’’ شالیت جائیچے…شالیت…ویبھو…ویبھو…شالیت… [اسکول جانا ہے…اسکول…]۔‘‘

پرتیک اس بات کو بار بار دوہراتا ہے، ایک کلاس میٹ (ہم جماعت) کو فون کرتا ہے جو وہاں نہیں ہے۔ وہ اپنے ایک کمرے کے مٹی سے بنے گھر کی دہلیز پر بیٹھا ہے، اور بچوں کے ایک جھنڈ کو پاس میں کھلکھلاتے اور کھیلتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔ یہ بچہ (۱۳ سال) صبح سے شام تک یہیں بیٹھا رہتا ہے۔ یا سامنے کے باڑے میں ایک درخت سے ٹیک لگا کر کھڑا رہتا ہے، اپنی دنیا کو دیکھتا رہتا ہے – جو ان ۱۱ مہینوں میں شاید ہی کبھی اُس دہلیز اور باڑے سے آگے بڑھی ہے جس میں وہ درخت اور گئوشالہ ہے۔

راشین گاؤں کے دوسرے بچے پرتیک کے ساتھ نہیں کھیلتے ہیں۔ اس کی ۳۲ سالہ ماں شاردا راؤت بتاتی ہیں، ’’یہاں کے بچے اس کی بات نہیں سمجھتے ہیں، وہ اکیلا رہ جاتا ہے۔‘‘ انہیں پہلے ہی محسوس ہو گیا تھا کہ پرتیک گاؤں کے دوسرے بچوں سے الگ ہے، اور یہاں تک کہ ان کے اپنے بڑے بچے سے بھی۔ وہ ۱۰ سال کی عمر تک زیادہ کچھ بول پانے اور اپنے کام کر پانے کے لائق نہیں تھا۔

جب وہ آٹھ سال کا تھا، تب احمد نگر ضلع کے کرجت تعلقہ میں واقع اس کے گاؤں سے تقریباً ۱۶۰ کلومیٹر دور سولاپور میں حکومت کے ذریعے چلائے جا رہے چھترپتی شیواجی مہاراج سرووپچار روگنالیہ میں پرتیک کو مائلڈ ڈاؤن سنڈورم ہونے کی رپورٹ آئی تھی۔ شاردا یاد کرتی ہیں، ’’۱۰ سال کی عمر تک وہ بات نہیں کر پاتا تھا۔ لیکن پھر اس نے اسکول جانا شروع کر دیا اور تب سے وہ مجھے آئی [ماں] بلاتا ہے۔ وہ خود سے بیت الخلاء جاتا ہے اور غسل کرتا ہے۔ میرے بیٹے کے لیے اسکول ضروری ہے۔ اس نے کچھ حروف بھی سیکھے ہیں، اور اگر وہ اسکول جانا جاری رکھتا ہے، تو اس کی حالت بہتر ہو سکتی ہے۔ لیکن پھر یہ وبائی مرض آ گیا…‘‘ ان کی آواز مدھم ہو جاتی ہے۔

مارچ ۲۰۲۰ میں کووڈ۔۱۹ وبائی مرض کی شروعات میں پرتیک نے جس رہائشی اسکول میں داخلہ لیا تھا، اس نے اپنا کیمپس بند کر دیا۔ وہ دماغی طور سے معذور ۲۵ طلباء میں سے ایک تھا – سبھی لڑکے، جن کی عمر ۶ سے ۱۸ سال کے درمیان تھی – انہیں گھر واپس بھیج دیا گیا۔

Prateek Raut sometimes tried to write a few alphabets, but with the school break extending to 11 months, he is forgetting all that he learnt, worries his mother
PHOTO • Jyoti Shinoli
Prateek Raut sometimes tried to write a few alphabets, but with the school break extending to 11 months, he is forgetting all that he learnt, worries his mother
PHOTO • Jyoti Shinoli

پرتیک راؤت کبھی کبھی کچھ حروف لکھنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن ۱۱ مہینے سے اسکول بند ہونے کی وجہ سے وہ سب کچھ بھولتا جا رہا ہے، جو بھی اس نے سیکھا تھا۔ اس بات سے اس کی ماں فکرمند ہیں

پرتیک نے ۲۰۱۸ میں اسکول جانا شروع کیا تھا، جب ایک رشتہ دار نے اس کی ماں کو سولاپور ضلع کے کرمالا تعلقہ میں دماغی طور سے معذور بچوں کے لیے رہائشی گیان پربودھن متی مند نواسی ودیالیہ کے بارے میں بتایا تھا۔ یہ اسکول پرتیک کے گاؤں سے تقریباً ۱۰ کلومیٹر دور واقع ہے۔ تھانے کی ایک غیر سرکاری تنظیم، شرمک مہیلا منڈل کے ذریعے چلایا جا رہا یہ اسکول، طلباء کے لیے مفت ہے اور فیملی کو کوئی خرچ نہیں دینا پڑتا ہے۔

اسکول کے چار ٹیچر، پیر سے جمعہ تک صبح ۱۰ بجے سے شام کے ساڑھے ۴ بجے تک چلنے والی کلاسوں اور ہفتہ کو کچھ گھنٹے کی کلاس کے دوران ان طلباء کو اسپیچ تھراپی، جسمانی ورزش، ذاتی نگہداشت، پیپر کرافٹ، لینگویج اسکلز، نمبر، رنگ، اور چیزوں کی پہچان میں ان کی رہنمائی کرتے ہیں اور انہیں ٹریننگ دیتے ہیں۔

لیکن لاک ڈاؤن نے پرتیک کے اسکول کے روٹین پر روک لگا دی، ٹیچروں اور دیگر طلباء کے ساتھ اس کی بات چیت کو بند کر دیا۔ مارچ میں اسکول بند ہونے سے پہلے اس نے جو سیکھا تھا، اس کی مدد سے گھر پر اس نے مراٹھی اور انگریزی میں کبھی کبھی کچھ حروف لکھنے کی کوشش کی – ا، آ، ای…اے بی سی ڈی۔

لیکن ۱۱ مہینے تک بڑھ گئی اسکولی چھٹیوں کے سبب، وہ سب کچھ بھولتا جا رہا ہے، جو اس نے سیکھا تھا۔ شاردا اس بات سے فکرمند رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ پرتیک نے دسمبر سے حروف لکھنا بند کر دیا ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں، ’’جب وہ مارچ میں لوٹا تھا، تو بہت پر امن تھا۔ لیکن جیسے جیسے مہینے گزرتے گئے، وہ بہت چڑچڑا ہو گیا اور غصے سے جواب دیتا ہے، بھلے ہی میں اس سے پیار سے کچھ پوچھوں۔‘‘

شمال وسطی ممبئی کے ساین میں واقع لوک مانیہ تلک میونسپل جنرل اسپتال میں مرض اطفال، نشو و نما سے متعلق خرابیوں کے ماہر اور پروفیسر ڈاکٹر مونا گجرے کہتی ہیں، دماغی طور سے معذور بچوں کے لیے اسکول میں چل رہا روٹین اور ٹریننگ بہت اہم ہے۔ اسپیشل اسکول کی اہمیت کو سمجھاتے ہوئے، جہاں ’’ہر کام کو کئی چھوٹے حصوں میں بانٹ دیا جاتا ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں کہ صبر سے لگاتار کسی بات کو سمجھا پانے کا عمل ’’کام کو یاد رکھنے اور آگے خود کر پانے کو آسان بناتا ہے۔ اگر تسلسل نہیں ہے تو [دماغی معذوری کے شکار] بچے کبھی کبھی کچھ مہینوں کے اندر ہی سیکھی ہوئی چیزوں کو بھول جاتے ہیں۔‘‘

بچوں کو ان کی پڑھائی سے جوڑے رکھنے کے لیے، پرتیک کے اسکول نے طلباء کے گھر واپس آنے پر ان کے ساتھ کچھ تعلیمی مواد بھیجا تھا۔ لیکن شاردا کو پرتیک کو سبق پڑھانے میں مشکل پیش آتی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’اس کے ٹیچر نے کلر (رنگ) اور حروف کے چارٹ دیے، لیکن وہ ہماری بات نہیں مانتا ہے اور ہمیں بھی کام کرنا ہوتا ہے۔‘‘ شاردا، جنہوں نے ۱۰ویں کلاس تک پڑھائی کی ہے، گھر کا کام سنبھالتی ہیں اور اپنے والد دتاتریہ راؤت (عمر تقریباً ۴۰ سال) کے ساتھ فیملی کے دو ایکڑ کے کھیت میں کام کرتی ہیں۔

'His teacher gave colour and alphabets charts, but he doesn’t listen to us and we also have to work', says Sharada, who handles housework and farm work
PHOTO • Jyoti Shinoli
'His teacher gave colour and alphabets charts, but he doesn’t listen to us and we also have to work', says Sharada, who handles housework and farm work
PHOTO • Jyoti Shinoli

گھر اور کھیتی کا کام سنبھالنے والی شاردا کہتی ہیں، ’اس کے ٹیچر نے رنگ اور حروف کے چارٹ دیے، لیکن وہ ہماری نہیں سنتا اور ہمیں بھی کام کرنا ہوتا ہے‘

وہ اپنی فیملی کے استعمال کے لیے خریف موسم کے دوران جوار اور باجرا کی کھیتی کرتے ہیں۔ شاردا کہتی ہیں، ’’نومبر سے مئی تک ہم مہینہ میں ۲۵-۲۰ دن دوسروں کے کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔‘‘ ان کی کل ماہانہ آمدنی ۶۰۰۰ روپے سے زیادہ نہیں ہے۔ وہ اپنے بیٹے کی مدد کرنے کے لیے گھر پر بھی نہیں رک سکتے – نہیں تو پہلے سے ہی کم مل رہی آمدنی کے بیچ دہاڑی کا نقصان بھی ہو جائے گا۔

پرتیک کا بڑا بھائی ۱۸ سالہ وکی، ۱۲ویں کلاس میں ہے اور وہ تعلقہ میں واقع کالج میں پڑھتا ہے۔ اس کے پاس بھی اپنے بھائی کی مدد کرنے کے لیے وقت نہیں ہے۔ وہ (لاک ڈاؤن کے بعد سے) آن لائن کلاس اٹینڈ کر رہا ہے، لیکن فیملی میں کسی کے پاس اسمارٹ فون نہ ہونے کی وجہ سے وہ گاؤں میں ایک دوست کے گھر اس کے موبائل پر پڑھائی کرنے جاتا ہے۔

حالانکہ، آن لائن کلاس سبھی بچوں کے لیے ایک چیلنج ہے (پڑھیں آن لائن تعلیم: کمزور طبقوں کے بچوں پر ٹوٹا مشکلوں کا پہاڑ )، لیکن یہ دماغی طور سے معذور بچوں کے لیے زیادہ مشکلیں پیدا کرتا ہے جن کا کسی طرح اسکول میں داخلہ ہو پایا تھا۔ سال ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق، ۵ سے ۱۹ سال کی عمر (ہندوستان کے ۵ لاکھ سے زیادہ دماغی طور سے معذور بچوں میں سے) کے ۴ لاکھ دماغی طور سے معذور بچوں میں سے صرف ایک لاکھ ۸۵ ہزار ۸۶ ہی کسی تعلیمی ادارے میں داخلہ لے سکے ہیں۔

ان میں سے کئی اداروں کو لاک ڈاؤن کے دوران حکومت سے ہدایت ملی۔ جون ۲۰۲۰ کو کمشنریٹ فار پرسنز وِد ڈس ایبلٹیز (حکومت مہاراشٹر) نے ڈپارٹمنٹ آف سوشل جسٹس اینڈ اسپیشل اسسٹنس کو خط لکھ کر وبائی مرض کے دوران اسپیشل اسٹوڈنٹس کی آن لائن تعلیم کے لیے منظوری دینے کا مطالبہ کیا۔ لیٹر میں کہا گیا: ’’تھانے ضلع کے نوی ممبئی علاقے کے کھار گھر میں ’’ نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار دی امپاورمنٹ آف پرسنز ود انٹیلیکچوئل ڈس ایبلٹیز کی ویب سائٹ پر دستیاب تدریسی مواد کا استعمال کرکے ان کے والدین کے توسط سے بچوں کو اسپیشل ایجوکیشن دینے کے لیے قدم اٹھائے جانے چاہیے۔ ساتھ ہی والدین تک ضرورت کے مطابق اس تدریسی مواد کو پہنچایا جانا چاہیے۔‘‘

پرتیک کے اسکول، گیان پربودھن ودیالیہ نے سرپرستوں کو تدریسی مواد بھیجا – حروف ابجد، نمبر، اور اشیاء والے چارٹ، نظموں اور گیتوں کی مشق، اور سیکھنے سے متعلق دیگر مواد۔ والدین کی رہنمائی کے لیے فون پر بات چیت کی گئی تھی۔ اسکول کے پروگرام کوآرڈی نیٹر، روہت باگڑے کا کہنا ہے کہ وہ بچوں کے بارے میں باقاعدگی سے اپ ڈیٹ لیتے رہتے ہیں اور فون پر سرپرستوں کو ہدایت دیتے رہتے ہیں۔

روہت باگڑے بتاتے ہیں کہ سبھی ۲۵ طلباء کے والدین اینٹ بھٹوں پر یا زرعی مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں یا غریب کسان ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’والدین کو بچے کے ساتھ بیٹھنا چاہیے [سبق پڑھانے کے لیے]، لیکن بچے کے لیے گھر رکنے سے ان کی یومیہ مزدوری متاثر ہوتی ہے۔ پرتیک یا دیگر بچوں کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے، سوائے خالی بیٹھنے کے۔ روزمرہ کی سرگرمیاں اور کھیل انہیں خود کفیل بناتے ہیں اور ان کے چڑچڑے پن اور غصے کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اس طرح کی سرگرمیوں کو آن لائن کرنا مشکل ہے، بچوں پر انفرادی طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘

With school shut, Prateek spends his days sitting at the threshold of his one-room mud house, watching a world restricted now to the front yard
PHOTO • Jyoti Shinoli
With school shut, Prateek spends his days sitting at the threshold of his one-room mud house, watching a world restricted now to the front yard
PHOTO • Jyoti Shinoli

اسکول بند ہونے کے بعد سے، پرتیک اپنے ایک کمرے کے مٹی سے بنے گھر کی دہلیز پر بیٹھ کر اپنا دن گزارتا ہے اور اپنی اُس دنیا کو دیکھتا رہتا ہے جو اب گھر کے سامنے والے باڑے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے

اسکول کے بند ہونے کا اثر ۱۸ سالہ سنکیت ہمبے پر بھی پڑا ہے، جو دماغی طور سے معذور طالب علم ہیں اور تقریباً ۱۲۶۰۰ کی آبادی والے گاؤں، راشین سے تعلق رکھتے ہیں۔ مارچ کے بعد سے، وہ پورے دن اپنے پکّے گھر کے آنگن میں ایک اسبستوس والی چھت کے نیچے ایک لوہے کی چارپائی پر بیٹھا رہتا ہے، نیچے کی طرف دیکھتا رہتاہے اور گھنٹوں تک گنگناتا رہتا ہے۔ (اس کے علاوہ، اسکول میں صرف ۱۸ سال کی عمر تک کے طلباء کا ہی داخلہ ہوتا ہے؛ اس کے بعد وہ عموماً گھر پر ہی رہتے ہیں۔ کرجت تعلقہ میں کچھ ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ (پیشہ ورانہ تربیت والے ادارے) ہیں، لیکن ان کے لیے والدین کو فیس بھرنی پڑتی ہے جس کے وہ اپنی معمولی آمدنی کے ساتھ متحمل نہیں ہو سکتے۔

چھ سال کی عمر میں سنکیت کی ’سنگین کند ذہنی‘ (جیسا کہ ان کی میڈیکل رپورٹ میں درج ہے) کا پتہ چلا تھا۔ سنکیت بول نہیں سکتے ہیں اور لگاتار آنے والی مرگی کے دورے سے متاثر ہیں، جس کے لیے مسلسل دوا کی ضرورت ہوتی ہے۔ سال ۲۰۱۷ میں، جب وہ ۱۵ سال کے تھے، تب ان کی ماں منیشا (۳۹ سال) نے انہیں گاؤں کی آشا ورکر (منظور شدہ سماجی صحت کارکن) کے ذریعے اس بارے میں صلاح ملنے کے بعد پہلی بار اسکول بھیجا تھا۔

منیشا کہتی ہیں، ’’پہلے ہمیں اسے اس کے کپڑے پہنانے پڑتے تھے، اسے نہلانا ہوتا تھا، اور ٹوائلیٹ کا استعمال کرنے میں اس کی مدد کرنی پڑتی تھی۔ اپنے آس پاس لوگوں کو دیکھ کر وہ بے چین ہو جاتا تھا۔ لیکن اسکول جانے کے بعد اس میں کافی بہتری آئی ہے۔‘‘

تقریباً ۱۱ مہینے سے اسکول بند ہونے کی وجہ سے، وہ خود ٹوائلیٹ کا استعمال کرنے کی سیلف کیئر (ذاتی نگہداشت) والی ٹریننگ بھول گیا ہے۔ منیشا کہتی ہیں، ’’مارچ میں گھر آنے کے کچھ ہفتے بعد، وہ اپنی پینٹ گرد و غبار میں گندی کر دیتا اور اپنے جسم اور دیواروں پر پاخانہ لگا دیتا تھا۔‘‘

شروعاتی ہفتوں اور پھر مہینوں تک اسکول بند رہنے سے ان کی فکرمندیاں بڑھ گئی ہیں۔ سنکیت اکثر جارحانہ اور ضدی ہو جاتا ہے۔ اسے نیند بھی نہیں آتی۔ منیشا کہتی ہیں، ’’کبھی کبھی وہ رات بھر نہیں سوتا ہے۔ بس بستر پر بیٹھ کر آگے پیچھے جھولتا رہتا ہے۔‘‘

وہ اب اپنے بیٹے اور ۱۹ سالہ بیٹی رتوجا کے ساتھ راشین گاؤں میں اپنے والدین کے گھر رہتی ہیں، کیوں کہ سال ۲۰۱۰ میں ان کے کسان شوہر نے ۳۰ سال کی عمر میں خودکشی کر لی تھی۔ (رتوجا فاصلاتی تعلیم کے ذریعے بی اے کر رہی ہے اور اس کے لیے تھانے ضلع کے بدلاپور شہر میں اپنی خالہ کے گھر رہتی ہے)۔ منیشا اپنے والدین کی ۷ ایکڑ زمین پر سال بھر کام کرتی ہیں۔ ان کی فیملی خریف کے ساتھ ساتھ ربیع کے موسم میں مزدوروں کی مدد سے مکئی اور جوار کی کھیتی کرتی ہے۔

Sanket Humbe's mother Manisha tries to teach him after she returns from the farm. But he often becomes aggressive and stubborn: 'Sometimes he doesn’t sleep through the night. Just sits on the bed, swaying back and forth'
PHOTO • Jyoti Shinoli

کھیت سے لوٹنے کے بعد سنکیت ہمبے کی ماں منیشا اسے پڑھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ لیکن وہ اکثر جارحانہ اور ضدی ہو جاتا ہے: ’کبھی کبھی اسے رات بھر نیند نہیں آتی ہے۔ بس بستر پر بیٹھ کر آگے پیچھے جھولتا رہتا ہے‘

منیشا کہتی ہیں، ’’میرے ماں باپ میں سے دونوں کی عمر ۸۰ سال سے زیادہ ہے اور وہ سنکیت کو سنبھال نہیں سکتے۔ جب وہ بہت پیار سے کچھ پوچھتے ہیں، تب بھی وہ انہیں دھکہ دے دیتا ہے، ان پر چیزیں پھینکتا ہے اور زور سے چیختا ہے۔‘‘ لیکن وہ ہر وقت گھر پر نہیں رہ سکتی ہیں۔ وہ پوچھتی ہیں، ’’پھر کام کون کرے گا؟ اور ہم کیا کھائیں گے؟‘‘

مارچ میں اسکول سے لوٹنے پر سنکیت اُتنا جارحانہ نہیں تھا۔ وہ مزید کہتی ہیں، ’’وہ میرے ساتھ کھیت میں آیا کرتا تھا اور ہمارے مویشیوں کے لیے چارے کو سر پر رکھ کر لے جانے میں مدد کرتا تھا۔ لیکن اس نے ستمبر میں اچانک آنا بند کر دیا۔‘‘ اگر منیشا زور دے کر ساتھ چلنے کو کہتیں، تو سنکیت انہیں لات یا ہاتھ سے مارنے لگتا تھا۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں اس سے ناراض نہیں ہو سکتی۔ ایک ماں کے لیے اس کے سبھی بچے برابر ہوتے ہیں۔ وہ جو کچھ بھی ہے، میرے دل کا حصہ ہے۔‘‘

منیشا نے ۱۰ویں کلاس تک پڑھائی کی ہے اور سنکیت کو اسکول سے ملے تصویروں کے ایک چارٹ کی مدد سے چیزوں کی پہچان کرنے کا طریقہ سکھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ سبق وہ کھیت سے لوٹنے کے بعد اور گھر کے کام کرتے وقت پڑھاتی ہیں۔ وہ شکایت کرتی ہیں، ’’اگر میں چارٹ دکھاؤں، تو وہ مجھ سے دور بھاگتا ہے۔ اور کہیں اور جا کر بیٹھ جاتا ہے۔ وہ سنتا ہی نہیں ہے۔‘‘

روہت باگڑے کہتے ہیں کہ گھر پر، اسکول کی باقاعدہ سرگرمیوں کی ناموجودگی، جیسے اسکول میں دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنا، تدریسی آلات کے ساتھ سیکھنا، اور لگاتار ملتی سیلف کیئر ٹریننگ، سنگین اور گہری دماغی معذوری والے بچوں کے بگڑے برتاؤ کا سبب بن سکتی ہے۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ بھلے ہی ان کے کنبوں کے پاس اسمارٹ فون یا لیپ ٹاپ اور مستحکم نیٹ ورک ہو، دماغی طور سے معذور بچوں کے لیے آف لائن کلاسوں میں شریک ہونا اہم ہے۔ باگڑے کے مطابق، ’’اس کے علاوہ، ان بچوں کو پڑھانے کے لیے کافی صبر و تحمل کی ضرورت ہوتی ہے، اور والدین کے لیے بچے سے تب تک بات کرنا یا سمجھانا مشکل ہوتا ہے، جب تک کہ وہ کسی مخصوص کام کو سمجھ نہیں لیتا ہے۔ والدین کو اس کی مشق نہیں ہے، اس لیے وہ تحمل کھو دیتے ہیں اور بس یہ کہتے ہوئے شکست قبول کر لیتے ہیں کہ بچہ ان کی بات نہیں مانتا۔‘‘

ممبئی کے لوک مانیہ تلک میونسپل جنرل ہاسپیٹل کی ڈاکٹر گجرے کہتی ہیں، ’’دماغی طور سے معذور بچوں کی تعلیم کے لیے تسلسل اہم عنصر ہے۔‘‘ لیکن، وہ بتاتی ہیں کہ اسکولوں کے وبائی مرض کی وجہ سے بند ہونے سے، معذوری کے شکار کئی بچوں کو تعلیم سے محروم ہونا پڑا۔ اس نے انہیں تیزی سے دوسروں پر منحصر کر دیا ہے، اور ان کی اسکول چھوڑنے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ اسپتال کے آٹزم انٹروینشن سینٹر میں انّولمینٹ کے بارے میں بتاتے ہوئے ڈاکٹر گجرے کہتی ہیں، ’’آن لائن تعلیم، آف لائن تھراپی اور ٹریننگ کی جگہ نہیں لے سکتی، خاص طور پر دماغی طور سے معذور بچوں کے لیے۔ مارچ کی شروعات سے ہم نے ایسے ۳۵ بچوں کو آن لائن ٹریننگ دینا شروع کیا۔ اکتوبر تک ہم نے دیکھا کہ بچوں کی تعداد میں کافی کمی آئی ہے [تقریباً ۱۰-۸ کی]۔‘‘

Rohit Bagade, the programme coordinator at the Dnyanprabodhan Matimand Niwasi Vidyalaya, says that an absence of the school routine and continuous self-care training can trigger behavioural issues among children with intellectual disability
PHOTO • Jyoti Shinoli
Rohit Bagade, the programme coordinator at the Dnyanprabodhan Matimand Niwasi Vidyalaya, says that an absence of the school routine and continuous self-care training can trigger behavioural issues among children with intellectual disability
PHOTO • Jyoti Shinoli

گیان پربودھن متی مند نواسی ودیالیہ کے پروگرام کوآرڈی نیٹر روہت باگڑے کا کہنا ہے کہ اسکول کے روٹین میں نہ ہونے اور بند پڑی سیلف کیئر ٹریننگ، دماغی طور سے معذور بچوں کے بگڑے برتاؤ کی وجہ بن سکتی ہے

یشونت راؤ چوہان پرتشٹھان (ایک غیر سرکاری ٹرسٹ) کے ڈس ایبلٹی رائٹس فورم کے کوآرڈی نیٹر، وجے کانہیکر کا اندازہ ہے کہ مہاراشٹر میں تقریباً ۱۱۰۰ سرکاری امداد یافتہ اور غیر امداد یافتہ مخصوص رہائشی اسکول ہیں، جو نا بینا، سننے سے محروم، دماغی طور پر معذور یا دیگر مخصوص ضرورت والے بچوں کے لیے بنائے گئے ہیں۔ کانہیکر کہتے ہیں کہ مہاراشٹر کے یہ سبھی اسکول اس وقت بند پڑے ہیں۔

لیکن پرتیک اور سنکیت کے اسکول کے لیے پہلے کی طرح اسکول کھولنا اور حقیقی کلاسز پھر سے شروع کرنا بھی مشکل ہونے والا ہے، جنہیں ریاستی حکومت سے چلانے کی اجازت ملنے کے باوجود، ریاست کے محکمہ برائے اسکولی تعلیم اور کھیل سے کوئی مدد نہیں ملی، جب کہ اس مدد کے لیے کئی لیٹر بھیجے گئے۔ مارچ کے بعد سے، اسکول کو کوئی نیا عطیہ بھی نہیں ملا ہے، جس سے پھر سے اسکول کھولنا مزید مشکل ہو گیا ہے۔

باگڑے کہتے ہیں، ’’ہم والدین سے کوئی فیس نہیں لیتے ہیں، اس لیے عطیہ ملنا ضروری ہے۔ اور خاص طور سے وبائی مرض کے دوران، اسکول کے پاس ہمارے معاونین اور اساتذہ کے لیے مناسب پی پی ای کٹ جیسے حفاظتی انتظامات ہونے چاہئیں، کیوں کہ ہمارے بچے پہلے سے ہی صحت سے متعلق مسائل میں مبتلا ہیں۔‘‘

وجے کانہیکر کہتے ہیں، ’’دیہی مہاراشٹر کے تمام رہائشی اسکول فی الحال بند پڑے ہیں،‘‘ اور بچوں بیکار ہو کر گھر پر ہیں۔ سرگرمیوں کا نہ ہونا بچوں کو جارحانہ بنا رہا ہے، اور معذوری کے شکار بچوں کو سنبھالنے کے لیے جدوجہد کر رہے والدین کی دماغی صحت کو بھی متاثر کر رہا ہے۔‘‘

ان کا فورم ’سیف اسپیشل اسکول‘ بنانے کے لیے مدد مانگ رہا ہے – کانہیکر کہتے ہیں، ’’سبھی پروٹوکول اور حفاظتی انتظامات کے ساتھ ایک کووڈ سینٹر سطح کا اسپیشل اسکول‘‘ – اور انہوں نے مہاراشٹر کے سوشل جسٹس اینڈ اسپیشل اسسٹنس ڈپارٹمنٹ (محکمہ سماجی انصاف اور خصوصی امداد) میں اپیل بھی دائر کی ہے۔ کانہیکر اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ معذور بچوں کو سب سے پہلے کووڈ۔۱۹ کا ٹیکہ لگوانا چاہیے۔

فی الحال، اسکول کھلے نہیں ہیں، مسلسل سرگرمیاں بند ہیں، کوئی دوست نہیں ہے، نہ کچھ کرنے کو ہے اور نیا سیکھنے کے لیے بھی کچھ نہیں ہے، اس لیے پرتیک اور سنکیت اپنے دن صرف گھر کے سامنے کے باڑے کے آس پاس اکیلے بیٹھے ہوئے گزار رہے ہیں۔ انہیں شاید وبائی مرض کی حقیقت کا بھی اندازہ نہیں ہے، حالانکہ پرتیک کبھی کبھی ٹی وی پر کووڈ سے متعلق صلاح دیکھتا ہے اور دوہراتا ہے، ’’کولونا…کولونا…کولونا…‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Jyoti Shinoli

ज्योति शिनोली, पीपल्स आर्काइव ऑफ़ रूरल इंडिया की एक रिपोर्टर हैं; वह पहले ‘मी मराठी’ और ‘महाराष्ट्र1’ जैसे न्यूज़ चैनलों के साथ काम कर चुकी हैं.

की अन्य स्टोरी ज्योति शिनोली
Translator : Qamar Siddique

क़मर सिद्दीक़ी, पीपुल्स आर्काइव ऑफ़ रुरल इंडिया के ट्रांसलेशन्स एडिटर, उर्दू, हैं। वह दिल्ली स्थित एक पत्रकार हैं।

की अन्य स्टोरी Qamar Siddique