’’جدوجہد آزادی کے دوران بھی ایسا وقت آیا تھا، جب چیزیں دھندلی نظر آ رہی تھیں۔ ہم سے کہا گیا کہ آپ جیت نہیں سکتے۔ آپ دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کے خلاف لڑ رہے ہیں…لیکن ہم نے کبھی ان چیلنجز اور دھمکیوں پر توجہ نہیں کی اور لڑتے رہے۔ اس لیے ہم آزاد ہیں۔‘‘

آر نلّ کنّو

*****

’’پیلے باکس کے لیے ووٹ کریں!‘‘ نعرہ گونجنے لگا۔ ’’مقدس منجال پیٹی کا انتخاب کریں!‘‘

برطانوی حکومت کے ماتحت ۱۹۳۷ میں ہوئے صوبائی انتخابات کے دوران یہ مدراس پریزیڈنسی کا ماحول تھا۔

یہ نعرے ڈھول بجاتے نوجوانوں کے گروپ لگا رہے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر ووٹ ڈالنے کی قانونی عمر سے چھوٹے تھے۔ حالانکہ، اگر ان کی عمر زیادہ ہوتی، تو بھی وہ ووٹ نہیں ڈال سکتے تھے۔ تمام بالغوں کے پاس ووٹ ڈالنے کا حق نہیں تھا۔

حق رائے دہی پر لگی پابندیوں سے زمین و جائیداد کے مالکان، اور دیہی علاقوں کے امیر کسانوں کا فائدہ تھا۔

حق رائے دہی سے محروم نوجوانوں کا زور و شور سے پرچار کرتے دیکھنا کوئی نئی بات نہیں تھی۔

جولائی ۱۹۳۵ کی شروعات میں، جسٹس – اخبار اور جسٹس پارٹی کے ایک حصہ – نے ذلت آمیز الفاظ کے ساتھ، اور خلاف ورزی کرتے ہوئے تبصرہ شائع کیا:

آپ کسی بھی گاؤں میں جائیں، یہاں تک کہ دور دراز کے علاقوں میں بھی۔ آپ کو کانگریس کی کھادی کی وردی اور گاندھی ٹوپی پہنے اور ترنگے جھنڈے اٹھائے شریر نوجوانوں کے گروپ ضرور ملیں گے۔ ان میں سے تقریباً ۸۰ فیصد کارکن اور رضا کار، شہری اور دیہی علاقوں کے حق رائے دہی سے محروم، بے جائیداد، بے روزگار نوجوان ہیں…

سال ۱۹۳۷ میں، ان نوجوانوں میں آر نلّ کنّو بھی تھے اور اس وقت ان کی عمر محض ۱۲ سال رہی ہوگی۔ اب ۲۰۲۲ میں، وہ ۹۷ سال کے ہو چکے ہیں اور ہمیں اُس دور کے بارے میں بتا رہے ہیں اور اس بات پر ہنستے ہیں کہ وہ اُن ’شریر نوجوانوں‘ میں سے ایک تھے۔ وہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں، ’’اس وقت جس کے پاس زمین تھی اور جو لوگ دوس روپیے یا اس سے زیادہ کا ٹیکس ادا کرتے تھے، صرف وہی ووٹ دے سکتے تھے۔‘‘ سال ۱۹۳۷ کے انتخابات میں حق رائے دہی کی تھوڑی بہت توسیع دیکھی گئی۔ وہ کہتے ہیں، لیکن ’’ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ۲۰-۱۵ فیصد سے زیادہ بالغوں کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا ہو۔ اور کسی بھی انتخابی حلقہ میں، زیادہ سے زیادہ ایک ہزار یا بہت زیادہ ہوا تو دو ہزار لوگوں نے ووٹ ڈالا ہو۔‘‘

R. Nallakannu's initiation into struggles for justice and freedom began in early childhood when he joined demonstrations of solidarity with the mill workers' strike in Thoothukudi
PHOTO • M. Palani Kumar

آر نلّ کنّو بہت چھوٹی عمر میں ہی آزادی اور انصاف کے لیے جاری جدوجہد میں کود پڑے تھے۔ توتوکوڈی میں جب مل مزدوروں نے ہڑتال کر دی تھی، تب وہ ان کی حمایت میں مظاہرے میں شامل ہوئے تھے

نلّ کنّو کی پیدائش شری ویکنٹھم میں ہوئی تھی، پھر وہ ترونیل ویلی ضلع میں رہنے لگے۔ آج، شری ویکنٹھم کا تعلق تمل ناڈو کے توتوکوڈی ضلع (جسے ۱۹۹۷ تک توتوکورین کہا جاتا تھا) سے ہے۔

حالانکہ، نلّ کنّو بہت کم عمر میں ہی تحریکوں میں سرگرم ہو گئے تھے۔

’’بلکہ جب میں بچہ تھا، تبھی سے۔ میرے شہر کے پاس توتوکوڈی میں مل مزدوروں نے کام بند کر دیا۔ وہ مل ہاروے مل گروپ کا حصہ تھا۔ بعد میں، اس ہڑتال کو پنچ لئی [کاٹن مل] مزدوروں کی ہڑتال کے نام سے جانا جانے لگا۔

’’اُس وقت، ان مزدوروں کی مدد کے لیے ہمارے شہر کے ہر گھر سے چاول جمع کیا جاتا تھا اور توتوکوڈی میں ہڑتال پر بیٹھے کنبوں تک بکسے میں ڈال کر پہنچایا جاتا تھا۔ ہم جیسے چھوٹے لڑکے ہی ادھر ادھر بھاگ کر، چاول جمع کرنے کا کام کرتے تھے۔‘‘ ویسے تو غریبی بہت تھی، ’’لیکن ہر گھر سے کچھ نہ کچھ تعاون کیا جاتا تھا۔ میں اس وقت صرف ۵ یا ۶ سال کا تھا، اور مزدوروں کی جدوجہد کے ساتھ اس یکجہتی کا مجھ پر بہت گہرا اثر پڑا۔ اسی کا اثر تھا کہ کم عمر میں ہی سیاسی سرگرمیوں میں شامل ہونے کی عادت ہو گئی۔‘‘

ہم نے ۱۹۳۷ کے انتخابات کی بات پھر سے چھیڑی اور پوچھا: منجال پیٹی یا پیلے باکس کے لیے ووٹ ڈالنے کا کیا مطلب تھا؟

وہ بتاتے ہیں، ’’تب مدراس میں خاص طور پر دو پارٹیاں ہی تھیں۔ کانگریس اور جسٹس پارٹی۔ انتخابی نشان کی بجائے بیلیٹ باکس کے رنگ سے پارٹیوں کی پہچان ہوتی تھی۔ کانگریس، جس کے لیے ہم نے اس وقت پرچار کیا تھا، اسے ایک پیلا باکس دیا گیا تھا۔ جسٹس پارٹی کو پچّئی پیٹی [سبز باکس] دیا گیا تھا۔ اس زمانے میں اس سے ووٹروں کو یہ پہچاننے میں آسانی ہوتی تھی کہ وہ کس پارٹی کی حمایت کرتے ہیں۔‘‘

اور ہاں، اس دور میں بھی انتخابات میں بہت سے رنگ نظر آتے تھے اور ڈراما ہوتا تھا۔ دا ہندو لکھتا ہے کہ ’’دیوداسی کمپینر تنجاوُر کمو کنّ مل…تمام ووٹروں کو ’سونگھنی کے ڈبے‘ پر ووٹ ڈالنے کے لیے آمادہ کریں گی!‘‘ اس وقت سونگھنی [تمباکو] کے ڈبے سنہرے یا پیلے رنگ کے ہوتے تھے۔ ’دا ہندو‘ نے بھی قارئین کے لیے ’پیلے باکس کو بھریں‘ عنوان سے خبر چلائی تھی۔

نلّ کنّو کہتے ہیں، ’’ظاہر ہے کہ میں صرف ۱۲ سال کا تھا، اس لیے ووٹ نہیں ڈال سکا۔ لیکن میں نے پرچار میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔‘‘ تین سال بعد، وہ انتخاب کے علاوہ سیاسی تحریکوں میں بھی شامل ہونے لگے۔ اور پرائی [ایک قسم کا ڈھول] بجانے اور نعرے لگانے لگے۔‘‘

Nallakannu with T. K. Rangarajan, G. Ramakrishnan and P. Sampath of the CPI(M). Known as ‘Comrade RNK’, he emerged as a top leader of the Communist movement in Tamil Nadu at quite a young age
PHOTO • PARI: Speical arrangement

سی پی آئی (ایم) کے ٹی کے رنگ راجن، جی رام کرشنن اور پی سمپت کے ساتھ نلّ کنّو۔ ’کامریڈ آر این کے‘ کے نام سے مشہور نلّ کنّو کافی کم عمر میں تمل ناڈو کی کمیونسٹ تحریک کے سرکردہ قائد کے طور پر ابھرے تھے

حالانکہ، وہ اب کانگریس کی حمایت نہیں کرتے تھے۔ اپنے دوستوں کے ’کامریڈ آر این کے‘ یعنی نلّ کنّو کہتے ہیں، ’’میں ۱۵ سال کی عمر میں ہی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا [سی پی آئی] سے جُڑ گیا تھا۔‘‘ انہیں بالغ ہونے تک پارٹی کی باقاعدہ رکنیت حاصل ہونے کا انتظار کرنا پڑا۔ لیکن، آر این کے اگلی کچھ دہائیوں میں تمل ناڈو میں کمیونسٹ تحریک کے سب سے بڑے چہروں میں سے ایک بن کر ابھرے۔ اب وہ لوگوں سے سینگوڈی (لال جھنڈے) کی حمایت کرنے کے لیے کہتے، نہ کہ منجال پیٹی (پیلے باکس) کی۔ وہ اس میں اکثر کامیاب بھی ہوتے۔

*****

’’ترونیل ویلی میں جہاں ہم رہتے تھے، وہاں صرف ایک اسکول تھا اور لوگ اسے بس ’اسکول‘ ہی کہتے تھے۔ اس کا یہی نام تھا۔‘‘

نلّ کنّو، چنئی میں اپنے گھر میں بنے ایک چھوٹے سے آفس میں بیٹھ کر ہم سے بات کر رہے ہیں۔ ان کے بغل میں، ان کی میز کے ایک سائیڈ بورڈ پر بہت سے چھوٹے چھوٹے مجسمے اور چھوٹی مورتیاں رکھی ہوئی ہیں۔ ان کے ٹھیک بغل میں لینن، مارکس اور پیریار کی مورتیاں ہیں۔ ان کے پیچھے، امبیڈکر کی سنہرے رنگ کی ایک چھوٹی مورتی ہے، جو تمل انقلابی شاعر سبرامنیم بھارتی کی ایک بڑی پینٹنگ کے سامنے رکھی ہے۔ پیریار کی ایک چھوٹی مورتی کے پیچھے ایک اور پینٹنگ رکھی ہوئی ہے، جس میں بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو ایک ساتھ ہیں۔ اور ان سب کے آگے ایک کیلنڈر ٹنگا ہے، جو ہمیں ہدایت دے رہا ہے کہ ’پانی کم استعمال کریں‘۔

یہ تمام چیزیں ایک نظر میں نلّ کنّو کے نظریاتی سفر اور تاریخ کے بارے میں بتا دیتی ہیں۔ یہ تیسری بار ہے جب ہم ان کا انٹرویو لے رہے ہیں۔ آج سال ۲۰۲۲ کا ۲۵ جون ہے۔ اس سے پہلے ان کے ساتھ انٹرویو ۲۰۱۹ میں کیا گیا تھا۔

نلّ کنّو کہتے ہیں، ’’بھرتیار مجھے سب سے حوصلہ بخش شاعر لگتے تھے۔ لیکن ان کی نظموں اور گیتوں پر اکثر پابندی لگا دی جاتی تھی۔‘‘ وہ ان کے ایک غیر معمولی گیت ‘سُتنتیرا پلّو‘ (‘آزادی کا گیت‘) کی کچھ لائنوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’جہاں تک مجھے یاد ہے، اس گیت کو انہوں نے ۱۹۰۹ میں لکھا تھا۔ اور اس طرح وہ ۱۹۴۷ میں ہندوستان کے آزاد ہونے سے ۳۸ برس پہلے ہی آزادی کا جشن منا رہے تھے!‘‘

ہم ناچیں گے، ہم گائیں گے
کہ ہم نے آزادی کی خوشی حاصل کر لی
وہ دور گیا جو برہمن کو ’سر‘ بولیں،
وہ دور گیا جو گوروں کو ’مالک‘ بولیں،
وہ دور گیا جو لوٹنے والوں کو ہم سلام کریں،
وہ دور گیا جو مذاق اڑانے والوں کی ہم خدمت کریں،
اب ہر کونے سے خواہش جگی آزادی کی…

The busts, statuettes and sketches on Nallakanu’s sideboard tell us this freedom fighter’s intellectual history at a glance
PHOTO • P. Sainath

نلّ کنّو کے سائیڈ بورڈ پر رکھے چھوٹے مجسمے ، مورتیاں اور پینٹگنز ہمیں ایک نظر میں ان کی نظریاتی تاریخ بتا دیتی ہیں

نلّ کنّو کی پیدائش سے چار سال قبل، سال ۱۹۲۱ میں بھارتی کا انتقال ہو گیا۔ انہوں نے یہ گیت تو اس سے بھی کافی پہلے لکھا تھا۔ لیکن، ان کے اس گیت اور دیگر نظموں نے نلّ کنّو کو ان کی جدوجہد کے دنوں میں حوصلہ بخشا۔ جب وہ ۱۲ سال کے بھی نہیں ہوئے تھے، آر این کے کو بھارتی کے کئی گیت اور نظمیں یاد ہو گئی تھیں۔ انہیں آج بھی کچھ اشعار اور گیت کے الفاظ ہوبہو یاد ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں نے ان میں سے کچھ کو اسکول میں ہندی کے پنڈت پلّ ویسم چیٹّیار سے سیکھا تھا۔‘‘ اور ہاں، ان میں سے کوئی بھی نظم اسکول کے نصاب میں نہیں تھی۔

’’جب ایس ستیہ مورتی اسکول میں آئے، تو انہوں نے بھی مجھے بھرتیار کی لکھی ایک کتاب دی۔ یہ ان کا شعری مجموعہ ’تیسیا گیتم‘ تھا۔‘‘ ستیہ مورتی ایک مجاہد آزادی، سیاست داں اور فنون کے محافظ تھے۔ بھارتی، روس میں ۱۹۱۷ میں ہوئے اکتوبر انقلاب کی حمایت کرنے والے ابتدائی لوگوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے اس کی تعریف میں ایک گیت بھی لکھا تھا۔

بھارتی کے تئیں نلّ کنّو کی محبت اور آٹھ دہائیوں تک زرعی اور مزدور طبقوں کے لیے کی گئی جدوجہد کے ذریعے، نلّ کنّو کو سمجھنا آسان معلوم پڑتا ہے۔

نہیں تو، ’کامریڈ آر این کے‘ کی کہانی کو بیان کر پانا واقعی میں مشکل ہے۔ میں اب تک جتنے بھی لوگوں سے ملا ہوں، ان میں سے وہ سب سے زیادہ شرمیلے ہیں۔ وہ جتنی آسانی سے تاریخی واقعات، تحریکوں اور لڑائیوں کے بارے میں ہمیں بتاتے ہیں اتنی ہی شائستگی سے خود کو ان سب کا کریڈٹ دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ حالانکہ، ان میں سے کچھ واقعات اور تحریکوں میں انہوں نے اہم اور مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ لیکن وہ کبھی بھی ان تمام چیزوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے خود کو مرکز میں نہیں رکھتے۔

جی رام کرشنن کہتے ہیں، ’’کامریڈ آر این کے ہماری ریاست میں کسان تحریک کے بانی قائدین میں سے ایک تھے۔‘‘ جی آر‘، سی پی آئی (ایم) کی ریاستی ایگزیکٹو کے رکن ہیں۔ اس ۹۷ سالہ سی پی آئی لیڈر کا رول اور معاشرے میں ان کا تعاون قابل تعریف ہے۔ نوجوانی کے دنوں سے اب تک، ’’دہائیوں سے انہوں نے شری نواس راؤ کے ساتھ مل کر پوری ریاست میں کسان مجلسیں قائم کی ہیں۔ یہ مجلسیں آج بھی بائیں بازو کی مضبوطی کی بنیاد بنی ہوئی ہیں۔ اور پورے تمل ناڈو میں انہیں قائم کرنے کے لیے نلّ کنّو نے کڑی محنت کی اور پورے تمل ناڈو میں تمام مہم اور تحریکیں چلائیں۔‘‘

نلّ کنّو نے بہت محنت سے کسانوں کی لڑائی کو نوآبادیاتی مخالف تحریک کے ساتھ جوڑا۔ اس کے علاوہ، انہوں نے ان تحریکوں کو اس وقت تمل ناڈو کی سب سے اہم لڑائیوں میں سے ایک، زمینداری مخالف لڑائی کے ساتھ جوڑ دیا۔ سال ۱۹۴۷ کے بعد بھی زمینداری کا مسئلہ بنا رہا۔ وہ تب بھی اس کے خلاف لڑ رہے تھے، اور آج بھی لڑ رہے ہیں۔ اور ہر طرح کی آزادی کے لیے کوشاں ہیں۔ صرف برطانوی حکومت سے آزادی حاصل کرنا ان کا مقصد نہیں تھا۔

Left: Nallakannu with P. Sainath at his home on December 12, 2022 after the release of The Last Heroes where this story was first featured .
PHOTO • Kavitha Muralidharan
Right: Nallakannu with his daughter Dr. Andal
PHOTO • P. Sainath

بائیں: ’دا لاسٹ ہیروز‘ کے شائع ہونے کے بعد ۱۲ دسمبر، ۲۰۲۲ کو پی سائی ناتھ، نلّ کنّو کے ساتھ ان کے گھر پر۔ یہ کہانی پہلے اس کتاب میں شائع ہو چکی ہے۔ دائیں: نلّ کنّو اپنی بیٹی ڈاکٹر انڈال کے ساتھ

’’ہم رات میں ان سے لڑتے، ان پر پتھر پھینکتے۔ یہی ہمارے ہتھیار تھے اوراسی سے انہیں بھگاتے۔ کبھی کبھی تو جم کر مار پیٹ بھی ہو جاتی تھی۔ ۱۹۴۰ کی دہائی میں ہوئے احتجاجی مظاہروں کے دوران تو ایسا کئی بار ہوا۔ ہم اس وقت بھی نوجوانی کی عمر میں تھے، لیکن ہم ان سے لڑے۔ ہم نے دن رات اپنے ہتھیاروں کے ساتھ ان سے لڑائیاں لڑیں۔‘‘

کس سے لڑے؟ اور انہیں کہاں سے بھگایا؟

اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’میرے شہر کے پاس اُپّلم [نمک کے کھیت] سے۔ نمک کے سبھی کھیت انگریزوں کے قبضے میں تھے۔ وہاں کے مزدوروں کی حالت بہت خراب تھی، بالکل مل مزدوروں کی طرح ہی، جہاں دہائیوں قبل جدوجہد شروع ہو چکی تھی۔ احتجاجی مظاہرے ہوتے رہتے تھے اور انہیں عوام کی کافی ہمدردی اور حمایت حاصل تھی۔

’’لیکن ان سب کے درمیان، پولیس نے نمک کے کھیتوں کے مالکان کی دلالی کی۔ ایک بار جھڑپ کے دوران ایک سب انسپکٹر کی موت ہو گئی۔ یہاں تک کہ لوگوں نے وہاں کے تھانے پر حملہ بھی کر دیا تھا۔ اس کے بعد، گشتی پولیس ٹکڑی کی تشکیل کی گئی۔ وہ دن میں نمک کے کھیت کی طرف جاتے اور رات میں ہمارے گاؤوں کے ارد گرد ڈیرہ ڈال لیتے۔ اور ایسے میں ہماری ان سے جھڑپ ہو جاتی۔‘‘ یہ احتجاجی مظاہرے اور جھڑپیں چند سال یا اس سے زیادہ وقت تک چلتی رہیں۔ ’’لیکن، ۱۹۴۲ کے آس پاس اور ہندوستان چھوڑ دو تحریک کی شروعات ہوتے ہی ان میں تیزی آ گئی۔‘‘

Despite being one of the founders of the farmer's movement in Tamil Nadu who led agrarian and working class struggles for eight long decades, 97-year-old Nallakannu remains the most self-effacing leader
PHOTO • PARI: Speical arrangement
Despite being one of the founders of the farmer's movement in Tamil Nadu who led agrarian and working class struggles for eight long decades, 97-year-old Nallakannu remains the most self-effacing leader
PHOTO • M. Palani Kumar

تمل ناڈو میں کسان تحریک کے بانیوں میں سے ایک ہونے اور آٹھ دہائیوں تک کسان مزدوروں کی لڑائی کی قیادت کرنے کے باوجود، ۹۷ سالہ نلّ کنّو ایسے لیڈر ہیں جو کافی شرمیلے ہیں اور کریڈٹ لینا پسند نہیں کرتے

نوجوانی کی عمر میں نلّ کنّو کا ان تحریکوں میں حصہ لینا ان کے والد راماسامی تیور کو پسند نہیں تھا۔ تیور کے پاس ۵-۴ ایکڑ زمین تھی اور ان کے چھ بچے تھے۔ نوجوان آر این کے کو گھر پر اکثر سزا ملتی تھی۔ اور کبھی کبھی ان کے والد ان کی اسکول کی فیس دینے سے بھی منع کر دیتے تھے۔

’’لوگ ان سے کہتے – ’تیرا بیٹا پڑھتا نہیں ہے؟ وہ ہمیشہ باہر رہتا ہے اور شور مچاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ تمہارے ہاتھ سے نکل گیا ہے اور کانگریس میں شامل ہو گیا ہے‘۔‘‘ ہر مہینہ کی ۱۴ سے ۲۴ تاریخ کے درمیان ’اسکول‘ میں فیس ادا کی جاتی تھی۔ ’’اگر میں ان سے فیس مانگتا، تو وہ مجھ پر چیختے اور کہتے: ’تم اپنی پڑھائی چھوڑ دو اور کھیت پر اپنے چچا لوگوں کی مدد کرو‘۔‘‘

’’جیسے جیسے فیس ادا کرنے کا وقت قریب آتا، میرے والد کے کوئی نہ کوئی قریبی انہیں راضی کر لیتے اور انہیں بھروسہ دلاتے کہ اب میں ٹھیک ہو جاؤں گا اور پہلے جیسا کام نہیں کروں گا۔ تب کہیں جا کر وہ میری فیس ادا کرتے۔‘‘

حالانکہ، ’’انہوں نے جتنی زیادہ میرے طرز زندگی اور میرے طریقوں کی مخالفت کی، ان کے ساتھ میرا اختلاف اتنا ہی زیادہ بڑھتا چلا گیا۔ میں نے مدورئی کے دا ہندو کالج سے تمل میں انٹرمیڈیٹ تک کی تعلیم حاصل کی۔ یہ کالج ٹھیک ترونیل ویلی جنکشن کے پاس واقع تھا، لیکن اسے ہندو کالج کہا جاتا تھا۔ میں وے وہاں صرف دو سال تک پڑھائی کی۔ اس کے بعد میں نے پڑھائی چھوڑ دی۔‘‘

کیوں کہ وہ پورا وقت احتجاجی مظاہروں میں گزارنے لگے تھے۔ ویسے تو وہ اس کا کریڈٹ نہیں لینا چاہتے ہیں، لیکن یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ انہوں نے ایسے احتجاجی مظاہروں کی قیادت کرنی شروع کر دی تھی۔ آر این کے تیزی سے ایک نوجوان لیڈر کے طور پر ابھر رہے تھے۔ لیکن انہوں نے خود کے لیے کبھی بھی کسی اونچے عہدہ کا مطالبہ نہیں کیا اور جہاں تک ہو سکا اس سے بچتے رہے۔

The spirit of this freedom fighter was shaped by the lives and writings of Lenin, Marx, Periyar, Ambedkar, Bhagat Singh and others. Even today Nallakannu recalls lines from songs and poems by the revolutionary Tamil poet Subramania Bharti, which were often banned
PHOTO • PARI: Speical arrangement
The spirit of this freedom fighter was shaped by the lives and writings of Lenin, Marx, Periyar, Ambedkar, Bhagat Singh and others. Even today Nallakannu recalls lines from songs and poems by the revolutionary Tamil poet Subramania Bharti, which were often banned
PHOTO • PARI: Speical arrangement

مجاہد آزادی نلّ کنّو کو لینن، مارکس، پیریار، امبیڈکر، بھگت سنگھ وغیرہ کی زندگی اور تحریر سے حوصلہ ملتا رہا۔ آج بھی وہ انقلابی تمل شاعر سبرامنیم بھارتی کے گیت اور نظموں کی لائنیں یاد کرتے ہیں، جن پر اس دور میں اکثر پابندی لگا دی جاتی تھی

وہ جن واقعات اور تحریکوں میں شامل تھے، ان سبھی پر ادوار کے حساب سے نظر ڈالنا مشکل ہے۔ اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اتنے محاذوں اور الگ الگ تحریکوں میں حصہ لیا جن کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

وہ جدوجہد آزادی کے دور کے سب سے اہم لمحات کے بارے میں خود بتاتے ہیں: ’’ہندوستان چھوڑ دو تحریک کی لڑائی۔‘‘ اس وقت وہ ۱۷ سال کے بھی نہیں تھے، لیکن احتجاجی مظاہروں میں اہم رول ادا کرتے تھے۔ تقریباً ۱۲ سے ۱۵ سال کی عمر کے درمیان کا زمانہ ان کے لیے کانگریسی سے کمیونسٹ بننے کا دور تھا۔

آپ نے کس قسم کی احتجاجی مجلسیں منعقد کرنے میں مدد کی یا ان کا حصہ بنے؟

شروعات میں، ’’ہمارے پاس ٹین سے بنے بھونپو تھے۔ ہم کسی گاؤں یا قصبے میں کہیں بھی میز اورکرسی لگا دیتے اور گانا شروع کر دیتے۔ میز کا استعمال ہم اسپیکر کو کھڑا کرنے اور لوگوں کو مخاطب کرنے کے لیے کرتے تھے۔ اور میں بتا دوں، لوگوں کا مجمع ضرور اکٹھا ہوتا تھا۔‘‘ ایک بار پھر، نلّ کنّو نے لوگوں کو متحد کرنے میں خود کے اہم رول کے بارے میں زیادہ نہیں بتایا۔ حالانکہ، ان کے جیسے پیدل سپاہیوں کی وجہ سے ہی یہ ممکن ہو پاتا تھا۔

’’لوگوں کے جمع ہونے کے بعد، جیونندم جیسا مقرر ان میزوں پر کھڑے ہو کر لوگوں کے مجمع کو مخاطب کرتے تھے۔ اور اس کے لیے انہیں مائک کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔‘‘

’’وقت کے ساتھ، ہمیں اچھے مائک اور لاؤڈ اسپیکر ملنے لگے۔ ان سب میں ہمارا ایک پسندیدہ مائک تھا، جسے لوگ ’شکاگو مائک‘ یا ’شکاگو ریڈیو سسٹم‘ کہتے تھے۔ ہاں، لیکن ہم اکثر اس کا خرچ برداشت نہیں کر پاتے تھے۔‘‘

RNK has been a low-key foot soldier. Even after playing a huge role as a leader in many of the important battles of farmers and labourers from 1940s to 1960s and beyond, he refrains from drawing attention to his own contributions
PHOTO • M. Palani Kumar
RNK has been a low-key foot soldier. Even after playing a huge role as a leader in many of the important battles of farmers and labourers from 1940s to 1960s and beyond, he refrains from drawing attention to his own contributions
PHOTO • M. Palani Kumar

آر این کے خاموشی سے اپنے کام میں مصروف رہنے والے پیدل سپاہی رہے ہیں۔ سال ۱۹۴۰ سے ۱۹۶۰ تک اور اس کے بعد بھی، وہ کسانوں اور مزدوروں کی تمام لڑائیوں میں بطور لیڈر بڑا رول ادا کرتے رہے، لیکن وہ کبھی بھی ان چیزوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے خود کو مرکز میں نہیں رکھتے

جب انگریز تحریک کو دبانے کے لیے سخت کارروائی کرتے تھے، تو اس وقت لوگوں سے بات چیت کیسے کی؟

’’ایسا ماحول کئی بار بنا، جیسے رائل انڈین نیوی [آر آئی این] بغاوت [۱۹۴۶] کے بعد کمیونسٹوں پر پوری طرح سے نکیل کس دی گئی تھی۔ لیکن پہلے بھی چھاپہ ماری ہوتی رہی تھی۔ کبھی کبھی تو انگریز گاؤوں میں پاری کے ہر دفتر کی تلاشی بھی لیتے تھے۔ آزادی کے بعد بھی ایسا ہوا، جب پارٹی پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ ہم رسائل اور اخبارات نکالا کرتے تھے۔ مثلاً، جن شکتی۔ لیکن ہمارے پاس ابھی بات ایک دوسرے تک پہنچانے کے کئی دوسرے طریقے بھی تھے۔ اور ان میں سے کچھ تو صدیوں پرانے تھے۔‘‘

’’کٹّ بومّن [اٹھارویں صدی کے عظیم انگریز مخالف سپاہی] کے زمانے سے ہی لوگ گھر کے داخلی دروازہ پر نیم کی ٹہنیاں لگاتے تھے۔ یہ ایک اشارہ تھا کہ کوئی چیچک یا دیگر بیمری سے متاثر ہے۔ ساتھ ہی، یہ خفیہ پیغام کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا کہ وہاں کوئی میٹنگ چل رہی ہے۔

’’اگر گھر کے اندر کسی بچے کی رونے کی آواز آتی، تو اس کا مطلب ہوتا تھا کہ میٹنگ ابھی بھی چل رہی ہے۔ اگر گھر کے داخلی دروازہ پر گیلا گوبر پڑا ہو، تو اس کا بھی یہی مطلب ہوتا تھا کہ میٹنگ ابھی چل رہی ہے۔ اگر گوبر سوکھا ہو، تو اس کا مطلب تھا کہ آس پاس خطرہ ہے اور یہاں سے دور بھاگ جاؤ۔ یا پھر میٹنگ اب ختم ہو گئی ہے۔‘‘

آر این کے کے لیے، جدوجہد آزادی کے دوران سب سے بڑا حوصلہ کا ذریعہ کیا تھا؟

’’کمیونسٹ پارٹی حوصلہ کا سب سے بڑا ذریعہ تھی۔‘‘

Nallakannu remained at the forefront of many battles, including the freedom movement, social reform movements and the anti-feudal struggles. Being felicitated (right) by comrades and friends in Chennai
PHOTO • PARI: Speical arrangement
Nallakannu remained at the forefront of many battles, including the freedom movement, social reform movements and the anti-feudal struggles. Being felicitated (right) by comrades and friends in Chennai
PHOTO • PARI: Speical arrangement

نلّ کنّو آزادی کی لڑائی، سماجی اصلاح کی تحریکوں اور سامراجیت مخالف جدوجہد کے ساتھ ساتھ تمام دیگر لڑائیوں میں بھی سب سے آگے رہے۔ چنئی میں ساتھیوں اور دوستوں کے ذریعے انہیں اعزاز (دائیں) سے نوازا جا رہا ہے

*****

’جب مجھے گرفتار کیا گیا، تو میں نے اپنی مونچھ کیوں منڈوا لی؟‘ آر این کے ہنستے ہیں۔ ’’میں نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ اور نہ ہی کبھی میں نے چہرہ چھپانے کے لیے اُگایا ہی۔ اگر اس سے چہرہ چھپانا ہوتا، تو میں اُگاتا ہی کیوں؟‘‘

’’پولیس نے اسے سگریٹ سے جلاد یا تھا۔ مدراس کے ایک انسپکٹر کرشن مورتی نے مجھے اذیتیں دیتے وقت جلایا تھا۔ رات کے ۲ بجے اس نے میرے ہاتھ باندھے اور پھر اگلی صبح ۱۰ بجے کھولے۔ پھر اس نے مجھے ڈنڈے سے بہت پیٹا۔‘‘

ایک بار پھر، دوسرے مجاہدین آزادی کی طرح، انہوں نے اس واقعہ کو بغیر کسی ذاتی دشمنی کے یاد کیا۔ اُس انسپکٹر کے تئیں ان کے من میں کوئی تلخی نہیں تھی۔ آر این کے نے اس دن کا بدلہ لینے کے لیے کبھی انسپکٹر کی تلاش نہیں کی۔ ان کے من میں ایسا کرنے کا کبھی خیال تک نہیں آیا۔

وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’اصل میں یہ واقعہ ہندوستان کو آزادی ملنے کے بعد، ۱۹۴۸ میں پیش آیا تھا۔ مدراس سمیت کئی صوبوں میں ہماری پارٹی پر پابندی لگا دی گئی تھی اور ۱۹۵۱ تک ایسا ہی چلتا رہا۔‘‘

Nallakannu remains calm and sanguine about the scary state of politics in the country – 'we've seen worse,' he tells us
PHOTO • M. Palani Kumar

ملک کی خوفناک سیاسی حالت کے بارے میں بات کرتے ہوئے بھی نلّ کنّو پرسکون اور امید سے لبریز نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’ہم نے اس سے بھی برا دور دیکھا ہے‘

’’لیکن آپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ سامراجیت مخالف لڑائیاں تھیں، جو ختم نہیں ہوئی تھیں۔ ان کی قیمت ہمیں چکانی پڑی۔ یہ ۱۹۴۷ سے بہت پہلے شروع ہو گئی تھیں اور آزادی کے بعد بھی جاری رہیں۔

’’جدوجہد آزاد، سماجی اصلاح، سامراجیت مخالف تحریک – ہم نے ان تمام مسائل کو ملا دیا تھا۔ اس طرح ہم نے اپنی تحریک چلائی۔

ہم نے بہتر اور یکساں تنخواہ کے لیے بھی جدوجہد کی۔ ہم نے چھواچھوت کو ختم کرنے کے لیے لڑائی لڑی۔ ہم نے مندر میں داخلہ کو لے کر ہونے والی تحریکوں میں بڑا رول ادا کیا۔

’’زمینداری سسٹم کو ختم کرنے کی مہم تمل ناڈو کی ایک بڑی تحریک تھی۔ ریاست میں کئی اہم زمینداریاں تھیں۔ ہم نے میراث داری [دادا پرداداؤں سے وصیت میں ملی زمین] اور ایمانداری [حکمراں کے ذریعہ افراد یا اداروں کو مفت میں دی گئی زمین] نظام کے خلاف لڑائی لڑی۔ کمیونسٹ ہی ان لڑائیوں میں سب سے آگے تھے۔ ہمارے سامنے بڑے بڑے زمیندار تھے اور ان کے ساتھ ان کے ہتھیار بند غنڈے اور ٹھگ تھے۔

