سال ۲۰۲۲ میں ہندوستان میں ’خواتین کے خلاف جرائم‘ کے کل چار لاکھ ۴۵ ہزار ۲۵۶ معاملے درج کیے گئے۔ اس کا مطلب ہے کہ اوسطاً تقریباً ۱۲۲۰ معاملے روزانہ درج کیے گئے – جو سرکاری طور پر رپورٹ کیے گئے اور ’نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو‘ کے ذریعہ جمع کیے گئے اعدادوشمار ہیں۔ حقیقی واقعات کی تعداد ان سرکاری اعدادوشمار سے کہیں زیادہ ہونے کا امکان ہے۔

خواتین کے خلاف تشدد آہستہ آہستہ زندگی کے ہر پہلو میں داخل ہو چکا ہے۔ کام کی جگہ پر استحصال، خواتین کی اسمگلنگ، جنسی استحصال، گھریلو تشدد، آرٹ اور زبان میں جنسی تفریق – یہ تمام چیزیں خواتین کی حفاظت اور تحفظ میں رخنہ ڈالتی ہیں۔

یہ ایک اچھی طرح سے دستاویز کی جا چکی حقیقت ہے کہ خواتین اپنے خلاف ہونے والے جرائم کو درج کرانے میں ہچکچاتی ہیں، جس سے ان کی آواز مزید حاشیہ پر پہنچ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر، اتر پردیش کی ۲۲ سالہ دلت خاتون برکھا کا ہی معاملہ لے لیں۔ برکھا بتاتی ہیں کہ جب وہ پہلی بار پولیس کے پاس شکایت درج کرانے گئیں، تو پولیس نے ان کی عصمت دری اور اغوا کی شکایت پر ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیا کیوں کہ اصل مجرم ایک مقامی سیاسی لیڈر تھا۔ عصمت دری کی شکار دوسری خاتون، ہریانہ کی رہنے والی مالنی کہتی ہیں، ’’پولیس نے مجھ سے کہا کہ میں ملزم سے کچھ پیسے لے لوں اور معاملہ کو رفع دفع کر دوں۔ جب میں نے سمجھوتہ کرنے سے انکار کیا، تو انہوں نے مجھے ڈانٹا اور کہا، ’اگر تم سمجھوتہ نہیں کروگی، تو ہم تمہیں تھانے میں بند کر دیں گے‘ ۔‘‘

پولیس کی لاپرواہی، غیر رسمی کھاپ پنچایتیں اور طبی و قانونی ذرائع تک رسائی کی کمی خواتین کو اپنے ساتھ ہوئے تشدد کے خلاف انصاف پانے سے روکتی ہے۔ سال ۲۰۲۰ کی ایک رپورٹ، انصاف کی راہ میں رکاوٹیں: ہندوستان کے اتر پردیش میں ۱۴ عصمت دری کی شکار خواتین کا تجربہ میں کہا گیا ہے کہ تجزیہ کیے گئے معاملوں میں سے چھ میں، پولیس نے سینئر پولیس افسران تک شکایتیں پہنچنے کے بعد ہی ایف آئی آر درج کی۔ بقیہ پانچ معاملوں میں جہاں ایف آئی آر درج کی گئی، وہ عدالت کے حکم کے بعد ہی درج کی گئی۔ ذات، طبقہ، جسمانی کمزوریاں اور عمر جیسے اسباب صنف پر مبنی تشدد کے خاتمہ کے لیے موجود ریاستی نظام سے آدمی کے اخراج کو فروغ دیتے ہیں۔ دلت ہیومن رائٹس ڈیفینڈرز نیٹ ورک کی ایک رپورٹ کے مطابق، دلت خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے ۵۰ معاملوں میں سے ۶۲ فیصد میں مجرموں نے ۱۸ سال سے کم عمر کی لڑکیوں کو نشانہ بنایا۔ ہندوستان میں جرائم ۲۰۲۲ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ۱۸ سے ۳۰ سال کی عمر کی خواتین میں عصمت دری کے معاملے سب سے زیادہ ہیں۔

اس رپورٹ میں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ذہنی یا جسمانی معذوری کی شکار لڑکیاں اور خواتین ہندوستان میں جنسی تشدد کے تئیں زیادہ حساس ہوتی ہیں، کیوں کہ بات چیت میں رکاوٹ اور ان کا دیکھ بھال کرنے والوں پر انحصار اس خطرے کو بڑھاتے ہیں۔ جب شکایتیں درج ہوتی بھی ہیں، جیسے ۲۱ سالہ کجری کے معاملے میں جو ذہنی طور پر معذور ہیں، تب بھی قانونی عمل خود ایک سزا بن جاتا ہے۔ کجری کا ۲۰۱۰ میں اغوا ہوا تھا اور وہ ۱۰ سالوں تک اسمگلنگ، جنسی استحصال اور بچہ مزدوری کی شکار رہیں۔ ان کے والد کہتے ہیں، ’’مجھے ایک ہی جگہ نوکری جاری رکھنا مشکل ہو گیا ہے، کیوں کہ مجھے پولیس بیان، ٹیسٹ وغیرہ کے لیے کجری کو لے جانے کی خاطر چھٹیاں چاہیے ہوتی ہیں۔ جب بھی میں بار بار چھٹی مانگتا ہوں، تو مجھے نوکری سے نکال دیا جاتا ہے۔‘‘

اپنے مضمون ’’ ابتدائی ہندوستان میں برہمن وادی پدرانہ معاشرے کا تصور ‘‘ میں پروفیسر اوما چکرورتی خواتین پر کنٹرول کے مؤثر نظام کو قائم کرنے اور انہیں لگاتار قابو میں رکھنے کی مسلسل ’’کوشش‘‘ کے بارے میں لکھتی ہیں۔ یہ کنٹرول، جیسا کہ مضمون میں بتایا گیا ہے، اکثر ان خواتین کو انعام سے سرفراز کرنے کے ذریعہ ہوتا ہے جو پدرانہ پیمانوں کی پیروی کرتی ہیں، اور جو اس کی پیروی نہیں کرتیں انہیں شرمسار کیا جاتا ہے۔ خواتین کو پر تشدد طریقے سے سماجی قید میں رکھنے والے یہ ضابطے اکثر خواتین کی جنسیت اور مالی آزادی کے ڈر سے بنائے جاتے ہیں۔ ’’پہلے وہ [میرے سسرال والے] جب بھی میں گاؤں میں کسی حاملہ عورت سے ملنے جاتی یا انہیں اسپتال لے جاتی، تو کہتے تھے کہ میں دیگر مردوں سے ملنے جا رہی ہوں۔ ایک آشا ورکر ہونے کے ناطے، یہ میرا فرض ہے،‘‘ ۳۰ سالہ گریجا کہتی ہیں۔ اتر پردیش کے مہوبہ ضلع کی گریجا پر ان کے سسرال والے دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ منظور شدہ سماجی طبی کارکن کے طور پر اپنی نوکری چھوڑ دیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ کل میرے شوہر کے دادا نے مجھے لاٹھی سے پیٹا اور میرا گلا گھونٹنے کی بھی کوشش کی۔‘‘

جب عورتیں کام کرنے اور اس کے لیے اجرت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں، تو کام کی جگہ پر استحصال اگلی جنسی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ قومی راجدھانی خطہ اور بنگلورو میں کپڑے کی صنعت کے مزدوروں کے ایک سروے کے مطابق، ۱۷ فیصد خواتین مزدوروں نے کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی کے واقعات کی رپورٹ کی۔ لتا، کپڑے کی صنعت کے ایک کارخانہ میں مزدور ہیں، وہ بتاتی ہیں، ’’مرد مینیجر، سپروائزر اور میکینک – وہ ہمیں چھونے کی کوشش کرتے تھے اور شکایت کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی نہیں تھا،‘‘ (پڑھیں: دلت خواتین کے اتحاد نے ڈنڈی گل میں رقم کی تاریخ )۔ خواتین مزدوروں کی اجتماعی سمجھوتے کی طاقت کو مضبوط کرنے کے مقصد سے، وشاکھا گائڈ لائنس (۱۹۹۷) تنظیموں کو ایک شکایت کمیٹی قائم کرنے کی سفارش کرتا ہے، جس کی صدارت ایک خاتون کے ذریعہ کی جانی چاہیے اور کمیٹی میں کم از کم آدھی رکن خواتین ہونی چاہئیں۔ کاغذ پر ایسے رہنما خطوط کی موجودگی کے باوجود، ان کے نفاد کی حالت بہت کمزور ہے۔ خواتین کے خلاف تشدد کام کی جگہ اور گھر، دونوں جگہ برقرار ہے۔

سال ۲۱-۲۰۱۹ کے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (این ایف ایچ ایس) کے مطابق، ۱۸ سے ۴۹ سال کی ۲۹ فیصد خواتین نے بتایا کہ انہیں ۱۵ سال کی عمر سے گھر پر جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تقریباً ۶ فیصد نے جنسی تشدد کا تجربہ کیا۔ حالانکہ، صرف ۱۴ فیصد خواتین نے جنسی یا جسمانی تشدد کا سامنا کرنے کے بعد اسے روکنے کے لیے فیملی، دوستوں یا سرکاری اداروں سے مدد مانگی۔ خواتین کے ساتھ ساتھی کے ذریعہ کیے جانے والے تشدد کے معاملوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ’’میری گھر والی ہے، تم کیوں بیچ میں آ رہے ہو؟‘‘ روی تب کہتا تھا، جب کوئی اس کی بیوی سے مار پیٹ کرنے پر مخالفت کرتا۔ صرف ۲۰۲۱ میں ہی دنیا کی تقریباً ۴۵ ہزار لڑکیوں کا ان کے ساتھی یا فیملی کے دیگر ممبران کے ذریعہ قتل کر دیا گیا تھا ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مقبول ثقافت میں رومانوی رشتوں میں تشدد کو جائز ٹھہرانے والا نظریہ ایک وجہ ہے۔ نوجوان ناظرین پر ہندوستانی سنیما کے اثرات میں ’’چھیڑ خانی‘‘ (جسے بہتر طریقے سے سڑک پر جنسی ہراسانی کہا جاتا ہے ) کے مناظر کو ۶۰ فیصد نوجوان ہنسی مذاق کے طور پر دیکھتے ہیں۔ جنسی تشدد کی خطرناک شکل ایک دیگر حالیہ اشاعت خواتین کے خلاف جرائم سے جڑے اعلان شدہ معاملوں کے ساتھ منتخب ممبران پارلیمنٹ/ممبران اسمبلی کا تجزیہ ۲۰۲۴ میں دیکھی گئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کے ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی میں سے ۱۵۱ فیصد نمائندوں نے خواتین کے خلاف جرائم کے معاملوں کی اطلاع دی ہے۔

اس تشویش ناک حالت میں جنسی تشدد کا شکار ہوئی خواتین کے تئیں متاثرہ کو شرمسار کرنے کا کلچر جڑ جاتا ہے: رادھا، جن کے ساتھ بیڈ ضلع کے ان کے گاؤں کے چار مردوں نے عصمت دری کی، کو تب ’’بد کردار‘‘ ہونے اور اپنے گاؤں کو بدنام کرنے کا الزام برداشت کرنا پڑا، جب انہوں نے ان کے خلاف آواز بلند کی۔

اس قسم کے جرائم کی فہرست طویل ہے، اور ان کی پدرانہ جڑیں ہمارے معاشرہ میں گہرائی سے پیوست ہیں۔ خواتین کے خلاف تشدد کے بارے میں مزید جاننے کے لیے جنسی تشدد پر مبنی پاری لائبریری کے اس سیکشن کو پڑھیں۔

سر ورق ڈیزائن: سودیشا شرما

مترجم: محمد قمر تبریز

Dipanjali Singh

Dipanjali Singh is an Assistant Editor at the People's Archive of Rural India. She also researches and curates documents for the PARI Library.

Other stories by Dipanjali Singh
PARI Library Team

The PARI Library team of Dipanjali Singh, Swadesha Sharma and Siddhita Sonavane curate documents relevant to PARI's mandate of creating a people's resource archive of everyday lives.

Other stories by PARI Library Team
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique