بچپن میں رجیتا جب کھڑکیوں سے جھانک کر نوعمر لڑکوں کو اپنے والد اور دادا سے تربیت حاصل کرتے دیکھتیں، تو سوچتیں کہ وہ اس میں کیوں شریک نہیں ہوسکتیں۔ کٹھ پتلیاں اس کم عمر لڑکی کی آنکھوں کو خصوصی طور پر بھلی لگتی تھیں، اور اس کے کان اس میں گائے جانے والے گیتوں (بندوں) کے مخصوص آہنگ کے دلدادہ تھے۔

’’میرے دادا نے پتلی بازی میں میرے شوق کو پہچان کر مجھے اس سے وابستہ بند سکھانے کی پیشکش کی،‘‘ ۳۳ سالہ رجیتا کہتی ہیں۔

رجیتا پلور، شورنور میں اپنے خاندانی اسٹوڈیو میں لکڑی کے بنچ پر بیٹھی تول پاوکوت کٹھ پتلی کے چہرے کے خدوخال تراش رہی ہیں۔ ان کے سامنے ایک میز پر لوہے کے مختلف آلات جیسے سُتالی، چھینی اور ہتھوڑے رکھے ہوئے ہیں۔

دوپہر کا وقت ہے اور اسٹوڈیو میں خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ جو واحد آواز سنائی دے رہی ہے وہ ایک پنکھے کی گھرگھرانے کی آواز ہے۔ یہ پنکھا کٹھ پتلی سازی کے لیے بنے شیڈ میں رجیتا کے بغل میں رکھا ہوا ہے۔ باہر کھلی چھت پر چمڑے کی چادروں کو دھوپ میں سوکھ کر سخت ہونے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ سوکھنے کے بعد اس سے کٹھ پتلیاں تراشی جائیں گی۔

’’یہ کٹھ پتلیاں عصری موضوعات پر ہمارے شوز کے لیے بنی ہیں،‘‘ رجیتا ایک کٹھ پتلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں، جس پر وہ فی الحال کام کر رہی ہیں۔ تول پاوکوت کٹھ پتلی کا کھیل ہندوستان کے مالابار ساحل کا ایک روایتی فن ہے جو اصلاً دیوی بھدرکالی کے سالانہ تہوار کے موقع پر مندر کے احاطے میں دکھایا جاتا ہے۔

PHOTO • Megha Radhakrishnan
PHOTO • Megha Radhakrishnan

بائیں: موجودہ دور سے منسلک سایہ کٹھ پتلی کے ایک کردار کے ساتھ رجیتا۔ دائیں: اپنے والد رام چندر کے ساتھ وہ پتلی بازی کے فن کا مظاہرہ کر رہی ہیں

رجیتا کے دادا کرشنن کُٹی پُلور نے اس فن کی جدید کاری میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے اس کی پیشکش کو مندروں کے حدود سے باہر نکالا اور مواد کو اس کے اصل ماخذ رامائن سے آگے تک وسعت دی۔ (پڑھیں: روایتی دائروں کو توڑتے کیرالہ کے کٹھ پتلی فنکار

انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کی پوتی پتلی بازوں کی ٹولی میں شامل ہونے والی پہلی خاتون فن کار بنیں، اور ۲۰۲۱ میں تول پاوکوت طرز کی پتلی بازی سے متعلق صرف خواتین فنکاروں پر مشتمل پہلی ٹولی بھی تشکیل دی۔

حالانکہ، یہاں تک کا سفر بہت طویل رہا ہے۔

تماشہ کے منظوم بولوں پر عبور حاصل کرنا مشکل تھا، کیونکہ وہ تمل زبان میں تھے، جو ملیالم بولنے والی رجیتا کے لیے ایک غیرمانوس زبان تھی۔ لیکن جب تک انہوں نے معنی اور تلفظ کی تفصیلات کو ازبر نہ کر لیا ان کے والد اور دادا نے ان کے ساتھ صبر و تحمل سے کام لیا: ’’میرے دادا نے تمل حروف تہجی کی تعلیم سے شروعات کی اور آہستہ آہستہ منظوم بولوں سے مجھے متعارف کرایا۔‘‘

’’وہ تعلیم کے لیے ایسے بند (اشعار) منتخب کرتے تھے جو ہم بچوں کے لیے بہت دلچسپ ہوتے تھے،‘‘ رجیتا اپنی بات جاری رکھتی ہیں۔ پہلا بند جو انہوں نے اپنے دادا سے سیکھا وہ رامائن کا ایک منظر تھا، جس میں ہنومان راون کو للکارتے ہیں:

’’اڈ تڈاتو چیتا نی
انت نادن دیویے
وِدا تڈات پومیڈا
جلتی چولی لنگئے
وینداتو پوکومو
ایڈا پوڈا ای راونا‘‘

اے راون،
اے وہ کہ جس نے شیطانی حرکت کی ہے
اور زمین کی بیٹی کو قید کیا ہے
میں اپنی دُم سے سارے لنکا کو تباہ کر دوں گا۔
دفع ہو جاؤ، راون!

PHOTO • Megha Radhakrishnan

رجیتا اور ان کی ٹیم ایک پیشکش کے دوران

رجیتا کہتی ہیں کہ ان کے خاندان کے لڑکوں نے پرجوش انداز میں ان کا استقبال کیا، خاص طور پر ان کے بھائی راجیو نے ان کی بہت حوصلہ افزائی کی۔ ’’انہوں نے ہی صرف خواتین پر مشتمل اپنی ٹولی بنانے کے لیے مجھے ترغیب دی۔‘‘

یہاں مندروں کے حدود میں خواتین کے لیے کٹھ پتلی کی پیشکش ممنوع تھی (یہ ممانعت بہت حد تک اب بھی جاری ہے)، اس لیے جب رجیتا تیار ہوئیں، تو انہوں نے اپنی خاندانی منڈلی کے ساتھ عصری اسٹیج کے لیے کام کرنا شروع کیا۔ لیکن شروعات میں انہوں نے پردے کے پیچھے ہی رہنے کو ترجیح دی۔

وہ کہتی ہیں، ’’میں [رامائن کی جدید ڈرامائی پیشکش میں] سیتا جیسی خواتین کرداروں کے مکالمے ادا کرتی تھی، لیکن کٹھ پتلیوں کو متحرک کرنے یا سامعین سے مخاطب ہونے کے لیے جس خود اعتمادی کی ضرورت تھی وہ مجھ میں نہیں تھی۔‘‘ بہرحال، بچوں کے لیے منعقد اپنے والد کی ورکشاپوں میں حصہ لینے کے بعد انہیں اپنا اعتماد حاصل کرنے میں مدد ملی۔ ’’ورکشاپ کے دوران، مجھے بہت سے لوگوں سے بات چیت کرنی پڑتی تھی۔ اب میں بھیڑ کا سامنا خود پر زیادہ یقین کے ساتھ کر سکتی تھی۔‘‘

رجیتا نے کٹھ پتلی بنانے کے ہنر میں بھی مہارت حاصل کی۔ ’’میں نے یہ کام کاغذ پر کٹھ پتلی بنا کر شروع کیا۔ میرے والدین اور میرے بھائی میرے استاد تھے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’میں نے آہستہ آہستہ چمڑے پر نقش ابھارنا اور ان نقوش میں جان پیدا کرنے کے لیے رنگ بھرنا سیکھا۔‘‘ اگرچہ رامائن کی کٹھ پتلیوں کے چہرے مبالغہ آمیز ہوتے ہیں، لیکن عصری موضوعات کی پیشکش والی کٹھ پتلیاں زیادہ حقیقت پسندانہ ہوتی ہیں۔ ’’یہاں تک کہ لباس بھی کردار کی عمر کی بنیاد پر تبدیل ہوتا ہے – اگر وہ کردار بوڑھی عورت ہے، تو کٹھ پتلی ساڑی میں ملبوس ہوگی، اگر جوان ہے، تو ٹاپ اور جینس پہنے گی،‘‘ رجیتا وضاحت کرتی ہیں۔

صرف خاندان کے مرد وں نے ہی رجیتا کی حمایت اور حوصلہ افزائی نہیں کی۔ دراصل، تول پاوکوت سے صنفی تفریق کو مٹانے کے لیے پہلا قدم اس وقت رکھا گیا تھا، جب رجیتا کی والدہ راج لکشمی نے ان کے دادا کی کلاس میں شمولیت اختیار کی تھی۔

رجیتا کے والد رام چندر سے ۱۹۸۶ میں شادی کے بعد راج لکشمی نے کٹھ پتلی بنانے میں کنبے کے پتلی بازوں کی مدد کرنا شروع کی۔ تاہم، انہیں کبھی بھی بند پڑھنے یا پیشکش میں حصہ لینے کا موقع نہیں ملا۔ ’’جب میں رجیتا کے سفر کو دیکھتی ہوں، تو مجھے خود اپنی تکمیل کا احساس ہوتا ہے۔ اس نے وہ حاصل کیا ہے جو میں اپنی جوانی میں حاصل نہ کرسکی تھی،‘‘ راج لکشمی کہتی ہیں۔

PHOTO • Courtesy: Krishnankutty Pulvar Memorial Tholpavakoothu Kalakendram, Shoranur
PHOTO • Courtesy: Krishnankutty Pulvar Memorial Tholpavakoothu Kalakendram, Shoranur

بائیں: رجیتا اور ان کے بھائی راجیو دستانے سے چلائی جانے والی ایک پتلی دکھا رہے ہیں۔ دائیں: پریکٹس سیشن کے دوران خواتین پتلی باز

PHOTO • Megha Radhakrishnan
PHOTO • Megha Radhakrishnan

بائیں: راج لکشمی (بائیں)، اسوتی (درمیان) اور رجیتا کٹھ پتلیاں بنا رہی ہیں۔ دائیں: رجیتا چمڑے سے کٹھ پتلی بنانے کے لیے ہتھوڑے اور چھینی کا استعمال کر رہی ہیں

*****

اپنی ٹیم، پین پاوکوت، تشکیل دینے کا فیصلہ کرنے کے بعد رجیتا نے جو پہلے چند کام کیے، ان میں سے ایک اپنی ماں اور اپنی بھابھی اسوتی کو اس میں شامل ہونے کے لیے مدعو کرنا تھا۔

اسوتی کو ابتدا میں اس فن میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ پتلی باز بن جائیں گی۔ لیکن پتلی باز گھرانے میں شادی کے بعد ’’میں اس فن سے لطف اندوز ہونے لگی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ چونکہ رسم و رواج سے متعلق روایتی پتلی بازی سست رو ہوتی ہے اور صدا کاری کے دوران کٹھ پتلی کے ساتھ بمشکل کوئی ہنرمندی دکھائی جا سکتی ہے، لہذا وہ اس عمل کو سیکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتی تھیں۔ لیکن ان کے شوہر راجیو اور ان کی ٹیم  کے ذریعہ عصری موضوعات پر کٹھ پتلی کے کھیل کی پیشکش کو دیکھ کر ان کی دلچسپی میں اضافہ ہوا اور وہ اس فن کو سیکھنے کے لیے رجیتا کی ٹیم میں شامل ہو گئیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ رام چندر نے اپنی ٹولی میں مزید خواتین کو شامل کیا، جس سے حوصلہ پاکر رجیتا نے پڑوس کی لڑکیوں کو اپنے ساتھ شامل ہونے کی دعوت دے کر صرف خواتین کی کٹھ پتلی ٹولی بنائی۔ پہلی ٹولی آٹھ ممبران پر مشتمل تھی، جس میں نویدیتا، نتیا، سندھیا، سرینندا، دیپا، راج لکشمی اور اسوتی شامل تھیں۔

’’ہم نے اپنے والد کی نگرانی میں تربیتی سیشن کا آغاز کیا تھا۔ چونکہ ہم سے میں سے زیادہ تر لڑکیاں اسکول جاتی تھیں، اس لیے ہم نے ان کی چھٹیوں کے وقت یا فراغت کے دوران تربیتی سیشن کا انعقاد کیا۔ اگرچہ روایتی طور پر خواتین کو پتلی بازی کی اجازت نہیں تھی، لیکن گھر والوں نے ہماری بہت حوصلہ افزائی کی،‘‘ رجیتا کہتی ہیں۔

’’ایک ساتھ پرفارم کرنے کی وجہ سے خواتین اور لڑکیوں کے درمیان ایک گہرا رشتہ قائم ہوگیا ہے۔ ہم ایک کبنے کی طرح ہیں،‘‘ یہ کہتے ہوئے رجیتا مزید اضافہ کرتی ہیں، ’’ہم سالگرہ اور دیگر گھریلو تقریبات ایک ساتھ مناتے ہیں۔‘‘

ان کی پہلی پیشکش ۲۵ دسمبر ۲۰۲۱ کو ہوئی تھی۔ رجیتا یاد کرتی ہیں، ’’ہم نے سخت محنت کی اور تیاری میں کافی وقت صرف کیا۔‘‘ یہ پہلا موقع تھا جب صرف خواتین پر مشتمل ایک منڈلی تول پاوکوت طرز کی کٹھ پتلی کا کھیل پیش کرنے جا رہی تھی، جس کا مقام پلکّڈ کا ایک آڈیٹوریم تھا، جہاں یہ تقریب کیرالہ حکومت کے ’سمم‘ پروگرام کے تحت منعقد ہو رہی تھی۔

PHOTO • Courtesy: Krishnankutty Pulvar Memorial Tholpavakoothu Kalakendram, Shoranur
PHOTO • Megha Radhakrishnan

بائیں: پین پاوکوت پتلی باز ایک تقریب کے دوران تصویر کے لیے پوز دیتے ہوئے۔ یہ صرف خواتین پر مشتمل پہلی تول پاوکوت کٹھ پتلی ٹولی ہے۔ دائیں: ٹیم کی ارکان کٹھ پتلیاں پکڑے ہوئی ہیں

سردیوں میں بھی تیل سے جلنے والے چراغوں کی گرمی فنکاروں کے لیے ناقابل برداشت ہو جاتی ہے۔ ’’ہم میں سے کچھ کے چھالے پڑ گئے،‘‘ رجیتا کہتی ہیں، ’’پردے کے پیچھے بہت گرمی تھی۔‘‘ لیکن سب نے اپنے اندر مضبوط قوت ارادی کو محسوس کیا۔ وہ کہتی ہیں، ’’اور شو کامیاب ثابت ہوا۔‘‘

سمم (ملیالم میں جس کا مطلب ہوتا ہے ’برابر‘) پروگرام ابھرتی ہوئی خواتین فنکاروں کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے۔ پلکّڈ میں اس پروگرام کا انعقاد خواتین اور بچوں کی نگہداشت کے محکمہ کے ذریعہ کیا گیا تھا۔ رجیتا کی ٹولی کی پیشکش میں تعلیم، ملازمت اور خانگی زندگی میں خواتین کی جدوجہد کو اجاگر کیا گیا تھا، اور ان کے حقوق کو مضبوطی فراہم کرنے کے طریقے بھی تلاش کیے گئے تھے۔

’’ہم اس عدم مساوات کے خلاف لڑائی کے لیے اپنے فن کا استعمال کرتے ہیں۔ سائے ہماری جدوجہد کی عکاسی کرتے ہیں،‘‘ رجیتا کہتی ہیں۔ ’’ہم نئے خیالات اور موضوعات کی تلاش کرنا چاہتے ہیں، خاص طور پر سماجی سروکار سے متعلق مسائل و موضوعات کی۔ ہم خواتین کے نقطہ نظر سے رامائن کی داستان بھی پیش کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

اپنی ٹولی تشکیل دینے کے بعد رجیتا نے کٹھ پتلیوں کو حرکت میں لانے سے آگے کا ہنر سیکھنا شروع کیا۔ انہوں نے پوری پرفارمنس ترتیب دی، جس میں اسکرپٹ تیار کرنا، صدا بندی کرنا اور موسیقی ریکارڈ کرنا، کٹھ پتلی بنانا، انہیں متحرک کرنا اور ٹیم کے ارکان کو تربیت دینا شامل ہے۔ ’’ہرایک پیشکش کے لیے ہمیں کافی تیاری کرنی پڑتی تھی۔ مثال کے طور پر، خواتین کو بااختیار بنانے کے موضوع پر کی گئی پیشکش کے لیے میں خواتین اور بچوں کی بہبود کے محکمہ میں خواتین کے لیے دستیاب اسکیموں اور مواقع سے متعلق ڈیٹا اکٹھا کرنے گئی۔ اس کے بعد میں نے اسکرپٹ اور موسیقی کو آؤٹ سورس کیا۔ ریکارڈنگ مکمل ہونے کے بعد ہم نے کٹھ پتلیاں بنانا اور انہیں متحرک کرنے کی ریہرسل شروع کی۔ یہاں ٹیم کے ہر رکن کو اپنی حصہ داری ادا کرنے، کٹھ پتلیوں کو شکل دینے اور اسٹیج کی نقل و حرکت پر کام کرنے کی آزادی ہے۔‘‘

PHOTO • Megha Radhakrishnan
PHOTO • Megha Radhakrishnan

بائیں: پیشکش کے دوران اسوتی (دائیں جانب) اور رجیتا۔ دائیں: کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پینارائی وجیَن کی کٹھ پتلی

PHOTO • Megha Radhakrishnan
PHOTO • Megha Radhakrishnan

بائیں: پین پاوکوت کے ذریعے پیش کیے گئے شو کے دوران پردے کے پیچھے کا منظر۔ دائیں: پردے کے پیچھے فنکار اور آڈیٹوریم میں موجود ناظرین

ان کی پیشکش واحد شو سے بڑھ کر اب ۴۰ سے تجاوز کر گئی ہے، اور اب ۱۵ اراکین پر مشتمل ان کی ٹولی ان والدین کی تنظیم، کرشنن کُٹی میموریل تول پاوکوت کلاکیندرم، کے ساتھ تعاون کرتی ہے۔ ۲۰۲۰ میں راجیتا کو کیرالہ فوک لور اکیڈمی نے یووا پرتیبھا ایوارڈ سے نوازا تھا۔

رجیا کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے شروعات کی تھی، تب خواتین کی منڈلی کو ان کے مرد ہم منصبوں کے برابر اجرت ادا نہیں کی جاتی تھی۔ لیکن آہستہ آہستہ چیزیں تبدیل ہوئی ہیں۔ ’’بہت سی تنظیمیں، خاص طور پر حکومت، ہمارے ساتھ یکساں سلوک کر رہی ہیں اورہمیں بھی وہی اجرت ادا کر رہی ہیں جو مرد فنکاروں کو ادا کی جاتی ہیں،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔

اس سلسلے میں ایک اور اہم مرحلہ ایک مندر میں پی کش کرنے کی دعوت وصول کرنا تھا۔ رجیتا کہتی ہیں، ’’اگرچہ یہ روایتی پیشکش نہیں تھی، لیکن ہمیں خوشی ہے کہ ایک مندر نے ہمیں مدعو کیا۔‘‘ وہ اب کمبا رامائن کے بند سیکھ رہی ہیں، جو کہ روایتی تول پاوکوت میں پڑھی جانے والی رزمیہ کا تمل روپ ہے۔ اسے خود سیکھنے کے بعد وہ ٹولی کے دیگر ارکان کو سکھائیں گی۔ وہ مستقبل کے بارے میں پر امید ہیں۔ ’’مجھے پورا یقین ہے کہ ایک ایسا دور آئے گا جہاں خواتین پتلی باز مقدس مندر کے باغات کے اندر کمبا رامائن کے بندوں کو گائیں گی۔ اس کے لیے میں لڑکیوں کو تیار کر رہی ہوں۔‘‘

اس اسٹوری میں مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) کی فیلوشپ کا تعاون حاصل ہے۔

مترجم: شفیق عالم

Sangeeth Sankar

Sangeeth Sankar is a research scholar at IDC School of Design. His ethnographic research investigates the transition in Kerala’s shadow puppetry. Sangeeth received the MMF-PARI fellowship in 2022.

Other stories by Sangeeth Sankar
Photographs : Megha Radhakrishnan

Megha Radhakrishnan is a travel photographer from Palakkad, Kerala. She is currently a Guest Lecturer at Govt Arts and Science College, Pathirippala, Kerala.

Other stories by Megha Radhakrishnan
Editor : PARI Desk

PARI Desk is the nerve centre of our editorial work. The team works with reporters, researchers, photographers, filmmakers and translators located across the country. The Desk supports and manages the production and publication of text, video, audio and research reports published by PARI.

Other stories by PARI Desk
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam