’’اس قانون کے تحت یا اس کے ذریعہ بنائے گئے کسی بھی ضابطہ یا فرمان کے مطابق نیک نیتی سے کی گئی یا کی جانے والی کسی بھی چیز سے متعلق مرکزی حکومت یا ریاستی حکومت، یا مرکزی حکومت یا ریاستی حکومت کے کسی افسر یا کسی دیگر شخص کے خلاف کوئی بھی مقدمہ، استغاثہ یا دیگر آئینی کارروائی قابل غور نہیں ہوگی۔‘‘
زرعی پیداوار کی تجارت و کاروبار (فروغ اور سہل آمیزی) کا قانون، ۲۰۲۰ کے باب ۱۳ میں آپ کا خیر مقدم ہے (جس کا مقصد اے پی ایم سی کے نام سے مشہور زرعی پیداوار کی مارکیٹنگ کمیٹیوں کو کمزور کرنا ہے)۔
اور آپ نے سوچا کہ نئے قوانین صرف کسانوں کے بارے میں ہیں؟ یقیناً، ایسے دیگر قوانین بھی ہیں جو عوامی خدمت گاروں (پبلک سروینٹ) کو اپنی آئینی ذمہ داریاں پورا کرنے میں استغاثہ سے دور رکھتے ہیں۔ لیکن یہ اُن تمام میں سب سے اوپر ہے۔ ’نیک نیتی سے‘ کچھ بھی کرنے سے متعلق انہیں فراہم کیا گیا تحفظ بہت ہی اثردار ہے۔ نہ صرف یہ کہ اگر وہ ’نیک نیتی سے‘ کوئی جرم کریں، تو انہیں عدالتوں میں نہیں گھسیٹا جا سکتا ہے – بلکہ انہیں اُن جرائم کے خلاف آئینی کارروائی سے بھی تحفظ فراہم کیا گیا ہے، جسے (ظاہر ہے ’نیک نیتی سے‘) انہوں نے ابھی تک انجام نہیں دیا ہے۔
اگر آپ نے اس نکتہ پر پہلے غور نہیں کیا تو دوبارہ دیکھیں – کہ آپ کے لیے عدالتوں میں کوئی آئینی چارہ جوئی کا حق نہیں ہے – باب ۱۵ میں کہا گیا ہے:
’’کسی بھی سول کورٹ کے پاس، اس قانون کے ذریعہ یا اس کے تحت یا اس کے مطابق بنائے گئے ضابطوں کے تحت مجاز افسر سے متعلق ایسے کسی بھی مقدمہ یا کارروائی پر غور کرنے کا اختیار نہیں ہوگا، جس کا نوٹس لیا جا سکتا ہے یا جس کا نمٹارہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘
’نیک نیتی سے‘ چیزیں کرنے والا ’کوئی دیگر شخص‘ کون ہے، جسے قانوناً چنوتی نہیں دی جا سکتی ہے؟ اشارہ: اُن کارپوریٹ شہ زوروں کے نام سننے کی کوشش کریں جو احتجاج کرنے والے کسانوں کے ذریعہ لیے جا رہے ہیں۔ یہ کاروبار میں آسانی پیدا کرنے کے بارے میں ہے – بہت، بہت بڑے کاروبار کے بارے میں۔
’’کوئی مقدمہ، استغاثہ یا دیگر آئینی کارروائی قابل غور نہیں ہوگی...‘‘ یہ صرف کسان ہی نہیں ہیں، جو مقدمہ نہیں کر سکتے۔ کوئی دوسرا بھی نہیں کر سکتا۔ یہ مفادِ عامّہ کی عرضی پر بھی نافذ ہوتا ہے۔ نہ ہی غیر منافع بخش گروپ، یا کسانوں کی یونین، یا کوئی بھی شہری (اچھی یا خراب نیت سے) مداخلت کر سکتا ہے۔
یہ یقیناً ۱۹۷۵-۷۷ کی ایمرجنسی (جب ہم نے صرف تمام بنیادی حقوق کو سلب کر لیا تھا) کے بعد والے کسی بھی قانون میں شہریوں کو بڑے پیمانے پر قانونی حقوق دینے سے منع کرنا ہے۔
ہر ہندوستانی متاثر ہے۔ ان قوانین کے آئینی الفاظ (سطحی) عاملہ کو بھی عدلیہ میں بدل رہے ہیں – جج، جیوری اور جلاّد بھی۔ یہ کسانوں اور بڑے کارپوریشن کے درمیان اقتدار کے پہلے سے ہی نا انصافی پر مبنی عدم توازن کو بھی بڑھاتا ہے۔
دہلی کی بیدار بار کونسل نے وزیر اعظم کو لکھے خط میں یہ پوچھا ہے : ’’ایسی کوئی بھی عدالتی کارروائی جس کے نتائج شہریوں سے متعلق ہو سکتے ہیں، انتظامی ایجنسیوں سے وابستہ ڈھانچوں، جنہیں عاملہ کے افسروں کے ذریعے کنٹرول اور بروئے کار لایا جاتا ہے، کو کیسے سونپی جا سکتی ہے؟‘‘
(عاملہ کے افسروں کو، سب ڈویژنل مجسٹریٹ اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ پڑھیں – یہ سبھی اپنی آزادی اور نیک نیتی اور نیک ارادے کے لیے مشہور ہیں، جیسا کہ ہر ہندوستانی جانتا ہے)۔ دہلی بار کونسل نے عاملہ کو عدالتی اختیارات کی منتقلی کو ’’خطرناک اور بڑی غلطی‘‘ قرار دیا ہے۔ اور قانونی پیشہ پر اس کے اثرات کے بارے میں کہا ہے: ’’یہ خاص طور سے ضلعی عدالتوں کو کافی نقصان پہنچائے گا اور وکیلوں کو اکھاڑ پھینکے گا۔‘‘
اب بھی آپ کو لگتا ہے کہ یہ قوانین صرف کسانوں کے بارے میں ہیں؟
عاملہ کو عدالتی اختیار کی اس قسم کی مزید منتقلی قرار سے متعلق قانون – کاشت کاروں (کو با اختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے) کے لیے قیمت کی یقین دہانی اور زرعی خدمات پر قرار کا قانون، ۲۰۲۰ – میں پوشیدہ ہے۔
باب ۱۸ ’نیک نیتی سے‘ متعلق دلیل کی دوبارہ وضاحت کرتا ہے۔
باب ۱۹ میں کہا گیا ہے: ’’کسی بھی سول کورٹ کو ایسے کسی بھی تنازع سے متعلق کوئی مقدمہ یا کارروائی کا حق نہیں ہوگا، جو سب ڈویژنل اتھارٹی یا اپیل کرنے والی اتھارٹی کو اس قانون کے ذریعہ یا اس کے تحت حاصل ہے کہ وہ فیصلہ کرے اور اس قانون کے ذریعہ یا اس کے تحت یا اس کے ذریعہ بنائے گئے کسی بھی ضابطہ کے ذریعہ دیے گئے کسی بھی اختیار کی عمل آوری میں کی گئی یا کی جانے والی کسی بھی کارروائی سے متعلق کسی عدالت یا دیگر افسر کے ذریعہ کوئی حکم امتناعی نہیں دیا جائے گا [زور دے کر کہا گیا]۔‘‘
اور ذرا سوچئے کہ ہندوستانی آئین کی دفعہ ۱۹ بولنے اور اظہارِ رائے کی آزادی، پر امن جلوس، آمد و رفت کی آزادی، جماعت یا یونین بنانے کی آزادی... کے بارے میں ہے۔
اس زرعی قانون کے باب ۱۹ کا خلاصہ ہندوستانی آئین کی دفعہ ۳۲ پر بھی حملہ کرتا ہے، جو آئینی چارہ جوئی (قانونی کارروائی) کے حق کی گارنٹی دیتا ہے۔ دفعہ ۳۲ کو آئین کے بنیادی ڈھانچہ کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
’مین اسٹریم‘ میڈیا (اُن پلیٹ فارموں کے لیے ایک عجیب لفظ، جن کے مواد میں ۷۰ فیصد سے زیادہ آبادی شامل نہیں ہے) یقیناً ہندوستانی جمہوریت پر نئے زرعی قوانین کے ان اثرات سے انجان نہیں ہو سکتا ہے۔ لیکن عوامی مفاد یا جمہوری اصولوں کی بجائے ان کی پوری توجہ منافع کمانے پر لگی ہوئی ہے۔
اس میں شامل مفادات کے ٹکراؤ کے بارے میں اگر کوئی ابہام ہو تو اسے دور کریں۔ یہ میڈیا بھی کارپوریٹ ہیں۔ سب سے بڑے ہندوستانی کارپوریٹ کا ’بگ باس‘ ملک کا سب سے امیر اور سب سے بڑا میڈیا مالک بھی ہے۔ ’امبانی‘ ان ناموں میں سے ایک ہے، جسے دہلی کے دروازے پر موجود کسانوں نے اپنے نعروں میں پکارا ہے۔ دیگر مقامات، چھوٹی سطحوں پر بھی، ہم لمبے عرصے سے ’فورتھ اسٹیٹ‘ (پریس) اور ریئل اسٹیٹ کے درمیان فرق نہیں کر سکے ہیں۔ ’مین اسٹریم‘ میڈیا کارپوریشنوں کے مفادات کو شہریوں کے مفادات (اکیلے کسانوں کے نہیں) سے اوپر رکھنے کے لیے دل و جان سے لگا ہوا ہے۔
ان کے اخباروں میں اور چینلوں پر، سیاسی رپورٹوں میں (کچھ شاندار – اور عام – استثنیٰ کے ساتھ) کسانوں کو بدنام کرنا – امیر کسان، صرف پنجاب سے، خالصتانی، فریبی، کانگریسی سازشی وغیرہ – تیز اور مسلسل ہوتا رہا ہے۔
حالانکہ، بڑے میڈیا کے اداریے ایک الگ رخ اپناتے ہیں۔ مگرمچھ کی ہمدردی۔ دراصل، سرکار کو اسے بہتر طریقے سے سنبھالنا چاہیے تھا۔ ظاہر ہے، یہ ادھوری جانکاری رکھنے والے گنواروں کی جماعت ہے جو دیکھ نہیں سکتی، لیکن اسے سرکاری ماہرین اقتصادیات اور وزیر اعظم کی ذہانت کو سمجھنے لائق بنایا جانا چاہیے – جنہوں نے اس قسم کے فلاحی اور پرواہ کرنے والے قوانین بنائے ہیں، جو کسانوں اور بڑی اقتصادیات کے لیے بھی اہم ہیں۔ یہ کہنے کے بعد، وہ زور دیتے ہیں: یہ قوانین اہم اور ضروری ہیں اور انہیں نافذ کیا جانا چاہیے۔
انڈین ایکسپریس کے ایک اداریہ میں کہا گیا ہے، ’’اس پورے معاملے میں خامی اصلاحات میں نہیں، [زور دیکر کہا گیا] بلکہ جس طرح زرعی قوانین کو پاس کیا گیا، اور سرکار کی ترسیل کی حکمت عملی، یا اس کی کمی میں ہے۔‘‘ ایکسپریس کو یہ بھی تشویش ہے کہ اسے صحیح طریقے سے نہیں سنبھالنے سے دیگر بڑی اسکیموں کو نقصان پہنچے گا، جو ’’تین زرعی قوانین کی طرح‘‘ ہی ’’ہندوستانی زراعت کی حقیقی استطاعت سے فیضیاب ہونے کے لیے ضروری اصلاحات‘‘ ہیں۔
ٹائمز آف انڈیا کا اپنے اداریہ میں کہنا ہے کہ تمام حکومتوں کے سامنے ترجیحی کام ہے ’’کاشتکاروں میں ایم ایس پی نظام کی ناگزیر منتقلی کی غلط فہمی کو دور کرنا...‘‘ آخرکار، مرکز کا اصلاحی پیکیج زرعی کاروبار میں نجی حصہ داری کو بہتر بنانے کی ایک ایماندار کوشش ہے۔ زرعی آمدنی کو دو گنا کرنے کی امیدیں ان اصلاحات کی کامیابی پر منحصر ہیں...‘‘ اور ان جیسی اصلاحات سے ’’ہندوستان کے غذائی بازار کی نقصاندہ خامیاں بھی دور ہوں گی۔‘‘
ہندوستان ٹائمز کے ایک اداریہ میں کہا گیا ہے، ’’اس قدم [نئے قوانین] کا ٹھوس جواز ہے۔‘‘ اور ’’کاشتکاروں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ قوانین کی حقیقت تبدیل نہیں ہوگی۔‘‘ یہ بھی حساس ہونے کی رَٹ لگاتا ہے۔ کاشتکاروں کے بارے میں اس کا ماننا ہے کہ وہ ’’انتہا پسند شناخت کے ایشوز سے کھلواڑ کر رہے ہیں‘‘ اور انتہا پسندانہ فکر اور کارروائی کی وکالت کرتے ہیں۔
سرکار شاید اِن سوالوں میں پھنسی ہوئی ہے کہ کاشتکار انجانے میں کن سازش کرنے والوں کی نمائندگی کر رہے ہیں، کن کے اشارے پر کام کر رہے ہیں۔ اداریہ لکھنے والوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ کس کی نمائندگی کر رہے ہیں، اس لیے وہ اپنا پیٹ بھرنے والے کارپوریٹ بازوؤں کو کاٹنا نہیں چاہتے۔
یہاں تک کہ با معنی اور سب سے کم جانبدار ٹیلی ویژن چینلوں پر، جن سوالوں پر بحث ہوتی ہے وہ سوال بھی ہمیشہ سرکار اور اس کے قیدی ماہرین اور دانشوروں کے فریم ورک کے اندر ہوتے ہیں۔
کبھی بھی اس جیسے سوالوں پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا جاتا: ابھی کیوں؟ اور لیبر قوانین کو بھی اتنی جلد بازی میں کیوں پاس کیا گیا؟ وزیر اعظم مودی نے گزشتہ انتخابات میں بھاری اکثریت سے جیت حاصل کی تھی۔ ان کے پاس یہ اکثریت کم از کم ۲-۳ سال اور رہے گی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرکار کو یہ کیوں لگا کہ وبائی مرض کا عروج ہی ان قوانین کو پاس کرنے کا ایک اچھا وقت ہے – جب کہ وبائی مرض کے دوران ہزاروں دیگر چیزیں ہیں جن پر فوری توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے؟
ان کا اندازہ تھا کہ یہی وہ وقت ہے، جب کووڈ- ۱۹ سے پست، وبائی مرض سے متاثر، کسان اور مزدور کسی بھی مثبت طریقے سے منظم نہیں ہو پائیں گے اور احتجاج نہیں کر پائیں گے۔ المختصر، یہ صرف اچھا ہی نہیں بلکہ بہترین وقت تھا۔ اس میں انہیں اپنے ماہرین کی مدد بھی ملی، جن میں سے کچھ کو اس صورتحال میں ’ایک دوسرا ۱۹۹۱ کا لمحہ‘ نظر آیا، انہیں بنیادی اصلاح کرنے، حوصلہ توڑنے، بحران اور انتشار سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل گیا۔ اور بعض اداریوں نے اقتدار سے ’’اچھے بحران کو برباد نہیں کرنے‘‘ کا مطالبہ کیا۔ اور نیتی آیوگ کے سربراہ نے اعلان کیا کہ انہیں ہندوستان کے ’’کچھ زیادہ ہی جمہوری‘‘ ہونے سے چڑھ ہے۔
اور اس بیحد اہم سوال پر کہ یہ قوانین غیر آئینی ہیں، سطحی اور غیر حساس تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ مرکزی حکومت کو یہ اختیار ہی حاصل نہیں ہے کہ وہ ریاستی فہرست کے موضوع پر کوئی قانون بنائے۔
ان اخباروں کے اداریہ میں اس بات پر بھی زیادہ بحث نہیں ہو رہی ہے کہ کسانوں نے اس ایشو کو حل کرنے کے لیے ایک کمیٹی کی تشکیل کرنے کی سرکار کی پیشکش کو اتنی بے رخی سے خارج کیوں کر دیا۔ ملک بھر کا ہر کسان اگر کسی کمیٹی کی رپورٹ کو جانتا اور اسے نافذ کرنے کا مطالبہ کرتا ہے، تو وہ قومی زرعی کمیشن ہے – جسے وہ ’سوامی ناتھن رپورٹ‘ کہتے ہیں۔ کانگریس ۲۰۰۴ سے اور بی جے پی ۲۰۱۴ سے اُس رپورٹ کو نافذ کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے اسے دفن کرنے کے لیے مقابلہ آرائی کر رہی ہے۔
اور، ہاں، نومبر ۲۰۱۸ میں ایک لاکھ سے زائد کسان دہلی میں پارلیمنٹ کے پاس جمع ہوئے تھے اور اس رپورٹ کی بنیادی سفارشات کو نافذ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے قرض معافی، کم از کم امدادی قیمت کی گارنٹی، اور زرعی بحران پر بحث کے لیے پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلانے سمیت کئی دیگر مطالبات کیے تھے۔ مختصراً، کسانوں کی اُن بہت ساری چیزوں میں سے یہی کچھ مطالبات ہیں، جو اب دہلی دربار کو چیلنج کر رہے ہیں۔ اور وہ صرف پنجاب ہی نہیں، بلکہ ۲۲ ریاستوں اور چار مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے کسان تھے۔
کسانوں نے – ایک کپ چائے کی شکل میں سرکار کی طرف سے بہت کچھ قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے – ہمیں یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ سرکار نے ان کے بارے میں جو اندازہ لگایا تھا کہ ڈر اور پریشانی کے سبب وہ متحد نہیں ہو سکتے، وہ اندازہ غلط تھا۔ وہ اپنے (اور ہمارے) حقوق کے لیے پہلے بھی کھڑے تھے اور آئندہ بھی رہیں گے اور خود کو بڑے خطرے میں ڈال کر ان قوانین کی مخالفت کرتے رہیں گے۔
انہوں نے بار بار ایک اور بات بھی کہی ہے، جسے ’مین اسٹریم‘ میڈیا نظر انداز کر رہا ہے۔ وہ ہمیں وارننگ دیتے رہے ہیں کہ کھانے پر کارپوریٹ کے کنٹرول سے ملک پر کیا اثر پڑنے والا ہے۔ کیا آپ نے حال ہی میں اس پر کوئی اداریہ دیکھا ہے؟
ان میں سے کئی لوگ یہ جانتے ہیں کہ وہ اپنے لیے، یا پنجاب کے لیے، ان تین قوانین کو مسترد کرانے سے کہیں زیادہ بڑی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ان قوانین کو مسترد کرانے سے اس سے زیادہ کچھ نہیں ملے گا کہ ہم وہیں واپس پہنچ جائیں گے جہاں ہم پہلے تھے – جو کبھی اچھی جگہ نہیں تھی۔ ایک خطرناک اور فی الحال جاری زرعی بحران کی طرف۔ لیکن یہ زراعت کی خستہ حالی میں ان نئے اضافوں کو روکے گا یا ان کی رفتار کو کم کر دے گا۔ اور ہاں، ’مین اسٹریم میڈیا‘ کے برعکس، کسان ان قوانین میں شہریوں کی قانونی چارہ جوئی کے حق کو ختم کرنے اور ہمارے حقوق کو سلب کرنے کی اہمیت کو دیکھ رہے ہیں۔ اور بھلے ہی وہ اسے اُس طرح سے نہ دیکھ سکیں یا بتا سکیں – ان کی حفاظت کے لیے آئین کا بنیادی ڈھانچہ اور خود جمہوریت موجود ہے۔
سرورق کا خاکہ: پرینکا بورار نئے میڈیا کی ایک آرٹسٹ ہیں جو معنی اور اظہار کی نئی شکلوں کو تلاش کرنے کے لیے تکنیک کا تجربہ کر رہی ہیں۔ وہ سیکھنے اور کھیلنے کے لیے تجربات کو ڈیزائن کرتی ہیں، باہم مربوط میڈیا کے ساتھ ہاتھ آزماتی ہیں، اور روایتی قلم اور کاغذ کے ساتھ بھی آسانی محسوس کرتی ہیں۔
اس مضمون کا انگریزی ورژن پہلی بار ۹ دسمبر، ۲۰۲۰ کو دی وائر میں شائع ہوا تھا۔
مترجم: محمد قمر تبریز