میں وہاں چوتھے دن پہنچا تھا۔ میرے پہنچتے پہنچتے تقریباً دوپہر کا وقت ہو چکا تھا۔
چنئی سے وایناڈ تک کے اپنے سفر کے دوران میں رضاکاروں سے بھرے پورے علاقوں سے گزرا۔ بسیں نہیں تھیں، اس لیے مجھے اجنبیوں سے لفٹ لینی پڑی۔
یہ جگہ ایک جنگی علاقے سے مشابہ تھی، جہاں ایمبولینسوں کی آمد ورفت جاری تھی۔ لوگ بھاری مشینری کی مدد سے لاشوں کی تلاش میں مصروف تھے۔ چورل مالا، اٹّامالا اور مُنڈکّئی جیسے قصبات ملبوں میں تبدیل ہو چکے تھے۔ وہاں قابل رہائش مقامات کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ مکینوں کی زندگی تباہ ہو چکی تھی، اور وہ اپنے عزیز و اقاریب کی لاشوں کی شناخت کرنے سے بھی قاصر تھے۔
ندی کے کنارے ملبے اور لاشوں کے انبار لگے ہوئے تھے، لہٰذا بچاؤ دستوں اور لاشوں کی تلاش کرنے والے کنبوں کے افراد ندی کے کنارے جانے اور ریت میں دھنسنے سے بچنے کے لیے ڈنڈوں کا استعمال کر رہے تھے۔ میری ٹانگ ریت میں دھنس گئی تھی۔ لاشوں کی شناخت کرنا ناممکن تھا، صرف ان کے ٹکڑے ادھر ادھر بکھرے پڑے تھے۔ میرا فطرت سے گہرا تعلق ہے، لیکن اس تجربے نے مجھے خوفزدہ کر دیا تھا۔
زبان کی بندشوں کی وجہ سے، میں تباہی کو صرف دیکھ سکتا تھا۔ میں نے انہیں پریشان کرنے سے خود کو باز رکھا۔ میں یہاں پہلے آنا چاہتا تھا، لیکن خرابی صحت نے مجھے اس کی اجازت نہیں دی تھی۔
میں پانی کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ تقریباً تین کلومیٹر پیدل چلا۔ مکانات زمین میں دبے ہوئے تھے اور کچھ مکمل طور پر غائب ہو چکے تھے۔ میں نے ہر مقام پر رضاکاروں کو لاشوں کی تلاش میں سرگرداں دیکھا۔ یہاں تک کہ فوج بھی تلاشی کی مہم میں مصروف عمل تھی۔ میں نے وہاں دو دن تک قیام کیا۔ اس دوران کوئی لاش نہیں ملی، لیکن تلاش مسلسل جاری رہی۔ سب مل کر کام کر رہے تھے، ہمت نہیں ہار رہے تھے، اور ایک دوسرے کو کھانا اور چائے تقسیم کر رہے تھے۔ اتحاد کے اس احساس سے میں حیران تھا۔

چورل مالا اور اٹّامالا کے گاؤں مکمل طور پر بہہ گئے تھے۔ رضاکاروں کو کھدائی کرنے والی مشینوں کا استعمال کرنا پڑا، مدد کے لیے کچھ اپنی مشینری ساتھ لے کر آئے
جب میں نے چند مقامی لوگوں سے بات کی تو انہوں نے پُتومالا کے قریب پیش آنے والے ایسے ہی سانحوں کا ذکر کیا، جن میں سے ایک ۸ اگست ۲۰۱۹ کو پیش آیا تھا جس میں تقریباً ۴۰ افراد ہلاک ہوئے تھے، اور دوسرا ۲۰۲۱ میں پیش آیا تھا جس میں تقریباً ۱۷ افراد کو اپنی جان گنوانی پڑی تھی۔ یہ تیسرا موقع ہے جب ایسا سانحہ پیش آیا ہے، جس میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً ۴۳۰ لوگوں کی جانیں گئی ہیں، اور ۱۵۰ افراد لاپتہ ہیں۔
اپنے قیام کے آخری دن جب میں وہاں واپس ہوا تو مجھے اطلاع ملی کہ پتومالا کے قریب آٹھ لاشیں دفن ہیں۔ وہاں تمام مذاہب (ہندو، عیسائی، مسلم اور دیگر) کے رضاکار موجود تھے اور وہاں تمام رسومات کی پابندی کی گئی۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ آٹھ لاشیں کس کی ہیں، لیکن سب نے مل کر دعا کی اور ان کی تدفین کی۔
وہاں رونے والا کوئی نہیں تھا اور بارش کا سلسلہ جاری تھا۔
اس مقام پر ایسے سانحات بار بار کیوں رونما ہوتے ہیں؟ پورا علاقہ مٹی اور چٹان کے مرکب کی طرح نظر آرہا تھا، جو اس کے عدم استحکام کی وجہ ہو سکتا ہے۔ تصویریں کھینچتے وقت، میں نے اس مرکب کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا: نہ صرف پہاڑ یا نہ صرف چٹان۔
مسلسل بارش اس علاقے کے لیے معمول کے خلاف چیز تھی۔ صبح ایک بجے سے شام پانچ بجے تک ہونے والی بارش کی وجہ سے غیر مستحکم زمین کھسکنے لگی۔ رات کے وقت ریزش زمیں (لینڈ سلائیڈ) کے تین واقعے پیش آئے۔ جس عمارت اور اسکول پر میری نگاہ پڑی وہ سب مجھے اس کی یاد دہانی کرا رہے تھے۔ رضاکاروں کے ساتھ بات کرتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ سبھی لوگ وہاں پھنس گئے تھے، یہاں تک کہ تلاش اور بچاؤ کی مہم میں مصروف لوگ بھی کھوئے ہوئے معلوم پڑ رہے تھے۔ اور جو لوگ وہاں رہتے ہیں… وہ شاید کبھی مکمل طور پر اس سانحے سے نکل نہیں پائیں گے۔

وایناڈ کا سانحہ ایک ایسے علاقے میں پیش آیا، جہاں چائے کے متعدد باغات ہیں۔ یہاں ٹی اسٹیٹ کے مزدوروں کے گھر دیکھے جا سکتے ہیں

مُنڈکّئی اور چورل مالا کے علاقوں میں بھاری بارش کی وجہ سے فرسودہ مٹی کو اپنے ساتھ بہا کر لے جانے والی تند اور تیز ندی کا پانی بھورا ہو گیا ہے

مٹی اور چٹان کا مرکب یہ زمین جب شدید بارش سے سیر ہو جاتی ہے تو وہ غیر مستحکم ہو جاتی ہے، جو تباہی کی اہم وجہ ہے

بھاری بارش اور پانی کے بہاؤ کی وجہ سے مٹی کا کٹاؤ ہوا اور یہ ٹی اسٹیٹ مکمل طور پر منہدم ہو گیا ہے۔ رضاکار اسٹیٹ کے ملبے میں لاشیں تلاش کر رہے ہیں

حادثے میں بچ جانے والے بہت سے بچے صدمے سے شدید طور ہر متاثر ہیں

چٹانوں اور مٹی نے کئی مکانات کو دفن کر دیا

وایناڈ میں ٹی اسٹیٹ کے مزدوروں کے گھروں کو شدید نقصان پہنچا ہے

یہ دو منزلہ مکان سیلاب کے ساتھ آنے والی چٹانوں کے گرنے سے مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے

کئی گاڑیوں کو شدید نقصان پہنچا ہے اور اب مکمل طور پر ناقابل استعمال ہو گئی ہیں

رضاکار آرام کرنے لیے چند منٹوں کا وقفہ لیتے ہیں

جب مکان گرے، تو مکینوں نے سب کچھ کھو دیا، ان کا سامان گیلی مٹی میں دب گیا

تلاشی کی مہم میں فوج رضاکاروں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے

مسجد کے اطراف میں تلاشی مہم


مشینیں (بائیں) مٹی کو ہٹانے اور متاثرہ افراد کو ڈھونڈنے میں مدد کر رہی ہیں۔ ندی کے کنارے لاشوں کی تلاش میں ایک رضاکار (دائیں)

امدادی سرگرمیوں میں رضاکار اہم کردار ادا کر رہے ہیں

یہ اسکول مکمل طور پر زمیں دوز ہو گیا ہے

گیلی مٹی میں دھنسنے سے بچنے کے لیے رضاکار آتے جاتے وقت ڈنڈوں کا استعمال کر رہے ہیں

مٹی کھودنے اور منتقل کرنے کے لیے کھدائی کرنے والی مشینوں کا استعمال کیا جا رہا ہے

یہاں وایناڈ میں رضاکارانہ خدمات انجام دینے والے مقامی اور دوسرے لوگ کھانے کے لیے وقفہ لے رہے ہیں

سب سے زیادہ متاثرہ گاؤوں میں سے ایک، پتومالا نے ۲۰۱۹ اور ۲۰۲۱میں اسی طرح کی قدرتی آفات کا سامنا کیا ہے

رات بھر کام کرنے کے بعد رضاکار لاشوں کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں

ہنگامی کٹس میں ملبوس رضاکار ایمبولینسوں سے لاشیں اتارنے کی تیاری کر رہے ہیں

لاشوں کو ایک عبادت گاہ میں لے جایا جاتا ہے، جہاں تمام مذاہب کے لوگ میت کے لیے دعا کرنے کی غرض سے جمع ہوئے ہیں

مرنے والوں کی لاشوں کو سفید کپڑے میں لپیٹ کر لے جایا جا رہاہے

کئی لاشوں کی شناخت نہیں ہو سکی ہے

اجتماعی دعا کے بعد تدفین کا عمل جاری ہے

رضاکار رات بھر کام کر رہے ہیں
مترجم: شفیق عالم