جنماشٹمی کا موقع تھا۔ شری کرشن نے ایسے قصے سنے تھے کہ آریہ ورت پر ان کی پیدائش کی گھڑی کو جوش و خروش اور زور شور سے منایا جاتا ہے۔ بچوں کو شری کرشن کی طرح ہی زرد پوشاک پہنائے جاتے ہیں، کرشن کے معتقد بھکتی کے جذبے سے جھومتے ہوئے جھانکیاں نکالتے ہیں، کرشن لیلائیں ہوتی ہیں، دہی ہانڈی کا پروگرام ہوتا ہے، عقیدت کے جذبے سے سرابور رقص ہوتے ہیں، جشن کا ماحول ہوتا ہے۔ تو اس بار شری کرشن نے طے کیا کہ وہ آریہ ورت کے اپنے معتقدین کے درمیان جائیں گے۔

شری کرشن بھیس بدل کر آریہ ورت کا چکر لگا رہے تھے اور لوگوں کو جشن مناتے ہوئے دیکھ کر خوش ہو ہی رہے تھے کہ گورکھ ناتھ کے شہر کو پار کرتے ہوئے ان کے کانوں میں چیخنے کی آواز سنائی دی۔ اس آہ و بکا کو سن کر کرشن کی توجہ اُس جانب مبذول ہوئی۔ وہ اس شخص کے پاس پہنچے، تو انہوں نے دیکھا کہ وہ آدمی اپنے کندھے پر ایک بچے کی لاش رکھے ایک اسپتال سے نکل رہا تھا۔ اسے دیکھ کر شری کرشن سے برداشت نہیں ہوا۔ انہوں نے اس شخص سے پوچھا، ’’کیا ہوا وتس! کیوں اس طرح رو رہے ہو؟ اور تمہارے کندھے پر یہ بچہ کون ہے؟‘‘ آدمی نے شری کرشن کی طرف دیکھا اور کہا، ’’بہت دیر کر دی آپ نے یہاں آنے میں بھگوان! میرا بیٹا مر گیا۔‘‘

شری کرشن سے کچھ کہا نہ گیا۔ وہ اس کے ساتھ شمشان کی طرف بڑھ گئے۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ وہاں ہزاروں بچوں کی لاشیں قطار میں پڑی ہوئی تھیں اور ان کے ماں باپ اپنا سینہ پیٹتے، چیختے ہوئے اپنے پیارے بچوں کی ٹھنڈی پڑ گئی لاشوں کو بے تحاشہ چوم رہے تھے۔

شری کرشن سوالوں سے گھرے ہوئے تھے۔ سارے زرد رنگ کے لباس کہاں چلے گئے؟ یہ کیسا خوفناک جشن تھا؟ ان بچوں کی حالت ایسی کیوں؟ کس کنس نے یہ حالت کی ہے؟ کس کا شراپ (بد دعا) تھا یہ؟ یہ کیسا ملک ہے؟ کس کی ریاست ہے؟ کیا یہ لوگ یتیم ہیں؟

دیویش کی آواز میں، ہندی میں یہ نظم سنیں

پرتشٹھا پانڈے کی آواز میں، انگریزی میں یہ نظم سنیں

کیا اس شہر کے بچے یتیم ہیں؟

1. کیلنڈر دیکھئے
اگست آتا ہے اور گزر جاتا ہے

جن سے نہیں گزرتا، ان کی آنکھ سے بہتا ہے
کانپتے ہاتھوں سے گرتا ہے اور ٹوٹ جاتا ہے
ناک کے اندر سانس کو نہیں گھسنے دیتا
دَم چھین لیتا ہے


کچھ کا برا خواب
کچھ کے گلے کی پھانس
میرے گورکھپور کی ماؤں کا
لعل ہے
اگست کچھ کے لیے پورا سال ہے

2. مگر ماؤں کا ڈر صحیح نہیں ہے
باپوں نے بھی جھوٹ کہا تھا سب کہتے ہیں

اسپتالوں میں زندگی بخش ہوا نہیں ملنے کی بات،
ایک مغل حملہ آور کی سازش تھی
اصل میں تو اتنا آکسیجن موجود ہے
کہ ہر گلی نُکّڑ پر
آکسیجن کھینچتی اور چھوڑتی نظر آتی ہیں گئو ماتا

اتنا آسان ہے کہ اب تو آکسیجن کا نام سنتے ہی
گھُٹنے لگتا ہے دَم

3. یہ کس کے بچے ہیں جن کے چہرے یتیم ہوئے جاتے ہیں
یہ کس کے بچے ہیں جنہیں نالوں میں پیدا ہوئے مچھر کاٹ جاتے ہیں
یہ کس کے بچے ہیں
جن کے ہاتھوں میں بانسری نہیں

کون ہیں ان کے ماں باپ
کہاں سے آتے ہیں یہ لوگ....
جن کی جھگیاں دوسری دنیا
کی جھانکیوں میں شامل نہیں ہوتیں
جن کے گھروں میں رات کے آدھے
پہر کرشن اوتار نہیں لیتے
بس پیدا ہو جاتے ہیں

اور انہیں آکسیجن چاہیے!
چاہیے انہیں اسپتال کے بیڈ!

کمال ہے!

4. گورکھ کی دھرتی پھٹنے کو ہے
کبیر ماتم کے رقص میں مصروف ہیں
آگ کی لپٹوں میں جلتے ہیں راپتی کے کنارے
جس شہر کو زار زار رونا تھا
اس کی آواز خاموش ہے

صوبے کے مہنت کا کہنا ہے
دیوتاؤں کا روحانی وقار
بچوں کی قربانی مانگتا ہے

الفاظ و معانی:

آریہ ورت: یہ ایک ایسا لفظ ہے جو ہندوستانی سیاق و سباق میں، تاریخ کے الگ الگ صفحات پر مختلف ادوار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ویدک تہذیب، رامائن اور مہابھارت کے ساتھ ساتھ، بدھ اور مہاویر کی سر زمین کو بھی آریہ ورت کہا جاتا رہا ہے

دہی-ہانڈی: مانا جاتا ہے کہ کرشن کو دہی بہت پسند تھی۔ کرشن جنماشٹمی کے دن مٹکے میں دہی بھر کر، ایک مقررہ اونچائی سے لٹکا دیا جاتا ہے اور نوجوان لڑکے لڑکیاں انسانی پرامڈ بناکر اسے توڑنے کی کوشش کرتے ہیں

کنس: شری کرشن کے ماموں اور متھرا کے حکمراں، جس نے خود کی حفاظت کے نام پر اپنی بہن کے بچوں سمیت بے شمار نومولو بچوں کا قتل کروا دیا تھا

گورکھ: ۱۳ویں صدی کے گرو اور ’ناتھ فرقہ‘ کے سب سے اہم یوگی۔ جن نظموں میں انہیں درج کیا جاتا ہے، ’’گورکھ بانی‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہیں

راپتی: مشرقی اتر پردیش میں بہنے والی ندی، جس کے دہانے پر گورکھپور آباد ہے

کبیر: ۱۵ویں صدی کے صوفی شاعر

اس منظوم اسٹوری کو عملی جامہ پہنانے میں اہم تعاون فراہم کرنے کے لیے اسمیتا کھٹور کا خاص شکریہ۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Poems and Text in Hindi : Devesh

देवेश एक कवि, पत्रकार, फ़िल्ममेकर, और अनुवादक हैं. वह पीपल्स आर्काइव ऑफ़ रूरल इंडिया के हिन्दी एडिटर हैं और बतौर ‘ट्रांसलेशंस एडिटर: हिन्दी’ भी काम करते हैं.

की अन्य स्टोरी Devesh
Painting : Labani Jangi

लाबनी जंगी साल 2020 की पारी फ़ेलो हैं. वह पश्चिम बंगाल के नदिया ज़िले की एक कुशल पेंटर हैं, और उन्होंने इसकी कोई औपचारिक शिक्षा नहीं हासिल की है. लाबनी, कोलकाता के 'सेंटर फ़ॉर स्टडीज़ इन सोशल साइंसेज़' से मज़दूरों के पलायन के मुद्दे पर पीएचडी लिख रही हैं.

की अन्य स्टोरी Labani Jangi
Translator : Qamar Siddique

क़मर सिद्दीक़ी, पीपुल्स आर्काइव ऑफ़ रुरल इंडिया के ट्रांसलेशन्स एडिटर, उर्दू, हैं। वह दिल्ली स्थित एक पत्रकार हैं।

की अन्य स्टोरी Qamar Siddique