سفید نقطوں والے بھورے رنگ کے پنکھ چھوٹی چھوٹی گھاسوں میں بکھرے پڑے ہیں۔
اپنی تلاش جاری رکھتے ہوئے رادھے شیام بشنوئی مدھم روشنی میں اس جگہ دائرہ بنا رہے ہیں۔ وہ امید کر رہے ہیں کہ وہ غلط ہوں۔ وہ بلند آواز سے کہتے ہیں، ’’یہ پنکھ اکھڑے ہوئے نظر نہیں آتے۔‘‘ اس کے بعد وہ فون لگاتے ہیں، ’’کیا آپ آ رہے ہیں؟ مجھے لگتا ہے کہ مجھے پختہ یقین ہے…،‘‘ وہ لائن پر موجود شخص سے کہتے ہیں۔
ہمارے سروں کے اوپر، کسی آسمانی علامت کی طرح، ۲۲۰ کلو وولٹ کے ہائی ٹینشن (ایچ ٹی) کیبل سے گنگنانے کی مدھم آواز آ رہی ہے۔ شام کے سرمئی آسمان میں اب ان کے کالے سائے نظر آ رہے ہیں۔
ڈیٹا کلیکٹر کے طور پر اپنی ڈیوٹی کو یاد کرتے ہوئے، یہ ۲۷ سالہ نوجوان اپنا کیمرہ نکالتا ہے اور جائے وقوعہ کے قریبی اور درمیانی شاٹس کی کئی تصویریں اتارتا ہے۔
اگلے دن، صبح صبح ہم واپس جائے وقوعہ پر پہنچ جاتے ہیں۔ یہ جگہ جیسلمیر ضلع کے کھیتولائی کے قریب واقع بستی، گنگا رام کی دھانی سے ایک کلومیٹر دور ہے۔
اس دفعہ کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ ان پنکھوں کا تعلق شاندار ہندوستانی تغدار پرندہ (گرینٹ انڈین بسٹرڈ، جی آئی بی) سے ہے، جسے مقامی طور پر گوڈاون کے نام سے جانا جاتا ہے۔
جنگلی حیات کے ڈاکٹر شرون سنگھ راٹھوڑ ۲۳ مارچ ۲۰۲۳ کی صبح اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں۔ شواہد کی جانچ پرکھ کے بعد وہ کہتے ہیں: ’’اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ موت ہائی ٹینشن تاروں سے ٹکرانے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ آج سے تین دن پہلے یعنی ۲۰ مارچ [۲۰۲۳] کا واقعہ ہے۔
سال ۲۰۲۰ سے اب تک یہ تغدار کی چوتھی لاش ہے جس کی جانچ وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا (ڈبلو آئی آئی) سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر راٹھوڑ نے کی ہے۔ ڈبلو آئی آئی، وزارت ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی (ایم او ای ایف سی سی) اور ریاستی جنگلاتی حیات کے محکموں کی تکنیکی شاخ ہے۔ ڈاکٹر راٹھوڑ مزید کہتے ہیں، ’’پرندوں کے مردہ جسم کے سبھی ڈھانچے ہائی ٹینشن تاروں کے نیچے پائے گئے ہیں۔ تاروں اور ان بدقسمت پرندوں کی موت کے درمیان براہ راست تعلق بالکل واضح ہے۔‘‘
مردہ پرندہ شدید خطرے سے دوچار شاندار ہندوستانی تغدار پرندہ (آرڈیوٹس نگریسیپس) ہے۔ اور یہ صرف پانچ مہینوں میں دوسرا حادثہ ہے جب کوئی پرندہ ہائی ٹینشن تاروں سے ٹکرانے کے بعد گر کر موت کا شکار بنا ہو۔ جیسلمیر ضلع کے سنکرا بلاک کے قریبی گاؤں دھولیا کے کسان، رادھے شیام کہتے ہیں، ’’سال ۲۰۱۷ [جب سے انہوں نے ان پر نظر رکھنا شروع کیا تھا] کے بعد سے یہ نویں موت ہے۔‘‘ ایک پرجوش فطرت پسند کے طور پر وہ ان بڑے پرندوں پر نظر رکھتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’گوڈاون کی زیادہ تر اموات ہائی ٹینشن تاروں کے نیچے ہوئی ہیں۔‘‘
جی آئی بی کا اندراج جنگلاتی حیات (تحفظ) قانون، ۱۹۷۲ کے جدول ۱ میں کیا گیا ہے۔ کبھی پاکستان اور ہندوستان کے گھاس کے میدانوں میں پائے جانے والے اس پرندے کی کل آبادی آج دنیا کے جنگلی علاقوں میں صرف ۱۲۰ سے ۱۵۰ کے قریب ہے، اور ان کی آبادی پانچ ریاستوں میں منقسم ہے۔ کرناٹک، مہاراشٹر اور تلنگانہ کے نقطہ اتصال پر تقریباً ۸ سے ۱۰ پرندے اور گجرات میں چار مادہ دیکھے گئے ہیں۔
ان کی سب سے زیادہ تعداد یہاں جیسلمیر ضلع میں ہے۔ ڈاکٹر سُمت ڈوکیا بتاتے ہیں، ’’یہاں دو آبادیاں ہیں۔ ایک پوکھرن کے قریب اور دوسری ڈیزرٹ نیشنل پارک میں۔ دونوں کے درمیان تقریباً ۱۰۰ کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔‘‘ ڈاکٹر ڈوکیا وائلڈ لائف کے ماہر حیاتیات ہیں، اور ان پرندوں پر ان کے مغربی مسکن – راجستھان کے گھاس کے میدانوں میں نظر رکھتے ہیں۔
بغیر کسی لاگ لپٹ کے وہ کہتے ہیں، ’’ہم نے تقریباً تمام علاقوں میں جی آئی بی کو کھویا ہے۔ حکومت کی طرف سے رہائش گاہ کی بحالی اور تحفظ کا کوئی قابل ذکر اقدام نہیں کیا گیا ہے۔‘‘ ڈوکیا ایکولوجی، دیہی ترقی اور پائیداری (ای آر ڈی ایس) فاؤنڈیشن میں اعزازی سائنسی مشیر ہیں۔ ای آر ڈی ایس ایک ایسی تنظیم ہے جو جی آئی بی کے تحفظ کے لیے کمیونٹی کی شرکت کو بڑھانے کی غرض سے ۲۰۱۵ سے اس علاقے میں کام کر رہی ہے۔
سُمیر سنگھ بھاٹی کہتے ہیں، ’’میں نے اپنی زندگی میں ان پرندوں کے جھنڈ کو آسمان میں اڑتے ہوئے دیکھا ہے۔ اب میں شاذ و نادر ہی کسی تنہا پرندے کو اڑتے ہوئے دیکھ پاتا ہوں۔‘‘ اپنی عمر کی چالیسویں دہائی میں پہنچ چکے سُمیر سنگھ ایک مقامی ماحولیات دوست ہیں اور جیسلمیر ضلع کے مقدس درختوں میں جی آئی بی اور ان کے مسکن کو بچانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔
وہ یہاں سے ایک گھنٹہ کے فاصلے پر واقع سام بلاک کے سنواتا گاؤں میں رہتے ہیں، لیکن گوڈاون کی موت نے انہیں اور دیگر متعلقہ مقامی لوگوں اور سائنسدانوں کو جائے وقوعہ پر پہنچا دیا ہے۔
*****
رسلا گاؤں کے قریب دیگرائے ماتا مندر سے تقریباً ۱۰۰ میٹر کے فاصلے پر پلاسٹر آف پیرس سے بنا ایک اصلی قدوقامت کا گوڈاون بیٹھا ہے۔ رسی سے گھرے ایک چبوترے پر بیٹھے اس پرندے کو نزدیکی شاہراہ سے دیکھا جا سکتا ہے۔
مقامی لوگوں نے اسے احتجاج کے طور پر نصب کیا ہے۔ ’’یہاں موت کا شکار ہوئے جی آئی بی کی پہلی برسی پر اسے تعمیر کیا گیا تھا،‘‘ وہ ہمیں بتاتے ہیں۔ یہاں نصب تختی پر ہندی میں لکھا ہے: ’۱۶ ستمبر ۲۰۲۰ کو دیگرائے ماتا مندر کے قریب، ایک مادہ گوڈاون ہائی ٹینشن تاروں سے ٹکرا گئی۔ اس کی یاد میں یہ یادگار تعمیر کی گئی ہے۔‘‘
سُمیر سنگھ، رادھے شیام اور جیسلمیر کے دیگر مقامی لوگوں کے لیے، موت کا شکار ہوتے گوڈاونوں اور ان کی رہائش گاہ کا نقصان، گرد و نواح پر چرواہا برادریوں کے اختیارات کی کمی کی علامت ہے۔ نتیجتاً جانوروں کی زندگیوں اور معاش کا بھی زیاں ہو رہا ہے۔
سُمیر سنگھ کہتے ہیں، ’’ہم لوگ ترقی کے نام پر بہت کچھ کھو رہے ہیں۔ اور یہ ترقی کس کے لیے ہے؟‘‘ ان کی بات میں وزن ہے: یہاں سے ۱۰۰ میٹر کے فاصلے پر ایک سولر فارم ہے، بجلی کی لائنیں اوپر سے چلتی ہیں، لیکن ان کے گاؤں میں بجلی کی سپلائی ناہموار، غیر مستحکم اور ناقابل اعتبار ہے۔
نئی اور قابل تجدید توانائی کی مرکزی وزارت نے اعلان کیا ہے کہ گزشتہ ۵ء۷ سالوں میں ہندوستان کی آر ای (قابل تجدید توانائی) کی صلاحیت میں ۲۸۶ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اور پچھلی دہائی میں، خاص طور پر گزشتہ ۳ سے ۴ سالوں میں، اس ریاست میں ہزاروں قابل تجدید توانائی کے پلانٹس (شمسی اور بادی دونوں) نصب کیے گئے ہیں۔ دوسری کمپنیوں کے علاوہ یہاں اڈانی رنیوایبل انرجی پارک راجستھان لمیٹڈ (ارے پرل) بھڈلا، جودھ پور میں ۵۰۰ میگاواٹ کی صلاحیت کا سولر پارک اور فتح گڑھ، جیسلمیر میں ۱۵۰۰ میگاواٹ صلاحیت کا سولر پارک تیار کر رہی ہے۔ ویب سائٹ کے ذریعے کمپنی کو بھیجی گئی ایک انکوائری جس میں پوچھا گیا تھا کہ آیا وہ کوئی زیر زمین تار بچھا رہے ہیں، تو اس اسٹوری کے شائع ہونے تک اس کا جواب نہیں دیا گیا ہے۔
ریاست میں شمسی اور بادی فارموں سے پیدا ہونے والی توانائی کو بجلی کے تاروں کے ایک بہت بڑے نیٹ ورک کی مدد سے قومی گرڈ کو منتقل کیا جاتا ہے، جو تغدار پرندہ، عقاب، گدھ اور دیگر نوع کے پرندوں کی پرواز کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ آر ای پروجیکٹس کے تحت گرین کوریڈور کی تعمیر کی جائے گی جو پوکھرن اور رام گڑھ-جیسلمیر کے جی آئی بی رہائش گاہوں سے ہوکر گزرے گی۔
جیسلمیر وسطی ایشیائی پرواز کی نازک راہ (سی اے ایف) پر واقع ہے۔ یہ سالانہ راستہ ہے جسے پرندے آرکٹک سے وسطی یوروپ اور ایشیا ہوتے ہوئے بحر ہند تک کی ہجرت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق، ہجرت کرنے والے آبی پرندوں کی ۱۸۲ انواع کی ۲۷۹ آبادیاں اس راستے سے گزرتی ہیں، یہ کہنا ہے کنونشن آن کنزرویشن آف مائیگریٹری اسپیسز آف وائلڈ اینیملز کا۔ دوسرے زیر خطر پرندوں میں سفید چونچ والا مشرقی گدھ (جپس بنگالنسس) ، لانگ بِلڈ (جپس انڈیکس) ، اسٹولِکزکا بشچیٹ (سیکسکولا میکرورینچا) ، گرین مُنیا (امنڈاوا فارموسا) اور میک کوئینز یا ہوبارا بسٹرڈ (کلیمیڈوٹس میکوینی) شامل ہیں۔
رادھے شیام ایک پرجوش فوٹوگرافر بھی ہیں اور ان کے لمبی فوکس والے ٹیلی لینسوں نے پریشان کن تصاویر اتارے ہیں۔ ’’میں نے رات کے وقت پیلیکن (ماہی خور آبی پرندہ) کو شمسی پینل کے میدان میں اترتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ بے بس پرندہ اسے ایک جھیل سمجھ کر اترتا ہے اور پھر شیشے پر پھسل جاتا ہے اور اس کی نازک ٹانگیں ناقابل علاج حد تک زخمی ہو جاتی ہیں۔‘‘
وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کے ۲۰۱۸ کے مطالعہ میں بتایا گیا ہے کہ بجلی کے تاروں سے نہ صرف تغدار پرندے ہلاک ہو رہے ہیں، بلکہ جیسلمیر میں ڈیزرٹ نیشنل پارک اور اس کے آس پاس کے ۴۲۰۰ مربع کلومیٹر کے علاقے میں ایک سال میں ۸۴ ہزار پرندے اس کی زد میں آ چکے ہیں۔ ’’اس طرح کی اعلی شرح اموات [تغدار پرندہ کی] انواع کے لیے غیر پائیدار ہے اور ان کی معدومیت کی ایک یقینی وجہ ہے۔‘‘
خطرہ صرف آسمان میں نہیں، بلکہ زمین پر بھی ہے۔ گھاس کے بڑے میدانوں کے چراگاہوں، مقدس جنگلوں یا اورن، جیسا کہ انہیں یہاں کہا جاتا ہے، میں اب ۵۰۰ میٹر کے وقفے پر ۲۰۰ میٹر اونچے ونڈ ملز کھڑے ہو گئے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرے ہیکٹیئر میں سولر فارموں کے لیے دیواریں چنوا دی گئیں ہیں۔ ان مقدس جنگلوں (جن کے بارے میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی ایک شاخ بھی نہیں کاٹی جا سکتی) میں قابل تجدید توانائی کے داخلے سے چراگاہوں کے راستے سانپ اور سیڑھی کے کھیل میں تبدیل ہو گئے۔ چرواہے اب سیدھا راستہ اختیار نہیں کر سکتے، بلکہ انہیں ونڈ ملوں اور مائیکرو گرڈ کے چاروں طرف گھومتے ہوئے آگے بڑھنا پڑتا ہے۔
’’اگر میں صبح کو نکلتی ہوں، تو شام تک ہی گھر واپس لوٹتی ہوں،‘‘ دھانی کہتی ہیں (وہ صرف یہ نام استعمال کرتی ہیں)۔ اس ۲۵ سالہ خاتون کو اپنی چار گایوں اور پانچ بکریوں کے چارے کا انتظام کرنے کے لیے جنگل میں جانا پڑتا ہے۔ ’’جب میں اپنے جانوروں کو جنگل میں لے جاتی ہوں، تو کبھی کبھی مجھے تاروں سے بجلی کے جھٹکے لگتے ہیں۔‘‘ دھانی کے شوہر باڑمیر شہر میں زیر تعلیم ہیں، اور وہ اپنی چھ بیگھہ (تقریباً ایک ایکڑ) زمین اور اپنے ۸، ۵ اور ۴ سال کے تین لڑکوں کی نگہداشت کرتی ہیں۔
جیسلمیر کے سام بلاک کے رسلا گاؤں کے دیگرائے کے گرام پردھان، مرید خان کہتے ہیں، ’’ہم نے اپنے ایم ایل اے اور ڈسٹرکٹ کمشنر (ڈی سی) کے سامنے اس مسئلہ کو اٹھانے کی کوشش کی، لیکن اس کا کوئی نتجہ نہیں نکلا۔‘‘
’’ہماری پنچایت میں ہائی ٹینشن کیبل کی چھ سے سات لائنیں لگائی گئی ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’یہ ہمارے اورن [مقدس جنگلوں] سے گزرتی ہیں۔ جب ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ ’بھائی آپ کو اجازت کس نے دی‘ تو وہ کہتے ہیں ’ہمیں آپ کی اجازت کی ضرورت نہیں‘۔‘‘
اس واقعے کے کچھ دنوں بعد، ۲۷ مارچ ۲۰۲۳ کو لوک سبھا میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کے وزیر مملکت جناب اشونی کمار چوبے نے کہا کہ جی آئی بی کی اہم رہائش گاہوں کو قومی پارکوں (این پی) کے طور پر نامزد کیا جائے گا۔
دو رہائش گاہوں میں سے ایک کو پہلے ہی این پی کے طور پر نامزد کیا جا چکا ہے اور دوسری فوج کی زمین ہے، لیکن تغدار پرندہ محفوظ نہیں ہیں۔
*****
ایک رٹ پٹیشن کے جواب میں سپریم کورٹ نے ۱۹ اپریل۲۰۲۱ کو فیصلہ سنایا تھا کہ، ’’تغدار پرندہ کے ترجیحی اور ممکنہ علاقے میں، جہاں سر کے اوپر سے گزرنے والے کیبل کو زمین کے نیچے بچھائے جانے والے تاروں میں تبدیل کرنا ممکن ہو وہاں یہ کام شروع کیا جائے اور اسے ایک سال کے مدت میں مکمل کر لیا جائے، اور اس وقت تک ڈائیورٹرز [پلاسٹک ڈسکس جو روشنی کو منعکس کرتے ہیں اور پرندوں کو بھگا دیتے ہیں] کو موجودہ بجلی کے تاروں سے لٹکا دیا جائے۔‘‘
سپریم کورٹ کے فیصلہ میں راجستھان میں ۱۰۴ کلومیٹر تک زمین کے نیچے بجلی کے تار بچھانے اور ۱۲۳۸ کلومیٹر تک کے بجلی کے تاروں میں ڈائیورٹرز نصب کرنے کی فہرست دی گئی ہے۔
دو سال بعد اپریل ۲۰۲۳ میں تاروں کو زیر زمین کرنے کے سپریم کورٹ کے حکم کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے اور ان علاقوں میں شاہراہوں کے نزدیک، جہاں عوام اور میڈیا کی توجہ حاصل ہو سکے وہاں پلاسٹک کے ڈائیورٹرز صرف چند کلومیٹر کی دوری پر نصب کر دیے گئے ہیں۔ جنگلاتی حیات کے ماہر ڈوکیا کہتے ہیں، ’’دستیاب تحقیق کے مطابق ڈائیورٹر پرندوں کے ٹکرانے کو کافی حد تک کم کر دیتے ہیں۔ لہذا اصولی طور پر اس موت کو ٹالا جا سکتا تھا۔‘‘
مقامی تغدار پرندہ کو اس سیارے پر ان کے واحد مسکن میں خطرہ ہے۔ دریں اثناء ہم نے ایک غیر ملکی نوع کے لیے پناہ گاہ بنانے میں عجلت دکھائی ہے۔ افریقی چیتوں کو ہندوستان میں لانے پر ۲۲۴ کروڑ روپے کا ایک شاندار پانچ سالہ پروجیکٹ تیار کیا ہے۔ اس پروجیکٹ کے اخراجات میں چیتوں کو خصوصی ہوائی جہازوں میں لانا، محفوظ چہاردیواری کی تعمیر، اعلیٰ معیار کے کیمرے، اور مشاہداتی واچ ٹاور شامل ہیں۔ اس کے بعد شیر ہیں جن کی آبادی بڑھ رہی ہے اور ۲۰۲۲ میں ان کے لیے مختص بجٹ ۳۰۰ کروڑ روپے رہی ہے۔
*****
پرندے کی نوع کا ایک بھرپور جسامت والا رکن، شاندار ہندوستانی تغدار پرندہ ایک میٹر لمبا اور تقریباً ۵ سے ۱۰ کلو گرام تک وزنی ہوسکتا ہے۔ اس کی مادہ سال میں صرف ایک انڈا دیتی ہے اور وہ بھی کھلے میں۔ علاقے میں جنگلی کتوں کی بڑھتی ہوئی آبادی نے تغدار پرندہ کے انڈوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ’’صورتحال تشویشناک ہے۔ ہمیں اس آبادی کو برقرار رکھنے کے کچھ طریقے تلاش کرنے ہوں گے اور اس نوع کے پرندوں کے لیے کچھ علاقے چھوڑنے ہوں گے،‘‘ یہ کہنا ہے بامبے نیچرل ہسٹری سوسائٹی (بی این ایچ ایس) کے پروگرام آفیسر نیلکنٹھ بودھا کا۔ بی این ایچ ایس اس علاقے میں ایک پروجیکٹ چلاتی ہے۔
یہ پرندوں کی ایک نوع ہے، جو زمین پر چلنے کو ترجیح دیتی ہے۔ جب یہ اڑتے ہیں تو ایک شاندار نظارہ پیش کرتے ہیں۔ جب یہ صحرا کے آسمانوں سے گزرتے ہیں، تو اس کے پروں کا پھیلاؤ تقریباً ۵ء۴ فٹ ہوتا ہے جو اس کے بھاری جسم کو پکڑ کر رکھتا ہے۔
تغدار پرندہ کی آنکھیں اس کے سر کے دونوں طرف ہوتی ہیں، اور وہ بالکل آگے نہیں دیکھ سکتا۔ لہذا، وہ یا تو سیدھے ہائی ٹینشن تار سے ٹکراتا ہے یا آخری لمحات میں راستہ بدلنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن جس طرح ایک ٹریلر ٹرک تیزی سے نہیں مڑ سکتا، ویسے ہی جی آئی بی کے لیے بھی سمت کی اچانک تبدیلی میں اکثر بہت دیر ہو جاتی ہے، اور اس کے بازو یا سر کا کچھ حصہ ۳۰ میٹر یا اس سے اوپر کی اونچائی پر لٹکے تاروں سے ٹکرا جاتا ہے۔ رادھے شیام کہتے ہیں، ’’اگر تاروں سے ٹکرانے پر بجلی کا جھٹکا اسے ہلاک نہیں کرتا ہے، تو عام طور پر گرنے سے اس کی موت ہوجاتی ہے۔‘‘
دو سال پہلے، ۲۰۲۲ میں جب ٹڈی دل راجستھان کے راستے ہندوستان میں داخل ہوا، تو ’’یہ گوڈاون کی موجودگی ہی تھی جس نے کچھ کھیتوں کو بچالیا کیونکہ وہ ہزاروں کی تعداد میں ٹڈیوں کو کھا گئے تھے،‘‘ رادھے شیام یاد کرتے ہیں۔ ’’گوڈاون کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا۔ درحقیقت، یہ چھوٹے سانپ، بچھو، چھوٹی چھپکلی کو کھاتا ہے اور کسانوں کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔
وہ اور ان کے کنبے کے پاس ۸۰ بیگھہ (تقریباً ۸ ایکڑ) زمین ہے جس پر وہ گوار اور باجرہ اگاتے ہیں، اور کبھی کبھی سردیوں میں بارش ہونے پر تیسری فصل بھی اگا لیتے ہیں۔ رادھے شیام کہتے ہیں، ’’تصور کریں کہ اگر ۱۵۰ نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں جی آئی بی ہوتے تو ٹڈی دل کے حملے جیسی سنگین آفت کم ہو جاتی۔‘‘
جی آئی بی کو بچانے اور اس کی رہائش گاہ میں مداخلت کو روکنے کے لیے نسبتاً چھوٹے علاقے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ راٹھوڑ کہتے ہیں، ’’ہم یہ کوشش کر سکتے ہیں۔ ایسا کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اور عدالت کا حکم ہے کہ تاروں کو زمین کے نیچے بچھایا جائے اور مزید لائنوں کی اجازت نہ دی جائے۔ اس سے پہلے کہ سب کچھ ختم ہو جائے، اب حکومت کو رک کو اس پر غور کرنا چاہیے۔‘‘
رپورٹر اس اسٹوری کی تکمیل میں فراخدلانہ مدد کے لیے بائیو ڈائیورسٹی کولیبریٹیو کے رکن، ڈاکٹر روی چیلم کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہیں۔
مترجم: شفیق عالم