کجری کی عمر تب سات سال تھی اور وہ اترپردیش کی راجدھانی لکھنؤ میں اپنے تین سالہ پھوپھیرے بھائی کے ساتھ کرایے کے مکان کے پیچھے کھیل رہی تھیں، جب دو لوگوں نے ان کا اغوا کر لیا۔

دس سال بعد دسمبر ۲۰۲۰ میں ایک اور کزن – جو بینک ایجنٹ کے طور پر کام کرتا ہے – کام کے سلسلے میں شہر کے ایک گھر کا دورہ کر رہا تھا۔ وہاں اس نے ایک لڑکی کو فرش پر پونچھا لگاتے دیکھا، جو کجری کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔ اس نے اس لڑکی سے پوچھا کہ اس کے والد کا نام کیا ہے، لیکن ایک عورت نے مداخلت کی اور اسے بات چیت کرنے سے روک دیا۔ وہاں سے نکلنے کے بعد اس نے لکھنؤ کے ون-اسٹاپ سینٹر کو فون کیا، جسے خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت نے تشدد سے متاثرہ خواتین اور لڑکیوں کی مدد کے لیے قائم کیا ہے۔ چند گھنٹوں کے اندر موہن لال گنج تھانے اور ون اسٹاپ سینٹر کی ایک پولیس ٹیم نے اس گھر پر چھاپہ مارا، کجری کو بچایا، اور انہیں ان کے گھروالوں کے حوالے کر دیا۔

اب کجری کی عمر ۲۱ سال ہے۔ وہ ایک نفسیاتی معذوری کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں۔ ان کے سامنے کے نچلے دانت غائب ہیں اور انسانی تجارت، جنسی زیادتی اور بچہ مزدوری کی شکار کے طور پر ان پر جو گزری ہے اس کی دھندلی یادیں بچی ہیں۔

PHOTO • Jigyasa Mishra

صرف سات سال کی عمر میں کجری کو ان کے گھر سے اغوا کر کے اسمگل کیا گیا، ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور اگلے ۱۰ سال تک گھریلو کام پر لگایا گیا

*****

کجری کے ۵۶ سالہ والد دھیریندر سنگھ کہتے ہیں، ’’پہلے میں صرف اداس تھا، اب میں مکمل طور پر مایوس اور نا امید ہو چکا ہوں۔‘‘ وہ لکھنؤ کے ایک پرائیویٹ کالج میں سیکورٹی گارڈ کے طور پر کام کرتے ہیں اور کرایے کے مکان میں رہتے ہیں۔ ان کی بیوی اور دو بیٹیاں، بشمول کجری، اتر پردیش کے ہردوئی ضلع میں واقع اپنے گھر میں رہتی ہیں۔

دھیریندر بتاتے ہیں، ’’میں نے تقریباً ۱۵سال تک لکھنؤ میں مختلف کمپنیوں یا کالجوں میں سیکورٹی گارڈ کے طور پر کام کیا ہے۔ لیکن ۲۰۲۱ کے بعد سے کسی ایک مقام پر اپنا کام جاری رکھنا مشکل ہو گیا ہے، کیونکہ مجھے کجری کے پولیس بیانات، اس کے ٹیسٹ وغیرہ کے لیے کئی دنوں کی چھٹی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب میں زیادہ چھٹی مانگتا ہوں تو مجھے نوکری سے نکال دیا جاتا ہے اور مجھے دوبارہ نئی نوکری تلاش کرنی پڑتی ہے۔‘‘

دھیریندر کی آمدنی ۹۰۰۰ روپے ہے، جو ان کے کنبے کے اخراجات کے لیے ناکافی ہے۔ ’’ایسے میں جب کہیں کوئی کارروائی نہیں ہو رہی ہو، تو کجری کی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر اور سفر پر اپنی معمولی کمائی کی رقم خرچ کر کے میں بار بار اس کو لکھنؤ نہیں لا سکتا۔‘‘

دھیریندر بتاتے ہیں کہ کجری کے واپس آنے کے بعد ساڑھے تین سالوں میں انصاف کے لیے ان کی کوششیں بہت کم بارآور ثابت ہوئی ہیں۔ قانونی امداد کے دفتر، موہن لال گنج تھانے اور لکھنؤ کے قیصر باغ کی ضلعی عدالت کے کئی چکر لگانے کے بعد بھی کجری کا بیان ضابطہ فوجداری (سی آر پی سی) کی دفعہ ۱۶۴ کے مطابق مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ نہیں کیا جا سکا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ ’’عدالت ۲۰۲۰ میں درج پولیس ایف آئی آر طلب کر رہی ہے،‘‘ جب کجری کو بچایا گیا تھا۔

اس معاملے میں جو واحد ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی وہ کجری کی گمشدگی کے دو دن بعد دھیریندر نے دسمبر ۲۰۱۰ میں تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعات ۳۶۳ اور ۳۶۴ کے تحت اغوا کے الزامات عائد کرتے ہوئے درج کرائی تھی۔ یہ ایک پھٹی پرانی دستخطی دستاویز ہے، جس کی سیاہی مٹنے لگی ہے، اور ۱۴ سال بعد اس کے اندراجات کو پڑھنا مشکل ہوگیا ہے۔ پولیس کے پاس ۲۰۱۰ کی اس ایف آئی آر کی کوئی کاپی (ڈیجیٹل یا مرئی) نہیں ہے، جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ ۲۰۲۰ میں کجری کو بچانے کے بعد سامنے آنے والے حقائق کے ساتھ فالو اپ ایف آئی آر درج کرنے کے لیے اس ایف آئی آر کی ضرورت ہے۔

دوسرے لفظوں میں کہیں تو عدالت کو ۲۰۲۰ کی جس ایف آئی آر کی ضرورت ہے، اس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے اور اس لیے کجری کا معاملہ عدالتی نظام میں بھی نہیں پہنچا ہے۔

PHOTO • Jigyasa Mishra
PHOTO • Jigyasa Mishra

کجری کے والد دھیریندر نے انصاف کے لیے متعدد کوششیں کیں، لیکن کجری کو بچائے جانے کے بعد ساڑھے تین سالوں میں ان کا کوئی خاطر خواہ  نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔ قانونی امداد کے دفتر، موہن لال گنج تھانے اور لکھنؤ کے قیصر باغ کی ضلعی عدالت کے کئی چکر لگانے کے بعد بھی کچھ حاصل نہیں ہوا ہے

PHOTO • Jigyasa Mishra
PHOTO • Jigyasa Mishra

بائیں: کجری اپنے والدین کے ساتھ۔ دائیں: اتر پردیش کے ہردوئی ضلع میں ان کا گھر

’’کجری کے بچائے جانے کے فوراً بعد اس خاتون کے خلاف ایف آئی آر درج کی جانی چاہیے تھی، جس کے گھر میں وہ پائی گئی تھی۔ ۲۰۱۰ میں لاپتہ ہونے کے بعد جو ایف آئی آر درج کی گئی تھی، اس میں صرف اغوا کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ لیکن جب اسے بچایا گیا تو اسمگلنگ اور جنسی زیادتی سے متعلق آئی پی سی کی سنگین دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کرنا ضروری تھا،‘‘ یہ کہنا ہے اس معاملے پر نظر رکھنے والے لکھنؤ کے ایک آزاد وکیل اپوروا شریواستو کا۔ ’’کجری کا بیان پولیس اور مجسٹریٹ کے پاس جلد از جلد ریکارڈ کیا جانا چاہیے تھا، مجسٹریٹ کے سامنے آج تک اس کا بیان درج نہیں ہوا ہے۔‘‘

کجری کو بچائے جانے کے ۴۸ گھنٹوں کے اندر سی آر پی سی کی دفعہ ۱۶۱ کے تحت موہن لال گنج تھانے میں ان کا بیان لیا گیا تھا۔ لکھنؤ کے دو ہسپتالوں میں ان کا طبی معائنہ بھی کیا گیا تھا۔ پہلے ہسپتال نے ان کے پیٹ پر ایک نشان ہونے، نچلے جبڑے کے کچھ دانتوں کے غائب ہونے، اور ان کی دائیں چھاتی پر ایک سیاہ  داغ کی نشاندہی کی تھی۔ دوسرے ہسپتال نے انہیں طب نفسی (سائیکاٹری) کے شعبے میں ریفر کر دیا تھا۔

ہسپتال کی ۲۰۲۱ کی ایک رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ کجری ’’ہلکی ذہنی معذوری‘‘ کا شکار ہیں، اور ان کی آئی کیو ۵۰ سے ۵۵ جو ’’۵۰ فیصد معذوری‘‘ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس تشخیص کے بعد کجری کو سات دنوں کے لیے ہسپتال میں داخل کرایا گیا، جہاں ان کی ذہنی بیماری کا علاج کیا گیا اور ان کی کاؤنسلنگ کی گئی۔ ’’ایک ایسے معاملے میں، جس میں طویل عرصے تک جنسی زیادتی کی گئی ہو اور جس میں اسمگلنگ کا پہلو بھی شامل ہو، اس کے لیے یہ بازآباد کاری ناکافی ہے۔ متاثرہ خاتون کو صدمے، احساس جرم، اور پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کی علامات سے باہر نکالنے کے لیے مسلسل نفسیاتی علاج اور نفسیاتی کاؤنسلنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ سماجی اخراج اور بدنامی کا مقابلہ کرنے کے لیے سماجی انضمام کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے،‘‘ شریواستو کہتے ہیں۔

مناسب نفسیاتی سماجی امداد اور بروقت ایف آئی آر کی عدم موجودگی میں، ۲۰۱۰ اور ۲۰۲۰ کے درمیان کجری کی زندگی کی تفصیلات دھندلی ہو گئی ہیں، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید بکھرتی جا رہی ہیں۔

PHOTO • Jigyasa Mishra
PHOTO • Jigyasa Mishra

کجری کے ساتھ ہوئے جسمانی تشدد کے نشانات

’’دو لوگ مجھے پکڑ کر لے گئے اور میرا منہ باندھ دیا۔ وہ مجھے ایک بس میں چِنہٹ لے گئے تھے،‘‘ کجری دسمبر ۲۰۱۰ کی صبح اپنے اغوا کی وارت کو یاد کرتے ہوئے بھوجپوری اور ہندی کے امتزاج والی بولی میں کہتی ہیں۔ چنہٹ لکھنؤ کا ایک بلاک ہے، جہاں سے کجری کو بچایا گیا تھا۔ جس گھر میں انہیں قید کر کے رکھا گیا تھا، وہاں بھوجپوری بولی جاتی تھی۔ وہ اکثر دہراتی ہیں، ’’ننگے گُوڑ رکھتے تھے،‘‘ جس کا مطلب ہے کہ ’وہ مجھے ننگے پیر رکھتے تھے۔‘

اس مکان کی پہلی منزل کے مکینوں میں سے کجری کو تین افراد یاد ہیں، جن میں ریکھا نامی عورت بھی شامل ہے۔ انہیں کئی کرایہ دار بھی یاد ہیں جو نچلی منزل پر کرایے کے کمروں میں رہتے تھے۔

’’مجھے دن میں دو بار دو روٹیاں دی جاتی تھیں۔ اس سے زیادہ کی اجازت نہیں تھی۔ مجھے ہمیشہ ننگے پاؤں رکھا جاتا تھا۔ وہ مجھے سردیوں میں بھی کبھی کمبل یا چادر نہیں دیتے تھے۔ مجھے صرف پھٹے پرانے کپڑے دیے جاتے تھے… جب مجھے مہینہ (حیض) آتا تو ریکھا مجھے گندے کپڑے دیتی۔ کبھی کبھی وہ مجھے پونچھا استعمال کرنے کو کہتی تھی،‘‘ کجری بتاتی ہیں۔

کجری کو یاد ہے کہ انہیں ہمیشہ تشدد اور دھمکیوں کے سائے میں جھاڑو-پونچھا کرنے، کھانا پکانے، بیت الخلاء کی صفائی کرنے اور کپڑے دھونے جیسے کام  کرنے پڑتے تھے۔ ایک بار خراب کھانے کی شکایت کرنے پر ریکھا نے مبینہ طور پر ان کے منہ پر گھونسا مارا تھا، جس کی وجہ سے ان کے سامنے کے نچلے دانت ٹوٹ گئے تھے۔

’’جب مجھے ماہواری نہیں آتی تھی تو وہ مجھے ایک کمرے میں لے جاتی تھی،‘‘ کجری فرش کی طرف دیکھتے ہوئے مزید کہتی ہیں۔ ایک آدمی جو اس گھر میں رہتا تھا ’’کمرے کو اندر سے بند کر دیتا، میرے کپڑے اتار دیتا، مجھ پر لیٹتا اور جو چاہتا وہ کرتا۔ میں اسے روکنے کی کوشش کرتی، لیکن وہ مجھے مجبور کر دیتا اور پھر اپنے کرایہ داروں کو بھی ایسا کرنے کے لیے بلاتا۔ وہ مجھے اپنے بیچ میں لیٹنے کے لیے کہتے۔‘‘

PHOTO • Jigyasa Mishra
PHOTO • Jigyasa Mishra

بائیں: کجری کے پیر اور پیٹ پر لگے زخموں کی تصاویر۔ دائیں: ان کے والد نے معاملے سے متعلق تمام دستاویزات اور معلومات جمع کر لی ہیں، اور اسے احتیاط سے لوہے کی الماری میں محفوظ کر لیا ہے

دھیریندر نے مزید کہا کہ جب کجری کو بچایا گیا تو انہوں نے الزام لگایا تھا کہ ’’ریکھا اس سے گھر کے کام کروانے اور بار بار اس کی عصمت دری کرنے کے لیے کرایہ داروں سے پیسے لیتی تھی۔‘‘

انصاف کی اس لڑائی میں ایک باپ تھک گیا ہے۔ ’’ہم جنوری ۲۰۲۱ سے دوڑ رہے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ یہاں ’ہم‘ میں کوئی مستقل قانونی مدد شامل نہیں ہے۔ لکھنؤ کی ایک غیر منافع بخش قانونی امداد کی تنظیم ’ایسوسی ایشن فار ایڈوکیسی اینڈ لیگل انیشیٹو ٹرسٹ‘ (اے اے ایل آئی)، جو خواتین کے خلاف تشدد کے معاملات میں بغیر کسی فیس کے مدد کرتی ہے، نے ۲۰۲۰ میں ون اسٹاپ سینٹر کے ذریعے دھیریندر سے رابطہ کیا تھا۔ اس وقت سے اب تک کجری کے معاملے میں کم از کم چار وکلاء بدلے جا چکے ہیں۔

اے اے ایل آئی کے موجودہ وکیل نے دھیریندر کو ایک نئی شکایت کا مسودہ بھیجا، جس کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کی جا سکتی ہے۔ جب والد نے کچھ غلط حقائق کی نشاندہی کی تو وکیل نے انہیں ڈانٹا، جو معاملے میں تعطل کا سبب بنا۔ دھیریندر نے مسودے پر دستخط نہیں کیے، اور وکیل نے ترمیم شدہ مسودہ ابھی تک نہیں بھیجا ہے۔

’’جب کوئی فون گم ہو جاتا ہے تو وہ پوری کو دنیا تہ و بالا کر دیتے ہیں، لیکن یہاں میری بیٹی کو اغوا کرکے ۱۰ سال تک غلام بنا کر رکھا گیا اور کوئی کارروائی نہیں کی گئی،‘‘ دھیریندر کہتے ہیں۔ لوہے کی ایک الماری کے لاکر میں احتیاط سے محفوظ کی گئی دستاویز، لفافوں اور تصاویر کا بڑا انبار – جس میں ۲۰۱۰ سے کجری کے معاملے سے متعلق جمع کی گئیں تمام معلومات شامل ہیں –  ان کی ثابت قدمی اور عزم کا ثبوت ہے۔

یہ اسٹوری ہندوستان میں جنسی اور صنف پر مبنی تشدد (ایس جی بی وی) کا سامنا کر چکے لوگوں کی دیکھ بھال کی راہ میں آنے والی سماجی، ادارہ جاتی اور ساختیاتی رکاوٹوں پر مرکوز ملک گیر رپورٹنگ کے پروجیکٹ کا حصہ ہے۔ اس پروجیکٹ کو ’ڈاکٹرز وِداؤٹ بارڈرز انڈیا‘ کا تعاون حاصل ہے۔

متاثرہ خاتون اور ان کے کنبے کے افراد کے نام ان کی شناخت کے تحفظ کے لیے تبدیل کر دیے گئے ہیں۔

مترجم: شفیق عالم

Reporting and Cover Illustration : Jigyasa Mishra

Jigyasa Mishra is an independent journalist based in Chitrakoot, Uttar Pradesh.

Other stories by Jigyasa Mishra
Editor : Pallavi Prasad

Pallavi Prasad is a Mumbai-based independent journalist, a Young India Fellow and a graduate in English Literature from Lady Shri Ram College. She writes on gender, culture and health.

Other stories by Pallavi Prasad
Series Editor : Anubha Bhonsle

Anubha Bhonsle is a 2015 PARI fellow, an independent journalist, an ICFJ Knight Fellow, and the author of 'Mother, Where’s My Country?', a book about the troubled history of Manipur and the impact of the Armed Forces Special Powers Act.

Other stories by Anubha Bhonsle
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam