میں نے اپنی پوری زندگی مویشیوں کی دیکھ بھال میں گزار دی۔ ہمارے یہاں رائیکاؤں کا یہی کام ہے: ہم مویشی پالتے ہیں۔

میرا نام سیتا دیوی ہے اور میں ۴۰ سال کی ہوں۔ ہماری برادری تاریخی طور پر مویشی پروری کرتی آئی ہے۔ پہلے ہم عام طور پر صرف اونٹ پالتے تھے، لیکن اب بھیڑ، بکری، گائے اور بھینس بھی پالتے ہیں۔ ہم تارامگری بستی میں رہتے ہیں، جو راجستھان کے پالی ضلع کے جیتارن بلاک کے کُڑکی گاؤں سے ایک کلومیٹر دور ہے۔

میرے شوہر کا نام ہری رام دیواسی (۴۶ سالہ) ہے اور ہم اپنے دونوں بیٹوں – سوائی رام دیواسی اور جامتا رام دیواسی اور ان کی بیویوں، بالترتیب آچو دیوی اور سنجو دیوی کے ساتھ رہتے ہیں۔ آچو اور سوائی کا ۱۰ مہینے کا ایک بیٹا ہے۔ ان کے علاوہ، میری ماں شَیری دیوی (۶۴ سالہ) بھی ہمارے ساتھ ہی رہتی ہیں۔

میرا دن صبح تقریباً ۶ بجے بکری کے دودھ سے بنی چائے سے شروع ہوتا ہے۔ چائے یا تو میں بناتی ہوں یا پھر بہوئیں۔ اس کے بعد ہم کھانا بنا کر باڑے (جانوروں کو باندھنے کی جھونپڑی) کی طرف نکل جاتے ہیں، جہاں ہم اپنی بھیڑ بکریاں رکھتے ہیں۔ وہاں میں جانوروں کی پیشاب اور گوبر وغیرہ کو صاف کرتی ہوں، اور انہیں دیگر استعمال کے لیے اکٹھا کرکے رکھ دیتی ہوں۔

باڑہ، ہمارے گھر کے ٹھیک پیچھے ہے، جہاں ہماری ۶۰ بھیڑ بکریاں رہتی ہیں۔ اس کے اندر ایک چھوٹا سا گھیرا ہے، جس میں ہم میمنوں اور چھوٹے بچوں کو رکھتے ہیں۔ باڑے کے ایک کنارے پر ہم گوار (پھلی) کے ڈنٹھل کا سوکھا چارہ رکھتے ہیں۔ بھیڑ بکریوں کے علاوہ، ہمارے پاس دو گائیں بھی ہیں اور گھر کے داخلی دروازہ کے پاس ان کا ایک الگ باڑہ ہے۔

Left: Sita Devi spreads the daali around for the animals.
PHOTO • Geetakshi Dixit
Sita's young nephew milks the goat while her daughter-in-law, Sanju and niece, Renu hold it
PHOTO • Geetakshi Dixit

بائیں: سیتا دیوی جانوروں کے لیے ڈالی (ٹہنیاں) پھیلا رہی ہیں۔ دائیں: ان کا بھتیجہ بکری کا دودھ نکال رہا ہے، جب کہ ان کی بہو سنجو اور بھتیجی رینو، بکری کو پکڑے ہوئے ہیں

اگر ہمیں کیرانے کا سامان لینا ہو یا پھر اسپتال، بینک، اسکول جانا ہو یا کوئی اور کام ہو، تو ہمیں کُڑکی گاؤں جانا پڑتا ہے۔ پہلے ہم اپنے جانوروں کے ساتھ جمنا جی (یمنا ندی) تک جاتے تھے اور راستے میں ڈیرہ ڈال دیتے تھے۔ لیکن اب، مویشی کم ہو گئے ہیں اور اتنی دور جانے کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ، اب ہماری عمر بھی ڈھل رہی ہے، اس لیے ہم جانوروں کو چرانے کے لیے بہت دور تک نہیں لے جاتے۔

باڑہ صاف کرنے کے فوراً بعد، میری بہو سنجو بکریوں کا دودھ نکالتی ہے۔ چھوٹی عمر کے لوگوں کو دودھ نکالتے وقت کسی کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے، جو جانوروں کو پکڑ کر رکھ سکیں۔ بکریاں بہت چالاک ہوتی ہیں، وہ ان کی پکڑ سے نکل جاتی ہیں۔ دودھ نکالتے وقت میں یا میرے شوہر اس کی مدد کرتے ہیں یا خود سے دودھ نکالتے ہیں، کیوں کہ جانور ہمیں اچھی طرح پہچانتے ہیں۔

میرے شوہر ہی جانوروں کو چرانے لے جاتے ہیں۔ ہم نے پاس کے ایک کھیت کو کرایے پر لیا ہے اور کچھ درخت بھی خریدے ہیں، جہاں ہمارے جانور ان کے ٹھونٹھ کھانے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، میرے شوہر ان کے لیے درختوں سے ٹہنیاں کاٹتے ہیں اور ان کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ میرے جانوروں کو کھیجری (پروسوپِس سنیریریا) کی پتیاں کھانا بہت پسند ہے۔

ہم اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ جانوروں کے بچے جھنڈ سے باہر نہ نکل جائیں، کیوں کہ یہ ان کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ اس لیے، باڑے کے اندر اور باہر ہم جانوروں کو راستہ دکھانے کے لیے الگ الگ قسم کی آواز (پھپھکارنا، کِڑکِڑ جیسی) نکالتے ہیں۔ کبھی کبھی اگر کوئی بچہ اپنی ماں کے پیچھے پیچھے باہر چلا جاتا ہے، تو ہم اسے اٹھا کر اندر لے آتے ہیں۔ جانوروں کو باڑے سے نکالنے کے بعد انہیں اندر جانے سے روکنے کے لیے، ہم میں سے کوئی ایک باڑے کے دروازے پر کھڑا ہو جاتا ہے اور ہاتھ سے اشارہ کرکے اور آواز نکال کر انہیں باہر کا راستہ دکھاتا ہے اور باڑے میں جانے سے روکتا ہے۔ ان سب میں دس منٹ لگ جاتے ہیں اور پھر سارے جانور باہر نکل پڑتے ہیں۔

Left: Hari Ram Dewasi herds the animals out of the baada while a reluctant sheep tries to return to it
PHOTO • Geetakshi Dixit
Right: Sita Devi and her mother Shayari Devi sweep their baada to collect the animal excreta after the herd has left for the field
PHOTO • Geetakshi Dixit

بائیں: ہری رام دیواسی باڑے سے مویشیوں کو باہر کر رہے ہیں، جب کہ کچھ بھیڑیں واپس اندر جانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ دائیں: سیتا دیوی اور ان کی ماں شَیری دیوی جانوروں کے جھنڈ کے چراگاہ کے لیے نکلنے کے بعد، باڑے میں جا کر ان کے فضلے کو جھاڑو سے اکٹھا کر رہی ہیں

صرف انھیں مویشیوں کو باڑے میں چھوڑا جاتا ہے جنہوں نے یا تو حال ہی میں بچے کو جنم دیا ہو یا جو بیمار ہیں یا بہت چھوٹے ہیں۔ اس وقت باڑے میں کافی سکون ہوتا ہے۔ میں دوبارہ مویشیوں کا فضلہ اکٹھا کرتی ہوں اور انہیں گھر سے تقریباً ۱۰۰ میٹر دور ایک چھوٹی سی جگہ پر اکٹھا کرتی ہوں۔ یہاں ہم انہیں اکٹھا کرتے ہیں اور انہیں بیچتے ہیں۔ مویشیوں کا گوبر ایک بہترین کھاد ہوتا ہے۔ ہم سال میں تقریباً دو ٹرک کھاد بیچ دیتے ہیں۔ ہر ٹرک کے لیے ہمیں ۸ سے ۱۰ ہزار روپے مل جاتے ہیں۔

ہماری آمدنی کا بنیادی ذریعہ بھیڑوں کو فروخت کرنا ہے۔ موٹے طور پر، ایک بھیڑ کی قیمت ۱۲ سے ۱۵ ہزار روپے تک ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ، میمنے کی قیمت تقریباً ۶۰۰۰ روپے تک ہوتی ہے۔ ہم انہیں تب بیچتے ہیں، جب ہمیں پیسے کی فوری ضرورت ہو۔ تاجر انہیں بیچنے کے لیے آس پاس کے بازار کے علاوہ، دہلی کے بڑے مویشی بازاروں میں بھی لے جاتے ہیں۔

بھیڑ کی اون بھی ہمارے لیے آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہوا کرتی تھی، لیکن اب کہیں کہیں اون کی قیمت گھٹ کر دو روپے کلو ہو گئی ہے اور اب تو خریداروں کا ملنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔

جب میں مینگنی (فضلہ) پھینک کر لوٹتی ہوں، تو باڑے میں بھوک سے پریشان جانور میرا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر میں ان کے لیے ڈالی (ہری ٹہنیاں) لے کر آتی ہوں۔ سردیوں کے دوران، کئی بار میں انہیں نیمڑا (نیم) کھانے کو دیتی ہوں، اور بقیہ دنوں میں بورڈی (بیر) کی ٹہنیاں دیتی ہوں۔ اس کے علاوہ، میں کھیتوں میں جا کر جلاون کی لکڑیاں بھی اکٹھا کرتی ہوں۔

Left: Sheep and goats from Sita Devi’s herd waiting to go out to graze.
PHOTO • Geetakshi Dixit
Right: When Sita Devi takes the daali inside the baada, all the animals crowd around her
PHOTO • Geetakshi Dixit

بائیں: سیتا دیوی کے جھنڈ کی بھیڑ بکریاں چرنے کے لیے باہر جانے کا انتظار کر رہی ہیں۔ دائیں: جب سیتا دیوی ہری ڈالیوں کو باڑے میں لے کر جاتی ہیں، تو سبھی جانور ان کے چاروں طرف جمع ہو جاتے ہیں

اکثر، میرے شوہر اور بیٹے ہی ڈالیاں کاٹ کر لاتے ہیں، لیکن کبھی کبھی میں بھی لے آتی ہوں۔ گھر سے باہر کے زیادہ تر کام مرد ہی کرتے ہیں۔ پیڑ خریدنے، چراگاہ کو کرایے پر لینے، کھاد کی قیمتوں کا مول بھاؤ کرنے اور دوائیں لانے جیسے کام وہ ہی سنبھالتے ہیں۔ انہیں کھیتوں میں جانوروں کے جھنڈ کو کھلانے کے لیے پیڑوں کی ٹہنیاں بھی کاٹنی پڑتی ہیں، اور زخمی جانوروں کی دیکھ بھال بھی وہی کرتے ہیں۔

اگر کوئی جانور بیمار پڑ جاتا ہے، تو میں اس کی دیکھ بھال کرتی ہوں۔ اس کے علاوہ، گایوں کو سوکھا چارہ کھلاتی ہوں۔ ہم ان کے چارے میں باورچی خانہ سے بچا ہوا کھانا یا کچرا بھی ملا دیتے ہیں۔ اس کام میں میری ماں بھی میری مدد کرتی ہیں۔ وہ گاؤں جا کر راشن لانے میں بھی ہماری مدد کرتی ہیں۔

جانوروں کو کھلانے کے بعد، ہم خود کھانے بیٹھتے ہیں۔ ہم کھانے میں عام طور پر باجرا یا گیہوں، مونگ یا دوسری دال یا کوئی موسمی سبزی اور بکری کے دودھ کی دہی کھاتے ہیں۔ ہمارے پاس دو بیگھہ زمین ہے، جس پر ہم اپنے لیے مونگ اور باجرا اگاتے ہیں۔

کُڑکی اور ہماری بستی کی دوسری عورتوں کی طرح، میں بھی منریگا کے کام والی جگہوں پر جاتی ہوں۔ ہم منریگا کے کام سے ہفتہ میں تقریباً دو ہزار روپے کماتے ہیں اور اس سے ہمیں گھر کا خرچ چلانے میں مدد ملتی ہے۔

Left: Sita Devi gives bajra to the lambs and kids in her baada
PHOTO • Geetakshi Dixit
Right: Sita Devi walks towards the NREGA site with the other women in her hamlet
PHOTO • Geetakshi Dixit

بائیں: سیتا دیوی اپنے باڑے میں بھیڑوں اور ان کے بچوں کو کھانے کے لیے باجرا دے رہی ہیں۔ دائیں: سیتا دیوی اپنی بستی کی دوسری خواتین کے ساتھ منریگا کے کام والی جگہ کی طرف جا رہی ہیں

اس کے بعد، میرے آرام کا وقت ہوتا ہے، اور کپڑے اور برتن دھونے جیسے گھر کے دیگر کام بھی نمٹاتی ہوں۔ اکثر، آس پاس کے گھروں کی عورتیں ملنے آ جاتی ہیں، اور ہم ساتھ بیٹھ کر کام کرتے ہیں۔ کئی بار ٹھنڈ کے دنوں میں، ہم کھیچیا اور رابوڑی (مکئی کے آٹے کو چھاچھ میں پکا کر بنائے گئے گول پاپڑ) بناتے ہیں۔

بہت سے نوجوانوں کے پاس خانہ بدوش چرواہوں کی زندگی سے جڑے کاموں کا کوئی ضروری ہنر نہیں ہے۔ میں چھوٹے بچوں کو اچھی طرح پڑھانے کے لیے کہتی ہوں۔ ایک وقت ایسا بھی آئے گا، جب شاید ہمیں اپنے سارے جانوروں کو فروخت کر دینا پڑے گا اور پھر انہیں کام تلاش کرنا پڑے گا۔ اب زمانہ کافی بدل گیا ہے۔

میں شام کو سبھی کے لیے کھانا بناتی ہوں اور جانوروں کے لوٹنے کا انتظار کرتی ہوں۔ غروب آفتاب کے بعد، مویشیوں کے لوٹنے کے ساتھ ہی باڑے میں پھر سے جان لوٹ آتی ہے۔ اس کے بعد، میں دن میں آخری بار مویشیوں کے دودھ نکالتی ہوں، انہیں سوکھا چارہ دیتی ہوں اور پھر میرا دن ختم ہو جاتا ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Student Reporter : Geetakshi Dixit

Geetakshi Dixit is an M.A. Development student from Azim Premji University, Bangalore. Her interest in the commons and pastoral livelihoods led her to reporting this story as part of her course’s final year research project.

Other stories by Geetakshi Dixit
Editor : Riya Behl

Riya Behl is a multimedia journalist writing on gender and education. A former Senior Assistant Editor at People’s Archive of Rural India (PARI), Riya also worked closely with students and educators to bring PARI into the classroom.

Other stories by Riya Behl
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique