گزشتہ تین چار سال سے زیادہ عرصے سے بیمار چل رہیں ۲۲ سالہ مینو سردار، ۲۰۲۱ کی گرمیوں کی ایک صبح کو جب پانی بھرنے کیلئے اپنے گھر سے نکلیں، تو انہیں بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ آگے ایک بڑا حادثہ ان کا انتظار کر رہا ہے۔ دیا پور گاؤں کے تالاب کی سیڑھیاں جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھیں۔ مینو کا پیر پھسل گیا اور وہ سر کے بَل سیڑھیوں سے لڑھکتے ہوئے نیچے جا گریں۔
بنگالی میں اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے مینو کہتی ہیں، ’’میرے سینے اور پیٹ میں بہت زیادہ درد ہونے لگا۔ اندامِ نہانی سے خون بہنے لگا۔ گھر واپس آنے کے بعد، جب میں غسل خانہ میں گئی تو میرے اندر سے کوئی چیز باہر نکل کر فرش پر گری۔ میں نے دیکھا کہ وہ گوشت کا ایک لوتھڑا ہے۔ میں نے اسے کھینچ کر باہر نکالنے کی کوشش کی، لیکن پورا لوتھڑا باہر نہیں نکلا۔‘‘
پڑوس کے ایک گاؤں میں جب وہ ایک پرائیویٹ کلینک میں دکھانے گئیں، تو وہاں پتہ چلا کہ اُن کا اسقاط حمل ہو چکا ہے۔ مینو کو تبھی سے بے ترتیبی سے حیض آنے لگا، اور جسم میں شدید درد اور ذہنی تناؤ رہنے لگا، حالانکہ وہ قد میں لمبی، پتلی، اور ان تمام فکرمندیوں کے باوجود ہمیشہ مسکراتی رہتی ہیں۔
مغربی بنگال کے جنوبی ۲۴ پرگنہ ضلع کے گوسابا بلاک میں واقع ان کے گاؤں کی آبادی تقریباً ۵ ہزار ہے۔ دھان کے سرسبز کھیتوں اور آبی جنگلات سے مالا مال سندر بن میں، یہ گوسابا بلاک کے اُن مٹھی بھر گاؤوں میں سے ایک ہے جو سڑک سے جڑا ہوا ہے۔
اُس دن تالاب کی سیڑھیوں سے گرنے کے بعد، مینو کو بغیر رکے ایک مہینے سے زیادہ وقت تک خون آتا رہا، اور یہ اُن کی آخری مصیت نہیں تھی۔ وہ بتاتی ہیں، ’’ شاریرک شومپورکو ایتو باٹھا کورے [ہم بستری میں کافی درد ہوتا ہے]۔ ایسا لگتا ہے کہ میرے جسم کو چیرا جا رہا ہے۔ رفع حاجت کے وقت جب میں زور لگاتی ہوں، یا جب کوئی وزنی سامان اٹھاتی ہوں، تو میری بچہ دانی نیچے کی طرف آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔‘‘
حالات اور ماحول نے اُن کی مصیبوں کو اور بڑھا دیا۔ دسویں جماعت سے آگے اپنی تعلیم کو جاری نہیں رکھ سکیں مینو نے، تالاب میں گرنے کے بعد اندام نہانی سے خون نکلنے کے بارے میں دیا پور کی آشا کارکن (منظور یافتہ سماجی صحت کی کارکن) سے کوئی بھی مشورہ نہ لینے کا فیصلہ کیا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میں اسے بتانا نہیں چاہتی تھی، کیوں کہ گاؤں کے دوسرے لوگوں کو میرے اسقاط حمل کا پتہ چل جاتا۔ اس کے علاوہ، مجھے نہیں لگتا کہ اسے اس کے علاج کے بارے میں کچھ معلوم ہوگا۔‘‘
وہ اور ان کے شوہر، بپّا سردار نے بچہ پیدا کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا تھا، لیکن اُس وقت وہ مانع حمل کا استعمال نہیں کر رہی تھیں۔ ’’شادی کے وقت میں خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں نہیں جانتی تھی۔ کسی نے مجھے اس کے بارے میں بتایا نہیں تھا۔ اسقاط حمل کے بعد ہی مجھے اس کا علم ہو پایا۔‘‘
مینو کو یہ بات معلوم تھی کہ دیا پور سے تقریباً ۱۲ کلومیٹر دور واقع گوسابا دیہی اسپتال میں امراض خواتین کی ماہر (گائیناکولوجسٹ) ایک ڈاکٹر کو تعینات کیا گیا ہے، لیکن وہ کبھی دستیاب نہیں رہتی تھیں۔ ویسے ان کے گاؤں میں دو جھولا چھاپ ڈاکٹر (آر ایم پی) موجود ہیں۔
دیا پور کے دونوں ہی آر ایم پی مرد ہیں۔
مینو بتاتی ہیں، ’’میں کسی مرد کو اپنی پریشانی کے بارے میں بتانا نہیں چاہتی تھی۔ اس کے علاوہ، وہ اس قسم کی بیماریوں کے ماہر بھی نہیں ہوتے۔‘‘
مینو اور بپّا نے ضلع کے کئی پرائیویٹ ڈاکٹروں، اور کولکاتا کے بھی ایک ڈاکٹر سے دکھایا، اور ۱۰ ہزار روپے سے زیادہ خرچ کیے، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس جوڑی کی آمدنی کا واحد ذریعہ بپّا کی ماہانہ ۵ ہزار روپے کی تنخواہ ہے، جو انہیں راشن کی ایک دکان پر کام کرنے سے ملتی ہے۔ بیوی کو ڈاکٹروں سے دکھانے کے لیے انہوں نے اپنے دوستوں سے پیسے قرض لیے تھے۔
دیا پور کے ایک ہومیو پیتھ سے لی گئی کچھ دوائیں کھانے کے بعد مینو کے حیض کی ترتیب آخرکار درست ہو گئی۔ وہ بتاتی ہیں کہ یہی ایک مرد ڈاکٹر تھا جس سے انہیں اپنے اسقاط حمل کے بارے میں بات کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ حالانکہ اندام نہانی سے لگاتار نکلنے والے خون اور اس میں شدید تکلیف کی جانچ کرنے کیلئے ڈاکٹر کی تشخیص پر پیٹ کے نچلے حصے کا الٹرا ساؤنڈ کرانے کی خاطر مینو کو تب تک انتظار کرنا پڑا جب تک کہ ان کے پاس کافی پیسہ جمع نہیں ہوگیا۔
تب تک، وہ وزنی سامان نہیں اٹھا سکتی تھیں، اور انہیں اکثر و بیشتر آرام کرنے کی ضرورت پڑتی تھی۔
صحت عامہ کے نظام تک رسائی حاصل کرنے کے لیے جس طرح مینو کو اِدھر اُدھر بھٹکنا پڑا، اس خطہ کے گاؤوں میں رہنے والی تقریباً تمام عورتوں کی کہانی بھی ویسی ہی ہے۔ ہندوستانی سندربن میں صحت عامہ کے نظام میں اپنا کردار ادا کرنے والی چیزوں کا پتہ لگانے کے لیے سال ۲۰۱۶ کے ایک مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کو طبی نگہداشت کی سہولت حاصل نہیں ہے۔ عوامی پیسے سے چلنے والے ادارے ’’یا تو موجود نہیں ہیں یا اگر موجود ہیں تو کام نہیں کر رہے ہیں‘‘، اور جو ادارے کام کر بھی رہے ہیں، وہاں تک پہنچ پانا اس لیے مشکل ہے کیوں کہ راستے بہت خراب ہیں۔ آر ایم پی کے سماجی نیٹ ورک کا جائزہ لینے والے اس مطالعہ میں بتایا گیا ہے کہ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے وہاں پر جھولا چھاپ ڈاکٹروں کی ایک پوری فوج موجود ہے، ’’عام دنوں کے ساتھ ساتھ خراب موسم میں بھی لوگ انہی کے پاس جاتے ہیں‘‘۔
*****
مینو کی صحت کا یہ کوئی پہلا مسئلہ نہیں تھا۔ سال ۲۰۱۸ میں، ان کے پورے جسم پر خارش کی وجہ سے دانے نکل آئے تھے۔ ہاتھوں، پیروں، سینہ اور چہرے پر اس قدر دانے نکل آئے تھے کہ مینو کی ٹانگیں اور بازو سوج گئے تھے۔ گرمی نے ان کی خارش کو مزید بڑھا دیا۔ ڈاکٹروں سے صلاح و مشورہ کرنے اور دواؤں پر فیملی کو تقریباً ۲۰ ہزار روپے خرچ کرنے پڑے۔
مینو بتاتی ہیں، ’’ایک سال سے بھی زیادہ دنوں تک، میری زندگی بس اسپتالوں کے چکر کاٹنے تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔‘‘ افاقہ بہت دھیمی رفتار سے ہو رہا تھا، جس کی وجہ سے وہ مسلسل اس خوف میں مبتلا رہتی تھیں کہ جلد پر دوبارہ یہ دانے نکل آئیں گے۔
مینو جہاں رہتی ہیں، وہاں سے ۱۰ کلومیٹر سے تھوڑا کم فاصلہ پر واقع رجت جوبلی گاؤں کی ۵۱ سالہ الاپی مونڈل بھی کچھ ایسی ہی کہانی بیان کرتی ہیں، ’’تین چار سال پہلے، میرے بدن کی پوری جلد پر زبردست خارش ہونے لگی۔ بعض دفعہ یہ اتنی شدید ہو جاتی تھی کہ اس سے مواد نکلنے لگتا تھا۔ میں ایسی کئی عورتوں کو جانتی ہوں جو اسی قسم کی پریشانی میں مبتلا ہیں۔ ایک بار تو ہمارے گاؤں اور پاس کے گاؤوں کے ہر گھر میں کوئی نہ کوئی ایسا ضرور تھا، جس کی جلد پر ایسا ہی انفیکشن ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ یہ ایک طرح کا وائرس ہے۔‘‘
الاپی ایک ماہی گیر خاتون ہیں، جو تقریباً ایک سال تک دوا کھانے کے بعد اب ٹھیک ہیں۔ انہیں سونار پور بلاک کے ایک خیراتی پرائیویٹ کلینک میں ڈاکٹروں سے دکھانے کا موقع مل گیا، جہاں ایک بار جانے پر انہیں صرف ۲ روپے ادا کرنے پڑتے تھے، لیکن دوائیں مہنگی تھیں۔ فیملی نے ان کے علاج پر ۱۳ ہزار روپے خرچ کیے۔ اُس کلینک تک پہنچنے میں انہیں ۵-۴ گھنٹے لگتے تھے۔ خود ان کے اپنے گاؤں میں بھی ایک چھوٹا سا سرکاری کلینک ہے، لیکن تب انہیں اس کے بارے میں پتہ نہیں تھا۔
وہ بتاتی ہیں، ’’میری جلد کا مسئلہ جب بہت زیادہ بڑھ گیا، تو میں نے مچھلی پکڑنے کا کام چھوڑ دیا۔‘‘ اس سے پہلے، وہ ندی کے کنارے گردن تک گہرے پانی میں گھنٹوں غوطہ لگانے کے بعد، ٹائیگر جھینگوں کے بچے پکڑنے کے لیے اپنی جال کھینچتی رہتی تھیں۔ لیکن، اس بیماری کے بعد وہ یہ کام دوبارہ کبھی نہیں کر سکیں۔
رجت جوبلی گاؤں کی کئی دیگر عورتوں نے جلد کی اس قسم کی بیماری کا سامنا کیا ہے، جس کے لیے وہ سندربن کے بہت زیادہ کھارے پانی کو قصوروار ٹھہراتی ہیں۔
مینو کی صحت کا یہ کوئی پہلا مسئلہ نہیں تھا۔ سال ۲۰۱۸ میں، ان کے پورے جسم پر خارش کی وجہ سے دانے نکل آئے تھے۔ ہاتھوں، پیروں، سینہ اور چہرے پر اس قدر دانے نکل آئے تھے کہ مینو کی ٹانگیں اور بازو سوج گئے تھے
سورو داس اپنی کتاب ’پانڈ ایکو سسٹم آف دی انڈین سندربنس‘ (ہندوستانی سندربن میں تالابوں کا حیاتیاتی نظام) میں مقامی معاش پر پانی کے معیار کے اثرات سے متعلق ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ عورتوں کو کھانا پکانے، غسل کرنے اور کپڑے و برتن وغیرہ دھونے میں کھارے پانی کا استعمال کرنے کی وجہ سے جلدی امراض ہوتے ہیں۔ جھینگا مچھلی پالنے والی کسان ندی کے کھارے پانی میں روزانہ ۶-۴ گھنٹے کھڑی رہتی ہیں۔ بقول سورو داس، ’’کھارے پانی کے استعمال کی وجہ سے ان کی اندام نہانی میں بھی انفیکشن ہو جاتا ہے۔‘‘
تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ سندربن میں پانی کا غیر معمولی طور پر کھارا ہونا سمندر کی آبی سطحوں میں اضافہ، سمندری طوفان اور آندھی چلنے کی وجہ سے ہے – یہ تمام چیزیں ماحولیاتی تبدیلی کا سبب ہیں۔ اس کے علاوہ جھینگا مچھلی پالنے اور آبی جنگلات کی کمی بھی اس کا سبب ہیں۔ ایشیا کی بڑی ندیوں کے ڈیلٹا میں پینے کے پانی سمیت، تمام آبی ذرائع کو آلودہ کرنا کھارے پانی کی امتیاری خصوصیت ہے۔
پورے سندربن میں میڈیکل کیمپ لگانے اور کولکاتا کے آر جی کار میڈیکل کالج اور ہاسپیٹل میں پریکٹس کرنے والے ڈاکٹر شیامول چکربورتی کہتے ہیں، ’’سندربن میں، پانی کا بہت زیادہ کھارا ہونا امراض خواتین کی ایک بڑی وجہ ہے، خاص کر اس کی وجہ سے کولہوں میں سوزش کی بیماریاں ہو جاتی ہیں۔ لیکن نمکین پانی ہی اس کی واحد وجہ نہیں ہے۔ سماجی و اقتصادی حالت، حیاتیات، پلاسٹک کا استعمال، صاف صفائی، غذائیت اور حفظان صحت کی فراہمی کا نظام – یہ تمام چیزیں اہم رول ادا کرتی ہیں۔‘‘
بین الاقوامی میڈیا کی معاون تنظیم، انٹر نیوز کے سینئر ہیلتھ میڈیا ایڈوائزر، ڈاکٹر جے شریدھر کے مطابق، اس خطے کی عورتیں دن میں ۷-۴ گھنٹے کھارے پانی میں کھڑی رہتی ہیں، خاص کر جھینگا مچھلی پالنے والی عورتیں۔ اس کی وجہ سے انہیں متعدد بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں، جیسے کہ پیچش، دست، جلدی امراض، امراض قلب، پیٹ کا درد اور معدے کا السر وغیرہ۔ کھارے پانی کی وجہ سے، خاص کر عورتوں میں ہائپر ٹینشن (ہائی بلڈ پریشر) ہو سکتا ہے، جس سے ان کے حمل پر اثر پڑتا ہے، اور بعض دفعہ اسقاط حمل بھی ہو سکتا ہے۔
*****
سال ۲۰۱۰ کے ایک مطالعہ میں بتایا گیا ہے کہ سندربن میں ۱۵ سے ۵۹ سال کے لوگوں میں، مردوں کے مقابلے عورتوں میں نسبتاً زیادہ بیماریاں ہوتی ہیں۔
جنوبی ۲۴ پرگنہ کے دور افتادہ علاقوں میں طبی خدمات فراہم کرنے والے ایک این جی او، سدرن ہیلتھ امپروومنٹ سمیتی کے ذریعے چلائی جا رہی موبائل میڈیکل یونٹ کے رابطہ کار، انوار العالم بتاتے ہیں کہ سندربن کا دورہ کرنے والی اُن کی طبی اکائی میں ہر ہفتے ۴۵۰-۴۰۰ مریض آتے ہیں۔ ان میں سے تقریباً ۶۰ فیصد عورتیں ہیں، جن میں سے کئی جلدی امراض، لیکوریا (سیلانِ رحم)، انیمیا اور امینورہویا (حیض میں بے ترتیبی) میں مبتلا ہوتی ہیں۔
عالم کہتے ہیں کہ خواتین مریض کم غذائیت کی شکار ہوتی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’جزیرے پر زیادہ تر پھل اور سبزیاں کشتیوں کے ذریعے آتی ہیں، مقامی سطح پر نہیں اُگائی جاتیں۔ ہر کوئی انہیں خرید نہیں سکتا۔ گرمیوں میں حد سے زیادہ گرمی اور تازہ پانی کی کمی بھی ان بیماریوں کا بڑا سبب ہیں۔‘‘
مینو اور الاپی کی خوراک میں اکثر و بیشتر چاول، دال، آلو اور مچھلیاں شامل ہوتی ہیں۔ وہ بہت تھوڑے پھل یا سبزیاں کھاتی ہیں کیوں کہ انہیں وہ اُگاتی نہیں ہیں۔ مینو کی طرح ہی، الاپی کو بھی کئی بیماریاں ہیں۔
تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ سندربن میں پانی کا غیر معمولی طور پر کھارا ہونا سمندر کی آبی سطحوں میں اضافہ، سمندری طوفان اور آندھی چلنے کی وجہ سے ہوتا ہے – یہ تمام چیزیں ماحولیاتی تبدیلی کا سبب ہیں
تقریباً پانچ سال پہلے، الاپی کو حد سے زیادہ خون آنے لگا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’سونوگرافی میں ٹیومر کا پتہ چلنے کے بعد، مجھے اپنا جرایو [بچہ دانی] نکلوانے کے لیے تین سرجری کرانی پڑی۔ میری فیملی نے ۵۰ ہزار سے زیادہ روپے خرچ کیے ہوں گے۔‘‘ پہلی سرجری اپنڈکس نکالنے کے لیے کی گئی تھی، اور بقیہ دو نس بندی کے لیے۔
پڑوس کے بسنتی بلاک کے سوناکھلی گاؤں میں واقع جس پرائیویٹ اسپتال میں الاپی کی نس بندی کرائی گئی، وہ ان کے گاؤں سے کافی دور ہے۔ اس کے لیے انہیں سب سے پہلے اپنے گاؤں، رجت جوبلی سے کشتی لے کر گوسابا کے گھاٹ تک جانا پڑتا، پھر وہاں سے دوسری کشتی لے کر گڈھا کھلی گاؤں کے گھاٹ، اور پھر بس یا مشترکہ وین سے سوناکھلی تک جانا پڑتا تھا – اس پورے سفر میں انہیں ایک طرف کی دوری طے کرنے میں ۳-۲ گھنٹے لگتے تھے۔
ایک بیٹا اور ایک بیٹی کی ماں، الاپی رجت جوبلی کی کم از کم چار یا پانچ ایسی عورتوں کو جانتی ہیں جنہوں نے اپنی مکمل نس بندی کرا رکھی ہے۔
ان میں سے ایک، ۴۰ سالہ ماہی گیر بسنتی مونڈل ہیں۔ تین بچوں کی ماں بسنتی کہتی ہیں، ’’ڈاکٹروں نے بتایا کہ میری بچہ دانی میں ٹیومر ہے۔ اس سے پہلے، مچھلی پکڑنے کے لیے جاتے وقت میرے اندر کافی طاقت ہوا کرتی تھی۔ میں سخت محنت کر سکتی تھی۔ لیکن بچہ دانی نکل جانے کے بعد مجھے اتنی طاقت محسوس نہیں ہوتی۔‘‘ ایک پرائیویٹ اسپتال میں سرجری کرانے پر انہیں ۴۰ ہزار روپے خرچ کرنے پڑے تھے۔
نیشنل فیملی ہیلتھ سروے۔۴ (۱۶-۲۰۱۵) میں بتایا گیا ہے کہ مغربی بنگال کے دیہی علاقوں میں رہنے والی ۱۵ سے ۴۹ سال کی ۲ اعشاریہ ۱ فیصد عورتوں نے نس بندی کرا رکھی ہے – یہ شرح مغربی بنگال کے شہری علاقوں کی ایک اعشاریہ ۹ فیصد کی شرح سے تھوڑا زیادہ ہے۔ (کل ہند شرح ۳ اعشاریہ ۲ فیصد تھی۔)
پچھلے سال ستمبر میں، بنگالی روزنامہ آنند بازار پتریکا میں شائع ایک مضمون میں صحافی سواتی بھٹاچارجی لکھتی ہیں کہ سندربن کی ۲۶ سے ۳۶ سال کی عورتوں نے اندام نہانی میں انفیکشن، حد سے زیادہ یا بے ترتیب خون آنے، ہم بستری کے دوران درد یا کولہے میں سوزش جیسی شکایتوں کے بعد اپنی بچہ دانی نکالنے کے لیے سرجری کروا لی ہے۔
جھولا چھاپ ڈاکٹر ان عورتوں کو ڈراتے ہیں کہ اگر انہوں نے سرجری نہیں کرائی، تو ان کی بچہ دانی میں ٹیومر (گانٹھ) ہو جائے گا۔ اس سے خوف زدہ ہوکر یہ عورتیں پرائیویٹ کلینک جا کر اپنی نس بندی کروا لیتی ہیں۔ بھٹاچارجی کے مطابق، منافع کمانے والے پرائیویٹ کلینک ریاستی حکومت کے ذریعے چلائی جار ہی سواستھیہ ساتھی بیمہ اسکیم کا فائدہ اٹھاتے ہیں، جس کے تحت عورتوں کو سالانہ ۵ لاکھ روپے تک کی امدادی رقم دی جاتی ہے
مینو، الاپی، بسنتی اور سندربن کی لاکھوں دیگر عورتوں کے لیے افزائشی صحت سے متعلق مسائل نظام صحت تک رسائی حاصل کرنے میں درپیش مشکلات کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
بسنتی کو اپنی نس بندی کرانے کے لیے گوسابا بلاک میں واقع اپنے گھر سے پانچ گھنٹے کا سفر کرنا پڑا۔ وہ سوال کرتی ہیں، ’’آخر سرکار مزید اسپتال اور نرسنگ ہوم کیوں نہیں بنوا سکتی؟ یا امراض خواتین کی ماہر مزید ڈاکٹروں کو کیوں نہیں رکھ سکتی؟ ہم بھلے ہی غریب ہیں، لیکن ہم مرنا نہیں چاہتے۔‘‘
مینو اور بپا سردار، اور ان کے محل وقوع کا نام بدل دیا گیا ہے، تاکہ ان کی رازداری کی حفاظت کی جا سکے۔
پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گروہوں کی حالت کا پتا لگایا جا سکے۔
اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم [email protected] کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی [email protected] کو بھیج دیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز