ہیمنت کاولے اپنے نام سے پہلے ایک اور صفت کا اضافہ کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔

’’میں پڑھا لکھا ہوں، بے روزگار ہوں، اور…غیر شادی شدہ ہوں،‘‘ ۳۰ سالہ یہ نوجوان اپنے کنوارے پن پر طنز کرتے ہوئے اپنا اور دیگر نوجوان کسانوں کا مذاق اڑاتا ہے۔

’’سشکشکت۔ بےروزگار۔ اویواہت۔‘‘ وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہیں، اور ان کے چھوٹے سے پان کے اسٹال پر موجود ان کے دوست (جن کی عمریں ۳۰ سے تجاوز کر چکی ہیں) مجبوراً غیر شادی شدہ ہونے کے اپنے غصے اور شرمندگی کو چھپانے کی کوشش میں کھسیانی ہنسی ہنستے ہیں۔ گویا یہ لطیفہ ان پر بھی صادق آتا ہے۔

’’یہ ہمارا بنیادی ایشو ہے،‘‘ معاشیات میں ایم اے کر چکے ہیمنت کہتے ہیں۔

ہم شِیلوڈی گاؤں میں ہیں۔ یہ گاؤں کپاس کا کٹورا کہے جانے والے ودربھ کے یوتمال-داروہا روڈ پر واقع ہے۔ زرعی خودکشی سے متاثر مشرقی مہاراشٹر کا یہ خطہ طویل عرصے سے زرعی بحران اور نقل مکانی کے سائے میں ہے۔ نوجوانوں کا گروپ اس اسٹال کے سائے میں وقت گزار رہا ہے جسے ہیمنت نے گاؤں کے مرکزی چوک پر لگا رکھا ہے۔ وہ سب گریجویٹ یا پوسٹ گریجویٹ ہیں؛ ان سب کے نام پر زرعی زمینیں ہے۔ وہ سب بے روزگار ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی شادی شدہ نہیں ہے۔

ان میں سے بیشتر نے دور دراز شہروں جیسے پونے، ممبئی، ناگپور یا امراوتی میں قسمت آزمائی کی ہے۔ وہاں معمولی تنخواہوں پر کچھ دنوں تک کام کیا ہے۔ وہ ریاستی یا یونین پبلک سروس کمیشن یا دیگر ملازمتوں کے مسابقتی امتحانات میں شامل ہوکر ناکام ہو چکے ہیں۔

اس علاقے کے، اور شاید ملک کے زیادہ تر نوجوانوں کی طرح ہیمنت بھی اس خیال کے سے ساتھ بڑے ہوئے کہ نوکری حاصل کرنے کے لیے انہیں بہتر تعلیم کی ضرورت ہے۔

اب انہیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ دلہن حاصل کرنے کے لیے بھی انہیں ایک مستقل سرکاری نوکری کی ضرورت ہے۔

سرکاری نوکریں کی کمی کی وجہ سے ہیمنت اپنی خاندانی زمین پر کھیتی کرنے گاؤں واپس آ گئے ہیں اور ایک اضافی کاروبار کے طور پر گاؤں میں ایک اسٹال لگا لیا ہے۔

’’میں نے ایک پان کا اسٹال لگانے کا فیصلہ کیا، ایک دوست سے رسونتی [گنے کے رس کا اسٹال] چلانے کو کہا، اور دوسرے دوست سے ناشتے کا اسٹال لگانے کو کہا، تاکہ ہم کچھ کاروبار کر سکیں،‘‘ خوش طبع ہیمنت کہتے ہیں۔ ’’پونے میں ایک پوری چپاتی کھانے کی بجائے، اپنے گاؤں میں آدھی چپاتی کھانا کبھی بھی بہتر ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

