شبیر حسین بھٹ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’جب میں نے پہلی بار ہانگل کو دیکھا، تو میں اتنا حیران ہو گیا تھا کہ اسے بس ٹکٹکی لگائے دیکھتا ہی رہ گیا۔‘‘ اس کے بعد وہ انتہائی معدومیت کے شکار ہرن (سروَس ایلافس ہانگلو) کو دوبارہ دیکھنے کے لیے بار بار اس پارک میں جانے لگے۔ یہ بنیادی طور پر ایک کشمیری جانور ہے۔

شبیر کہتے ہیں کہ اس واقعہ کو تقریباً ۲۰ سال گزر چکے ہیں اور آج بھی ۱۴۱ مربع کلومیٹر میں پھیلے اس پارک کے جانوروں، پرندوں، درختوں اور پھولوں کے تئیں ان کی دلچسپی کم نہیں ہوئی ہے۔ ’’یہ ہانگل اور ہمالیائی سیاہ بھالو ہی ہیں، جنہوں نے مجھے قدرت کی جانب متوجہ کیا ہے۔‘‘

پارک میں لوگ انہیں پیار سے ’ڈاچی گام کا انسائیکلوپیڈیا‘ کہتے ہیں۔ وہ پاری کو بتاتے ہیں، ’’میں نے اب تک اس علاقے میں ۴۰۰ سے زیادہ پودوں کی انواع، ۲۰۰ سے زیادہ پرندوں کی انواع اور اس علاقے میں پائے جانے والے تقریباً تمام جانوروں کی انواع کو دیکھا ہے۔‘‘ ہانگل کے علاوہ، اس پارک میں مُشک آہو (کستوری ہرن)، ہمالیائی بھورے بھالو، برفانی تیندوے اور سنہرے باز بھی پائے جاتے ہیں۔

PHOTO • Muzamil Bhat
PHOTO • Muzamil Bhat

بائیں: شبیر، سیاحوں کے ایک گروپ کو جانور دکھانے کے لیے ڈاچی گام نیشنل پارک کے گھنے جنگلوں کے اندر لے جا رہے ہیں۔ دائیں: پارک میں سیاح

PHOTO • Muzamil Bhat
PHOTO • Muzamil Bhat

بائیں: ڈاچی گام پارک میں بلوط کے درختوں کے درمیان مادہ ہانگل کا ایک جھنڈ۔ دائیں: ڈگوَن ندی، مارسر جھیل سے ہوتے ہوئے بہتی ہے اور یہاں کے لوگوں کے لیے پانی کا ذریعہ ہے

شروع میں، شبیر اس پارک میں سیاحوں کے لیے چلنے والے بیٹری رکشہ کے ڈرائیور کے طور پر کام کرتے تھے اور بعد میں فطرت پسند (نیچرلسٹ) بنے۔ جیسے جیسے فطرت کے بارے میں ان کے علم میں اضافہ ہوتا گیا، وہ گائیڈ بن گئے۔ اب وہ اسی شکل میں لوگوں کے درمیان کافی مشہور ہیں اور ۲۰۰۶ میں وہ ریاست کے محکمہ جنگلاتی حیات کے ملازم بن گئے۔

ویسے تو ہانگل کبھی زنسکار کے پہاڑوں میں پائے جاتے تھے، لیکن وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کی ۲۰۰۹ کی ایک رپورٹ کے مطابق، شکار، غیر قانونی شکار اور پناہ گاہوں کی کمی کے سبب ان کی آبادی ۱۹۴۷ کی تخمینی ۲۰۰۰ کی تعداد سے گھٹ کر تقریباً ۲۰۰-۱۷۰ ہو گئی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر ڈاچی گام نیشنل پارک اور وادی کشمیر تک سمٹ کر رہ گئے ہیں۔

شبیر، سرینگر کے نشاط علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، جو اس پارک سے تقریباً ۱۵ کلومیٹر دور ہے۔ ان کی فیملی میں ان کے والدین، بیوی اور دو بچے ہیں۔ وہ صبح سے شام تک پارک میں سیاحوں اور جنگلاتی حیات کے شائقین کے ساتھ رہتے ہیں۔ انہوں نے پاری کو بتایا، ’’اگر کوئی ڈاچی گام پارک کی سیر کرنا چاہتا ہے، تو دن میں کسی بھی وقت آ سکتا ہے، لیکن اگر جانوروں کو دیکھنا چاہتے ہیں تو، یا تو صبح جلدی آنا ہوگا یا پھر شام کو غروب آفتاب سے پہلے۔‘‘

PHOTO • Muzamil Bhat

پارک میں ایک بالغ مادہ ہانگل

PHOTO • Muzamil Bhat

ندی کی طرف آتا ایک کشمیری ہانگل

PHOTO • Muzamil Bhat

پارک میں موجود ہمالیائی سیاہ بھالو

PHOTO • Muzamil Bhat
PHOTO • Muzamil Bhat

بائیں: ہمالیہ کے بھورے لنگور۔ دائیں: ڈاچی گام نیشنل پارک میں ایک درخت پر پیلی گردن والا نیولا

PHOTO • Muzamil Bhat

سیاحوں کو پارک میں رہنے والے پرندوں کے بارے میں بتاتے شبیر

PHOTO • Muzamil Bhat
PHOTO • Muzamil Bhat

بائیں: سلطانہ بلبل۔ دائیں: سرمئی کھنجن پرندہ

PHOTO • Muzamil Bhat
PHOTO • Muzamil Bhat

بائیں: لمبی دُم والا شرک پرندہ۔ دائیں: کثیر رنگی لافنگ تھرش

مترجم: محمد قمر تبریز

Muzamil Bhat

Muzamil Bhat is a Srinagar-based freelance photojournalist and filmmaker, and was a PARI Fellow in 2022.

Other stories by Muzamil Bhat
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique