’’مرچی میں آگ لگ گئی۔‘‘
دو دسمبر، ۱۹۸۴ کی رات تھی، جب بھوپال کی رہنے والی نصرت جہاں کی نیند اچانک ٹوٹ گئی۔ ان کو سانس لینے میں تکیلف ہو رہی تھی، ان کی آنکھوں میں چبھن ہو رہی تھی اور ان سے پانی بہہ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہی ان کا چھ سال کا بیٹا رونے لگا۔ شوروغل سے ان کے شوہر محمد شفیق بھی جاگ گئے۔
’’قیامت کا منظر تھا،‘‘ اس واقعہ کو، جسے بھوپال گیس ٹریجڈی کے نام سے جانا جاتا ہے اور جو مدھیہ پردیش کی راجدھانی میں تقریباً ۴۰ سال پہلے واقع ہوا تھا، یاد کرتے ہوئے اب ۷۰ سال کے ہو چکے شفیق کہتے ہیں۔ وہ نواب کالونی کے اپنے گھر میں بیٹھے ہیں۔
ایک پیپر مل میں دہاڑی مزدور کے طور پر کام کرنے والے شفیق اگلے کئی سالوں تک زہریلی گیسوں کے رساؤ سے متاثرہ اپنی فیملی کے علاج کے لیے جدوجہد کرتے رہے، جن کی صحت ۱۸ سال تک کوئیں کے آلودہ پانی کے لگاتار استعمال سے اور بگڑ گئی تھی۔ لیکن وہ بے بس تھے، کیوں کہ ایک مقامی کوئیں کو چھوڑ کر وہاں پانی کا کوئی دوسرا ذریعہ دستیاب نہیں تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ اُس پانی کے استعمال سے ان کی آنکھوں میں کھجلی ہونے لگتی تھی۔ سال ۲۰۱۲ میں جب سمبھاونا ٹرسٹ نے پانی کی جانچ کی، تب اس کے زہریلے پانی کا پتہ چلا۔ اس کے بعد علاقہ کے تمام بورویل حکومت کی ہدایت پر بند کر دیے گئے۔
سال ۱۹۸۴ کی اُس رات بین الاقوامی کمپنی یونین کاربائڈ کارپوریشن (یو سی ایل) کی ملکیت والی یونین کاربائڈ انڈیا لمیٹڈ (یو سی آئی ایل) سے رسنے والی زہریلی گیس نے شفیق کے گھر میں تباہی مچائی تھی۔ بیحد زہریلی میتھائل آئیسو سائنیٹ گیس کا یہ رساؤ ۲ دسمبر کی رات کو یو سی آئی ایل فیکٹری سے ہوا تھا، جو اُس تباہی کی وجہ بنا جسے دنیا کا سب سے بڑا صنعتی حاثہ مانا جاتا ہے۔
’’سرکاری ذرائع کے تجزیہ کے مطابق، اس حادثہ میں فوری طور پر مارے گئے لوگوں کی تعداد ۲۵۰۰ کے آس پاس بتائی گئی، لیکن دیگر ذرائع (دہلی سائنس فورمز رپورٹ) کے مطابق، یہ تعداد بتائی گئی تعداد سے کم از کم دو گنی تھی،‘‘ دی لیفلیٹ کی یہ رپورٹ بتاتی ہے۔
زہریلی گیس پورے بھوپال شہر میں پھیل گئی اور شفیق کی فیملی، جو فیکٹری کے قریب رہتی تھی، اس حادثہ میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے لوگوں میں شامل تھی۔ شہر کے ۳۶ وارڈوں میں رہنے والے تقریباً چھ لاکھ لوگ اس حادثہ میں بری طرح متاثر ہوئے تھے۔
اپنے بچے کے علاج کے لیے فکرمند شفیق سب سے پہلے اپنے گھر سے تقریباً ایک کلومیٹر دور واقع حمیدیہ اسپتال گئے۔
’’لاشیں پڑی ہوئی تھیں وہاں پہ،‘‘ وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ علاج کے لیے پریشان لوگ وہاں سینکڑوں کی تعداد میں جمع تھے۔ میڈیکل اسٹاف کے درمیان افراتفری مچی ہوئی تھی، انہیں سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں۔
’’پیشانی پر نام لکھ دیتے تھے،‘‘ لاشوں کے بڑھتے انبار کو یاد کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں۔
جب شفیق کھانا کھانے کے ارادے سے امامی گیٹ کے پاس والی سڑک کے اُس پار گئے، تو انہوں نے ایک عجیب و غریب منظر دیکھا۔ جب انہیں آرڈر کی ہوئی دال ملی، تو وہ نیلی تھی۔ ’’رات کی دال ہے بھیا۔‘‘ زہریلی گیس نے دال کا رنگ بدل دیا تھا اور اس کا ذائقہ کھٹا ہو چکا تھا۔
’’جس لاپروائی سے یو سی سی کے ساتھ ساتھ سرکاری عہدیداروں نے یو سی آئی ایل میں انتہائی خطرناک کیمیکلز کے ذخیرہ کی بات دبائے رکھی اور بھوپال میں عام لوگوں کو اس کے ممکنہ خطرات سے آگاہ کرنے میں کوتاہی برتی، وہ ایک حیران کن واقعہ تھا،‘‘ دی لیفلیٹ کے اپنے مضمون میں این ڈی جے پرکاش کہتے ہیں۔ جے پرکاش دہلی سائنس فورم میں جوائنٹ سکریٹری ہیں اور اس معاملے پر ان کی شروع سے نظر رہی ہے۔
بھوپال گیس سانحہ کے بعد، عدالتوں میں قانونی لڑائی شروع ہوئی جو کئی دہائیوں تک چلتی رہی۔ ان مقدموں کی بڑی بنیاد حادثہ میں متاثرہ خاندانوں کے لیے معاوضہ اور متاثرہ لوگوں کی میڈیکل رپورٹوں کو ڈیجیٹائز کرنے کا مطالبہ تھا۔ اس معاملے میں دو مجرمانہ مقدمے بھی دائر کیے گئے – ۱۹۹۲ میں ڈو میڈیکل کمپنی کے خلاف، جس کے پاس اب یو سی سی کی مکمل ملکیت ہے، اور ۲۰۱۰ میں یو سی آئی ایل اور اس کے اہلکاروں کے خلاف۔ جے پرکاش بتاتے ہیں کہ دونوں ہی معاملے بھوپال ضلع عدالت میں زیر التوا ہیں۔
شفیق بی جی ڈی (بھوپال گیس ڈیزاسٹر) کے متاثرین کے ذریعہ ۲۰۱۰ میں نکالے گئے بھوپال سے دہلی تک کے پیدل مارچ ’دہلی چلو آندولن‘ میں بھی شامل ہوئے تھے۔ ’’علاج، معاوضہ اور صاف پانی کے لیے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ تحریک میں شامل لوگ دہلی میں ۳۸ دنوں تک جنتر منتر پر دھرنے پر بیٹھے رہے، اور وزیر اعظم کی رہائش گاہ میں داخل ہونے کی بھی کوشش کی، جہاں پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔
’’متاثرین اور ان کے خاندانوں کے ذریعہ بنیادی طور پر دو مقدمے لڑے جا رہے ہیں۔ ایک مقدمہ ہندوستان کی عدالت عظمی میں ہے اور دوسرا مقدمہ جبل پور کے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے،‘‘ بھوپال گیس پیڑت سنگھرش سہیوگ سمیتی کے شریک رابطہ کار این ڈی جے پرکاش بتاتے ہیں۔
*****
’’درخت کالے ہو گئے تھے، پتّے جو ہرے تھے نیلے ہو گئے، دھواں تھا ہر طرف،‘‘ شہر کیسے ایک قبرگاہ میں بدل گیا تھا، اس منظر کو یاد کرتے ہوئے طاہرہ بیگم کہتی ہیں۔
’’میرے والد ہمارے گھر کے برآمدے میں سوئے ہوئے تھے،‘‘ وہ اُس رات کی بات بتاتی ہیں۔ ’’جب خراب ہوا بہنے لگی، تو کھانستے ہوئے ان کی نیند کھل گئی اور ان کو حمیدیہ اسپتال لے جایا گیا۔‘‘ حالانکہ، تین دن بعد انہیں چھٹی دے دی گئی، لیکن ’’سانس کی تکلیف پوری طرح کبھی ختم نہیں ہوئی اور تین مہینے بعد ان کا انتقال ہو گیا،‘‘ طاہرہ مزید کہتی ہیں۔ ان کی فیملی کو معاوضہ کے طور پر ۵۰ ہزار روپے ملے۔ عدالت میں چل رہے مقدمہ کے بارے میں انہیں کچھ معلوم نہیں ہے۔
حادثہ کے بعد شہر کے لوگوں نے لاشوں کو دفن کرنے کے لیے بڑی بڑی قبریں کھودیں۔ ان کی پھوپھی کو، جنہیں غلطی سے زندہ دفن کر دیا گیا تھا، بعد میں ایک قبر سے نکالا گیا۔ ’’میرے ایک رشتہ دار نے پہچان لیا اور انہیں باہر نکالا،‘‘ طاہرہ اس منظر کو یاد کرتی ہیں۔
وہ گزشتہ ۴۰ سالوں سے یو سی آئی ایل فیکٹری کے قریب آباد شکتی نگر میں بطور آنگن باڑی ملازمہ کام کر رہی ہیں۔ حادثہ میں اپنے والد کو کھونے کے تقریباً سال بھر بعد انہوں نے یہ کام شروع کیا تھا۔
والد کے جنازہ کے بعد ان کی فیملی جھانسی چلی گئی۔ تقریباً ۲۵ دنوں بعد جب وہ لوٹے، تو طاہرہ کے مطابق، ’’صرف مرغیاں بچی تھیں، باقی جانور سب مر گئے تھے۔‘‘
کور فیچر: اسمیتا کھٹور
اس اسٹوری کو تیار کرنے میں مدد کے لیے، پاری کی ٹیم بھوپال کی عظیم پریم جی یونیورسٹی کی پروفیسر سیما شرما اور پروفیسر موہت گاندھی کا شکریہ ادا کرتی ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز