراہ، پردیپ چٹرجی۔ دائیں: دہلی واقع ان امور پر سرگرم ایک غیر منافع بخش گروپ، ریسرچ کلیکٹو کے سدھارتھ چکرورتی

Last year, thousands of fish were found dead at the Kalindi Kunj Ghat on the southern stretch of the Yamuna in Delhi
PHOTO • Shalini Singh

پچھلے سال دہلی میں یمنا کے جنوبی کنارے پر واقع کالندی کُنج گھاٹ پر ہزاروں مچھلیاں مری ہوئی ملیں

*****

ہلدر اپنی فیملی میں ماہی گیروں  کی آخری نسل ہیں۔ وہ مغربی بنگال کے مالدہ کے شہری ہیں، جو مہینے میں ۱۵-۲۰ دن رام گھاٹ پر رہتے ہیں اور باقی دن نوئیڈا میں اپنے ۲۵ اور ۲۷ سالہ دو بیٹوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔ ان میں سے ایک موبائل ٹھیک کرتا ہے اور دوسرا انڈے کے رول اور موموز بیچتا ہے۔ ’’بچے کہتے ہیں کہ میرا پیشہ پرانا ہو چکا ہے۔ میرا چھوٹا بھائی بھی ماہی گیر ہے۔ یہ ایک روایت ہے – بارش ہو یا دھوپ – ہمیں صرف یہی کام آتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ کسی اور طریقے سے میں کیسے زندہ رہ پاؤں گا...‘‘

’’اب جب کہ مچھلی پکڑنے کے ذرائع خشک ہو چکے ہیں، تو وہ کیا کریں گے؟‘‘ ڈاکٹر گوپالن پوچھتی ہیں؟ ’’ظاہر ہے، مچھلی ان کے لیے بھی غذائیت کا ایک ذریعہ ہے۔ ہمیں ان کو سماجی-حیاتیاتی نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیے، جس میں اقتصادی پہلو بھی شامل ہو۔ ماحولیاتی تبدیلی میں، یہ الگ الگ چیزیں نہیں ہو سکتی ہیں: آپ کو آمدنی کا تنوع اور حیاتیاتی نظام کا تنوع بھی چاہیے۔‘‘

دریں اثنا، سرکار عالمی سطح پر ماحولیاتی بحران کے بارے میں بات کر رہی ہے، جس کے تحت ایکسپورٹ کے لیے ماہی گیری کی پالیسیاں بنانے کی پرزور کوشش ہو رہی ہے، ریسرچ کلیکٹو کے چکرورتی کہتے ہیں۔

ہندوستان نے ۲۰۱۷-۱۸ میں ۴ء۸ بلین ڈالر قیمت کا جھینگا ایکسپورٹ کیا تھا۔ چکرورتی کہتے ہیں کہ یہ ایک غیر ملکی قسم کی مچھلی تھی – میکسیکو کے پانی کا پیسفک وہائٹ جھینگا۔ ہندوستان اس مونوکلچر میں شامل ہے کیوں کہ ’’امریکہ میں میکسیکن جھینگے کی زبردست مانگ ہے۔‘‘ ہمارے جھینگا ایکسپورٹ کا صرف ۱۰ فیصد حصہ بلیک ٹائیگر جھینگے کا ہے، جسے ہندوستانی پانی میں آسانی سے پکڑ لیا جاتا ہے۔ ہندوستان بایو ڈائیورسٹی کے نقصان کو گلے لگا رہا ہے، جو بدلے میں، ذریعہ معاش کو متاثر کرتا ہے۔ ’’اگر ایکسپورٹ مائل پالیسی اپنائی جائے گی، تو یہ مہنگی ہوگی اور مقامی غذائیت اور ضروریات کو پورا نہیں کر پائے گی۔‘‘

مستقبل سیاہ ہونے کے باوجود، ہلدر کو ابھی بھی اپنے ہنر پر فخر ہے۔ مچھلی پکڑنے والی کشتی کی قیمت ۱۰ ہزار روپے اور جال کی قیمت ۳-۵ ہزار روپے کے درمیان ہے، ایسے میں وہ ہمیں مچھلی پکڑنے کے لیے فوم، مٹی اور رسّی کے استعمال سے اپنے ذریعے بنائے گئے جال دکھاتے ہیں۔ اس جال سے وہ ایک دن میں ۵۰-۱۰۰ روپے تک کی مچھلی پکڑ لیتے ہیں۔

۴۵ سالہ رام پرویش آج کل بانس اور دھاگے کا، ایک پنجرے جیسا ڈھانچہ استعمال کرتے ہیں، جس سے وہ ۱-۲ کلوگرام مچھلی پکڑ سکتے ہیں۔ ’’ہم نے اسے اپنے گاؤں میں بنانا سیکھا تھا۔ دونوں طرف [گیہوں کے] آٹے کا چارہ لٹکا کر پنجرے کو پانی میں ڈالا جاتا ہے۔ کچھ گھنٹوں کے اندر، مچھلی کی چھوٹی قسم، پُٹھی ، پھنس جاتی ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ساؤتھ ایشیا نیٹ ورک آن ڈیمس، ریورس اینڈ پیوپل کے ساتھ کام کرنے والے ایک مقامی کارکن، بھیم سنگھ راوت کہتے ہیں کہ پُٹھی یہاں کی سب سے عام مچھلی ہے۔ ’’ چلوا اور بچھوا کی تعداد اب کافی کم ہو گئی ہے، جب کہ بام اور ملّی تقریباً نایاب ہو چکی ہیں۔ مانگور [کیٹ فِش] آلودگی والے حصے میں ملتی ہے۔‘‘

'We are the protectors of Yamuna', declares Arun Sahni
PHOTO • Shalini Singh
Ram Parvesh with his wife and daughter at Ram Ghat, speaks of the many nearly extinct fish varieties
PHOTO • Shalini Singh

’ہم یمنا کے محافظ ہیں‘، ارون ساہنی (بائیں) کہتے ہیں۔ رام گھاٹ پر اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ رام پرویش (دائیں) مچھلیوں کی کئی نایاب ہو چکی قسموں کے بارے میں بتاتے ہیں

’’ہم یمنا کے محافظ ہیں،‘‘ ۷۵ سالہ ارون ساہنی مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، جو چار دہائی قبل بہار کے ویشالی ضلع سے اپنی فیملی کو چھوڑ کر دہلی آئے تھے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ۱۹۸۰-۹۰ کی دہائی میں وہ ایک دن میں ۵۰ کلوگرام تک مچھلی پکڑ سکتے تھے، جس میں روہو، چِنگڑی، ساؤل اور ملّی جیسی قسمیں شامل تھیں۔ اب ایک دن میں مشکل سے ۱۰ کلو، یا زیادہ سے زیادہ ۲۰ کلو ہی مل پاتی ہے۔

اتفاق سے، یمنا کا تاریخی سگنیچر برِج – جو قطب مینار سے دو گنا اونچا ہے – جسے رام گھاٹ سے دیکھا جا سکتا ہے – تقریباً ۱۵۱۸ کروڑ روپے کی لاگت سے بنایا گیا تھا۔ دوسری طرف، ۱۹۹۳ سے اب تک یمنا کی ’صفائی‘ میں، بغیر کسی کامیابی کے ۱۵۱۴ کروڑ روپے سے زیادہ رقم خرچ کی جا چکی ہے۔

این جی ٹی نے وارننگ دی ہے کہ ’’...افسروں کی ناکامی شہریوں کی زندگی اور صحت کو متاثر کر رہی ہے اور ندی کے وجود کو خطرے میں ڈال رہی ہے، اور گنگا ندی کو بھی متاثر کر رہی ہے۔‘‘

ڈاکٹر گوپالن کہتی ہیں، ’’پالیسی کی سطح پر مسئلہ یہ ہے کہ یمنا ایکشن پلان [جو ۱۹۹۳ میں بنایا گیا تھا] کو صرف تکنیکی نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے‘‘ ندی کو ایک اکائی یا حیاتیاتی نظام کے طور پر دیکھے بنا۔ ’’ندی آبگیرہ یا طاس کا ایک عمل ہے۔ دہلی یمنا کے لیے ایک طاس ہے۔ آپ طاس کو صاف کیے بغیر ندی کو صاف نہیں کر سکتے۔‘‘

ماہی گیر ہماری کوئلہ کان کے رازدار ہیں، ماہر بحریات دِویہ کرناڈ کہتی ہیں۔ ’’ہم یہ کیسے نہیں دیکھ سکتے کہ بھاری دھات مرکزی اعصابی نظام کے ٹوٹنے کا سبب بنتی ہے؟ اور پھر یہ نہیں دیکھ سکتے کہ سب سے آلودہ ندیوں میں سے ایک کے ارد گرد کے علاقوں سے زیر زمین پانی نکالنے کا ہماری عصبی صحت پر اثر پڑ رہا ہے؟ ماہی گیر جو کنارے پر ہیں، اس تعلق کو، اور سب سے فوری اثر کو دیکھ رہے ہیں۔‘‘

’’میرے سکون کا یہ آخری لمحہ ہے،‘‘ طلوع آفتاب کے کافی دیر بعد اپنا جال ڈالنے کے لیے تیار، ہلدر مسکراتے ہیں۔ اپنا آخری جال ڈالنے کا بہترین وقت رات ۹ بجے کے آس پاس اور اس میں پھنسی مچھلی کو نکالنے کا وقت طلوع آفتاب ہے، وہ کہتے ہیں۔ اس طرح سے ’’مری ہوئی مچھلی تازہ ہوگی۔‘‘

موسمیاتی تبدیلی پر پاری کی ملک گیر رپورٹنگ، عام لوگوں کی آوازوں اور زندگی کے تجربہ کے توسط سے اس واقعہ کو ریکارڈ کرنے کے لیے یو این ڈی پی سے امداد شدہ پہل کا ایک حصہ ہے۔

اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم [email protected] کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی [email protected] کو بھیج دیں۔

(مترجم: ڈاکٹر محمر قمر تبریز)

Reporter : Shalini Singh

शालिनी सिंह, काउंटरमीडिया ट्रस्ट की एक संस्थापक ट्रस्टी हैं, जो पारी को संचालन करती है. वह दिल्ली में रहने वाली पत्रकार हैं और पर्यावरण, जेंडर और संस्कृति से जुड़े मुद्दों पर लिखती हैं. उन्हें हार्वर्ड विश्वविद्यालय की ओर से पत्रकारिता के लिए साल 2017-2018 की नीमन फ़ेलोशिप भी मिल चुकी है.

की अन्य स्टोरी शालिनी सिंह
Editor : P. Sainath

पी. साईनाथ, पीपल्स ऑर्काइव ऑफ़ रूरल इंडिया के संस्थापक संपादक हैं. वह दशकों से ग्रामीण भारत की समस्याओं की रिपोर्टिंग करते रहे हैं और उन्होंने ‘एवरीबडी लव्स अ गुड ड्रॉट’ तथा 'द लास्ट हीरोज़: फ़ुट सोल्ज़र्स ऑफ़ इंडियन फ़्रीडम' नामक किताबें भी लिखी हैं.

की अन्य स्टोरी पी. साईनाथ
Series Editors : P. Sainath

पी. साईनाथ, पीपल्स ऑर्काइव ऑफ़ रूरल इंडिया के संस्थापक संपादक हैं. वह दशकों से ग्रामीण भारत की समस्याओं की रिपोर्टिंग करते रहे हैं और उन्होंने ‘एवरीबडी लव्स अ गुड ड्रॉट’ तथा 'द लास्ट हीरोज़: फ़ुट सोल्ज़र्स ऑफ़ इंडियन फ़्रीडम' नामक किताबें भी लिखी हैं.

की अन्य स्टोरी पी. साईनाथ
Series Editors : Sharmila Joshi

शर्मिला जोशी, पूर्व में पीपल्स आर्काइव ऑफ़ रूरल इंडिया के लिए बतौर कार्यकारी संपादक काम कर चुकी हैं. वह एक लेखक व रिसर्चर हैं और कई दफ़ा शिक्षक की भूमिका में भी होती हैं.

की अन्य स्टोरी शर्मिला जोशी
Translator : Qamar Siddique

क़मर सिद्दीक़ी, पीपुल्स आर्काइव ऑफ़ रुरल इंडिया के ट्रांसलेशन्स एडिटर, उर्दू, हैं। वह दिल्ली स्थित एक पत्रकार हैं।

की अन्य स्टोरी Qamar Siddique