روکھا بائی پاڑوی ساڑی کے اوپر اپنی انگلیاں پھیرنے سے خود کو روک نہیں پاتیں۔ ان سے گفتگو کے دوران مجھے احساس ہوتا ہے کہ وہ یادوں کے گلیاروں سے ہوتے ہوئے کسی اور دنیا میں چلی گئی ہیں۔

’’یہ میری شادی کی ساڑی ہے،‘‘ وہ بھیل زبان میں بتاتی ہیں، جو اکرانی تعلقہ کے پہاڑی اور قبائلی علاقے میں بولی جانے والی ایک قبائلی زبان ہے۔ چارپائی پر بیٹھی ۹۰ سالہ بزرگ خاتون اپنی گود میں رکھی ہلکی گلابی رنگ اور سنہرے بارڈر والی سوتی ساڑی پر دھیرے سے ہاتھ ہھیرتی ہیں۔

وہ بچوں کی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہتی ہیں، ’’میرے والدین نے اپنی محنت کی کمائی سے اسے خریدا تھا۔ یہ ساڑی میرے پاس ان کی یادگار ہے۔‘‘

روکھا بائی کی پیدائش مہاراشٹر کے نندربار ضلع کے اکرانی تعلقہ کے ایک گاؤں میں ہوئی تھی۔ یہ علاقہ ہمیشہ سے ان کا مسکن رہا ہے۔

وہ بتاتی ہیں، ’’میرے والدین نے میری شادی پر ۶۰۰ روپے خرچ کیے تھے۔ اس وقت یہ بہت بڑی رقم تھی۔ انہوں نے پانچ روپے کے کپڑے خریدے تھے، جن میں یہ شادی کی ساڑی بھی شامل تھی۔‘‘ تاہم زیورات ان کی پیاری والدہ نے گھر پر ہی بنائے تھے۔

’’وہاں کوئی سنار یا دستکار نہیں تھا۔ میری ماں نے چاندی کے ’اصلی‘ سکوں سے میرے لیے ہار بنایا تھا۔ انہوں نے سکوں میں سراخ کرکے انہیں گودھڑی [ہاتھ سے تیار کی گئی بیڈ شیٹ] کے موٹے دھاگے میں پرو دیا تھا،‘‘ روکھابائی اپنی ماں کی کوششوں کو یاد کرکے ہنستے ہوئے کہتی ہیں۔ پھر وہ دہراتی ہے، ’’چاندی کے سکے، ہاں۔ آج کے کاغذی نوٹ نہیں۔‘‘

Left and right: Rukhabai with her wedding saree
PHOTO • Jyoti Shinoli
Left and right: Rukhabai with her wedding saree
PHOTO • Jyoti Shinoli

بائیں اور دائیں: اپنی شادی کی ساڑی کے ساتھ روکھا بائی

وہ بتاتی ہیں کہ ان کی شادی دھوم دھام سے ہوئی تھی، اور اس کے فوراً بعد نئی دلہن موجرہ سے چار کلومیٹر دور اپنے سسرالی گاؤں سُروانی چلی گئی تھیں۔ یہ وہی وقت ہے جہاں سے ان کی زندگی نے ایک نیا موڑ لینا شروع کیا تھا۔ اب ان کے دن آسان اور خوشگوار نہیں رہے تھے۔

وہ کہتی ہیں، ’’اگرچہ یہ میرے لیے اجنبی جگہ تھی، لیکن میں نے خود کو باور کرایا کہ مجھے اپنی باقی زندگی وہیں گزارنی ہے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔ ’’میری ماہواری (حیض) شروع ہو گئی تھی، اس لیے مجھے بالغ سمجھ لیا گیا تھا،‘‘ نوے کی دہائی میں پہنچ چکی یہ خاتون کہتی ہیں۔

’’لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ شادی کیا ہوتی ہے، شوہر کیا ہوتا ہے۔‘‘

تب وہ بچی ہی تھیں؛ اتنی کم عمر کہ ان سے توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ سہیلیوں کے ساتھ کھیلیں۔ تاہم، کم عمری میں شادی نے انہیں کام کرنے اور اپنی بساط سے زیادہ مشکلات برداشت کرنے پر مجبور کر دیا۔

’’میں ساری رات مکئی اور باجرہ پیستی تھی۔ مجھے یہ کام پانچ لوگوں (ساس، سسر، نند، اپنے شوہر اور خود) کے لیے کرنا پڑتا تھا۔

یہ تھکا دینے والا کام تھا؛ ان کی کمر میں مسلسل درد رہتا تھا۔ ’’مِکسر اور ملوں کی وجہ سے اب چیزیں بہت آسان ہو گئی ہیں۔‘‘

ان دنوں وہ جن تکلیفوں سے گزر رہی تھیں، اس کے بارے میں کسی سے بات کرنا مشکل تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کی سننے والا کوئی نہیں تھا۔ اس کے باوجود، روکھا بائی کو ایک غیرمتوقع ساتھی ملا گیا: ایک بے جان شے۔ وہ پرانے دھاتی بکسے میں رکھے مٹی کے برتن نکالتی ہیں۔ ’’میں نے اپنا بہت زیادہ وقت ان کے ساتھ تمام اچھی اور بری چیزوں کے بارے میں سوچتے ہوئے چولہے پر گزارا ہے۔ یہ برتن مجھے صبر سے سنتے تھے۔‘‘

Left: Old terracotta utensils Rukhabai used for cooking.
PHOTO • Jyoti Shinoli
Right: Rukhabai sitting on the threshold of her house
PHOTO • Jyoti Shinoli

بائیں: پرانے ٹیراکوٹا برتن جن کا استعمال روکھا بائی کھانا پکانے کے لیے کرتی تھیں۔ دائیں: روکھا بائی اپنے گھر کی دہلیز پر بیٹھی ہیں

یہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے۔ دیہی مہاراشٹر کے بہت سے علاقوں کی خواتین گھریلو آٹا چکی میں اپنا رازدار تلاش کر لیتی ہیں۔ روزانہ آٹا پیسنے کے دوران ہر عمر کی خواتین اپنے شوہروں، بھائیوں اور بیٹوں کی سماعت سے دور باورچی خانے کے اس آلے پر خوشی، غم اور دل شکستگی کے گیت گاتی ہیں۔ آپ یہاں پر آٹا چکی پر پاری سیریز کی مزید رپورٹیں پڑھ سکتے ہیں۔

روکھا بائی باکس کی چیزیں الٹنے پلٹنے کے دوران اپنے جوش و خروش کو روک نہیں پاتیں۔ ’’یہ ڈوی ہے (کدو سے بنا کف گیر کی شکل کا ایک برتن)۔ ہم پہلے اسی سے پانی پیتے تھے،‘‘ وہ عملی طور پر مظاہرہ کر کے ہمیں بتاتی ہیں۔ یہ آسان عمل انہیں ہنسانے کے لیے کافی ہے۔

اپنی شادی کے ایک سال کے اندر ہی روکھا بائی ماں بن گئی تھیں۔ اس وقت تک وہ یہ سمجھ چکی تھیں کہ گھر اور کھیتی کے کاموں کو کیسے نمٹانا ہے۔

جب بچے کی پیدائش ہوئی، تو گھر میں مایوسی چھا گئی۔ ’’گھر کا ہر فرد لڑکا چاہتا تھا، لیکن لڑکی پیدا ہوئی۔ ’’اس کو لے کر میں پریشان نہیں ہوئی، کیونکہ صرف مجھے ہی بچے کی دیکھ بھال کرنی تھی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔

Rukhabai demonstrates how to drink water with a dawi (left) which she has stored safely (right) in her trunk
PHOTO • Jyoti Shinoli
Rukhabai demonstrates how to drink water with a dawi (left) which she has stored safely (right) in her trunk
PHOTO • Jyoti Shinoli

روکھا بائی ڈوی (بائیں) سے پانی پینے کا عملی طور پر مظاہرہ کرتی ہیں۔ ڈوی کوانہوں نے اپنے بکسے میں محفوظ طریقے سے (دائیں) رکھا ہوا ہے

اس کے بعد روکھا بائی کی پانچ بیٹیاں ہوئیں۔ ’’لڑکے کے لیے بہت زیادہ ضد تھی۔ آخرکار میں نے انہیں دو بیٹے دیے۔ تب میں آزاد ہوئی،‘‘ وہ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے یاد کرتی ہیں۔

آٹھ بچوں کو جنم دینے کے بعد ان کا جسم بہت کمزور ہو گیا تھا۔ ’’کنبہ بڑھ گیا تھا۔ لیکن ہمارے دو گُنٹھا [تقریباً ۲۰۰۰ مربع فٹ سے زیادہ] کھیت کی پیداوار نہیں بڑھی تھی۔ کھانے کی کمی تھی اور عورتوں اور لڑکیوں کا حصہ بہت ہی کم تھا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ میری کمر میں مسلسل درد رہتا ہے۔‘‘ زندہ رہنے کے لیے آمدنی میں اضافہ ضروری تھا۔ ’’درد کے باوجود، میں اپنے شوہر موتیا پاڑوی کے ساتھ روزانہ ۵۰ پیسے کی مزدوری پر سڑک بنانے کا کام کرتی تھی۔‘‘

آج روکھا بائی اپنے خاندان کی تیسری نسل کو اپنے سامنے پروان چڑھتے ہوئے دیکھ رہی ہیں۔ ’’یہ ایک نئی دنیا ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں، اور تسلیم کرتی ہیں کہ اس تبدیلی کا کچھ بہتر نتیجہ برآمد ہوا ہے۔

جیسے ہی ہماری گفتگو اپنے اختتام کو پہنچتی ہے، وہ موجودہ دور کی ایک عجیب بات بتاتی ہیں: ’’پہلے اپنے ماہواری کے دوران ہم ہر جگہ جایا کرتے تھے۔ اب خواتین کو باورچی خانہ کے اندر جانے کی اجازت نہیں ہوتی ہے،‘‘ وہ بظاہر غصے سے کہتی ہیں۔ ’’دیوتاؤں کی تصویریں گھر کے اندر آ گئیں، لیکن عورتیں گھر کے باہر کر دی گئیں۔‘‘

مترجم: شفیق عالم

Jyoti Shinoli is a Senior Reporter at the People’s Archive of Rural India; she has previously worked with news channels like ‘Mi Marathi’ and ‘Maharashtra1’.

Other stories by Jyoti Shinoli
Editor : Vishaka George

Vishaka George is Senior Editor at PARI. She reports on livelihoods and environmental issues. Vishaka heads PARI's Social Media functions and works in the Education team to take PARI's stories into the classroom and get students to document issues around them.

Other stories by Vishaka George
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam