’’ماں، مجھ کو یہ زندگی
آخر تم سے ملی۔
تمہاری بولی میں
پہلا لفظ کہا۔
تمہارے پیار کو تھامے
پہلی بار چلا۔
تمہارا ہاتھ جکڑ کر ماں
چلنا سیکھا۔
تمہارا ہاتھ پکڑ
میں نے لکھنا سیکھا۔‘‘

یہ نظم کولکاتا کے گڑیا ہاٹ بازار میں کتابیں بیچنے والے موہن داس کے اسٹال پر لگی ہوئی ہے۔ یہ اشعار انہی کے ہیں، اور انہوں نے ایسی بہت سی نظمیں لکھی ہیں۔

موہن (۵۲ سالہ) کہتے ہیں، ’’نیجرے کاج کے بھالوباش کھوبی جوروری اَر امار جونے امار پروتھوم بھالوباش ہوچّھے امار بوئی [اپنے کام سے پیار ہونا بہت ضروری ہے، اور میرا پہلا پیار میری کتابیں ہیں]۔‘‘ ان کا قلمی نام منی موہن داس ہے۔

ہیرمبا چندر کالج سے کامرس میں گریجویٹ ہونے کے باوجود موہن کو کوئی اچھی نوکری نہیں ملی۔ اسی لیے، وہ گزشتہ تین دہائیوں سے گڑیا ہاٹ کی سڑکوں پر کتابیں اور رسالے فروخت کر رہے ہیں۔

یہ پیشہ انہوں نے بغیر کسی منصوبہ کے اختیار کیا تھا، پھر بھی اس پیشہ کو بدلنے کے بارے میں انہوں نے کبھی نہیں سوچا۔ وہ بتاتے ہیں، ’’یہ [کتابیں بیچنا] صرف پیسے کمانے کا ذریعہ نہیں ہے۔ یہ کام اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ میرے لیے کتابیں ہی میرا جنون ہیں۔‘‘

Left: Mohan Das sitting in front of his book stall in Kolkata's Gariahat market.
PHOTO • Diya Majumdar
Right: A poem by Mohan Das holds a place of pride at his stall
PHOTO • Diya Majumdar

بائیں: کولکاتا کے گڑیا ہاٹ بازار میں کتابوں کے اپنے اسٹال کے سامنے بیٹھے موہن داس۔ دائیں: موہن داس کی ایک نظم ان کی دکان میں لگی ہوئی ہے

جنوبی کولکاتا میں گول پارک علاقہ کے پاس ایک مصروف چوراہے پر واقع گڑیا ہاٹ بازار میں، تقریباً ۳۰۰ دکانوں میں موہن کا کتابوں کا اسٹال بھی شامل ہے۔ اس بازار کی مستقل اور عارضی دکانوں میں کھانے پینے کے سامان، پھل اور سبزیاں، مچھلی، کپڑے، کتابیں اور کھلونے وغیرہ بیچے جاتے ہیں۔

موہن بتاتے ہیں کہ ان کے جیسے عارضی اسٹال والے سامان فروش اور اس گلی کی مستقل دکانوں کے مالک ایک خاندان کی طرح رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’لوگوں کے درمیان یہ غلط فہمی ہے کہ مستقل دکاندار نہیں چاہتے ہیں کہ ہم یہاں اپنا اسٹال لگائیں۔ یہ بات پوری طرح صحیح نہیں ہے۔‘‘ وہ ایک دوسرے کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں اور دوستوں کی طرح رہتے ہیں۔

موہن ایک دن میں کئی کئی گھنٹے کام کرتے ہیں۔ وہ اپنی دکان صبح ۱۰ بجے کھولتے ہیں اور رات ۹ بجے بند کرتے ہیں۔ وہ ہفتہ کے ہر دن ۱۱ گھنٹے کام کرتے ہیں۔ حالانکہ انہیں اپنے کام سے پیار ہے، لیکن وہ اس سے ہونے والی کمائی سے ناخوش ہیں، کیوں کہ اس سے ان کی پانچ رکنی فیملی کا گزارہ نہیں چل پاتا۔ موہن کہتے ہیں، ’’کوکھونو ٹکا پائی کوکھونو ابار ایک بیلا کھبریر موٹونو ٹکا پائینا۔ [ہم کبھی کبھی اچھی کمائی کر پاتے ہیں۔ باقی دنوں کی کمائی سے پیٹ بھرنا بھی مشکل ہوتا ہے]۔‘‘

کتاب فروش اور شاعر موہن، اپنی بیٹی پولمی کے بہتر مستقبل کی دعا کرتے ہیں۔ پولمی فی الحال کولکاتا یونیورسٹی میں پولیٹکل سائنس سے گریجویشن کی پڑھائی کر رہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں اپنی بہنوں، پرتیما اور پُشپا کی شادیوں کا خرچ بھی اٹھانا ہے۔

Left: Mohan Das showing us his poem titled ‘Ma amar Ma.’
PHOTO • Diya Majumdar
Right: Towards the end of 2022, street vendors were ordered to remove plastic sheets covering their stalls
PHOTO • Diya Majumdar

بائیں: موہن داس ہمیں اپنی نظم ’ماں امار ماں‘ پڑھا رہے ہیں۔ دائیں: ۲۰۲۲ کے آخر میں، ریڑھی پٹری والوں کو دکانوں کے اوپر سے ترپال ہٹانے کا حکم دیا گیا تھا، جن سے دکانیں ڈھکی جاتی ہیں

اس کام میں تمام قسم کی بے یقینی ہونے کے باوجود، وہ امید نہیں چھوڑنا چاہتے ہیں۔ ’’مجھے اس بات کا خوف نہیں ہے کہ کوئی بھی ہمیں یہاں سے ہٹا سکتا ہے۔ میرے جیسے بہت سے ریڑھی پٹری والے یہاں اپنی دکانیں لگاتے ہیں اور ہمارا معاش اسی گلی پر منحصر ہے۔ ہمیں ہٹانا آسان نہیں ہے۔‘‘ حالانکہ، انہیں ہٹانے کی کئی بار کوشش کی جا چکی ہے۔

حکومت کے ذریعے ۱۹۹۶ میں چلائی گئی مہم ’آپریشن سن شائن‘ کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’اس وقت مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا کرنا چاہیے۔‘‘ یہ مہم ریاستی حکومت اور میونسپل حکام کے ذریعے شہر کے کچھ خاص حصوں سے پھیری والوں کو فٹ پاتھ سے ہٹانے کے لیے شروع کی گئی تھی۔

اس وقت موہن، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکس وادی) کے ممبر تھے، جو تب بایاں محاذ کی رکن پارٹی تھی اور مغربی بنگال میں اقتدار میں تھی۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ وہ تب پارٹی کے دفتر گئے تھے اور عہدیداروں سے اس مہم کو ردّ کرنے کی مانگ کی تھی، لیکن انہوں نے ایک نہیں سنی۔ اس کے بعد، حکومت اور میونسپل حکام کے ذریعے علاقہ کے زیادہ تر پھیری والوں کی دکانیں گرا دی گئی تھیں، لیکن خود قسمتی سے وہ ان پھیری والوں میں سے تھے جنہوں نے پہلے ہی اپنا سارا سامان وہاں سے نکال لیا تھا۔

وہ کہتے ہیں، ’’حکومت نے اچانک یہ فیصلہ لیا تھا۔ انہیں اس بات کا احساس بھی نہیں تھا کہ اُس رات کتنے لوگوں نے اپنا سب کچھ گنوا دیا۔‘‘ مہینوں کے احتجاجی مظاہروں اور کولکاتا ہائی کورٹ میں عرضی داخل کرنے کے بعد ہی موہن اور دیگر پھیری والے دوبارہ اپنی دکان کھول پائے۔ یہ ساؤتھ کلکتہ ہاکرز یونین کی قیادت میں ۳ دسمبر، ۱۹۹۶ کو ہوا تھا۔ ساؤتھ کلکتہ ہاکرز یونین، ہاکر سنگرام کمیٹی کا حصہ ہے، اور موہن بھی اس کے ایک رکن ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد انہوں نے پارٹی چھوڑ دی تھی اور تب سے کسی بھی سیاسی سرگرمی میں شامل نہیں ہوئے۔

Left: The lane outside Mohan’s stall. The Gariahat market is a collection of both permanent shops and makeshift stalls.
PHOTO • Diya Majumdar
Right: Plastic sheeting protects hundreds of books at the stall from damage during the rains
PHOTO • Diya Majumdar

بائیں: موہن کی دکان کے سامنے کی گلی۔ گڑیا ہاٹ بازار میں عارضی اور مستقل دونوں ہی قسم کی دکانیں ہیں۔ دائیں: برسات کے دنوں میں ترپال کی چادر اسٹال میں رکھی سینکڑوں کتابوں کو خراب ہونے سے بچاتی ہے

*****

’’ آج کل ار کیئو بوئی پورینا [آج کل کوئی بھی کتابیں نہیں پڑھتا ہے]۔‘‘ موہن کہتے ہیں کہ گوگل نے ان کے بہت سے گاہک چھین لیے ہیں۔ ’’اب ہمارے پاس گوگل آ گیا ہے۔ لوگ اپنی ضرورت کے مطابق جانکاری تلاش کرتے ہیں اور انہیں ٹھیک وہی جانکاری مل بھی جاتی ہے۔‘‘ کووڈ۔۱۹ وبائی مرض نے بھی حالات کو بدتر بنا دیا ہے۔

’’میں نے پہلے اپنی مرضی سے کبھی بھی دکان بند نہیں کی، لیکن کووڈ کے دوران میرے پاس بیکار بیٹھنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔‘‘ وبائی مرض کے دوران موہن کی تمام بچت خرچ ہو گئی۔ جنوری ۲۰۲۳ میں پاری سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’دھندہ کی اتنی بری حالات پہلے کبھی نہیں تھی۔‘‘

موہن کا ماننا ہے کہ حکومت کے ذریعے ریڑھی پٹری والوں کے لیے جاری کیا گیا لائسنس ان کے کاروبار کی غیر یقینی صورتحال کو کم کرے گا۔ انہوں نے پانچ سال پہلے لائسنس حاصل کرنے کے لیے درخواست دی تھی، لیکن ابھی تک انہیں لائسنس نہیں ملا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ لائسنس نہ ہونے کی صورت میں، ہاکر یونین کا رکن بنے رہنے میں ہی ان کی بھلائی ہے، اور اسی سے انہیں کچھ تحفظ ملتا ہے۔ اس رکنیت کے عوض وہ ہرہفتے ۵۰ روپے ادا کرتے ہیں۔ اس سے انہیں بازار میں دکان لگانے کے لیے جگہ بھی ملتی ہے۔

موہن کے مطابق، سال ۲۰۲۲ کے آخر میں کولکاتا میونسپل کارپوریشن نے مغربی بنگال شہری اسٹریٹ وینڈرز (معاش کا تحفظ اور اسٹریٹ وینڈنگ کے قواعد) سے متعلق ضوابط، ۲۰۱۸ کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔ سبھی ریڑھی پٹری والوں کو اپنی دکانوں کو ڈھکنے میں استعمال کی جانے والی پلاسٹک کی ترپال کو ہٹانے کا حکم دیا گیا تھا۔ موہن کہتے ہیں، ’’سردیوں میں تو ٹھیک ہے، لیکن جب بارش ہوگی تو ہم کیا کریں گے؟‘‘

جوشوا بودھی نیتر کی آواز میں یہ نظم سنیں

মা আমার মা

সবচে কাছের তুমিই মাগো
আমার যে আপন
তোমার তরেই পেয়েছি মা
আমার এ জীবন
প্রথম কথা বলি যখন
তোমার বোলেই বলি
তোমার স্নেহের হাত ধরে মা
প্রথম আমি চলি
হাতটি তোমার ধরেই মাগো
চলতে আমার শেখা
হাতটি তোমার ধরেই আমার
লিখতে শেখা লেখা
করতে মানুষ রাত জেগেছ
স্তন করেছ দান
ঘুম পাড়াতে গেয়েছে মা
ঘুম পাড়ানি গান
রাত জেগেছ কত শত
চুম দিয়েছ তত
করবে আমায় মানুষ, তোমার
এই ছিল যে ব্রত
তুমি যে মা সেই ব্রততী
যার ধৈয্য অসীম বল
সত্যি করে বলো না মা কী
হল তার ফল
আমার ব্রতের ফসল যেরে
সোনার খুকু তুই
তুই যে আমার চোখের মনি
সদ্য ফোটা জুঁই ।

ماں، میری ماں

تم سب سے پیاری ہو ماں
تم سا نہ کوئی ملا۔
ماں، مجھ کو یہ زندگی
آخر تم سے ملی۔
تمہاری بولی میں
پہلا لفظ کہا۔
تمہارے پیار کو تھامے
پہلی بار چلا۔
تمہارا ہاتھ جکڑ کر ماں
چلنا سیکھا۔
تمہارا ہاتھ پکڑ
میں نے لکھنا سیکھا۔
میری بھوک کے سبب کتنی رات جگی،
مجھ کو بڑا کرنے کو دودھ پلاتی رہی۔
نیند مجھے آ جائے
لوری گاتی رہی۔
آخر میرے لیے تم کتنی رات جگی
مجھ پر پیار کے بوسے تم برساتی رہی،
تم نے اپنے من میں ٹھان کے رکھا تھا
مجھ کو ایک بہتر انسان بناؤ گی۔
تم نے ہی اپنے من میں ٹھان کے رکھا تھا
صبر تمہارا آخر کتنا گہرا ہے،
او ماں، تم سچ سچ اب بتلاؤ نا
آخر اس سے ملا کیا یہ بتلاؤ نا؟
تم میرے عزائم کا پھل ہو
تم سب سے پیاری بٹیا، میرا کل ہو،
میری دنیا تو تم سے ہی روشن ہے
تازہ کھلی چنبیلی، تم سے گلشن ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Student Reporter : Diya Majumdar

Diya Majumdar is a recent graduate of Azim Premji University, Bengaluru, with a master's degree in Development.

Other stories by Diya Majumdar
Editor : Swadesha Sharma

Swadesha Sharma is a researcher and Content Editor at the People's Archive of Rural India. She also works with volunteers to curate resources for the PARI Library.

Other stories by Swadesha Sharma
Editor : Riya Behl

Riya Behl is a multimedia journalist writing on gender and education. A former Senior Assistant Editor at People’s Archive of Rural India (PARI), Riya also worked closely with students and educators to bring PARI into the classroom.

Other stories by Riya Behl
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique