اپنے والد کی برسی کے موقع پر، تیرو مورتی نے بطور نذرانہ کچھ عجیب و غریب چیزیں پیش کیں: یعنی دس قسم کے صابن، کئی قسم کے ناریل تیل اور ہلدی کا پاؤڈر، جو انہیں بہت پسند ہے۔ ان چیزوں کے علاوہ، سُندر مورتی کی ہار سے سجی تصویر کے سامنے سرخ کیلے کا گُچھّا، پھول، ناریل، اور جلتا ہوا کافور بھی رکھا ہوا تھا۔
تیرو مورتی اپنی ایک فیس بُک پوسٹ میں لکھتے ہیں، ’’ اپّا کے لیے اس سے بہتر نذرانہ اور کیا ہو سکتا ہے؟‘‘ اُن کے والد نے منجل (ہلدی) کی کھیتی کرنا چھوڑ دیا تھا۔ لیکن لوگوں کے منع کرنے کے باوجود، تیرو نے ہلدی کی کھیتی کرنا شروع کر دیا۔ وہ ہنستے ہوئے بتاتے ہیں، ’’انہوں نے مجھے ملّی (چنبیلی) اُگانے کا مشورہ دیا کیوں کہ پھولوں سے یومیہ آمدنی ہوتی ہے۔ میں نے جب منجل لگائی، تو وہ میرا مذاق اڑانے لگے۔‘‘ لیکن تیرو نے اُن سبھی کو غلط ثابت کر دیا۔ یہ ایک انوکھی کہانی ہے، جو ہلدی کی کھیتی سے حاصل ہونے والی جیت پر مبنی ہے۔
۴۳ سالہ تیرو مورتی اور ان کے بھائی کے پاس، تمل ناڈو کے ایروڈ ضلع کے بھوانی ساگر بلاک میں واقع اُپّوپلّم بستی میں ۱۲ ایکڑ کی مشترکہ زمین ہے، جہاں وہ تین فصلیں اُگاتے ہیں – ہلدی، کیلا اور ناریل۔ لیکن وہ اسے تھوک (ہول سیل) میں نہیں بیچتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسا کرنا بے معنی ہوگا، کیوں کہ قیمتوں پر ان کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ مقامی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر بڑے تاجر، کارپوریٹ اور حکومتیں ہی قیمتیں طے کرتی ہیں۔
ہندوستان، ہلدی کے پھلتے پھولتے بازار میں دنیا کا سب سے بڑا کھلاڑی ہے۔ سال ۲۰۱۹ میں یہاں سے ۱۹۰ ملین امریکی ڈالر کے برابر ہلدی برآمد کی گئی – جو کہ عالمی تجارت کا ۶۲ اعشاریہ ۶ فیصد ہے۔ لیکن، ہندوستان ہلدی کی درآمد کرنے والا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک بھی ہے، جہاں ۱۱ اعشاریہ ۳ فیصد ہلدی درآمد ہوتی ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں میں درآمد میں ہونے والی اضافہ کی وجہ سے ہندوستان میں ہلدی کی کھیتی کرنے والے کسانوں کے مفادات کو نقصان پہنچا ہے۔
گھریلو بازاروں – یعنی ایروڈ کی منڈیوں – میں ان کا استحصال پہلے سے ہی ہو رہا ہے۔ قیمت کا تعین بڑے تاجر اور خریدار کرتے ہیں۔ آرگینک پیداوار کی قیمت الگ سے طے نہیں کی جاتی، اور سال در سال اس میں بڑا اتار چڑھاؤ دیکھنے کو ملتا ہے۔ سال ۲۰۱۱ میں ایک کوئنٹل ہلدی کی قیمت ۱۷ ہزار روپے تھی۔ اگلے سال، اس کی قیمت تقریباً ایک چوتھائی گھٹ گئی۔ ۲۰۲۱ میں ایک کوئنٹل کی اوسط قیمت تقریباً ۷ ہزار روپے تھی۔
تیرو مورتی نے اپنی چالاکی، استقامت اور سوشل میڈیا اکاؤنٹ کی مدد سے ایک سیدھا حل یہ نکال لیا کہ وہ اس کی قدر میں اضافہ کرنے لگے، یعنی اس سے الگ الگ چیزیں بنانے لگے۔ حالانکہ ان کے اس طریقے کو بڑے پیمانے پر اختیار نہیں کیا جا سکتا تھا، لیکن اس سے انہیں کامیابی ضرور حاصل ہوئی۔ اس کے بارے میں بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’کھیت پر ایک ناریل کی قیمت بھلے ہی ۱۰ روپے ہو، لیکن مجھے اس کی تین گنا زیادہ قیمت ملتی ہے کیوں کہ میں اس کا تیل نکالتا ہوں، پھر اس سے صابن بناتا ہوں۔ ہلدی کے ساتھ بھی یہی کرتا ہوں۔ ڈیڑھ ایکڑ کھیت میں ہلدی اُگاتا ہوں۔ اگر میں نے اسے منڈی میں ۳۰۰۰ روپے کلو کے حساب سے فروخت کیا، تو مجھے آرگینک ہلدی کے ہر ایک کلو پر تقریباً ۵۰ روپے کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔‘‘
آرگینک طریقے سے کھیتی کرنے کا مطلب ہے، کیمیاوی کاشتکاری کرنے والے کسانوں کے مقابلے اونچی پیداواری لاگت۔ پھر بھی، وہ اپنے پڑوسیوں سے کہیں زیادہ بہتر حالت میں ہیں۔
ایروڈ کی ستیہ منگلم پہاڑیوں کے دامن میں واقع ان کا کھیت ایک خوبصورت نظارہ پیش کرتا ہے: زمرد کی شکل میں نظر آ رہے کھیتوں کے سامنے جامنی رنگ کی پہاڑیوں کی ایک قطار ہے، جن کے اوپر بارش کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ ان کی ہلدی کے پودے کافی اونچے ہیں، جن کی چوڑی پتیاں اکتوبر کی دھوپ اور ہلکی بارش سے بھیگی ہوئی ہیں۔ کھیتوں کے کنارے لائن سے لگے ناریل کے درختوں پر بیا کے گھونسلے لٹک رہے ہیں؛ یہ پرندے زور سے چہچہاتے ہوئے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں۔ اس حسین نظارہ کو دیکھ کر تیرو مورتی کی ساری مشقت اور فکرمندی غائب ہو جاتی ہے۔ بعد میں، گلابی دیواروں والے اپنے گھر میں سرمئی سیمنٹ کی فرش پر احتیاط سے بیٹھے ہوئے وہ آہستہ آہستہ ان سب کی پوری تفصیل بیان کرتے ہیں؛ ان کی گود میں چار سال کی بیٹی بیٹھی ہوئی ہے، جس کی چاندی کی پازیب سے چھن، چھن، چھن… کی آواز نکل رہی ہے۔
’’مجھے منافع تبھی ملے گا، جب میں اپنے گاہکوں کو آدھا کلو اور ایک کلو کا پیکٹ بنا کر بیچوں۔ اور صابن، تیل اور دودھ کی مشروبات کے طور پر فروخت کروں۔‘‘ بالفاظِ دیگر، وہ اپنی ہر پیداوار کی قدر میں اضافہ کرتے ہیں۔ ہلدی کے ہر کسان کی طرح، وہ بھی پوری محنت سے اسے اُبالتے ہیں، سُکھاتے ہیں اور پھر اسے چمکاتے ہیں۔ لیکن، دوسرے کسان جہاں بہتر قیمت کے انتظار میں اسے ایک جگہ جمع کرکے رکھ دیتے ہیں یا منڈی لے جا کر فروخت کر دیتے ہیں، وہیں تیرو مورتی اسے اپنے گودام میں رکھ دیتے ہیں۔
اس کے بعد، وہ ’گول‘ (بلب) اور ’لمبی‘ (فنگر) ہلدی کو تھوڑا تھوڑا کرکے پیسنا شروع کرتے ہیں۔ تھوڑا اور دماغ لگانے کے بعد جب وہ اسے بیوٹی پروڈکٹ اور سفوف سے بنی مشروبات میں تبدیل کر دیتے ہیں، تو ہر ایک کلو پر الگ سے ان کی ۱۵۰ روپے کی کمائی ہوتی ہے۔
’’لیکن، سارے پیسے میں اپنے پاس نہیں رکھتا۔‘‘ وہ اسے اپنی پسند کی زمین پر واپس خرچ کر دیتے ہیں۔ کھیت سے صرف ان کی ہی فیملی نہیں چلتی، بلکہ اس سے علاقے کے دوسرے لوگوں کو بھی روزگار ملتا ہے۔ ’’پیک سیزن میں میرے کھیت پر روزانہ پانچ مرد اور تین عورتیں کام کرتی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کی مزدوری بالترتیب ۴۰۰ اور ۳۰۰ روپے ہوتی ہے، ساتھ ہی انہیں چائے اور بونڈا [آلو اور بریڈ سے بنا ایک طرح کا پکوڑا] بھی کھانے کو ملتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ کسی زمانے میں ہلدی کی فصل کاٹنے پر سالانہ صرف چار ہزار روپے خرچ ہوتے تھے، لیکن آج یہ لاگت ۴۰ ہزار روپے ہے۔ میں جب مزدوروں سے اس کے بارے میں کہتا ہوں، تو وہ فوراً جواب دیتے ہیں کہ پیٹرول کی قیمت ۱۰۰ روپے لیٹر ہو چکی ہے، ایک کوارٹر شراب [۱۸۰ ملی لیٹر] ۱۴۰ روپے میں آتی ہے…‘‘ اوریہ کہتے ہوئے وہ ہنسنے لگتے ہیں۔ لیکن، ان سب کے باجود ہلدی کی قیمت کبھی نہیں بڑھی۔
*****
باجرے سے بھوسی نکال
رہی عورتوں کا گانا،
فصل خراب کرنے والے
جنگلی سور کو بھگانے کے لیے
شکرقندی اور ہلدی کی
پہریداری کرنے والے کسانوں کا ڈھول پیٹنا
یہ تمام آوازیں اُن
پہاڑوں میں گونجتی ہیں
جن کی جھلک ہمیں سنگم
دور کی نظم، ملئی پاڈُ کڈام میں ملتی ہے
درج بالا اشعار کا ترجمہ اپنے بلاگ، OldTamilPoetry.com میں کرنے والے مصنف، سینتھل ناتھن کا کہنا ہے کہ تمل ناڈو اور ہلدی کا رشتہ ۲۰۰۰ سال پرانا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ملئی پاڈُ کڈام ’’سنگم دور کی ۱۰ طویل نظموں میں سے ایک ہے۔‘‘
ہندوستانی باورچی خانہ کی سب سے اہم شے، ہلدی ( کرکوما لونگا ) کا ادرک سے گہرا تعلق ہے۔ زیر زمین تنا ( رائزوم ) دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے: مرکزی حصے کو ’بلب‘ کہتے ہیں جو گول ہوتا ہے اور شاخ والے حصے کو ’فنگر‘ کہتے ہیں جو لمبا ہوتا ہے۔ اسے کاروباری طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ہلدی کی فصل کاٹتے وقت گول اور لمبے، دونوں ہی حصوں کو الگ کرکے اس کی پروسیسنگ کی جاتی ہے۔ فروخت کرنے سے پہلے انہیں اُبال کر سُکھایا جاتا ہے، پھر صفائی کرکے انہیں چکنا کیا جاتا ہے۔ نیلامی کے وقت لمبے حصے (فنگر) کی قیمت زیادہ ملتی ہے۔
غذائی تاریخ نویس کے ٹی اچایا اپنی کتاب، انڈین فوڈ: اے ہسٹوریکل کمپینئن ( Indian Food: A Historical Companion ) میں بتاتے ہیں کہ ہلدی شاید اسی ملک کی ایجاد ہے۔ ’’ ہریدر [ہلدی کا سنسکرت نام] کے چٹک دار رنگ اور رنگنے کی صلاحیت نے اسے ملک کے اندر جادو گری اور رسم و رواج میں اہم مقام دلایا۔‘‘ روزمرہ کا مصالحہ، منجل پورے ہندوستان میں کھانوں اور مختلف قسم کی ثقافتوں میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا ہے۔ ایک چٹکی ہلدی پاؤڈر کھانے کو اچھی طرح رنگ دیتا ہے، اس کے ذائقہ کو بڑھاتا ہے، اور قوت مدافعت کو بہتر کرتا ہے۔ اس کے گہرے زرد رنگ کے حصہ کو کورکومین کہتے ہیں، جو کئی امراض کے علاج میں مفید ہے، خاص کر اس میں تکسید مزاحم اور سوزش مخالف خصوصیات ہوتی ہیں۔
سائنس دانوں سے کافی پہلے ہی دادی ماؤں نے پتہ لگا لیا تھا کہ ہلدی کے کیا فوائد ہیں۔ وہ دودھ میں ہلدی اور کالی مرچ ملا کر اسے گرم کرتیں – جس سے کورکومین کی حیاتیاتی اثر پذیری بہتر ہو جاتی تھی – اور گھر میں کسی کو کھانسی زکام ہونے پر اسے پلا دیتی تھیں۔ اسٹار بکس کمپنی کے پاس اب ’ہلدی کے سنہرے دودھ‘ کی ترکیب ہے، جسے میری دادی شاید منظور نہ کریں۔ اسے جئی کے دودھ اور فینسی جھاگ بنانے والی مشین اور ونیلا سے بنایا جاتا ہے۔
ہلدی کو مقدس سمجھا جاتا ہے۔ جنوبی ہند میں شادی شدہ عورتیں اپنے گلے میں ہلدی سے رنگا ہوا دھاگہ پہنتی ہیں۔ اس کے علاوہ، جب کسی جوان لڑکی کو پہلی بار حیض آتا ہے تو بلوغت کا جشن منانے کے لیے (بعض دفعہ بڑے فلیکس بورڈ اور پورے ہجوم کے ساتھ) ایک رسم ادا کی جاتی ہے، جسے منجل نیراٹُ ویڑا (’ہلدی سے غسل کرنے کی رسم) کہتے ہیں۔ منجل ایک مشہور جراثیم کش دوا بھی ہوا کرتی تھی، اور کھلے زخموں اور جِلد کٹ جانے پر اس کا لیپ لگایا جاتا تھا۔ اسی لیے پالتو جانوروں کی نگہداشت والی برانڈز اپنی مصنوعات میں ہلدی کا استعمال کرتی ہیں۔
امریکی محققین نے جب ہلدی کا پیٹنٹ کروا لیا تھا، تو ہندوستانی کونسل برائے سائنسی و صنعتی تحقیق (سی ایس آئی آر) نے ۱۹۹۷ میں ۱۵۰۰۰ امریکی ڈالر میں ایک وکیل کی خدمات حاصل کیں اور دلیل دی کہ چونکہ ہمارے ملک میں اس کا استعمال صدیوں سے زخموں کے علاج کے لیے کیا جاتا رہا ہے، اس لیے اس میں ’’پیٹنٹ کرانے کے لیے درکار ’اصولی‘ شرط کی کمی ہے۔‘‘ آخرکار، سی ایس آئی آر نے امریکہ کے پیٹنٹ اور ٹریڈ مارک دفتر سے ہلدی کے اس ’’متنازع پیٹنٹ‘‘ کو منسوخ کرانے میں کامیابی حاصل کر لی۔
البتہ، شیواجی گنیشن نے اسے اپنی منظوری دے دی ہوتی۔ اس مشہور فلم اداکار نے ۱۹۵۹ میں ویراپانڈیا کٹّا بومّن کے نام سے بنی فلم میں اسی نام سے نوآبادیاتی مخالف ہیرو کا کردار ادا کیا تھا – یہ پہلی تمل فلم تھی جس نے بہترین فلم اور بہترین اداکار کا بین الاقوامی ایوارڈ حاصل کیا۔ انگریزوں کو ٹیکس ادا کرنے سے انکار کرنے والا کٹّا بومّن کے یہ الفاظ کمال کے تھے: ’’کیوں؟ کیا آپ نے ہلدی پیس کر میری کمیونٹی کی خواتین کی خدمت کی ہے؟‘‘
*****
’’میں اپنے والد کی کڑی محنت کا پھل کاٹ رہا
ہوں۔‘‘
تیرو مورتی، ایروڈ کے
ہلدی کے کاشتکار
اکتوبر ۲۰۲۱ میں، ستیہ منگلم کے ہمارے دوسرے دورہ کے دوران انہوں نے پاری کو بتایا تھا کہ وہ ۱۸ سال کی عمر سے ہی اپنی گزر بسر کے لیے کھیتی کر رہے ہیں۔ ہم نے وہاں کا پہلا دورہ اسی سال مارچ میں، ہلدی کی فصل کی کٹائی کے دوران کیا تھا۔ ہلدی کے لہلہاتے پودوں کے درمیان چلتے ہوئے، اپنی سفید دھوتی کے کنارے کو ہاتھوں میں پکڑے ہوئے، وہ اپنے اس سفر کی داستان بیان کرتے ہیں۔
’’ اپّا اُپّوپلّم چلے گئے – جو کہ اماں کا آبائی گھر ہے – اور وہاں جا کر انہوں نے ۷۰ کی دہائی میں محض دس یا بیس ہزار روپے میں ایک ایکڑ زمین خریدی۔ اب اس زمین کی قیمت ۴۰ لاکھ روپے ہے۔ یہاں پر اب آپ ۱۰ ایکڑ زمین نہیں خرید سکتے!‘‘ دسویں کلاس میں ہی تعلیم چھوڑ چکے تیرو مورتی، ۲۰۰۹ میں کل وقتی آرگینک کاشتکار بن گئے۔ اُس وقت ان کی عمر ۳۱ سال تھی۔
حالانکہ یہ ان کی پہلی پسند نہیں تھی۔ اس سے پہلے انہوں نے کئی نوکریوں میں ہاتھ آزمایا تھا۔ سب سے پہلے، انہوں نے گھر پر ہی روزمرہ استعمال ہونے والے سامانوں کی ایک دکان، ملیہئی کڑئی کھولی۔ ییلندھ وڑئی (پھل کا کھٹا میٹھا وڑا )، تِن پنڈم (اسنیکس)، چاول، سگریٹ، بیڑی، اور دیوالی کے دوران پٹاخے فروخت کیے۔ بزنس کے جنون نے انہیں کئی جہانوں کی سیر کرائی – انہوں نے کیبل ٹی وی کی خدمات فراہم کرنے والے کا کام کیا، دودھ بیچا، پھر بنگلورو چلے گئے جہاں ان کی بڑی بہن رہتی تھیں۔ وہاں جا کر انہوں نے دو پہیہ گاڑی کا ایک سروس اسٹیشن کھولا، قرض (لون) دینے والی ایک چھوٹی مالیاتی کمپنی میں کام کیا، اور آخر میں کار کی خرید و فروخت کا کام کرنے لگے۔ ’’۱۴ سالوں میں، میں نے چھ نوکریاں کیں۔ یہ سب کرنا انتہائی مشکل تھا؛ میں نے کافی جدوجہد کی لیکن کچھ حاصل نہیں ہوا۔‘‘
بنگلورو میں اپنے قیام کی مدت کو وہ ایک کتے کی زندگی سے تشبیہ دیتے ہوئے کہتے ہیں، ’’نائی پڈدھا پاڈو‘‘ ۔ ان کی آمدنی بہت کم تھی اور ۲۵۰۰ روپے کا کرایہ دے کر انہیں اپنے ایک دوست کے ساتھ ۶ بائی ۱۰ فٹ کے ایک تنگ کمرے میں رہنا پڑتا تھا۔
’’مارچ ۲۰۰۹ میں جب میں ستیہ منگلم واپس آیا، تو میرے اوپر کھیتی کا جنون سوار تھا۔‘‘ انہوں نے گنّے کی کھیتی جاری رکھی – جو اُن کے والد بھی کر رہے تھے – اور اس میں کساوا کو بھی شامل کر لیا، اور ایک کھیت میں پیاز اُگائی۔
وہ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’میں نے غلطیاں کیں اور سیکھا بھی۔ سال ۲۰۱۰ میں پیاز کے بیج کی قیمت ۸۰ روپے کلو تھی۔ فصل کے کٹائی کے دوران، یہ گھٹ کر ۱۱ روپے فی کلو ہو گئی۔ مرن اڈی [موت کا دھچکا]۔‘‘ غنیمت تھی کہ انہوں نے دوسری فصل بھی لگائی تھی، جس سے وہ اپنے نقصان کی تلافی کرنے میں کامیاب رہے۔ سال ۲۰۱۴ میں – اپنے والد کی موت کے دو سال بعد، انہوں نے منجل لگائی، حالانکہ ان کی فیملی نے نو سال پہلے ہی اسے اُگانا چھوڑ دیا تھا۔
*****
’’ہلدی سے کسی نہ کسی کو تو فائدہ ہو ہی رہا ہے۔
لیکن یہ فائدہ ہمیشہ کسانوں کو نہیں ملتا…‘‘
ایروڈ میں ہلدی کی
کھیتی کرنے والے کسان
پورے تمل ناڈو میں، ۵۱ ہزار ایکڑ میں ہلدی کی کھیتی ہوتی ہے، جس سے ۸۶ ہزار ٹن پیداوار حاصل ہوتی ہے، جو اس ریاست کو پورے ملک میں چوتھا مقام دلاتی ہے۔ ریاست کے اندر ایروڈ ضلع اس معاملے میں سب سے آگے ہے، جہاں ۱۲۵۷۰ ایکڑ میں منجل کی کھیتی ہوتی ہے۔
تیرو مورتی کا ڈیڑھ ایکڑ سمندر میں قطرے کی مانند ہے۔ انہوں نے جون ۲۰۱۴ میں آدھا ایکڑ کے ایک چھوٹے سے پلاٹ پر منجل اُگانی شروع کی اور کھیت کے بقیہ حصے پر ناریل اور کیلے کے پودے لگائے۔ لیکن، جب ان کی ایک ٹن ہلدی فوراً ہی فروخت ہو گئی، تو اس سے انہیں کافی حوصلہ ملا۔ ان میں سے تقریباً ایک تہائی – یعنی ۳۰۰ کلو ہلدی – کا پاؤڈر بنایا گیا، جسے انہوں نے ۱۰ دنوں کے اندر ہی فیس بُک کے اپنے رابطوں کے ذریعے فروخت کر دیا۔ اپنے اس منصوبہ کا نام انہوں نے ’ییر مُنئی‘ رکھا، جس کا مطلب ہے ہل کا حصہ، ’’کیوں کہ اس آلہ کا کوئی مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ لوگو پر کلاسیکی تصویر ہے: ایک آدمی، ایک ہل اور دو بیل۔ ان کا یہ منصوبہ پوری طرح کامیاب رہا۔
اس سے حوصلہ پا کر انہوں نے اگلے سال ڈھائی ایکڑ میں ہلدی لگائی، جس سے انہیں پانچ ہزار کلو کی زبردست پیداوار حاصل ہوئی۔ لیکن ان میں سے چار ہزار کلو ان کے پاس کئی مہینوں تک یوں ہی پڑا رہا۔ وہ آرگینک ہلدی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ یہ عمل ان کے لیے کسی سزا سے کم نہیں تھا، کیوں کہ یہ مہنگا اور پریشان کن دونوں ہی تھا۔ آخرکار انہوں نے ایروڈ کی ہی ایک بڑی مصالحہ کمپنی کو یہ ہلدی فروخت کر دی، جس نے انہیں ایک تنڈُ چیٹُ ، یعنی ایک چھوٹی سی رسید دی جس پر لکھا تھا: ایک کوئنٹل کے ۸۱۰۰ روپے، اور ایک ہفتہ بعد، انہیں ریاست کے باہر کا ایک چیک دیا گیا، جس پر ۱۵ دن آگے کی تاریخ درج تھی۔
چیک کو بھُنانے میں تیرو مورتی کو کئی ہفتے لگ گئے – کیوں کہ تب نوٹ بندی (ڈی مونیٹائزیشن) کا دور چل رہا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’۲۰۱۷ سے، میں کافی محتاط ہوں اور صرف ایک ایکڑ یا ڈیڑھ ایکڑ میں ہی ہلدی اُگاتا ہوں۔ اور، ہر دوسرے سال، کھیت کو خالی چھوڑ دیتا ہوں، تاکہ مٹی کو ’آرام‘ مل سکے۔‘‘
جنوری میں، وہ کیاریاں بنانی شروع کرتے ہیں، اور ۴۵ دن کے وقفے سے، دو بار جوار کی کھیتی کرتے ہیں۔ اسے کھیت جوت کر مٹی میں ہی ملا دیا جاتا ہے تاکہ اس میں نائٹروجن اور غذائی اجزاء کی کمی کو دور کیا جا سکے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس کام پر انہیں ۱۵۰۰۰ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ اس کے بعد، وہ ڈرپ (چھڑکاؤ) کے ذریعے سینچائی کرتے ہیں، ہلدی کی کیاریاں تیار کرتے ہیں، جس پر ان کے مزید ۱۵۰۰۰ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ پھر، ایک ایکڑ میں لگانے کے لیے انہیں ۸۰۰ کلو ’بلب‘ (گول ہلدی) کی ضرورت پڑتی ہے، جسے وہ ۴۰ روپے فی کلو کے حساب سے ۲۴ ہزار روپے میں خریدتے ہیں۔ ایک ایکڑ پر مزدوری کی شکل میں انہیں ۵۰۰۰ روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ ایک مہینہ بعد، جب بیج پھوٹنے لگتا ہے، تو وہ ۱۴ ہزار روپے خرچ کرکے کھیت میں دو ٹن بکری کا گوبر چھڑکتے ہیں – جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ان کی فصل کے لیے یہ گائے کے گوبر کے مقابلے کہیں زیادہ مفید ہے۔
اس کے بعد، چھ بار گھاس پھوس نکالنا پڑتا ہے، جس کے لیے ہر بار انہیں ۱۰ ہزار روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں (یعنی فی ایکڑ ۳۰ یا ۳۵ خواتین مزدوروں کو یومیہ ۳۰۰ روپے دینے پڑتے ہیں)۔ مارچ میں، فصل کی کٹائی پر ۴۰ ہزار روپے کی لاگت آتی ہے، جو کہ ایک ’’مقررہ معاہدہ ہے۔ عام طور پر، تقریباً ۲۰ مردوں اور ۵۰ عورتوں کی ایک ٹیم آتی ہے۔ وہ ایک دن میں پوری فصل کاٹ دیتے ہیں۔ اگر فصل بہت اچھی رہی، تو وہ مزید ۵۰۰۰ روپے کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘
آخر میں، ہلدی کو اُبالا، سُکھایا اور چکنا کیا جاتا ہے۔ اس رپورٹر کے لیے یہ ایک لائن میں لکھا ہوا متن ہے، لیکن کسانوں کے لیے یہ کئی دنوں کی کڑی، ہنرمندی پر مبنی محنت ہے، جس کی وجہ سے پیداواری لاگت مزید ۶۵ ہزار روپے بڑھ جاتی ہے۔ اور اس طرح، جہاں ایک طرف اخراجات کی فہرست طویل ہوتی جاتی ہے، وہیں دوسری طرف ہلدی کا وزن سوکھ کر تقریباً آدھا ہو جاتا ہے۔
دس مہینے اور ۲۳۸۰۰۰ روپے خرچ کرنے کے بعد، ان کے پاس فروخت کرنے کے لیے تقریباً ۲۰۰۰ کلو سوکھی ہلدی بچ جاتی ہے (ایک ایکڑ کھیت سے)۔ پیداواری لاگت ۱۱۹ روپے فی کلو آتی ہے۔ (آرگینک طریقے سے کھیتی کرنے والے کے این سیلاموتو جیسے دوسرے کسانوں کا کہنا ہے کہ ان کی پیداواری لاگت تقریباً ۸۰ روپے فی کلو آتی ہے، اور وہ زیادہ پیداوار والی قسمیں اُن طریقوں کا استعمال کرکے اُگاتے ہیں جس میں وقت بھی کم لگتا ہے اور زیادہ ہنرمندی کی بھی ضرورت نہیں پڑتی)۔
تیرو مورتی اپنی ہلدی کے پاؤڈر کی قیمت حکمت عملی سے طے کرتے ہیں۔ ایک کلو ہلدی پیسنے پر وہ ۴۰ روپے خرچ کرتے ہیں، اور اسے پیک کرنے اور کوریئر سے بھیجنے میں مزید ۴۰ روپے لگتے ہیں۔
تھوک میں (یعنی ۲۰ کلو) خریدنے والی دکانیں اسے ۳۰۰ روپے فی کلو کے حساب سے حاصل کرتی ہیں۔ کھیت پر یہ ۴۰۰ روپے کلو میں فروخت ہوتی ہے، اور جب اسے ہندوستان کے اندر ہی کہیں بھیجنا ہو، تب اس کی قیمت ۵۰۰ روپے کلو ہو جاتی ہے۔ دوسری برانڈ والے اپنی آرگینک منجل کی قیمت فی کلو ۳۷۵ روپے سے زیادہ طے کرتے ہیں، جو ۱۰۰۰ روپے کلو تک بھی ہو سکتی ہے۔ ایروڈ منڈی میں، تاجر ایک کلو سوکھی ہلدی – یعنی پاؤڈر بنانے پر ۹۵۰ گرام – ۷۰ روپے میں خریدتے ہیں اور تین گنی زیادہ قیمت پر بیچتے ہیں۔
*****
’’کارپوریٹوں نے ہنسیا، بندوق یا لاٹھی کا
استعمال کیے بغیر ہی کسانوں کو شکست دے دی ہے۔‘‘
پی کے دیئی واسی
گمنی، صدر، ہندوستان کے ہلدی کے کاشتکاروں کی تنظیم (ٹی ایف اے آئی)
ٹی ایف اے آئی کے صدر، دیئی واسی گمنی کہتے ہیں، ’’میں نے بڑی کوشش کی، لڑائی لڑی، لیکن ہلدی کی صحیح قیمت طے کرنے میں ناکام رہا۔‘‘ پاری نے ایروڈ کے قریب واقع ان کے گھر پر، اکتوبر کی ایک شام کو جب بارش ہو رہی تھی، ان سے ملاقات کی۔ وہ کہتے ہیں، ’’حکومتیں کارپوریٹوں کی طرف بھاگ رہی ہیں، اور کارپوریٹ حکومتیں بنوا رہے ہیں۔ جب تک یہ تبدیل نہیں ہو جاتا، کسانوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے – صرف چھوٹے کسانوں کا ہی نہیں، بلکہ ہلدی کے کسانوں کا بھی۔ یہی حالت امریکہ کی بھی ہے۔ کاشتکاری اب منافع بخش نہیں رہی۔ وہاں پر وہ آپ کو انگریزی میں بتائیں گے، یہاں ہم آپ کو تمل میں بتا رہے ہیں۔‘‘
’’جاگیردارانہ نظام کی جگہ کارپوریٹوں نے لے لی ہے اور اب وہ نئے زمیندار بن چکے ہیں۔ تمام سہولیات سے لیس ہونے کی وجہ سے، وہ سینکڑوں ٹن ہلدی پروسیس کر سکتے ہیں۔ قیمت کے معاملے میں چند ٹن اُگانے والا چھوٹا کسان اُن سے مقابلہ کیسے کر سکتا ہے؟‘‘
ایروڈ کے قریب واقع پیروندورئی کے بازار میں روزانہ ہونے والی نیلامی ہلدی کے کاشتکاروں کی قسمت طے کرتی ہے۔ یہ صرف ہلدی کا ہی بازار ہے، جہاں پر اسے ذخیرہ کرنے کے کئی گلیارے ہیں – جن میں ہزاروں بوریاں جمع کی جا سکتی ہیں – اور ساتھ ہی یہاں پر نیلامی کرنے کے لیے بھی ایک جگہ مختص ہے۔ پاری نے جب ۱۱ اکتوبر کو ایسی ہی ایک نیلامی میں شرکت کی، تو اُس دن ایک کوئنٹل لمبی ہلدی (فنگر) کا ’ٹاپ ریٹ‘ ۷۴۴۹ اور گول ہلدی (بلب) کی قیمت ۶۶۶۹ روپے تھی۔ بازار کے سپروائزر، اروند پلنی سامی بتاتے ہیں کہ شماریات پر یقین رکھنے کی وجہ سے، تاجر اپنے ذریعے طے کی گئی قیمت ہمیشہ ’۹‘ پر ختم کرتے ہیں۔
۵۰ قسم کی ہلدی کے نمونے پلاسٹک کی ٹرے میں بطور نمائش رکھے ہوئے ہیں۔ تاجر ان میں سے ہر ایک ٹرے کے پاس سے گزرتے ہیں اور ان نمونوں کو توڑتے ہیں، سونگھتے ہیں، یہاں تک کہ انہیں فرش پر اچھالتے بھی ہیں! وہ اسے تولتے ہیں اور اپنی انگلیوں کے درمیان گھمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر ہر ایک نوٹ بناتے ہیں، اس کے بعد بولی لگاتے ہیں۔ ایک بڑی مصالحہ کمپنی کے خریداری کے شعبہ سے وابستہ سی آنند کمار نے بتایا کہ وہ صرف ’’پہلی کوالٹی‘‘ کو ہی چُنتے ہیں۔ آج، انہوں نے بطور نمونہ رکھی گئی ۴۵۹ بوریوں میں سے ۲۳ کا انتخاب کیا ہے۔
منڈی کے بغل میں ہی موجود اپنے دفتر میں اروِند نے مجھے بتایا کہ اس بازار کا سالانہ ٹرن اوور ۴۰ کروڑ روپے ہے۔ کڈوموڈی سے تعلق رکھنے والی ایل رسینا، منڈی میں سیمنٹ سے بنی سیڑھی پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ اپنے ساتھ ۳۰ کوئنٹل ہلدی لے کر آئی تھیں، جس کی قیمت انہیں ۵۴۸۹ روپے فی کوئنٹل کے حساب سے پیش کی گئی تھی۔
ان کے پاس چونکہ اپنی فصل کو ذخیرہ کرکے رکھنے کی کوئی جگہ نہیں ہے، اس لیے وہ ہمیشہ اسے سرکاری گودام لے جاتی ہیں جہاں ایک دن اسٹور کرنے کا کرایہ ۲۰ پیسے فی کوئنٹل دینا پڑتا ہے۔ کچھ کسان اچھی قیمت حاصل کرنے کے لیے چار سال تک انتظار کرتے ہیں۔ سات مہینے اور پانچ چکّر لگانے کے بعد، رسینا نے اسے بیچنے کا فیصلہ کیا۔ وہ بھی نقصان کے ساتھ۔
دیئی واسی گمنی بتاتے ہیں کہ ایروڈ، کوئمبٹور اور سلیم ضلعوں پر مشتمل کونگو حلقہ کے کئی کسانوں کے لیے زراعت ایک اضافی پیشہ ہے۔ ’’اگر انہوں نے صرف اسی پر انحصار کیا، تو انہیں جدوجہد کرنی پڑے گی۔‘‘
ان کا اندازہ ہے کہ تمل ناڈو میں ۲۵ سے ۵۰ ہزار کسان ہوں گے، جو قیمت کی بنیاد پر ہلدی لگاتے ہیں۔ اگر ایک کوئنٹل ہلدی ۱۷ ہزار روپے میں فروخت ہو رہی ہے (جیسا کہ کسی زمانے میں اس کی قیمت تھی)، تو ’’ہلدی کے ۵ کروڑ کسان‘‘ ہوں گے، وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’اور جب ایک کوئنٹل کی قیمت گھٹ کر ۵ ہزار ہو جائے، تو کسان بھی مشکل سے ۱۰ ہزار ہی ملیں گے۔‘‘
دیئی واسی گمنی کا ایک مشورہ ہے: کچھ اور اُگائیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’اتنی بڑی تعداد میں ہلدی اُگانا بند کریں۔ اگر پیداوار کم ہوئی، تو ہمیں اچھی قیمت مل سکتی ہے۔‘‘
*****
’’زیادہ پیداوار دینے والی ہائبرڈ کی بجائے دیسی
قسم اپنائیں۔‘‘
تیرو مورتی، ایروڈ کے
ہلدی کے کسان
پچھلے سال مارچ میں، انہوں نے اپنی صرف دو ٹن فصل کاٹی تھی – ہلدی کی مرجھاتی ہوئی پتیوں کا ایک بھورا انبار اُس ٹیم کا انتظار کر رہا ہے، جو اسے اُبال کر سُکھائے گی۔ تیرو مورتی جدید ٹیکنالوجی کے مخالف نہیں ہیں: وہ شمسی توانائی کا استعمال کرتے ہیں، اور اس سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ موروثی انواع میں بھی یقین رکھتے ہیں اور انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ ہلدی کی ’ایروڈ لوکل‘ قسم کو جغرافیائی نشان عطا کیا گیا ہے۔
وہ اُن تحقیقی اداروں کی تنقید کرتے ہیں، جو صرف پیداوار کو لے کر فکرمند رہتے ہیں۔ زیادہ فصل پر توجہ مرکوز کرنے سے کیمیاوی کھادوں کا صرف خرچ بڑھتا ہے اور کچھ نہیں۔ ’’حکومت، مناسب قیمت پر اپنی فصلیں فروخت کرنے میں ہماری مدد کیوں نہیں کرتی؟‘‘ وہ کہتے ہیں کہ پالیسی سازوں کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی بیوی اور بزنس پارٹنر گومتی اُن کی اس بات سے متفق ہیں۔ دونوں کا یہی مشورہ ہے، ’’زرعی یونیورسٹیوں کے طلباء سے کہئے کہ وہ یہاں آئیں اور ہمارے کھیتوں پر کام کریں۔ اگر وہ حقیقی دنیا کے مسائل کو نہیں سمجھیں گے، تو زندگی بھر صرف ہائبرڈ کی ہی ایجاد کرتے رہیں گے۔‘‘ ان کی یہ ناراضگی سمجھ میں آتی ہے۔ بڑی، چمکدار قسموں سے فی کوئنٹل ۲۰۰ روپے مزید ملتے ہیں – لیکن انہیں اُگانے پر بہت زیادہ کیمیکل استعمال کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے جب کاشتکاری کرنا شروع کیا تھا، تب نقدی حاصل کرنا بہت مشکل تھا۔ ہلدی جیسی سالانہ فصلوں کا پیسہ ایک سال بعد ملتا ہے۔ تیرو اب بینک سے قرض نہیں لے سکتے؛ ان کے والد نے بہت زیادہ قرض لے رکھا تھا، جس کے لیے انہوں نے اپنے بیٹے کو بطور ضامن پیش کیا تھا۔ اس لیے وہ اب بھی اُس ۱۴ لاکھ روپے کے قرض کی قسط ادا کر رہے ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے ایک غیر روایتی ذریعہ ’’رینڈُ روپا وٹّی‘‘ (ہر سو روپے پر ماہانہ دو روپے کا سود – یا ۲۴ فیصد سالانہ) سے قرض لیے ہیں۔
’’میرے فیس بک کے کچھ دوستوں نے بھی پیسے قرض دیے، وہ بھی چھ مہینے کے لیے اور بغیر کسی سود کے۔ شکر ہے، مجھے اب مزید قرض لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے اپنے دوستوں کا پیسہ لوٹا دیا ہے۔ لیکن میں اپنے والد کا قرض اب بھی چُکا رہا ہوں۔‘‘ اب وہ ہر مہینے ۵۰ ہزار روپے کماتے ہیں، جس کے لیے تین بالغ افراد (تیرو، ان کی ماں اور گومتی) روزانہ ۱۲ گھنٹے کام کرتے ہیں – لیکن فیملی کی مزدوری میں اُن کا شمار نہیں ہوتا۔
تیرو جس کمرے میں منجل کا پاؤڈر بناتے ہیں، وہاں سے وہ ایک مٹھی گول ہلدی (بلب) اٹھا کر دکھاتے ہیں۔ تیز نارنجی زرد رنگ کی یہ ہلدی پتھر کی طرح ٹھوس ہے۔ اتنی سخت کہ پیسنے والی مشین میں ڈالنے سے پہلے اسے گرینائٹ کے موسل سے ہاتھ سے کوٹا جاتا ہے، ورنہ یہ چکّی کی دھات والی بلیڈ کو توڑ دے گی۔
کمرے سے بہت اچھی خوشبو آ رہی ہے، تازہ پیسی ہوئی ہلدی کی خوشبو دماغ کو تروتازہ کر دیتی ہے۔ اس سے اڑنے والی سنہرے رنگ کی گرد ہر ایک چیز پر جم جاتی ہے: الیکٹرک گرائنڈنگ مل، سوئچ بورڈ؛ یہاں تک کہ مکڑی کے جالے بھی ہلدی کے غبار والی ہار پہنے ہوئے ہیں۔
مرودھنی (حنا یا مہندی) کا ایک بڑا دائرہ، اور اس کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے نقطے، تیرو کی ہتھیلی کو نارنجی بنا دیتے ہیں۔ ان کے دبیز بازو آگے کی کہانی باتے ہیں، جو سخت، جسمانی مشقت سے بھری ہوئی ہے۔ اس میں ایک چیز جو نظر نہیں آتی، وہ اپنی فصلوں کی قدر میں اضافہ کرنے کی ان کی بے پناہ کوششیں ہیں اور کچھ مہنگے تجربات جو ناکام رہے۔ اس سال کی ادرک کی فصل کی طرح، جو تباہ کن رہی۔ لیکن ۴۰ ہزار روپے کے اس نقصان کو وہ ’’ایک سبق‘‘ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ جس وقت وہ مجھے یہ ساری باتیں بتا رہے ہیں، ان کی بیوی گومتی ہمارے لیے بجّی اور چائے تیار کر رہی ہیں۔
*****
’’ہلدی کی اہمیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے، ایروڈ
ضلع کے بھوانی ساگر میں تقریباً ۱۰۰ ایکڑ کے رقبہ میں ہلدی کا ایک نیا تحقیقی مرکز
قائم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔‘‘
ایم آر کے پنیر
سیلوَم، وزیر زراعت، تمل ناڈو
ہندوستان جب اپنی ٹاپ کوالٹی کی ہلدی ۹۳ روپے ۵۰ پیسے کلو کے حساب سے ایکسپورٹ کرنے لگے اور ۸۶ روپے کلو کے حساب سے امپورٹ کرنے لگے، تو ایسے میں کسان بھلا کامیاب کیسے ہو سکتا ہے؟ ۷ روپے کا یہ فرق نہ صرف ہندوستانی کسانوں کے لیے وبال جان ہے، بلکہ تیزی سے بڑھتی ہوئی درآمدات – چار سال پہلے کے مقابلے دو گنا – مستقبل میں مناسب قیمت ملنے کے کسی بھی امکان کو ختم کر دیتی ہے۔
تمل ناڈو کی حکومت نے اپنے ایک سرکاری حکم نامہ میں اسے تسلیم کیا ہے: وزیر زراعت، پنیر سیلوَم کہتے ہیں، ’’ہندوستان سب سے زیادہ ہلدی پیدا کرنے والا ملک ہے، لیکن ’’کورکومین کی اعلیٰ مقدار والی انواع کی خواہش میں‘‘ دیگر ممالک سے اسے درآمد کرتا ہے۔
پچھلے سال اگست میں زرعی بجٹ الگ سے پیش کرتے ہوئے، پنیر سیلوم نے ہلدی کے لیے نیا تحقیقی مرکز قائم کرنے کے فیصلہ کا اعلان کیا تھا، جس کے لیے ریاستی حکومت ۲ کروڑ روپے دے گی۔ ریاست نے وعدہ کیا ہے کہ وہ بہتر انواع فراہم کرے گی، فصل کی قدر کو بڑھائے گی اور عملی تربیت مہیا کرائے گی، تاکہ ’’کسان اسے چھوڑ کر کسی دوسری فصل کی طرف نہ بھاگئیں۔‘‘
خود تیرو مورتی نے جو فلسفہ اپنایا ہے، وہ آسان ہے: یعنی گاہک کو اچھا سامان دیں۔ ’’اگر میرا سامان اچھا ہوگا، تو ۳۰۰ لوگ اسے خریدیں گے، اور ۳۰۰۰ دوسرے لوگوں کو بتائیں گے۔ لیکن اگر وہ سامان گھٹیا ہے، تو وہی ۳۰۰ لوگ مزید ۳۰ ہزار لوگوں کو بتائیں گے کہ یہ خراب ہے۔‘‘ سوشل میڈیا کے ذریعے اور خود اپنے منہ سے پرچار کرکے، وہ اپنی منجل کی ۳ ٹن فصل ۱۰ مہینے میں فروخت کر دیتے ہیں، یعنی ایک مہینے میں اوسطاً تقریباً ۳۰۰ کلو۔ اور ایسا کرتے ہوئے انہوں نے کچھ اہم سبق سیکھے ہیں۔ پہلا، آرگینک ہلدی کے لیے تھوک بازار میں الگ سے کوئی عمدہ قیمت نہیں ملتی۔ اور دوسرا، کسان جب تک براہ راست خود ہی فصل کو فروخت نہ کرے، اسے اچھی قیمت نہیں مل سکتی۔
تیرو، ہلدی کو دو طریقے سے پروسیس کرتے ہیں۔ پہلا روایتی طریقہ ہے اسے اُبالنا، سُکھانا اور پھر پیس کر اس کا پاؤڈر بنانا۔ وہ مجھے لیب کے نتائج دکھاتے ہیں – اس طریقے سے حاصل ہونے والی کورکومین کی مقدار ۳ اعشاریہ ۶ فیصد ہوتی ہے۔ دوسرا طریقہ غیر روایتی ہے، جس میں ہلدی کو پتلا کاٹ کر دھوپ میں سُکھایا جاتا ہے، پھر اسے پیس کر پاؤڈر بنایا جاتا ہے۔ اس طریقے سے ۸ اعشاریہ ۶ فیصد کورکومین حاصل ہوتی ہے۔ لیکن، کورکومین کی اعلیٰ مقدار میں تیرو مورتی کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’اگر اس کا استعمال دوا بنانے والی صنعت میں ہونا ہے، تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن کھانے میں استعمال کے لیے آپ کو زیادہ فیصد کیوں چاہیے؟‘‘
وہ کٹائی کے فوراً بعد تازہ ہلدی بھی بیچتے ہیں، جس کی قیمت ۴۰ روپے فی کلو (پیک کرکے ڈاک سے بھیجنے پر ۷۰) ملتی ہے۔ اس کے علاوہ، وہ اور گومتی ہر مہینے ہاتھ سے صابن کی ۳۰۰۰ ٹکّیاں بھی بناتے ہیں۔ وہ مختلف قسم کی جڑی بوٹیوں کے ساتھ اسے چھان پھٹک کر نو قسم کی اشیاء بناتے ہیں۔ اس میں دو قسم کی ہلدی، ایلو ویرا، خس، کُپّ مینی، آرَپُ، شیکا کائی اور نیم۔
بیوی انہیں چھیڑتی ہیں: ’’لوگ کہتے ہیں کہ اجزائے ترکیبی کے بارے میں مت بتاؤ، لیکن وہ سب کچھ شیئر کر دیتے ہیں، بنانے کا طریقہ بھی۔‘‘ تیرو نے فیس بک پر ہلدی سے ہیئر ڈائی (خیزاب) بنانے کا طریقہ بھی پوسٹ کر رکھا ہے۔ وہ پروسیس کا انکشاف کرنے کے لیے ہمیشہ بے چین رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’دوسروں کو آزمانے دیں، ابتدائی جوش کو برقرار رکھنا مشکل ہے!‘‘
*****
’’کسان اپنی بہترین پیداوار کبھی نہیں کھاتا،
بلکہ وہی کھاتا ہے جو فروخت ہونے سے بچ جائے۔ ہماری تمام پیداوار کے ساتھ یہی ہوتا
ہے۔ ہم ٹیڑھے میڑھے کیلے کھاتے ہیں؛ ٹوٹے ہوئے صابن کو اپنے پاس رکھ لیتے ہیں…‘‘
ٹی گومتی، ایروڈ کی
ہلدی کی کسان
تیرو مورتی اور گومتی کی شادی ۲۰۱۱ میں ہوئی تھی۔ آرگینک طریقے سے کھیتی کرنے والے کسان وہ پہلے سے ہی تھے – لیکن اس کی قدر میں اضافہ کرنا نہیں جانتے تھے۔ سال ۲۰۱۳ میں، وہ پہلی بار فیس بک پر آئے۔ وہاں ایک پوسٹ شیئر کرنے کے بعد انہیں سوشل میڈیا کی طاقت کا اندازہ ہوا، ساتھ ہی دیہات اور شہر کے درمیان رابطہ کی کمی اور دیگر چیزوں کے بارے میں پتہ چلا۔
انہوں نے دراصل، ناشتہ کرتے ہوئے اپنی ایک تصویر فیس بُک پر ڈالی۔ اور اسی سے یہ سب شروع ہوا۔ وہ جس چیز کو شائستہ کھانا سمجھ رہے تھے (یعنی راگی کلی )، اس کی لوگوں نے کافی تعریف کی۔ اس پوسٹ کے لائکس اور کمنٹس کو دیکھ کر انہیں کافی حوصلہ ملا۔ لہٰذا، انہوں نے کھیت پر گزاری جانے والی اپنی زندگی کی تفصیلات باقاعدگی سے پوسٹ کرنی شروع کر دیں۔ اب چاہے کھیتوں سے گھاس پھوس نکالی جا رہی ہو، آرگینک کھاد کا چھڑکاؤ ہو رہا ہو یا کچھ اور، ہر ایک چیز کی ریکارڈنگ آن لائن ہونے لگی۔
انہوں نے جب ہلدی کی پہلی فصل کاٹی، تو اسے آن لائن ہی فروخت کر دیا۔ کچھ دنوں بعد گومتی نے بھی ان کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔ ’’صابن، تیل اور پاؤڈر کے لیے آرڈر میرے فون پر وہاٹس ایپ کے ذریعے آتے ہیں جسے میں اس کے پاس بھیج دیتا ہوں۔‘‘ اپنے گھریلو کام اور بچوں (۱۰ سال کے بیٹے نیتولن اور ۴ سال کی بیٹی نیگاڈینی) کی دیکھ بھال کے علاوہ، پیکنگ اور ڈاک سے بھیجنے کا سارا کام گومتی ہی کرتی ہیں۔
کووڈ لاک ڈاؤن اور بیٹے کی آن لائن کلاسز نے ان کی زندگی کو مشکل بنا دیا ہے۔ ایک بار جب ہم وہاں گئے، تو بچے ایک شیشی میں رکھے مینڈک کے بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے جب کہ ان کا کتا بڑی دلچسپی سے اس کے اندر جھانک رہا تھا۔ دوسری بار، وہ ایک اسٹیل کی پائپ کو چمکا رہے تھے۔ اسے دیکھ کر ماں نے آہ بھرتے ہوئے کہا، ’’انہوں نے بس یہی کرنا سیکھا ہے، کھمبے پر چڑھنا۔‘‘
اپنی مدد کے لیے انہوں نے گاؤں کی ہی ایک عورت کو کام پر رکھا ہوا ہے، جو ان کا ہاتھ بٹاتی ہے۔ گومتی کہتی ہیں، ’’ہم ۲۲ قسم کے سامان بناتے ہیں، لہٰذا گاہک ہمارے کیٹلاگ سے ان میں سے ہر ایک کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ یہ آسان نہیں ہے۔‘‘ وہ گھر چلاتی ہیں؛ شو چلاتی ہیں۔ اور بولنے سے کہیں زیادہ مسکراتی ہیں۔
تیرو کا دن کم از کم ۱۰ گاہکوں کو یہ سمجھانے میں گزر جاتا ہے کہ ان کا ہلدی پاؤڈر مقامی بازار میں عام طور سے دستیاب ہلدی پاؤڈر کے مقابلے دو گنا مہنگا کیوں ہے۔ ’’میں روزانہ کم از کم دو گھنٹے لوگوں کو آرگینک کھیتی، ملاوٹ اور حشرہ کش ادویات کے خطرات سے آگاہ کرنے میں صرف کرتا ہوں۔‘‘ فیس بک پر ان کے ۳۰ ہزار فالوور ہیں، اس لیے وہ جب بھی کوئی پوسٹ کرتے ہیں، تو تقریباً ۱۰۰۰ لوگ اسے ’لائک‘ کرتے ہیں، اور ۲۰۰ لوگ اس پر کمنٹ کرتے ہیں۔ وہ سوال پوچھتے ہیں، ’’اگر میں ان کا جواب نہ دوں تو ان کی نظروں میں، میں ’فرضی‘ بن جاؤں گا۔‘‘
رات دن کھیتوں پر کام کرنے اور ای بزنس چلانے کی وجہ سے (’’مجھے معلوم نہیں تھا کہ اسے ای بزنس کہتے ہیں، پچھلے مہینے پتہ چلا!‘‘) انہیں بالکل بھی فرصت نہیں ملتی۔ چھٹی پر گئے ہوئے انہیں پانچ سال ہو چکے ہیں۔ ’’شاید اس سے بھی زیادہ،‘‘ گومتی ہنستے ہوئے کہتی ہیں۔ ’’وہ زیادہ سے زیادہ چھ گھنٹے کی چھٹی لے سکتے ہیں۔ اس کے بعد انہیں گھر لوٹنا پڑتا ہے، اپنے گایوں اور فصل اور لکڑی کے چیکُّ [تیل نکالنے کا کولہو] کے پاس۔‘‘
جب کہیں کوئی شادی ہوتی ہے، تو ان کی ماں اس میں شریک ہوتی ہیں، ان کا بڑا بھائی کار سے انہیں لے جاتا ہے۔ تیرو کے پاس شادی میں شرکت کرنے کا وقت نہیں ہوتا۔ وہ مذاقیہ لہجے میں کہتے ہیں، ’’کووڈ۔۱۹ کے بعد ہم کچھ پیسہ بچا لیتے ہیں۔ تقریب میں شامل ہونے کے لیے، عموماً ہمیں کوئمبٹور تک گاڑی چلا کر جانا پڑتا تھا۔ اب ہمارا وہ ۱۰۰۰ روپیہ بچ جاتا ہے کیوں کہ تقریبات پر پابندی ہے۔‘‘
مزدور جب کھیت پر آتے ہیں، تو ’’اماں ان کی نگرانی کرتی ہیں۔ میرا وقت ان بڑے کاموں میں گزرتا ہے۔‘‘ میرے دونوں دورے کے دوران، گومتی یا تو باورچی خانہ میں یا پھر ورکشاپ میں مصروف تھیں – جو ان کے لیونگ روم کے پیچھے، ایک اونچی چھت والی جگہ ہے جہاں الماریوں میں کئی قسم کے صابن رکھے ہوئے ہیں، جن پر صفائی سے ان کی قسم اور تاریخ لکھی ہوئی ہے۔ تیرو اور گومتی روزانہ کم از کم ۱۲ گھنٹے کام کرتے ہیں۔ ان کے دن کی شروعات صبح ساڑھے پانچ بجے ہوتی ہے۔
جڑی بوٹیوں اور ان کی خصوصیات کا انہیں گہرا علم ہے، اور سب کے تمل نام انہیں معلوم ہیں۔ گومتی بالوں کے لیے خوشبودار تیل بھی بناتی ہیں، جس کے لیے وہ پہلے ناریل کے تیل میں پھولوں اور جڑی بوٹیوں کو بھگوتی ہیں اور پھر اسے دھوپ میں گرم کرتی ہیں۔ وہ مجھے بتاتی ہیں، ’’گاہکوں کے پاس بھیجنے سے پہلے ہم لوگ ہر ایک پروڈکٹ کی جانچ کرتے ہیں۔‘‘
تیرو بتاتے ہیں کہ اب ان کی پوری فیملی اس بزنس میں شامل ہو چکی ہے۔ یہ اُن کی بغیر مزدوری والی محنت ہے، جس سے انہیں اپنی مصنوعات کی قیمت کم رکھنے میں مدد ملتی ہے۔
*****
’’امول دودھ بنانے والوں کو اپنے صارف کی قیمت
کا تقریباً ۸۰ فیصد ملتا ہے۔ دنیا میں اس جیسا کوئی اور ماڈل نہیں ہے۔‘‘
کالم نگار، بالا
سبرامنیم موتوسامی
تیرو کے ماڈل پر عمل کرنا ان اوسط چھوٹے کسانوں کے لیے مشکل ہو سکتا ہے، جو دوسرے کی زمین کرایے پر لیتے ہیں یا جن کے پاس کم زمین ہے [دو ایکڑ سے بھی کم)۔ ایسے کسان اُن کی کامیابی کو دوہرا نہیں سکتے۔ آن لائن تمل نیوز پلیٹ فارم، ارونچول کے کالم نگار اور ایروڈ ضلع کی ایک کاشتکار فیملی سے تعلق رکھنے والے بالا سبرامنیم موتوسامی کا ماننا ہے کہ کوآپریٹو ماڈل ہی واحد قابل عمل حل ہے۔
وہ صارف کے ذریعے ادا کی جانے والی قیمت کے فیصد کو کسانوں کے ذریعے حاصل کی جانے والی قیمت سے تقسیم کر دیتے ہیں۔ دودھ کی جیت ہوتی ہے، ہاتھ کی شکست۔ کوآپریٹو ماڈل کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے، جس کے لیے وہ امول کی مثال پیش کرتے ہیں۔ ہلدی کے کسانوں کو، گاہک کے ذریعے ادا کی گئی فی کلو ۲۴۰ روپے کی قیمت کا ۲۹ فیصد حاصل ہوتا ہے۔ لیکن، امول دودھ کے معاملے میں، کسانوں کو تقریباً ۸۰ فیصد ملتا ہے۔
بالا سبرامنیم کا کہنا ہے کہ کامیابی کی کلید کسانوں کو بڑے پیمانے پر منظم کرنا ہے۔ ’’بزنس سپلائی چین کو اپنے ہاتھ میں رکھنا اور بچولیوں سے دور رہنا۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ کوآپریٹو اور کسان تنظیموں میں مسئلہ ہے۔ ’’انہیں بہتر طریقے سے سنبھالنے کی ضرورت ہے اور آگے بڑھنے کا یہی ایک راستہ ہے۔‘‘
تیرو کہتے ہیں کہ ہلدی کی کھیتی سے اچھا منافع کمایا جا سکتا ہے – لیکن ایسا تبھی ہو سکتا ہے جب آپ اس کی قدر میں اضافہ کریں۔ گزشتہ سات سالوں میں، انہوں نے ناریل تیل، کیلے کا پاؤڈر، کُم کُم (ہلدی سے)، اور صابن کے علاوہ ۴۳۰۰ کلو ہلدی پاؤڈر بھی فروخت کیا ہے۔ لیکن وہ بتاتے ہیں کہ اگر ان کے پاس اپنی زمین نہیں ہوتی، تو یہ سب کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ (جو ایک بار پھر اس بات کی دلیل ہے کہ چھوٹے کسانوں کے لیے’’دس ایکڑ کی قیمت چار کروڑ روپے آئے گی! اتنا پیسہ کون دے گا؟‘‘ ان کا پورا بزنس آن لائن ہے۔ ان کے پاس جی ایس ٹی نمبر ہے، اور وہ جی پے، فون پے، پے ٹی ایم، بھیم اور اپنے بینک کھاتہ کے ذریعے پیسے وصول کرتے ہیں۔
سال ۲۰۲۰ میں، اداکار کارتک شیو کمار کے اُوڈوَن فاؤنڈیشن نے آرگینک کھیتی اور قدر میں اضافہ کرنے اور گاہک کو براہ راست بیچنے کے لیے ریتو کو ایوارڈ اور ایک لاکھ روپے کا نقد انعام دیا تھا۔ انہیں یہ انعام، کونگو خطہ کے ہی ایک تمل اداکار، ستیہ راج کے ہاتھوں ملا تھا۔
ہر سال، ایک چھوٹی سی کامیابی، تیرو کے ارادوں کو مزید مضبوطی عطا کرتی ہے۔ وہ ہار نہیں سکتے۔ تیرو کہتے ہیں، ’’میں کسان کے منہ سے لفظ ’نقصان‘ نہیں سننا چاہتا۔ مجھے اسے مفید بنانا ہی ہوگا۔‘‘
مضمون نگار، اس اسٹوری کی رپورٹنگ کے وقت مدد فراہم کرنے اور میزبانی کرنے کے لیے، کرشی جننی کی بانی اور سی ای او، اوشا دیوی وینکٹ چلم کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہیں۔
اس تحقیقی مطالعہ کو عظیم پریم جی یونیورسٹی کی طرف سے اپنے ریسرچ فنڈنگ پروگرام ۲۰۲۰ کے حصہ کے طور پر مالی تعاون حاصل ہے۔
کور فوٹو: ایم پلانی کمار
مترجم: محمد قمر تبریز