PHOTO • Jaideep Hardikar

مسابقتی امتحانات میں قسمت آزمانے اور پونے اور دیگر شہروں کے کارخانوں میں کام کرنے کے بعد ہیمنت کاولے (دائیں) پان کا اسٹال لگانے یوتمال کی دروہا تحصیل میں واقع اپنے گاؤں شیلوڈی واپس لوٹ آئے۔ وہ اور ان کے دوست انکُش کانکیرڈ (بائیں) بھی اپنی کفالت کے لیے کھیتی کرتے ہیں۔ اول الذکر ​​نے ایم اے کی ڈگری حاصل کی ہے جبکہ مؤخر الذکر نے زراعت میں بی ایس سی کیا ہے

برسوں تک معاشی تنگی اور بحران کے دور سے گزرنے کے بعد دیہی مہاراشٹر کے نوجوانوں کو ایک نئے سماجی مسئلے نے گھیر لیا ہے، جس کے دور رس نتائج ہیں۔ وہ مسئلہ ہے ان کی شادیوں میں تاخیر یا جبری کنواراپن اور تنہا رہنے کی ناگزیریت۔

’’میری ماں کو ہر وقت میری شادی کی فکر لاحق رہتی ہے،‘‘ ہیمنت کے قریبی دوست ۳۱ سالہ اَنکُش کانکیرڈ کہتے ہیں، جو ڈھائی ایکڑ زمین کے مالک ہیں اور جنہوں نے زراعت میں بی ایس سی کر رکھی ہے۔ ’’ماں کو فکر رہتی ہے کہ میں اپنی بڑھتی عمر کے ساتھ کیسے کنوارا رہ سکتا ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں اور مزید اضافہ کرتے ہیں کہ اگر وہ شادی کرنا بھی چاہیں تو بھی اپنی معمولی آمدنی کی وجہ سے نہیں کریں گے۔

ہر شخص پاری کو اپنے اپنے انداز میں بتاتا ہے کہ اس علاقے میں شادی ایک اہم سماجی رواج ہے۔ اور اقتصادی طور پر پسماندہ گوندیا کے مشرقی سرے سے لے کر مغربی مہاراشٹر کے نسبتاً خوشحال چینی بیلٹ تک آپ ایسے نوجوانوں (مرد اور خواتین) سے ملتے ہیں جن کی عمریں شادی کی عمر سے تجاوز کر چکی ہیں۔

میٹرو شہروں یا صنعتی مراکز میں اپنے بہتر تعلیم یافتہ ساتھیوں کے برعکس سماجی اور زبان کی مہارتوں کی کمی کی وجہ سے انہیں کامیابی نہیں مل رہی ہے۔

اپریل ۲۰۲۴ کے اوائل سے آئندہ ایک ماہ تک پاری نے مہاراشٹر کے دیہی علاقوں میں تعلیم یافتہ اور نوکری کے خواہش مند نوجوان مردوں اور خواتین سے ملاقات کی اور ان کا انٹرویو کیا۔ اپنے لیے مناسب جوڑا تلاش کرنے سے قاصر نوجوان مایوس، گھبراہٹ اور مستقبل کی غیر یقینی کے اندشے میں گھرے ہوئے تھے۔

بین الاقوامی ادارہ محنت (آئی ایل او) اور انسٹی ٹیوٹ آف ہیومن ڈیولپمنٹ (آئی ایچ ڈی) کی مشترکہ طور پر شائع کردہ ہندوستان بے روزگار رپورٹ ۲۰۲۴ کے مطابق، ہندوستان کی تقریباً ۸۳ فیصد بے روزگار آبادی پڑھے لکھے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ رپورٹ کے مطابق کل بے روزگار نوجوانوں میں کم از کم ثانوی سطح تک تعلیم یافتہ نوجوانوں کی حصہ داری ۲۰۰۰ میں ۲ء۳۵ فیصد سے تقریباً دوگنا ہو کر ۲۰۲۲ میں ۷ء۶۵ فیصد ہو گئی تھی۔

اس ۳۴۲ صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا کیا گیا ہے کہ ’’افرادی قوت کی زراعت کے شعبہ سے غیر زرعی شعبے کی جانب سست رفتار منتقلی کا رخ ۲۰۱۹ (کووڈ۔۱۹) کے وبائی مرض کی وجہ سے بدل گیا، تنیجتاً  زرعی روزگار کے ساتھ ساتھ زرعی افرادی قوت کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔‘‘

آئی ایل او کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں روزگار بنیادی طور پر ذاتی روزگار اور عارضی روزگار ہے۔ ’’ملک کی تقریباً ۸۲ فیصد افرادی قوت غیر رسمی شعبے میں مصروف عمل ہے، اور تقریباً ۹۰ فیصد غیر رسمی ملازمتوں سے منسلک ہے،‘‘ رپورٹ کہتی ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے شیلوڈی کے نوجوان پان، رسونتی اور چائے-ناشتے کا اسٹال چلا رہے ہیں۔

’’سال ۲۰۱۹ کے بعد سے روزگار میں اضافہ کی جو نوعیت رہی ہے اس کی وجہ سےغیر رسمی شعبے میں اور/یا غیر رسمی روزگار میں کل روزگار کا حصہ بڑھ گیا ہے۔‘‘ حالانکہ ۲۰۱۲-۲۲ کے دوران غیر رسمی مزدوروں کی اجرت میں معمولی اضافے کا رجحان برقرار رہا، لیکن باضابطہ مزدوروں کی حقیقی اجرتیں یا تو جمود کا شکار رہیں یا کم ہوگئیں۔ سال ۲۰۱۹ کے بعد ذاتی کاروبار کرنے والوں کی حقیقی کمائی میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ مجموعی طور پر کہا جائے، تو اجرت کم رہی ہے۔ ۲۰۲۲ میں ۶۰ فیصد غیر ہنرمند عارضی زراعی مزدوروں اور تعمیراتی شعبے میں اسی قبیل کے ۷۰ فیصد مزدوروں کو کم سے کم مقررہ یومیہ اجرت نہیں ملی۔

PHOTO • Jaideep Hardikar
PHOTO • Jaideep Hardikar

بائیں: رامیشور کانکیرڈ نے اضافی آمدنی حاصل کرنے کے لیے پان کے اسٹال کے قریب رسونتی (گنے کے رس کا اسٹال) لگا لیا ہے۔ انہیں شادی کرنے اور زراعت سے حاصل ہونے والی آمدنی سے اپنے کنبے کی کفالت میں دشواری پیش آ رہی ہے۔ دائیں: رامیشور گنے کی مشین چلا رہے ہیں۔ ہیمنت (چیک قمیض میں) اور انکُش کانکیرڈ (بھورے رنگ کی ٹی شرٹ میں) ان کے پیچھے کھڑے ہیں

*****

زمینی صورتحال تشویش ناک ہے۔

جہاں ایک طرف دلہن تلاش کرنا ایک چیلنج ہے، وہیں دیہی علاقوں کی کم عمر تعلیم یافتہ خواتین کو مستقل ملازمتوں کے ساتھ موزوں دولہا تلاش کرنا بھی اتنا ہی دشوار لگتا ہے۔

بی اے پاس ایک نوجوان خاتون (جو اپنا نام بتانا نہیں چاہتی تھیں اور مناسب جوڑے کے لیے اپنی پسند کی وضاحت کرنے میں شرماتی تھیں) شیلوڈی میں کہتی ہے: ’’میں زراعت میں الجھنے کی بجائے شہر میں رہنے اور ایک مستقل ملازمت والے شخص سے شادی کرنا پسند کروں گی۔‘‘

وہ کہتی ہیں کہ شہروں میں مستقل ملازمتوں والے اپنی برادری کے دولہے تلاش کرنے کے گاؤں کی دوسری لڑکیوں کے جو تجربے رہے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ آسان نہیں لگتا ہے۔

یہ تمام ذاتوں اور طبقات، خاص طور پر زمین کی ملکیت والی اونچی ذات، او بی سی یا ریاست کے تمام خطوں میں مراٹھوں جیسی غالب برادریوں پر صادق بھی آتا ہے۔

یہاں کے تجربہ کار کسانوں کا کہنا ہے کہ نہ تو بے روزگاری، نہ ہی روزگار کی نااہلیت، یا شادیوں میں تاخیر کوئی نئی بات ہے، لیکن آج یہ سماجی مسئلہ جس نہج پر پہنچ گیا ہے وہ  کافی تشویش کا باعث ہے۔

بھگونت کانکیرڈ، شیلوڈی کے ایک تجربہ کار کسان ہیں۔ مناسب جوڑی نہ ملنے کی وجہ سے ان کے دو بھتیجے اور ایک بھتیجی غیرشادی شدہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’جو لوگ رشتے طے کرانے میں ثالث کا کردار ادا کرتے تھے وہ اب یہ کردار ادا کرنے سے گریزاں ہیں۔‘‘ اپنی برادری میں شادی کے قابل نوجوانوں کے لیے دولہا اور دلہن تلاش کرنے میں برسوں سے انہوں نے ثالث کا کردار ادا کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آج وہ اس کام سے جھجکتے ہیں۔

’’میں نے فیملی کی شادیوں میں جانا ترک کر دیا ہے،‘‘ ۳۲ سالہ یوگیش راؤت کہتے ہیں، جو۱۰ ایکڑ سیراب زمین کے مالک ہیں اور پوسٹ گریجویٹ ہیں۔ ’’کیونکہ جب بھی میں جاتا ہوں، لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں کب شادی کر رہا ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’اس سے شرمندگی اور مایوسی ہوتی ہے۔‘‘

گھر میں والدین پریشان ہیں۔ لیکن راؤت کا کہنا ہے کہ اگر انہیں دلہن مل بھی جاتی ہے، تو بھی وہ شادی نہیں کریں گے کیونکہ بظاہر کم آمدنی پر کنبے کی کفالت کرنا مشکل ہے۔

’’کوئی شخص صرف زراعت کی آمدنی سے زندگی نہیں گزار سکتا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس گاؤں کے زیادہ تر کنبے نہیں چاہتے کہ ان کی لڑکیاں ایسے مردوں سے بیاہی جائیں جو محض کھیتی کی آمدنی پر انحصار کرتے ہیں یا گاؤں میں رہتے ہیں۔ یہاں ان مردوں کو ترجیح دی جاتی ہے، جو مستقل سرکاری یا پرائیویٹ نوکری کرتے ہیں یا شہروں میں اپنا روزگار چلاتے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ مستقل ملازمتیں ایک تو بہت کم ہیں اور اگر ہیں بھی تو انہیں تلاش کرنا واقعی مشکل ہے۔

PHOTO • Jaideep Hardikar
PHOTO • Jaideep Hardikar

بائیں: یوگیش راؤت، جو ایک کسان ہیں، کہتے ہیں، ’اگر آپ کے پاس مستقل آمدنی نہیں ہے تو آپ اپنی فیملی کی کفالت نہیں کرسکتے۔ انہوں نے اپنی فیملی کی شادیوں میں جانا چھوڑ دیا ہے کیونکہ ان سے ہمیشہ پوچھا جاتا ہے کہ ان کی شادی کب ہو رہی ہے۔ دائیں: ہیمنت اور انکُش اپنے پان کے اسٹال پر

اپنے بہت سے انٹرویوز کے بعد پاری کو معلوم ہوا کہ طویل عرصے سے پانی کے بحران سے دوچار مراٹھواڑہ میں، بحران شدہ علاقوں کے مردوں نے اپنے لیے دلہنیں تلاش ترک کر دیا ہے، یا اگر وہ شادی کے خواہش مند ہیں بھی تو ایسے شہروں میں منتقل ہو جاتے ہیں جہاں انہیں نوکری یا پانی، یا دونوں مل سکیں۔

لگاتار آمدنی حاصل کرنا مشکل ہے، اور ایسے بامعنی مواقع نہیں ہیں جو موسم گرما کی طرح غیرزرعی موسم کو پر کر سکیں۔

’’گرمیوں میں کھیت میں کوئی کام نہیں ہوتا ہے،‘‘ ہیمنت کہتے ہیں۔ گاؤں میں ان کی ۱۰ ایکڑ زمین ہے، جس کی کاشت بارش پر منحصر ہے۔ حالانکہ چند دوست ایسے ہیں جن کے پاس کنویں یا بورویل ہیں اور وہ اپنے کھیتوں میں بھنڈی جیسی موسمی سبزیاں اگاتے ہیں، لیکن وہ منافع بخش نہیں ہیں۔

’’میں صبح ۲ بجے کا جگا ہوا ہوں؛ اور اپنے کھیت سے ۲۰ کلوگرام کی ایک کریٹ بھنڈی توڑ کر میں نے دروہا میں ۱۵۰ روپے میں فروخت کیا ہے،‘‘ آٹھ ایکڑ زمین کے مالک اور بی اے پاس غیر شادی شدہ اجے گاونڈے احتجاجی لہجے میں کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’بھنڈی توڑنے کی اجرت ہی ۲۰۰ روپے ہے، لہٰذا میں آج مزدوروں کی اجرت بھی وصول نہیں کر سکا۔‘‘

جانوروں کا کھیتوں میں دھاوا بولنا بھی ان کے مسائل میں اضافہ کرتا ہے، اسے مکمل بحران میں تبدیل کردیتا ہے۔ گاونڈے کہتے ہیں کہ شیلوڈی میں بندر مصیبت بنے ہوئے ہیں، کیونکہ کھیتوں اور جھاڑیوں کے درمیان کوئی پناہ گاہ نہیں ہے۔ نہ ہی وہاں جنگلی جانوروں کے لیے پانی یا خوراک ہے۔ ’’وہ ایک دن میرے کھتوں پر دھاوا بولیں گے، دوسرے دن کسی اور کے کھیتوں پر، کیا ہی کیا جا سکتا ہے؟‘‘

ایک غالب ذات ترلے-کنبی (او بی سی کے طور پر درج) سے تعلق رکھنے والے، کاولے نے دروَہا کے ایک کالج سے تعلیم حاصل کی اور نوکری کی تلاش میں پونے گئے اور ۸۰۰۰ روپے ماہانہ تنخواہ پر ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کیا، لیکن کم کمائی کی وجہ سے گھر واپس آ گئے۔ اس کے بعد انہوں نے اضافی مہارت کے طور پر ویٹرنری سروسز میں سرٹیفکیٹ لیا، اس کا انہیں کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے تکنیکی مہارت کے طور پر فٹر کا ڈپلومہ لیا، لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

اس درمیان انہوں نے بینک، ریلوے، پولیس کی نوکریوں، اور سرکاری کلرک کی اسامیوں کے لیے بہت سے امتحانات کی تیاری کی اور ان میں شرکت کی۔

بعد میں انہوں نے شکست تسلیم کر لی۔ دوسرے دوستوں نے اثبات میں سر ہلایا۔ گویہ ان کی بھی یہی کہانی ہے۔

PHOTO • Jaideep Hardikar
PHOTO • Jaideep Hardikar

بائیں: شیلوڈی میں گاؤں کا مرکزی چوک۔ دائیں: یوتمال کے تیرجھڈا گاؤں کے سرپنچ کے ذریعہ قائم کردہ اسٹڈی سنٹر میں ریاستی ملازمتوں کے لیے مسابقتی امتحانات کی تیاری میں مصروف نوجوان جن کی عمریں۳۰ کی دہائی میں پہنچ گئی ہیں۔ یہ سب گریجویٹ یا پوسٹ گریجویٹ ہیں جنہیں دلہنیں نہیں ملی ہیں

۲۶ اپریل کو عام انتخابات کے دوسرے مرحلے میں مغربی ودربھ کے یوتمال-واشیم حلقے میں ووٹ ڈالنے سے بمشکل تین دن پہلے وہ سب زور دے کر کہتے ہیں کہ وہ اس بار تبدیلی کے لیے ووٹ کر رہے ہیں۔ یہاں مقابلہ شیو سینا کے دو دھڑوں کے درمیان ہے۔ سینا-ادھو ٹھاکرے نے سنجے دیش مکھ کو میدان میں اتارا ہے، جبکہ ایکناتھ شندے کی سینا نے راجاشری پاٹل کو۔

یہ نوجوان دیش مکھ کے حق میں دکھائی دے رہے ہیں، کیونکہ سینا-یو بی ٹی کا کانگریس اور این سی پی کے ساتھ اتحاد ہے اور ودربھ کانگریس کا روایتی گڑھ رہا ہے۔

’’تھے نستاچ بات مارتے، کا کیلا جی تیانے [وہ صرف باتیں کرتے ہیں، انہوں نے کیا ہی کیا ہے]؟‘‘ انکُش کانکیرڈ کہتے ہیں؛ ان کے لہجہ میں جھلاہٹ ہے۔ وہ عام ورہاڈی بولی میں بات کرتے ہیں جو اس سر زمین سے مخصوص سیاہ مزاح کی نمائندگی کرتی ہے۔

کون؟ ہم نے پوچھا۔ وہی جو صرف باتیں کرتے ہیں کام نہیں کرتے؟

سبھی لوگ پھر مسکراتے ہیں۔ ’’آپ جانتے ہیں،‘‘ کاولے کہتے ہیں اور پھر خاموش ہو جاتے ہیں۔

ان کے تلخ و تند طنز کا رخ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ مودی نے اپنے وعدوں میں سے کوئی بھی وعدہ پورا نہیں کیا۔ سال ۲۰۱۴ کے عام انتخابات میں اپنے پرچار کے دوران، مودی نے دروہا کے ایک قریبی گاؤں میں چائے پر چرچہ منعقد کی تھی، جہاں انہوں نے غیر رسمی طور پر کسانوں کے لیے بہتر زندگی کا وعدہ کیا تھا جو قرض سے پاک، کپاس اور سویابین کی زیادہ قیمتیں اور خطے میں چھوٹی صنعتیں لگانے پر مشتمل تھی۔

سال ۲۰۱۴ اور ۲۰۱۹ میں ان لوگوں نے بی جے پی کو بھاری اکثریت سے ووٹ دیا تھا، اس یقین کے ساتھ کہ مودی اپنے وعدوں کو پورا کریں گے۔ انہوں نے ۲۰۱۴ میں تبدیلی کے حق میں ووٹ دیا اور مرکز میں کانگریس کی قیادت والی یو پی اے حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ اب انہیں احساس ہو گیا ہے کہ مودی کے وعدے غبارے کی طرح تھے، جس کی ہوا ختم ہو چکی ہے۔

ان میں سے زیادہ تر پہلی بار کے ووٹر تھے۔ انہیں امید تھی کہ انہیں روزگار ملے گا، معیشت بہتر ہوگی، زراعت منافع بخش ہوگی، کیونکہ مودی بہت موثر اور اتنے ہی قابل اعتماد نظر آ رہے تھے۔ پریشان کسانوں نے اس خطے میں جاری مودی لہر پر سوار ہو کر فیصلہ کن طور پر ان کے حق میں ووٹ دیا۔

دس سال بعد کپاس اور سویابین کی قیمتیں جمود کا شکار ہیں۔ پیداواری لاگت دوگنا، سہ گنا ہو چکی ہے۔ مہنگائی گھریلو بجٹ کو تباہ کر رہی ہے۔ اور نوکریوں یا مواقع کی کمی نوجوانوں میں اضطراب اور بے چینی پیدا کر رہی ہے۔

یہ تمام عوامل انہیں دوبارہ کاشتکاری کی طرف مائل کر رہے ہیں، جس سے وہ بچنا چاہتے ہیں۔ ان کے تلخ مزاح، جو ان کی پریشانیوں کی چغلی کھا رہے ہیں، کی طرح شیلوڈی کے نوجوان، اور دراصل پورا دیہی مہاراشٹر، ہمیں ایک نئے محاورے سے متعارف کراتے ہیں: ’’نوکری ناہیں، تار چھوکری ناہیں [نوکری نہیں تو دلہن نہیں!]۔‘‘

مترجم: شفیق عالم

Jaideep Hardikar

Jaideep Hardikar is a Nagpur-based journalist and writer, and a PARI core team member.

Other stories by Jaideep Hardikar
Editor : Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam