بھرت راؤت کو اپنے حصے کا پانی لانے کے لیے ہر مہینہ پٹرول پر ۸۰۰ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ تقریباً یہی حال مہاراشٹر کے عثمان آباد ضلع کے تاک ویکی گاؤں میں رہنے والے دوسرے لوگوں کا ہے۔ تاک ویکی (اور دوسرے گاؤوں) کے تقریباً ہر گھر کے ایک فرد کا بس ایک ہی کام ہے: پانی لے کر آنا، چاہے جہاں سے ملے۔ عثمان آباد میں سڑکوں پر چلنے والی ہر گاڑی آپ کو پانی لے جاتی ہوئی نظر آئے گی۔ ان میں سائیکل، بیل گاڑی، موٹر بائک، جیپ، لاری، کار اور ٹینکر سبھی شامل ہیں۔ اور، عورتیں اپنے سروں، کمر اور کندھوں پر گھڑے میں پانی لے جاتی ہوئی دکھائی دیں گی۔ قحط سالی نے ان سب کو زندہ رہنے کے لیے اس کام پر مجبور کر دیا ہے۔ لیکن، کچھ لوگ منافع کے لیے یہ کام کر رہے ہیں۔
عثمان آباد کی سڑکوں پر چلتی ہوئی ہر گاڑی آپ کو کہیں نہ کہیں پانی لے جاتی ہوئی نظر آئے گی
ساڑھے پانچ ایکڑ زمین پر کھیتی کرنے والے ایک چھوٹے سے کسان، بھرت کہتے ہیں، ’’جی ہاں، ہر گھر نے ایک آدمی کو پانی کے فُل ٹائم کام پر لگا رکھا ہے۔‘‘ وہ مزید بتاتے ہیں، ’’میں وہ پانی لاتا ہوں، جو ہمارے کھیتوں میں بنے کنویں سے کبھی کبھار نکلتا ہے۔ لیکن، وہ ہمارے گھر سے تین کلومیٹر دور ہے۔‘‘ لہٰذا، بھرت اپنی ہیرو ہونڈا بائک پر پلاسٹک کے چار گھڑے باندھتے ہیں اور اپنے کھیتوں کا ایک دن میں تین چکّر لگاتے ہیں اور ہر بار ۶۰ لیٹر پانی لے کر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں وہاں کنووں میں موجود صرف تھوڑا سا پانی لانے کے لیے جاتا ہوں۔ فصلیں بھی سوکھ رہی ہیں۔‘‘ اس گاؤں میں کل ۲۵ موٹر سائیکلیں ہیں، جو ہر وقت اسی کام میں لگی رہتی ہیں۔
تاک ویکی گاؤں میں پلاسٹک کے گھڑوں کے ساتھ بھرت راؤت۔ وہ انھیں اپنی ہیرو ہونڈا بائک پر باندھ کر اپنی فیملی کے لیے پانی لائیں گے
چونکہ ایک چکّر چھ کلومیٹر کا ہے، لہٰذا بھرت کو ہر دن ۲۰ کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑتا ہے، یعنی ایک مہینہ میں ۶۰۰ کلومیٹر۔ صرف اس کام کے لیے انھیں ۱۱ لیٹر تک پٹرول خرچ کرنا پڑتا ہے، جس کی قیمت ہے تقریباً ۸۰۰ روپے۔ اجے نتورے، جو سرکار کے قبضے والے پانی کے ایک وسیلہ کا دورہ کرتے ہیں، بتاتے ہیں، ’’ہر ہفتے پانی کا وقت بدل جاتا ہے۔ اس ہفتے بجلی صبح ۱۰ بجے سے شام کے ۶ بجے تک رہے گی، اس لیے ہمیں پانی انھیں وقتوں میں ملے گا۔ اگلے ہفتے یہ وقت بدل کر آدھی رات سے صبح کے ۱۰ بجے تک ہو جائے گا۔‘‘ وہ اپنی سائیکل پر پلاسٹک کے سات گھڑے رکھ کر دو۔ تین کلومیٹر کا چکّر لگاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے انھیں دو بار مقامی ہسپتال بھی جانا پڑا ۔ ’’اس سے آپ کے کندھے زخمی ہو جاتے ہیں۔‘‘
بے زمین کامگاروں کو اپنے مالکوں سے جھگڑنا پڑتا ہے۔ جھامبھر یادو بتاتے ہیں، ’’کسی دن آپ دیر سے آتے ہیں۔ کسی دن آ ہی نہیں پاتے۔ اس کی وجہ سے مویشیوں کو چارہ کھلانے میں دیر ہو جاتی ہے، جو کہ ٹھیک نہیں ہے۔ اور یہ سب پچھلے پانچ مہینوں سے چل رہا ہے۔‘‘ جھامبھر آج صبح کو اپنے چھ گھڑوں کے ساتھ پہلے ہی دو چکّر لگا چکے ہیں۔
لیکن ان کی کوششیں تاک ویکی کی عورتوں کے سامنے ماند پڑ جاتی ہیں، جو روزانہ پیدل ہی کئی چکّر لگاتی ہیں اور اپنے ساتھ دو یا تین گھڑے لے کر چلتی ہیں۔ ’’اس کام میں روزانہ ۱۰۔۸ گھنٹے لگتے ہیں۔‘‘ یہ باتیں انھوں نے پانی کے ایک ذخیرہ کے پاس بتائیں، جہاں وہ پانی لینے آئی ہیں۔ انھوں نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ وہ اس پانی کو کیسے بار بار استعمال کرتی ہیں۔ ’’سب سے پہلے ہم اسے نہانے میں استعمال کرتے ہیں۔ اس کے بعد ہم اسی پانی کو کپڑا دھونے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے بعد اخیر میں برتن دھونے کے لیے۔‘‘ عورتیں پیدل چل کر جتنی دوری طے کرتی ہیں، وہ اکثر مردوں کے ذریعہ موٹر سائیکلوں سے طے کی گئی دوری سے زیادہ ہوتی ہے۔ وہ ایک دن میں کہیں زیادہ چکّر لگاتی ہیں اور روزانہ ۱۵ سے ۲۰ کلومیٹر کی دوری طے کرتی ہیں۔ اس تناؤ کی وجہ سے ان میں سے زیادہ تر بیمار بھی پڑ جاتی ہیں۔
تاک ویکی کی عورتیں بتا رہی ہیں کہ وہ کیسے پانی کو بار بار استعمال کرتی ہیں۔ ’’ سب سے پہلے ہم اسے نہانے میں استعمال کرتے ہیں۔ اس کے بعد ہم اسی پانی سے کپڑے دھوتے ہیں اور سب سے اخیر میں اس سے اپنے برتن دھوتے ہیں۔ ‘‘
پھول ونتی بائی ڈھیپے کی حالت کچھ زیادہ ہی خستہ ہے۔ وہ ایک دلت ہیں اور اسی لیے انھیں پانی کے کئی ذخائر کے پاس جانے کی ممانعت ہے۔ خود سرکاری قبضے والے پانی کے ذخیرہ پر، جہاں سے وہ پانی بھرتی ہیں، ’’مجھے قطار میں سب سے آخری جگہ ملتی ہے۔‘‘
پانی کی قلت کا شکار وہاں کے مویشیوں کو بھی بننا پڑ رہا ہے۔ سریش وید پاٹھک، جن کے پاس پانی اور چارے کی کمی ہے، بتاتے ہیں، ’’جو لوگ میری طرح دودھ بیچتے ہیں، ان کی حالت کافی خراب ہے۔ میری گائیں بیمار ہیں اور میں بھی۔ میں دودھ بیچ کر روزانہ ۳۰۰ روپے کما لیتا تھا۔ اب دودھ کم ہوجانے کی وجہ سے میری کمائی میں ایک تہائی کی کمی ہو گئی ہے۔‘‘
تاک ویکی عثمان آباد میں کھڑی کی گئی پریشانی کی مثال ہے۔ گاؤں میں چار ہزار سے کم لوگ رہتے ہیں، لیکن سینچائی کے لیے یہاں شاید ڈیڑھ ہزار کنویں ہیں۔ بھرت راؤت کے مطابق، ’’اب جو کنویں کھودے جا رہے ہیں، وہ ۵۵۰ فیٹ یا اس سے زیادہ کی گہرائی پر کھودے جاتے ہیں۔‘‘۔ اور خشک سالی والے اس علاقے کی بنیادی فصل گنّا ہے۔ عثمان آباد کے کلکٹر کے ایم ناگرگوجے کہتے ہیں، ’’پچھلے موسم میں صرف ۳۹۷ ملی میٹر ہی بارش ہوئی، جب کہ اوسطاً یہاں ۷۶۷ ملی میٹر بارش ہوا کرتی تھی۔ کل ملا کر ۸۰۰ ملی میٹر بارش کم نہیں ہوتی ہے۔ اور بعض علاقوں میں تو یہ بارش ۴۰۰ ملی میٹر ن رہی۔‘‘
لیکن، آپ ۸۰۰ ملی میٹر بارش پر بھی منحصر نہیں رہ سکتے اگر آپ کے گنّے کی پیداوار ۲۶ لاکھ میٹرک ٹن ہو۔ یہ وہ فصل ہے، جسے فی ایکڑ ۱۸۰ لاکھ لیٹرس پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ (اتنے پانی سے ساڑھے سات اولپمک پولس کو بھرا جا سکتا ہے۔) ایسے کسانوں کی تعداد بہت کم ہے، جو ڈرِپ سسٹم کے ذریعہ پانی بچاکر اس پر اس پر گزارہ کرتے ہیں، تاک ویکی میں ایسے کسان گنے چنے ہیں۔
کلکٹر ناگر گوجے کو سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ گراؤنڈ واٹر ڈپارٹمنٹ میں کام کرنے کی وجہ سے وہ اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ ضلع کے پانی کے سبھی پروجیکٹ، چاہے وہ چھوٹے ہوں یا بڑے، سب میں پانی تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ پانی کی سطح اس سے نیچے جا چکی ہے، جہاں سے اسے پمپ کرکے باہر نکالا جا سکے یا اُس پر کنٹرول کیا جا سکے۔ ایسے میں تھوڑا سا بھی پانی بچاکر رکھنا فائدہ مند ہوتا ہے۔ انھوں نے ضلع کے ایک چھوٹے پروجیکٹ میں تقریباً ۳۴ لاکھ ۵۰ ہزار میٹرک کیوبک فیٹ پانی بچا کر رکھا ہوا ہے۔ ۱۷ لاکھ لوگوں کے اس ضلع میں یہ پانی بہت زیادہ دنوں تک باقی نہیں رہ پائے گا۔ ان کے پاس دو قصبوں اور ۷۸ گاؤوں کو دینے کے لیے پانی کے ۱۶۹ ٹینکرس ہیں۔ وہ بھی ایک ایسے ضلع میں، جہاں سینچائی کے لیے بڑی تعداد میں پرائیویٹ کنویں کھودے جا رہے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’’اس سال جنوری میں گراؤنڈ واٹر ٹیبل تقریباً ۷۵۔۱۰ میٹر تھا۔ یعنی، اس خطہ میں پانچ سالوں کے اوسط سے پانچ میٹر نیچے۔ کچھ بلاکوں میں تو یہ اس سے بھی نیچے ہے۔‘‘ وہ اس بات کو لے کر پرامید ہیں کہ ضلع کے پاس اتنا پانی ہے کہ وہ اس سے اس سال اپنا گزارہ کر لے گا۔ لیکن، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ فصل کا جو پیٹرن ہے، اس سے اگلے سال کا ان کا منصوبہ پورا نہیں ہو پائے گا۔
تاک ویکی میں جیسے جیسے لوگوں کی آمدنی میں کمی ہو رہی ہے، ویسے ویسے ان کا قرض بڑھ رہا ہے۔ سنتوش یادو تفصیل بتاتے ہوئے کہتے ہیں، ’’یہاں پر ساہوکاری (پیسہ قرض دینے) کا ریٹ ہر سو روپے پر ہر ماہ ۵ سے ۱۰ روپے کے بیچ ہے۔‘‘ (یعنی سالانہ ۶۰ سے ۱۲۰ فیصد۔) خود یادو کی فیملی نے اپنے کھیتوں میں پائپ لائن بچھانے میں تقریباً ۱۰ لاکھ روپے خرچ کیے، جن میں سے سبھی اب خشک ہو چکے ہیں۔ اور گرمی کا موسم اب زیادہ دور نہیں ہے۔ یادو سوال کرتے ہیں، ’’اس کے بارے میں کون سوچ سکتا ہے؟ ہمارا سارا زور آج پر ہوتا ہے۔ ہم ایک وقت میں صرف ایک دن کا انتظام کر سکتے ہیں۔‘‘
عثمان آباد کے گاؤوں کی ہر گلی میں لوگ سارا وقت پانی جمع کرنے میں ہی لگے رہتے ہیں
لیکن قحط کی وجہ سے جہاں ایک طرف بہت سارے لوگ جینے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، وہیں کئی ایسے ہیں، جن کا کاروبار پانی کی کمی سے پھل پھول رہا ہے۔ اسے ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔ بھارتی تھاولے نام کی سماجی کارکن کہتی ہیں، ’’ہم سارا دن سیل فون پر یہ پتہ لگانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ ان لوگوں سے پانی کیسے خریدا جائے، جن کے پاس اپنے کنویں یا کوئی دوسرے ذرائع ہیں۔ میں نے ان پانی بیچنے والوں میں سے ایک کے ساتھ سودا کیا تھا۔ اسے ۱۲۰ روپے میں مجھے ۵۰۰ لیٹر پانی دینا تھا۔ لیکن تبھی کسی نے اسے اس کی قیمت ۲۰۰ روپے ادا کرنے کی پیشکش کی، لہٰذا اس نے وہ پانی اسے بیچ دیا۔ بعد میں کئی بار فون کرنے کے بعد، آخرکار اس نے اگلی رات کو ۹ بجے مجھے اتنا پانی دیا، جتنے کی مجھے ضرورت تھی۔‘‘ اس کے بعد سے وہ اپنے پڑوسی سے پانی خریدتی ہیں۔
پانی کا یہ کاروبار پورے ضلع میں چوبیسوں گھنٹے تیزی سے چلتا رہتا ہے۔ قلت کی وجہ سے قیمت بڑھتی جا رہی ہے۔ سرکار نے پانی کے ۷۲۰ کنووں کا مطالبہ کیا ہے۔ وہ ان میں سے ہر کنویں کے مالک کو ماہانہ ۱۲ ہزار روپے ادا کرتی ہے۔ ان کنووں کا پانی عوام کو مفت ملتا ہے۔ لیکن، اس کے لیے دور دراز کا سفر اور لمبی لائن خوفناک ہو سکتی ہے۔ اس کا مطلب ہے پروائیویٹ لوگوں کی حکومت۔ ان کے ساتھ، آپ ہر لیٹر پر مول ملائی کرتے ہیں۔ یہ قیمت ۵۰۰ لیٹر کے لیے ۲۰۰ روپے سے اوپر بھی جا سکتی ہے۔ اگر آپ کم مقدار میں خریدتے ہیں، تو ریٹ اور بھی ہائی ہو سکتا ہے۔ آنے والے دنوں میں حالت اور بھی خراب ہو سکتی ہے۔ ہر کالونی میں اب کوئی نہ کوئی کنویں والا یا پانی کے کسی اور ذخیرہ کا مالک ہوتا ہے اور وہ اس قلت کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ یہاں پانی پیسے کی طرح بہتا ہے۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)