مرلی دھر جواہرے جب کام کرنے بیٹھتے ہیں، تو غلطی اور توجہ ہٹنے کا کوئی سوال ہی نہیں کھڑا ہوتا۔ ان کے ہاتھ تورن کے جوڑوں کو جوڑتے ہوئے تیزی سے اور خاموشی سے چلتے رہتے ہیں اور انہیں ایک موٹے سوتی دھاگے سے باندھتے ہیں۔ ان کے ۷۰ سالہ کمزور قدوقامت کو دیکھ کر اس ٹھوس توجہ کا احساس نہیں ہوتا جسے وہ تقریباً ہر دن اپنے ذریعے تیار کیے گئے بانس کے فریموں میں ڈھالتے ہیں۔
مہاراشٹر کے اچلکرنجی شہر میں، ان کے فیروزی رنگ کے مٹی اور اینٹ سے بنے گھر کے باہر، ان کے کام کا سامان چاروں طرف بکھرا ہوا ہے جہاں وہ بیٹھ کر کام کرتے ہیں۔ ان سامانوں میں، بانس کی چھڑیاں، رنگین کاغذ، جلیٹن پیپر، پرانے اخبار، اور بھی بہت کچھ شامل ہے۔ یہ کچھ ہی گھنٹوں میں پیچیدہ تورن میں تبدیل ہو جائیں گے؛ تورن گھروں اور مندروں کی چوکھٹ کو سجانے کے لیے استعمال کی جانے والی مالا جیسی چیز ہے۔
مرلی دھر کی جھریوں والی ہتھیلیاں تیزی سے ایک بانس کی چھڑی کے حصے کو ایک سائز کے ۳۰ ٹکڑوں میں کاٹتی ہیں۔ پھر وہ اپنے علم پر پوری طرح سے بھروسہ کرتے ہوئے انہیں نو یکساں بازوؤں والے مثلث میں بدل دیتے ہیں۔ یہ مثلث بانس کی چھڑیوں سے جڑے ہوتے ہیں جو ۳ یا ۱۰ فٹ لمبی ہوتی ہیں۔
تھوڑی تھوڑی دیر میں، مرلی دھر اپنی انگلیوں کو ایک المونیم کے کٹورے میں ڈبوتے ہیں، جس میں ’کھل‘ رکھا ہے۔ یہ ایک طرح کا گوند ہے، جسے املی کے کچلے ہوئے بیجوں سے بنایا جاتا ہے۔ ان کی بیوی، ۸۰ سالہ شوبھا نے اس گوند کو اسی صبح بنایا ہے۔
وہ بتاتی ہیں، ’’وہ کام کرتے وقت ایک لفظ بھی نہیں بولتے، اورکوئی بھی انہیں کام کے دوران روک نہیں سکتا ہے۔‘‘
مرلی دھر خاموشی سے بانس کا فریم بنانا جاری رکھتے ہیں اور دوسری طرف شوبھا سجاوٹ کے کاموں کی تیاری کرتی ہیں – وہ رنگین جلیٹن پیپر کے دائرہ کار ٹکڑوں کو ایک لٹکن میں بُنتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’جب بھی مجھے گھر کے کاموں سے وقت ملتا ہے، میں اسے کرنا شروع کر دیتی ہوں۔ لیکن اس کام سے آنکھوں پر کافی دباؤ پڑتا ہے۔‘‘
وہ گوند کے لیے جن املی کے بیجوں کا استعمال کرتی ہیں، ان کی قیمت ۴۰ روپے فی پیلی (پانچ کلو) ہے، اور وہ ہر سال ۲-۳ پیلی کا استعمال کرتی ہیں۔ تورن کو سجانے کے لیے، جواہرے فیملی ۱۰۰ سے زیادہ چھوٹی چھتریاں، ناریل، اور رگھو (طوطے) کا ذخیرہ رکھتی ہے جو کہ سبھی پرانے اخباروں سے بنے ہوتے ہیں۔ شوبھا بتاتی ہیں، ’’ہم انہیں گھر پر بناتے تھے، لیکن اب عمر بڑھنے کے سبب انہیں بازار سے خرید لیتے ہیں۔ ناریل اور رگھو کے ۹۰ پیس کے لیے ہم کل ۱۰۰ روپے خرچ کرتے ہیں۔‘‘ ایک بار فریم تیار ہو جانے کے بعد، مرلی دھر اس کے ڈیزائن کو تیار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
جواہرے فیملی کئی نسلوں سے تورن بنا رہی ہے۔ مرلی دھر فخت سے کہتے ہیں، ’’میں نے اپنے والد سے سنا ہے کہ ہمارا فن کم از کم ۱۵۰ سال پرانا ہے۔‘‘ ان کی فیملی تامبت برادری (مہاراشٹر میں او بی سی میں شامل) سے آتی ہے اور روایتی طور پر تورن بنانے، نل کی مرمت کرنے، اور پیتل اور تانبہ کے برتنوں کی قلعی کرنے کے لیے جانی جاتی ہے۔
ان کے والد تانبہ یا پیتل کے برتنوں پر چاوی (نل) لگانے کا کام، بامب (روایتی واٹر ہیٹر) کی مرمت کا کام، اور پتیل اور تانبہ کے برتنوں کی قلعی کا کام کرتے تھے۔ لیکن وہ بتاتے ہیں کہ قلعی کرنے کا کام دو دہائی پہلے ہی بند ہو گیا تھا۔ ’’اب پیتل اور تانبہ کے برتنوں کا استعمال کون کرتا ہے؟ اب صرف اسٹیل اور پلاسٹک کے برتن ہوتے ہیں، جنہیں قلعی کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔‘‘
وہ بتاتے ہیں کہ ان کی فیملی کولہاپور ضلع کے اچلکرنجی قصبہ کی آخری فیملی ہے، جو ابھی بھی روایتی طور پر ہاتھ سے تیار کیے گئے تورن بنا رہی ہے: ’’ہم اکیلے ہیں، جو انہیں بناتے ہیں۔‘‘ کچھ دہائی پہلے ہی کم از کم ۱۰ کنبے یہ کام کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’آج کل کوئی اس ہنر کے بارے میں پوچھنے تک نہیں آتا۔ اسے سیکھنا تو بھول ہی جاؤ۔‘‘
پھر بھی، انہوں نے یہ یقینی بنایا ہے کہ تورن کی کوالٹی وہی رہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ کاہیچ بدل ناہیں۔ تیچ کوالٹی، توچ نمونہ (کچھ بدلا نہیں ہے، وہی کوالٹی ہے اور وہی نمونہ ہے)۔‘‘
مرلی دھر تقریباً ۱۰ سال کے تھے، جب انہوں نے اپنے والد کو دیکھ کر تورن بنانا شروع کیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ کسی بھی جیومیٹرک ٹول کے بغیر تورن کے ڈیزائن بنانے میں کئی دہائیوں کے مشق کی ضرورت ہوتی ہے۔ ’’ایک سچے فنکار کو اسکیل کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ ہم میں سے کسی نے بھی پیمائش کے آلات کا استعمال نہیں کیا ہے۔ ہمیں ناپنے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ یہ سب ہم یادداشت سے کرتے ہیں۔‘‘
ڈیزائن کا کوئی تحریری ریکارڈ بھی نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ کشالا پاہیجے؟ (کسی کو نمونے کی ضرورت کیوں ہوگی؟) لیکن اس کے لیے صحیح نگاہ اور ہنر کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ شروعات کرتے وقت، وہ غلطیاں کرتے تھے، لیکن اب ایک بانس کا فریم بنانے میں انہیں صرف ۲۰ منٹ لگتے ہیں۔
اُس دن وہ جس فریم پر کام کر رہے ہوتے ہیں، اس پر وہ ایک کاغذ کی چھتری باندھتے ہیں، پھر دو پیلے مور والے پرنٹ کو باندھتے ہیں۔ انہوں نے انہیں ۲۸ کلومیٹر دور کولہاپور شہر سے خریدا ہے۔ مرلی دھر اور شوبھا پھر ہر دوسرے مثلث نما فریم میں ہندو دیوی دیوتاؤں کی تصویریں لگاتے ہیں۔ یہ تصویریں یا تو کرناٹک کے نپانی شہر یا کولہاپور شہر سے تھوک میں خریدی جاتی ہیں۔ مرلی دھر کہتے ہیں، ’’اگر ہمیں فوٹو نہیں ملتی ہے، تو میں پرانے کیلنڈر، شادی کے کارڈ اور اخبار میں فوٹو ڈھونڈتاہوں اور کٹ آؤٹ کا استعمال کرتا ہوں۔‘‘ استعمال کی جانے والی تصویروں کی کوئی مقررہ تعداد نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’یہ دستکار پر منحصر ہے۔‘‘ یہ تصویریں بعد میں چمکدار جلیٹن شیٹ سے ڈھانپ دی جاتی ہے۔
پھر باقی فریم کو پرینٹیڈ رنگین پیپر سے سجایا جاتا ہے۔ اندازاً ہر ۳۳ بائی ۴۶ انچ کی شیٹ کی قیمت ۳ روپے ہے۔ مرلی دھر بہتر کوالٹی والے تورن کے لیے ویلویٹ پیپر کا استعمال کرتے ہیں۔ فریم کے نچلے سرے پر دو پیپر کے طوطے بندھے ہوتے ہیں، اور ہر مثلث کے نیچے جلیٹن لٹکنوں کے ساتھ سنہری پنّی میں لپٹے ایک پیپر کے ناریل کو لٹکا دیا جاتا ہے۔
مرلی دھر کہتے ہیں، ’’۱۰ فٹ کے تورن میں تقریباً پانچ گھنٹے لگتے ہیں۔‘‘ لیکن وہ اب کام کا ایک متعینہ شیڈول فالو نہیں کرتے ہیں۔ ’’آؤ جاؤ، گھر تمہارا۔‘‘ وہ ایک ہندی کہاوت کو استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اپنے کام کو کبھی بھی کرنے کے لیے آزاد ہیں۔
شیڈول اب بھلے ہی طے نہ رہتا ہو، لیکن ان کی نگاہ اب اتنی ہی سٹیک ہے۔ گھنٹوں کی محنت کے بعد انہیں اس بات پر فخر ہے کہ اس ہنر میں کچھ بھی بیکار نہیں جاتا ہے۔ ’’صرف پلاسٹک اور دیگر نقصاندہ سامانوں سے بنے جدید تورن کو دیکھیں۔ وہ سبھی ماحولیات کے لیے خراب ہیں۔‘‘
سبھی تورن ۳ سے ۱۰ فٹ لمبے ہیں – چھوٹے تورن کی سب سے زیادہ مانگ ہے۔ ان کی قیمت ۱۳۰ روپے سے لیکر ۱۲۰۰ روپے تک ہوتی ہے۔ ۱۹۹۰ کی دہائی کے آخر میں، مرلی دھر کو ان تورن سے ۳۰ سے ۳۰۰ روپے تک مل جاتے تھے۔
مرلی دھر خوبصورت اور پیچیدہ باشینگا بھی بناتے ہیں، جو شادی کی تقریبات کے دوران دولہا اور دلہن دونوں کی پیشانی پر پہنائے جانے والے تاج جیسا زیور ہے۔ یہ جاتراؤں (دیہی میلوں) کے دوران مقامی دیوتاؤں کو بھی چڑھایا جاتا ہے۔ انہیں ایک جوڑی پیپر باشینگ بنانے میں ۹۰ منٹ لگ جاتے ہی۔ ہر ایک باشینگ ۱۵۰ روپے میں فروخت ہوتا ہے۔ وہ کتنے باشینگ فروخت کر پاتے ہیں، یہ آرڈر اور سیزن پر منحصر کرتا ہے۔ ہر دیوالی پر، جواہرے فیملی بانس اور سجاوٹی کاغذ کا استعمال کرکے لالٹین بھی بناتے ہیں۔
مرلی دھر کہتے ہیں، ’’چونکہ یہ ہماری رسموں کا حصہ ہے، اس لیے باشینگ کی مانگ کم نہیں ہوئی ہے۔ لیکن، لوگ صرف تہواروں اور دیوالی، شادی، واستو جیسے موقعوں پر ہی تورن خریدتے ہیں۔‘‘
مرلی دھر نے کبھی بھی اپنا ہنر کسی تاجر کو نہیں بیچا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ وہ ان کے ہنر کے ساتھ نا انصافی کر رہے ہیں۔ ’’وہ مشکل سے ہمیں ۱۰ فٹ کے تورن کے لیے ۶۰ یا ۷۰ روپے دیتے ہی۔ نہ ہمیں مناسب فائدہ ملتا ہے، نہ ہی وہ ہمیں وقت پر پیسے دیتے ہیں۔‘‘ اسی لیے، مرلی دھر براہ راست ان گاہکوں کو بیچنا پسند کرتے ہیں جو خریدنے کے لیے ان کے گھر تک آتے ہیں۔
لیکن، بازار میں دستیاب پلاسٹک کے متبادل نے ان کے ہنر کے وجود کو کافی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ مرلی دھر کہتے ہیں، ’’وہ سستے اور بنانے میں آسان ہیں۔‘‘ مرلی دھر کی اوسط ماہانہ آمدنی مشکل سے ۶-۵ ہزار روپے ہے۔ کووڈ۔۱۹ وبائی مرض اور لاک ڈاؤن نے ان کی جدوجہد کو مزید بڑھا دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’مجھے مہینوں سے ایک بھی آرڈر نہیں ملا ہے۔ پچھلے سال لاک ڈاؤن میں پانچ مہینے تک تورن خریدنے کوئی نہیں آیا تھا۔‘‘
مرلی دھر ۱۹۹۴ کے طاعون (پلیگ) کویاد کرتے ہیں، جب ان کی پوری فیملی گھر چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہم وبائی مرض کے سبب [کھلے] میدانوں میں گئے تھے اور اب سبھی کو کورونا کی وجہ سے گھر پر رہنے کے لیے کہا گیا ہے۔ وقت کیسے بدلتا ہے نا!‘‘
وقت واقعی بدل گیا ہے۔ جہاں مرلی دھر نے اپنے والد سے یہ ہنر سیکھا، وہیں ان کے بچوں کو تورن بنانے کی پیچیدگیوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’انہوں نے کھل [املی کا گوند] کو چھوا تک نہیں ہے۔ وہ اس ہنر کے بارے میں کیا سمجھیں گے؟‘‘ ان کے ۳۶ سالہ بیٹے یوگیش اور ۳۴ سالہ بیٹے مہیش، لیتھ مشینوں پر مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں، جب کہ ان کی ۳۲ سالہ بیٹی یوگتا ایک خاتون خانہ ہیں۔
تقریباً چھ دہائیوں کی کڑی محنت کے بعد، جس میں ان کے ذریعے بنائے گئے تورنوں سے کئی دروازوں کو اور باشینگوں سے کئی پیشانیوں کو سجایا گیا ہے، مرلی دھر کے پاس اپنی وراثت کو آگے بڑھانے کے لیے کوئی نہیں ہے۔ وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ہم اب کباڑ جیسے ہو گئے ہیں۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز