اگست ۲۰۲۰ میں، اپنے دوسرے بچے کی پیدائش کے بعد انجنی یادو میکے آ گئی تھیں۔ وہ ابھی تک اپنے سسرال واپس نہیں لوٹی ہیں۔ ۳۱ سالہ انجنی اپنے دونوں بچوں کے ساتھ اب اپنے میکے میں رہتی ہیں۔ ان کا میکہ بہار کے گیا ضلع میں بودھ گیا بلاک کے بکرور گاؤں میں ہے۔ وہ اپنے شوہر کے گاؤں کا نام بتانا نہیں چاہتیں، حالانکہ وہاں سے ان کا سسرال آدھے گھنٹے سے بھی کم دوری پر ہے۔

’’سرکاری اسپتال میں جب میں نے اپنے دوسرے بچے کو جنم دیا تھا، اس کے دو دنوں کے بعد ہی میری بھابھی نے مجھ سے کھانا بنانے اور صفائی کرنے کو کہا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے بھی بچے کے جنم کے بعد گھر آنے پر ساری ذمہ داریاں اٹھائی تھیں۔ وہ مجھ سے دس سال بڑی ہیں۔ زچگی کے دوران میرے جسم میں خون کی کافی کمی ہو گئی تھی۔ یہاں تک کہ بچے کی پیدائش سے پہلے ہی میری نرس نے مجھ سے کہا تھا کہ میرے جسم میں خون کی کافی زیادہ کمی [اینیمیا کا سنگین مسئلہ] ہے اور مجھے پھل اور سبزیاں کھانی چاہئیں۔ اگر میں اپنے سسرال میں رکی ہوتی، تو میری طبیعت اور زیادہ بگڑ جاتی۔‘‘

نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (این ایف ایچ ایس۔۵) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، گزشتہ پانچ سالوں میں زیادہ تر ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں بچوں اور عورتوں میں اینیمیا، یعنی جسم میں خون کی کمی کا مسئلہ کافی سنگین ہو گیا ہے۔

انجنی بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر، ۳۲ سالہ سکھی رام گجرات کے سورت میں ایک کپڑا مل میں کام کرتے ہیں۔ وہ پچھلے ڈیڑھ سالوں سے گھر نہیں آئے ہیں۔ انجنی کے مطابق، ’’وہ میری زچگی کے دوران گھر آنے والے تھے، لیکن ان کی کمپنی نے انہیں نوٹس دیا تھا کہ اگر وہ دو دن سے زیادہ کی چھٹی لیں گے، تو انہیں نوکری سے نکال دیا جائے گا۔ کورونا وبائی مرض کے بعد معاشی، جذباتی اور صحت کی سطح پر ہم غریبوں کی حالت اور بھی زیادہ خراب ہو گئی ہے۔ اس لیے، میں یہاں اکیلے ہی ساری چیزوں کا سامنا کر رہی تھی۔‘‘

انہوں نے پاری کو بتاتے ہوئے کہا، ’’اس لیے مجھے وہاں سے بھاگنا پڑا، کیوں کہ ان کی غیر موجودگی میں حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے تھے۔ زچگی کے بعد صحت کی دیکھ بھال کا تو چھوڑئے، گھر کے کاموں یا بچے کو سنبھالنے میں کوئی بھی کسی طرح کی مدد نہیں کرتا تھا۔‘‘ انجنی یادو کو ابھی بھی خون کی سخت کمی ہے، ویسے ہی جیسے ریاست کی لاکھوں عورتیں اینیمیا کی شکار ہیں۔

این ایف ایچ ایس۔۵ کی رپورٹ کے مطابق، بہار کی ۶۴ فیصد عورتیں اینیمیا کی شکار ہیں۔

کورونا وبائی مرض کے سلسلے میں ۲۰۲۰ کی گلوبل نیوٹریشن رپورٹ کے مطابق، ’’ہندوستان نے عورتوں کے جسم میں خون کی کمی کے مسئلہ کو کم کرنے کے اپنے ہدف میں کوئی پیش رفت نہیں کی ہے، اور ملک کی ۱۵ سے ۴۹ سال کی تقریباً ۵۱ اعشاریہ ۴ فیصد عورتیں اینیمیا کی شکار ہیں۔‘‘

PHOTO • Jigyasa Mishra

انجنی یادو پچھلے سال اپنے دوسرے بچے کی پیدائش کے بعد سے ہی اپنے میکے میں رہ رہی ہیں۔ سسرال میں انہیں کسی طرح کی مدد اور دیک بھال نہیں مل رہی تھی، اور ان کے شوہر دوسرے شہر میں رہتے ہیں

چھ سال پہلے اپنی شادی کے بعد، انجنی بھی زیادہ تر ہندوستانی شادی شدہ عورتوں کی طرح، پاس کے ہی گاؤں میں واقع اپنے سسرال چلی گئیں۔ ان کے شوہر کی فیملی میں ان کے والدین، دو بڑے بھائی، ان کی بیویاں اور ان کے بچے تھے۔ ۸ویں کلاس کے بعد انجنی کی پڑھائی اور ۱۲ویں کے بعد ان کے شوہر کی پڑھائی چھوٹ گئی تھی۔

این ایف ایچ ایس۔۵ کے مطابق، بہار میں ۱۵-۱۹ سال کی نوجوان لڑکیوں میں شرح افزائش ۷۷ فیصد ہے۔ ریاست کی تقریباً ۲۵ فیصد خواتین کا وزن اوسط سے کافی کم ہے۔ اور سروے کے مطابق، ۱۵ سے ۴۹ سال کی ۶۳ فیصد سے زیادہ حاملہ عورتیں اینیمیا کی شکار ہیں۔

انجنی، بکرور میں واقع میکے میں اپنی ماں، بھائی، ان کی بیوی اور ان کے دو بچوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ جب کہ ان کے ۲۸ سالہ بھائی ابھشیک، گیا شہر میں ایک ڈیلیوری بوائے کے طور پر کام کرتے ہیں، وہیں ان کی ماں ایک گھریلو ملازمہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’کل ملا کر، ہماری پوری فیملی کی ماہانہ آمدنی ۱۵ ہزار روپے ہے۔ حالانکہ، کسی کو میرے یہاں رہنے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں ان کے سر پر اضافی بوجھ بن گئی ہوں۔‘‘

انجنی بتاتی ہیں، ’’میرے شوہر سورت میں اپنے تین رفقائے کار کے ساتھ ایک کمرے میں رہتے ہیں۔ میں انتظار کر رہی ہوں کہ وہ اتنا پیسہ بچا سکیں کہ ہم سورت میں اپنا الگ کمرہ کرایے پر لے کر ساتھ رہ سکیں۔‘‘

*****

انجنی کہتی ہیں، ’’آئیے، میں آپ کو اپنی دوست کے پاس لے کر چلتی ہوں، اس کی ساس نے بھی اس کا جینا محال کر دیا ہے۔‘‘ انجنی کے ساتھ، میں ان کی دوست گڑیا کے گھر گئی۔ اصل میں، وہ اس کے شوہر کا گھر ہے۔ ۲۹ سالہ گڑیا چار بچوں کی ماں ہیں۔ ان کا سب سے چھوٹا بچہ لڑکا ہے، لیکن ان کی ساس انہیں نس بندی نہیں کرانے دے رہی ہیں کیوں کہ وہ چاہتی ہیں کہ گڑیا ایک اور بیٹا پیدا کرے۔ گڑیا، جو اپنے نام کے ساتھ عرفی نام کا استعمال نہیں کرتی ہیں، دلت برادری سے تعلق رکھتی ہیں۔

این ایف ایچ ایس۔۵ کے مطابق، پچھلے پانچ سالوں میں ملک کی کئی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں عورتوں اور بچوں میں خون کی کمی کا مسئلہ بہت بڑھ گیا ہے

گڑیا نے پاری کو بتاتے ہوئے کہا، ’’تین لڑکیوں کے بعد میری ساس مجھ سے ایک بیٹا چاہتی تھیں۔ اس کے بعد جب مجھے ایک بیٹا پیدا ہو گیا، تو مجھے لگا کہ میری زندگی اب آسان ہو جائے گی۔ لیکن میری ساس کا کہنا ہے کہ تین بیٹیاں پیدا کرنے کے بعد مجھے کم از کم دو بیٹے پیدا کرنے چاہئیں۔ وہ مجھے نس بندی نہیں کرانے دے رہی ہیں۔‘‘

۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق، بچوں کے تناسب کے معاملے میں گیا ضلع کا بہار میں تیسرا مقام ہے۔ صفر سے ۶ سال تک کی عمر کے بچوں میں ریاست کا اوسط، ۹۳۵، کے مقابلے ضلع کا تناسب ۹۶۰ ہے۔

گڑیا، ٹن اور اسبستوس کی چھت والے دو کمروں کے مکان میں رہتی ہیں، جس کی دیواریں مٹی کی ہیں اور اس میں بیت الخلاء نہیں ہے۔ ان کے شوہر، ۳۴ سالہ شو ساگر، ان کی ماں، اور ان کے بچے اسی چھوٹے سے گھر میں رہتے ہیں۔ شو ساگر ایک مقامی ڈھابہ پر ہیلپر کا کام کرتے ہیں۔

محض ۱۷ سال کی عمر میں گڑیا کی شادی ہو گئی تھی اور وہ کبھی اسکول کا منہ نہیں دیکھ پائی تھیں۔ انہوں نے ہمیں بتاتے ہوئے کہا، ’’میں اپنی فیملی کی پانچ بیٹیوں میں سب سے بڑی تھی۔ میرے والدین مجھے اسکول بھیجنے کے لائق نہیں تھے۔ لیکن میری دو بہنوں اور اکلوتے بھائی، جو ہم میں سب سے چھوٹا ہے، کو اسکولی تعلیم حاصل ہوئی ہے۔‘‘

گڑیا کے گھر کا بڑا کمرہ سامنے ایک تنگ گلی (جو صرف چار فٹ چوڑی ہے) میں کھلتا ہے، اور سامنے کی طرف سے پڑوسی کے گھر سے بالکل سٹا ہوا ہے۔ کمرے کی دیوار پر دو اسکول بیگ ٹنگے ہوئے ہیں، جس میں ابھی تک کتابیں بھڑی پڑی ہیں۔ گڑیا بتاتی ہیں، ’’یہ میری بڑی بیٹیوں کی کتابیں ہیں۔ ایک سال سے انہوں نے ان کتابوں کو ہاتھ تک نہیں لگایا ہے۔‘‘ دس سال کی خوشبو اور آٹھ سال کی ورشا لگاتار پڑھائی میں پیچھے ہوتی جا رہی ہیں۔ کورونا وبائی مرض کے سبب ملک گیر لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد سے ہی اسکول ابھی تک بند ہیں۔‘‘

PHOTO • Jigyasa Mishra

گڑیا کی ساس نے انہیں نس بندی کرانے سے روک رکھا ہے، کیوں کہ وہ چاہتی ہیں کہ گڑیا ایک اور بیٹا پیدا کرے

گڑیا کہتی ہیں، ’’کم از کم میرے دو بچوں کو دن میں ایک بار مڈ ڈے میل میں بھر پیٹ کھانا مل جاتا تھا۔ لیکن، اب ہم سب بڑی مشکل سے اپنا گزارہ کر پا رہے ہیں۔‘‘

اسکول بند ہونے کے سبب ان کے گھر کھانے پینے کی تنگی ہو گئی ہے۔ ان کی دونوں بیٹیوں کو اب مڈ ڈے میل کا کھانا نہیں مل پا رہا ہے، تو گھر پر ان کے کھانے پینے کو لے کر کافی مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔ انجنی کی فیملی کی طرح ہی، گڑیا کی فیملی کا ذریعہ معاش مستقل نہیں ہے اور نہ ہی کسی طرح کا غذائی تحفظ ملا ہوا ہے۔ ان کی سات رکنی فیملی، ان کے شوہر کی عارضی نوکری سے ملنے والی ۹۰۰۰ روپے کی ماہانہ آمدنی پر منحصر ہے۔

۲۰۲۰ کی گلوبل نیوٹریشن رپورٹ کے مطابق، ’’غیر روایتی معاشی شعبہ کے ملازم خاص طور پر نازک حالت میں ہیں، کیوں کہ ان میں سے زیادہ تر کی رسائی پیداواری اثاثوں تک نہیں ہے اور ان کے پاس کسی قسم کا سماجی تحفظ نہیں ہے اور وہ معیاری طبی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران آمدنی کے وسائل کھو دینے کے سبب، کئی ملازم اپنا اور اپنی فیملی کا خرچ نہیں اٹھا پا رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر لوگوں کے لیے آمدنی کے نہ ہونے کا مطلب بھوکا رہنا ہے یا آدھا پیٹ کھانا اور غذائیت سے سمجھوتہ ہے۔‘‘

گڑیا کی فیملی اس رپورٹ میں دکھائی گئی غریبی کی تصویر کا کھلا ثبوت ہے۔ انہیں مفلسی کے ساتھ ساتھ ذات پر مبنی بھید بھاؤ اور پس ماندگی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے شوہر کی نوکری غیر محفوظ ہے اور ان کی فیملی کسی بھی قسم کی طبی سہولت سے محروم ہے۔

*****

غروب آفتاب کے ساتھ بودھ گیا کے موسہر ٹولہ (محلہ) میں، زندگی حسب معمول چلتی رہتی ہے۔ دن کا اپنا سارا کام ختم کرکے برادری کی عورتیں ایک جگہ اکٹھا ہو چکی ہیں، اور وہ بچوں یا ایک دوسرے کے سر سے جوئیں نکال رہی ہیں، اور آپس میں بات چیت کر رہی ہیں۔ یہ برادری درج فہرست ذات میں سب سے نچلے پائیدان پر آتی ہے۔

سبھی اپنے چھوٹے سے گھر کے دروازے کی چوکھٹ یا اس کے سامنے بیٹھی ہوئی ملتی ہیں، جو ایک بہت ہی تنگ گلی میں واقع ہے اور اس کے دونوں طرف کھلی ہوئی نالیاں بہتی ہیں۔ ۳۲ سالہ مالا دیوی کہتی ہیں، ’’اوہ، موسہر ٹولہ کے بارے میں لوگ ایسے ہی تو بتاتے ہیں نا؟ ہمیں سوروں اور کتوں کے ساتھ رہنے کی عادت ہے۔‘‘ مالا دیوی کئی سالوں سے یہاں رہ رہی ہیں۔ ان کی عمر محض ۱۵ سال تھی، جب وہ شادی کرکے یہاں اس بستی میں رہنے آئی تھیں۔

۴۰ سال کے ان کے شوہر للّن آدیباسی، گیا ضلع کے ایک پرائیویٹ کلینک میں صفائی ملازم ہیں۔ مالا کہتی ہیں کہ ان کے پاس نس بندی کرانے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا اور وہ اب سوچتی ہیں کہ کاش انہیں چار کی بجائے صرف ایک بچہ ہی ہوتا۔

ان کا سب سے بڑا بیٹا شمبھو ۱۶ سال کا ہے اور صرف وہی ہے جس کا اسکول میں داخلہ کرایا گیا ہے۔ شمبھو ابھی نویں کلاس میں ہے۔ مالا دیوی تقریباً سوال پوچھنے کے لہجہ میں کہتی ہیں، ’’میں اپنی بیٹیوں کو تیسری کلاس سے آگے پڑھا نہیں سکی۔ للن کی مہینے بھر کی آمدنی صرف ۵۵۰۰ روپے ہے اور ہم ۶ لوگ ہیں۔ آپ کو کیا لگتا ہے، اتنے میں ہم سبھی کا خرچ پورا ہو جائے گا؟‘‘ مالا کا سب سے بڑا بچہ بھی بیٹا ہے اور سب سے چھوٹا بچہ بھی۔ دونوں بیٹیاں منجھلی ہیں۔

PHOTO • Jigyasa Mishra

مالا دیوی کہتی ہیں کہ ان کے پاس نس بندی کرانے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، اور وہ اب سوچتی ہیں کہ کاش انہیں چار کی بجائے صرف ایک بچہ ہی ہوتا

یہاں بھی اسکولوں کے بند ہونے کے سبب، ٹولہ کے جو بچے اسکول جاتے تھے، وہ اب گھروں میں بند ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ مڈ ڈے میل کے کھانے کا نہ ملنا اور مفلسی کا بڑھ جانا۔ یہاں تک کہ اچھے دنوں میں بھی اس برادری کے بہت کم بچے اسکول جاتے ہیں۔ سماجی بدگمانی، تفریق، اور معاشی دباؤ کا مطلب ہے کہ دیگر برادریوں کے مقابلے بڑی تعداد میں موسہر بچوں، خاص کر لڑکیوں کی اسکولی تعلیم بہت پہلے ہی چھوٹ جاتی ہے۔

۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق، بہار میں موسہر آبادی ۲۷ لاکھ ۲۰ ہزار ہے۔ درج فہرست ذاتوں میں دُسادھ اور چمار کے بعد، موسہر تیسرے نمبر پر ہیں۔ ریاست کی ایک کروڑ ۶۵ لاکھ دلت آبادی کا چھٹواں حصہ موسہروں کا ہے، لیکن وہ بہار کی کل آبادی کا صرف ۲ اعشاریہ ۶ فیصد ہیں (۲۰۱۱)۔

آکسفیم کی ۲۰۱۸ کی ایک رپورٹ کے مطابق، ’’تقریباً ۹۶ اعشاریہ ۳ موسہروں کے پاس کوئی زمین نہیں ہے اور ان کی آبادی کا ۹۲ اعشاریہ ۵ فیصد حصہ زرعی مزدور کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ برادری، جسے بڑی ذات کے ہندو ابھی تک اچھوت سمجھتے ہیں، ۹ اعشاریہ ۸ فیصد کی شرح خواندگی کے ساتھ ملک بھر کی دلت برادریوں میں سب سے پیچھے ہے۔ برادری کی عورتوں میں شرح خواندگی تقریباً ۱-۲ فیصد ہے۔

جس بودھ گیا میں گوتم بدھ کو روحانی علم حاصل ہوا، وہاں شرح خواندگی اتنی کم ہے۔

مالا پوچھتی ہیں، ’’ہمیں تو گویا صرف بچے پیدا کرنے اور انہیں کھلانے کے لیے بنایا گیا ہے، لیکن بغیر پیسے کے ہم یہ سب کیسے سنبھالیں؟‘‘ وہ اپنے سب سے چھوٹے بچہ کو پچھلی رات کا بچا ہوا باسی چاول ایک کٹورے میں نکال کر کھانے کو دیتی ہیں۔ ان کی مجبوری غصہ کی شکل میں نکل پڑتی ہے اور وہ اپنے بچہ کو ڈانٹتے ہوئے کہتی ہیں، ’’ابھی میرے پاس تمہارے لیے بس یہی ہے۔ کھاؤ یا بھوکے رہو۔‘‘

PHOTO • Jigyasa Mishra
PHOTO • Jigyasa Mishra

بائیں: اپنے شوہر کی موت کے بعد، شیبانی اپنے گزارہ کے لیے شوہر کے بھائی پر منحصر ہیں۔ دائیں: بودھ گیا کے موسہر ٹولہ کی عورتیں شام ہونے پر، تنگ گلی میں واقع اپنے گھروں کے باہر ایک ساتھ بیٹھتی ہیں

عورتوں کے اس گروپ میں ۲۹ سالہ شیبانی آدیباسی بھی بیٹھی ہیں۔ پھیپھڑے کے کینسر سے شوہر کی موت ہونے کے بعد، وہ آٹھ لوگوں کی فیملی والے گھر میں اپنے دو بچوں اور شوہر کی فیملی کے ساتھ رہتی ہیں۔ ان کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، اس لیے وہ گزارہ کے لیے اپنے شوہر کے بھائی پر منحصر ہیں۔ شیبانی نے پاری کو بتاتے ہوئے کہا، ’’میں اس سے الگ سے میرے اور میرے بچوں کے لیے سبزی، دودھ اور پھل لانے کو نہیں کہہ سکتی۔ وہ جو بھی ہمیں کھانے کو دیتا ہے، ہم اسی میں مطمئن رہتے ہیں۔ اکثر ہمیں مانڑ۔بھات (نمک کے ساتھ پکا ہوا گیلا چاول) پر گزارہ کرنا ہوتا ہے۔‘‘

آکسفیم کی رپورٹ بتاتی ہے، ’’بہار کی موسہر آبادی کا تقریباً ۸۵ فیصد حصہ کم غذائیت سے دوچار ہے۔‘‘

بہار کے دیگر علاقوں کی بے شمار دلت عورتیں اور مالا اور شیبانی کی کہانیوں میں بس ذرا سا ہی فرق ہے۔

بہار کی درج فہرست ذاتوں کی تقریباً ۹۳ فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ ریاست کے تمام ضلعوں میں سے، گیا میں دلت آبادی سب سے زیادہ، یعنی تقریباً ۳۰ اعشاریہ ۳۹ فیصد ہے۔ موسہر، ریاست کی ’مہا دلت‘ کی فہرست میں آتے ہیں، جو درج فہرست ذاتوں میں سب سے زیادہ غریب برادریوں کی فہرست ہے۔

سماجی اور معاشی بنیاد پر دیکھیں، تو کچھ حد تک انجنی، گڑیا، مالا اور شیبانی الگ الگ پس منظر سے آتی ہیں۔ لیکن ان سبھی میں کچھ چیزیں یکساں ہیں: اپنے جسم، اپنی صحت، اور اپنی زندگی پر ان کا ذرا بھی کنٹرول نہیں ہے۔ الگ الگ سطحوں پر ہی سہی، لیکن وہ سبھی مفسلی کا سامنا کر رہی ہیں۔ انجنی، زچگی کے اتنے مہینے گزر جانے کے بعد بھی اینیمیا کی شکار ہیں۔ گڑیا نس بندی کرانے کا خیال چھوڑ چکی ہیں۔ مالا اور شیبانی بہت پہلے سے ہی زندگی کی بہتری کی ساری امیدیں چھوڑ چکی ہیں – اب زندہ رہنا ہی سب سے مشکل ثابت ہو رہا ہے۔

اس مضمون میں شامل لوگوں کی رازداری برقرار رکھنے کے لیے ان کے نام بدل دیے گئے ہیں۔

پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گروہوں کی حالت کا پتا لگایا جا سکے۔

اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم [email protected] کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی [email protected] کو بھیج دیں۔

جگیاسا مشرا ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن سے ایک آزاد صحافتی گرانٹ کے توسط سے صحت عامہ اور شہریوں کی آزادی پر رپورٹ کرتی ہیں۔ ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن نے اس رپورٹ کے مواد پر کوئی ادارتی کنٹرول نہیں کیا ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Jigyasa Mishra

जिज्ञासा मिश्रा, उत्तर प्रदेश के चित्रकूट ज़िले की एक स्वतंत्र पत्रकार हैं.

की अन्य स्टोरी Jigyasa Mishra
Illustration : Priyanka Borar

प्रियंका बोरार न्यू मीडिया की कलाकार हैं, जो अर्थ और अभिव्यक्ति के नए रूपों की खोज करने के लिए तकनीक के साथ प्रयोग कर रही हैं. वह सीखने और खेलने के लिए, अनुभवों को डिज़ाइन करती हैं. साथ ही, इंटरैक्टिव मीडिया के साथ अपना हाथ आज़माती हैं, और क़लम तथा कागज़ के पारंपरिक माध्यम के साथ भी सहज महसूस करती हैं व अपनी कला दिखाती हैं.

की अन्य स्टोरी Priyanka Borar
Editor : P. Sainath

पी. साईनाथ, पीपल्स ऑर्काइव ऑफ़ रूरल इंडिया के संस्थापक संपादक हैं. वह दशकों से ग्रामीण भारत की समस्याओं की रिपोर्टिंग करते रहे हैं और उन्होंने ‘एवरीबडी लव्स अ गुड ड्रॉट’ तथा 'द लास्ट हीरोज़: फ़ुट सोल्ज़र्स ऑफ़ इंडियन फ़्रीडम' नामक किताबें भी लिखी हैं.

की अन्य स्टोरी पी. साईनाथ
Series Editor : Sharmila Joshi

शर्मिला जोशी, पूर्व में पीपल्स आर्काइव ऑफ़ रूरल इंडिया के लिए बतौर कार्यकारी संपादक काम कर चुकी हैं. वह एक लेखक व रिसर्चर हैं और कई दफ़ा शिक्षक की भूमिका में भी होती हैं.

की अन्य स्टोरी शर्मिला जोशी
Translator : Qamar Siddique

क़मर सिद्दीक़ी, पीपुल्स आर्काइव ऑफ़ रुरल इंडिया के ट्रांसलेशन्स एडिटर, उर्दू, हैं। वह दिल्ली स्थित एक पत्रकार हैं।

की अन्य स्टोरी Qamar Siddique