’’سیاسی لیڈر جب ہمارے شہر آتے ہیں، تو وہ یہاں رکتے تک نہیں ہیں، وہ بس ہماری طرف ہاتھ ہلاتے ہیں اور اپنی کاروں سے تیزی سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ہمیں ان کے ۵۰ فٹ کے دائرہ تک میں جانے نہیں دیا جاتا،‘‘ پُتّن کہتے ہیں۔
کرناٹک کے تمکور ضلع کے مدھوگیری شہر میں پُتّن ۱۱ سالوں سے ہاتھ سے میلا ڈھونے کا کام کر رہے ہیں، اس درمیان دو قومی انتخابات آئے اور چلے گئے، اور تیسرا کچھ ہی دنوں میں ہونے والا ہے۔ ریاست میں لوک سبھا الیکشن کے پہلے مرحلہ میں، اس ہفتہ ۱۸ اپریل کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔
اس انتخابی حلقہ میں لڑائی دو قد آور لیڈروں کے درمیان ہے: بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے امیدوار اور چار بار کے رکن پارلیمنٹ، ۷۷ سالہ جی ایس بساوراج اور برسراقتدار کانگریس-جنتا دل (سیکولر) گٹھ بندھن کے امیدوار اور سابق وزیر اعظم، ۸۶ سالہ ایچ ڈی دیوے گوڑا۔
لیکن مدھوگیری کے صفائی ملازمین سے یہ پوچھنے پر کہ کس کی حالت بہتر ہے، آپ کو ٹھوس جواب ملتے ہیں۔ ان میں سے کئی، ۴۵ سالہ پُتّن کی طرح ہی مڈیگا دلت برادری سے ہیں، جو کہ ایک مظلوم ذیلی ذات ہے، جن کے کام کے مواقع اکثر ہاتھ سے میلا ڈھونے تک ہی محدود ہوتے ہیں۔ (اس اسٹوری کے لیے جتنے لوگوں سے بات کی گئی، ان سبھی نے صرف اپنا پہلا نام استعمال کرنے کی خواہش ظاہر کی۔) کرناٹک اسٹیٹ کمیشن کے ذریعہ صفائی ملازمین کے بارے میں اگست ۲۰۱۷ میں کیے گئے ایک مطالعہ کے مطابق، کرناٹک میں ہاتھ سے میلا ڈھونے والوں کی سب سے زیادہ تعداد تمکور میں ہے۔ غیر انسانی کام، کم اجرت اور برسوں تک رہائش کی کمی ایسے کچھ اسباب ہیں، جن کی وجہ سے انھیں اپنے سیاسی لیڈروں پر زیادہ بھروسہ نہیں ہے۔
’’ہاتھ سے میلا ڈھونا قومی انتخابات کے امیدواروں کے لیے کوئی اہم ایشو نہیں ہے،‘‘ کے بی اوبلیش کہتے ہیں، جو تھامٹے: دیہی خود اختیاری مرکز کے بانی ہیں، یہ تمکور واقع ایک تنظیم ہے جو دلتوں کے حقوق کے لیے کام کرتی ہے۔ ’’سماجی و اقتصادی اور ذات پر مبنی مردم شماری ۲۰۱۱ کے مطابق، [صفائی] ملازمین کی تعداد – تمکور میں ۳۳۷۳ – ان کے ووٹوں کو متاثر کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔‘‘ اوبلیش کا یہ بھی کہنا ہے کہ ۲۶ اعشاریہ ۷۸ لاکھ کی کل آبادی والے اس انتخابی حلقہ میں ہاتھ سے میلا ڈھونے والوں کی تعداد چونکہ ۱ فیصد سے بھی کم ہے، اس لیے کوئی بھی رکن پارلیمنٹ ان کی تشویشوں پر دھیان نہیں دیتا، جس سے ان ملازمین کی پریشانی اور بڑھ جاتی ہے۔
ان سبھی برسوں میں ایمانداری سے ووٹ کرنے کے باوجود، پُتّن جیسے لوگوں کی زندگی نہیں بدلی ہے۔ وہ اور دیگر صفائی ملازمین کا کہنا ہے کہ تقریباً سات سال پہلے ضلع میں کچھ تبدیلی ہوئی تھی، لیکن یہ زیادہ دنوں تک نہیں چلا۔ ’’سال ۲۰۱۲ میں، ہمیں اس طرح کا کام کرنے کے لیے حفاظتی آلات ملے تھے – سرکار سے نہیں، بلکہ تھامٹے سے،‘‘ منجوناتھ کہتے ہیں، جو خود ایک مہتر ہیں۔ تھامٹے نے یہ یقینی بنانے کی کوشش کی تھی کہ سرکار مزدوروں کو ماسک، دستانے اور گم بوٹ جیسے تحفظاتی آلات مہیا کرائے، لیکن آخرکار وہ بند ہو گیا۔ ’’ایک این جی او کب تک ہزاروں ملازمین کو اس طرح کے آلات مہیا کرا سکتی ہے؟‘‘ پُتّن پوچھتے ہیں۔
ہاتھ سے میلا ڈھونے کے خاتمہ کی ملک گیر تحریک، صفائی کرمچاری آندولن نے ۴ اپریل کو نئی دہلی میں اپنا پہلا انتخابی منشور جاری کیا۔ فہرست بند مطالبات میں سبھی صفائی ملازمین اور ان کے اہل خانہ کے لیے تعلیم، طبی خدمات، با عزت روزگار اور ذریعہ معاش، اور ہندوستانی آئین کی دفعہ ۲۱ کے تحت سبھی شہریوں کو دیے گئے بنیادی حقوق کے مطابق دیگر تمام سہولیات اور اسکیموں تک سیدھی اور مفت رسائی کو یقینی بنانے کے لیے زندگی کے حق کا کارڈ شامل ہے۔ اس میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ مرکزی بجٹ کا ۱ فیصد صرف ہاتھ سے میلا ڈھونے والوں کی فلاح کے لیے مختص کیا جائے، اور وزیر اعظم کی قیادت میں ان کی رہائی اور باز آبادکاری کے لیے الگ سے ایک وزارت بنائی جائے۔
ہاتھ سے میلا صفائی ملازمین کے کام پر روک اور ان کی بازآبادکاری قانون، ۲۰۱۳ کہتا ہے کہ ہاتھ سے میلا ڈھونے کا روزگار دینا غیر قانونی ہے، اور ایسا کرنے والوں کو دو سال تک کی قید ہو سکتی ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مزدوروں کے ذریعہ اپنے ننگے ہاتھوں سے سیپٹک ٹینک اور نالیوں کی صفائی کرنا ممنوع ہے۔ پھر بھی، ۲۰۱۱ کی سماجی و اقتصادی اور ذات پر مبنی مردم شماری کے مطابق، ملک بھر کے دیہی علاقوں میں ۱ اعشاریہ ۸۲ لاکھ سے زیادہ مہتر ہیں اور جنوبی ہند کے کرناٹک میں ایسے ملازمین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
’’الیکشن کے وقت، ہر کوئی رشوت لے کر آتا ہے اور ووٹ خریدنے کی کوشش کرتا ہے۔ سیاسی لیڈر الیکشن سے پہلے ہمارے پیر تک چھوتے ہیں، لیکن جلد ہی غائب ہو جاتے ہیں،‘‘ ایک پورکارمک (صفائی ملازم)، ۳۹ سالہ سروجمّا کہتی ہیں۔ پُتّن اس میں اپنی بات جوڑتے ہیں، ’’پارٹی کارکن اور مقامی لیڈر ایک بار ہمارے پاس آتے ہیں اور تقریباً ۱۰۰ روپے فی گھر کے حساب سے ہمیں کچھ پیسے دیتے ہیں۔ ہر ایک خاتون کو ساڑی اور مردوں کو ایک چوتھائی بوتل شراب ملتی ہے۔‘‘
شراب حالانکہ کام آتی ہے، خاص کر جب پُتّن کام پر جاتے ہیں۔ ’’ایسے بھی دن گزرے ہیں جب مجھے نالے میں اترنے سے پہلے صبح کو پینا پڑا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ مدھوگیری میں ۴۰۰ سے زیادہ گھر اپنے کچرے کے نمٹارہ کے لیے ان پر منحصر ہیں۔ میونسپل کونسل کے ریکارڈ میں، ان کا کام کچرے کو جمع کرنا ہے، لیکن زمین پر وہ قانون سے پرے جا کر کام کرتے ہیں۔
انھیں سیور ’جیٹنگ‘ مشین بھی چلانی پڑتی ہے، جو کھلے نالوں اور سیپٹک ٹینکوں کو بند کرنے میں مدد کرتی ہے۔ اکثر، اس مشین کا پائپ آدھا ٹھوس مادّہ کو نہیں چوس پاتا ہے، اس لیے پُتّن کو گڑھے میں اتر کر اپنے جسم کو ہلانے والے کے طور پر استعمال کرنا پڑتا ہے تاکہ کچرا محلول ہو جائے اور اسے مشین کے ذریعے باہر پمپ کیا جا سکے۔ اس سے پہلے کہ پُتّن اور منجوناتھ کام شروع کریں، شراب مدد کرتی ہے۔ ’’میں نے آج صبح ۶ بجے پینا شروع کر دیا،‘‘ پُتّن کہتے ہیں۔ ’’ایک بار جب نشہ چڑھ جاتا ہے، تو میں کچھ بھی برداشت کر سکتا ہوں۔‘‘
تو کیا سووچھ بھارت مشن نے پچھلے پانچ برسوں میں کسی بھی طرح سے مزدوروں کی مدد کی ہے؟ ’’سووچھ بھارت نے ہمارے شہر کی عام صفائی کو بہتر بنایا ہے،‘‘ منجوناتھ کہتے ہیں، اور ان کے آس پاس موجود دیگر ملازم اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ ’’پانچ سال کی زوردار مہم کے بعد، آج لوگ زیادہ بیدار ہیں۔ وہ اپنے کچرے کو الگ کر رہے ہیں، جس سے ہمارا کام آسان ہو جاتا ہے۔‘‘
وہ اسکیم کی کامیابی کا کریڈٹ ایک آدمی کو دیتے ہیں۔ ’’مودی عظیم ہیں۔ وہ ہندوستان کے نمبر ایک وزیر اعظم ہیں، جنہیں اقتدار میں ہمیشہ کے لیے رہنا چاہیے،‘‘ منجوناتھ کہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مودی ہمارے لیے بے انتہا محنت کر رہے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے ہندوستانی اسے سمجھ نہیں پا رہے ہیں۔‘‘
تمکور کے صفائی ملازمین کی زندگی بھلے ہی پچھلے پانچ سالوں میں بدلی نہ ہو، پھر بھی انھیں وزیر اعظم پر بھروسہ ہے۔ ’’اگر مودی صفائی ملازمین کی طرف تھوڑا اور دھیان دیں، تو وہ آئڈیل بن جائیں گے۔ لیکن ہم ابھی بھی ان سے خوش ہیں،‘‘ سروجمّا کہتی ہیں۔
اس سال فروری میں، وزیر اعظم نریندر مودی کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے پریاگ راج، اترپردیش میں ان کے ذریعہ صفائی ملازمین کے پیر دھوتے ہوئے ایک ویڈیو پوسٹ کیا گیا تھا، اس کیپشن کے ساتھ: ’’ان لمحوں کو میں زندگی بھر سنجوئے رکھوں گا!‘‘ اور ’’میں ہر اس آدمی کو سلام کرتا ہوں جو سووچھ بھارت میں تعاون کر رہا ہے!‘‘
لیکن ڈیٹا اس کے برعکس ہیں۔ مارچ ۲۰۱۸ میں، وزارتِ سماجی انصاف اور تفویض اختیارات نے ڈیٹا جاری کیا جو بتاتا ہے کہ ہاتھ سے میلا ڈھونے والوں کی بازآبادکاری کے لیے سیلف امپلائمنٹ اسکیم کے تحت مختص فنڈ میں کٹوتی کی گئی ہے۔ اس اسکیم کو ۲۰۱۴-۱۵ میں ۴۴۸ کروڑ روپے اور ۲۰۱۵-۱۶ میں ۴۷۰ کروڑ روپے ملے تھے، لیکن ۲۰۱۶-۱۷ میں صرف ۱۰ کروڑ اور ۲۰۱۷-۱۸ میں ۵ کروڑ دیے گئے۔ وزارت کے مطابق، بجٹ میں اس کمی کے لیے ذمہ دار قومی صفائی ملازمین کے مالی اور ترقیاتی کارپوریشن کے ساتھ ’’پہلے سے دستیاب کارپس فنڈ‘‘ ہے، جو اس اسکیم کو چلاتا ہے۔ کارپوریشن اس وزارت کے تحت ایک غیر منافع بخش کمپنی ہے۔
بی جے پی کے جی ایس بساوراج اور کانگریس-جے ڈی ایس کے دیوے گوڑا کے درمیان تمکور کی انتخابی جنگ میں صفائی ملازمین کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ یہ کاویری کی معاون ندی، ہیماوتی کے تنازع پر مرکوز ہے.... پھر بھی صفائی ملازمین بہتر زندگی کی امید کر رہے ہیں
’’پچھلے پانچ سالوں میں، بیداری پیدا کرنے کے لیے مرکزی حکومت کی بہت ساری اسکیمیں آئیں [سووچھ بھارت مشن کی طرح]،‘‘ رمیا پبلک پالیسی سینٹر، بنگلورو کے اسسٹنٹ ڈائرکٹر چیتن سنگھئی کہتے ہیں۔ ’’یوپی اے [متحدہ ترقی پسند محاذ] کے دور میں اس سے زیادہ تھیں۔ لیکن وہ زندگی کی بازآبادکاری کے لیے فنڈ کے حقیقی الاٹمنٹ کے طور پر زیادہ خرچ نہیں کرتے ہیں۔ ہاتھ سے میلا ڈھونے والوں پر خرچ کی گئی اصل رقم کے تعلق سے، این ڈی اے [قومی جمہوری اتحاد] نے کافی کم خرچ کیا ہے۔‘‘
بی جے پی کے بساوراج اور کانگریس- جے ڈی ایس کے دیوے گوڑا کے درمیان تمکور کی انتخابی جنگ میں صفائی ملازمین کا ذکر نہیں ہے۔ یہ کاویری کی معاون ندی، ہیماوتی کے تنازع پر مرکوز ہے۔ (صفائی ملازمین کو لگتا ہے کہ دیوے گوڑا جب اسی معاون ندی پر منحصر پڑوسی انتخابی حلقہ، ہسن سے رکن پارلیمنٹ تھے، تو تمکور کو پانی دینے سے منع کرنے کے لیے ذمہ دار تھے۔) اس کے علاوہ، یہ دو حریف برادریوں – لِنگایت، جس سے بساوراج کا تعلق ہے، اور ووکا لیگا، جس سے دیوے گوڑا کا تعلق ہے، کے درمیان نمائندگی کی لڑا ئی ہے۔
بساوراج اور دیوے گوڑا کے انتخابی ایشوز میں کہیں نہیں ہونے کے باوجود، صفائی ملازمین بہتر زندگی کی امید کر رہے ہیں – یعنی عزت کے ساتھ مستقل نوکری، مزدوری میں اضافہ، خود کا گھر اور اپنے بچوں کے لیے تعلیم تک بہتر رسائی۔ انھیں امید ہے کہ سرکار ایک دن ان مطالبات کو پورا کرے گی۔ اور یہ ان کا نریندر مودی کے وعدوں پر بھروسہ کرنے والا یقین ہے، جو ممکن طور پر ۱۸ اپریل کو ان کے ووٹ کرنے کے طریقے کو متاثر کر سکتا ہے۔
’’ایسا لگ سکتا ہے کہ کچھ بھی نہیں بدلا ہے، لیکن ہو سکتا ہے، اس لیے ہمیں ووٹ ضرور دینا چاہیے،‘‘ پُتّن کہتے ہیں۔ ’’ووٹ دینا میرا حق ہے۔ میں اسے برباد کیوں کروں؟‘‘
مضمون نگار پریتی ڈیوڈ کا ان کے تعاون کے لیے اور نوین تیجسوی کا ترجمہ میں ان کی مدد کرنے کے لیے شکریہ ادا کرنا چاہیں گے۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)