’’پونّیور سانب شیو ایئر، نیڈو منم سامِیَپّا مُتلیار، پونڈی وانڈیار جیسے زمیندار تھے، جن کے پاس ہزاروں ایکڑ زرخیز زمین تھی۔‘‘

ہم تاریخ کی ایک مزیدار کلاس میں بیٹھے ہیں۔ اور ایک ایسے شخص سے بات کر رہے ہیں جس نے اس تاریخ کو بنانے میں رول ادا کیا تھا۔

PHOTO • PARI: Speical arrangement

’جدوجہد آزاد، سماجی اصلاح، سامراجیت مخالف تحریک – ہم نے ان تمام مسائل کو ملا دیا تھا۔ اس طرح ہم نے اپنی تحریک چلائی۔ ہم نے بہتر اور یکساں تنخواہ کے لیے بھی جدوجہد کی۔ ہم نے چھواچھوت کو ختم کرنے کے لیے لڑائی لڑی۔ ہم نے مندر میں داخلہ کو لے کر ہونے والی تحریکوں میں بڑا رول ادا کیا۔‘

’’ساتھ ہی، سماج میں برہمتے یم اور دیوتانم کی صدیوں پرانی روایت بھی چل رہی تھی۔

’’برہمتے یم کے تحت، حکمرانوں کے ذریعہ برہمنوں کو مفت میں زمین دی گئی تھی۔ انہوں نے حکومت کی اور زمین سے فیض حاصل کیا۔ وہ خود کھیتی نہیں کرتے، لیکن منافع انہیں ہی ملتا تھا۔ دیوتانم کی روایت میں، مندروں کو تحفتاً زمین دی جاتی تھی۔ کبھی کبھی مندروں کو پورا کا پورا گاؤں تحفے میں دے دیا جاتا تھا۔ چھوٹے کرایہ دار اور مزدور ان کے رحم و کرم پر زندگی بسر کرتے تھے۔ جو کوئی بھی ان کے خلاف کھڑا ہوتا تھا، انہیں بے دخل کر دیا جاتا تھا۔

’’جان لیجئے، ان اداروں [مٹھ یا موناسٹری] کے پاس چھ لاکھ ایکڑ زمین ہوا کرتی تھی۔ شاید اب بھی ہے۔ لیکن، لوگوں کی بے خوف لڑائیوں نے ان کی طاقت کو بہت حد تک محدود کر دیا ہے۔

’’تمل ناڈو زمینداری خاتمہ قانون ۱۹۴۸ میں نافذ ہوا۔ لیکن زمیندار اور بڑے زمین مالکوں کو معاوضہ دیا گیا۔ ان لوگوں کو کچھ نہیں ملا جنہوں نے ان کی زمین پر کام کیا تھا۔ صرف خوشحال کسانوں کو ہی معاوضہ ملا۔ کھیتوں میں کام کرنے والے غریبوں کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ سال ۴۹-۱۹۴۷ کے درمیان، ان مندروں کو تحفے میں ملی زمینوں سے، بڑی تعداد میں لوگوں کو بے دخل کر دیا گیا۔ اور اس کے خلاف ہم نے زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا، جس کا نعرہ تھا: ’کسان کے پاس زمین ہوگی، تبھی گھر میں خوشحالی ہوگی۔‘

’’یہ ہماری لڑائیاں تھیں۔ سال ۱۹۴۸ سے ۱۹۶۰ تک اپنے حق کے لیے لڑائیاں چلتی رہیں۔ سی راج گوپالاچاری [راجا جی] نے وزیر اعلیٰ کے طور پر زمینداروں اور مٹھوں کا ساتھ دیا۔ ہم نے کہا ’زمین اسے جوتنے والے‘ کو ملے۔ راجا جی نے کہا کہ زمین ان کی ہے جن کے پاس کاغذات ہیں۔ لیکن ہم نے اپنی جدوجہد سے ان مٹھوں اور مندروں کے پر کتر ڈالے۔ ہم نے ان کے فصل کاٹنے کے ضابطوں اور قاعدوں کی خلاف ورزی کی۔ ہم نے ان کا غلام بننے سے انکار کر دیا۔

’’اور ہاں، ان تمام لڑائیوں کو سماجی لڑائیوں سے الگ نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔

’’ایک رات ایک مندر میں، میں نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مندروں میں رتھ اُتسو ہوتے تھے۔ اور یہ کسان ہی تھے جو رسیوں کے سہارے رتھوں کو آگے کھینچتے تھے۔ ہم نے کہا کہ اگر مندر میں آنے کا حق نہیں ملا، تو وہ کہیں بھی رتھ کھینچنے نہیں آئیں گے۔ ساتھ ہی، ہم نے بوائی کے لیے کچھ اناج واپس لینے کا اپنا حق بھی مانگا۔‘‘

R. Nallakannu accepted the government of Tamil Nadu's prestigious Thagaisal Thamizhar Award on August 15, 2022, but immediately donated the cash prize of Rs. 10 lakhs to the Chief Minister’s Relief Fund, adding another 5,000 rupees to it
PHOTO • M. Palani Kumar
R. Nallakannu accepted the government of Tamil Nadu's prestigious Thagaisal Thamizhar Award on August 15, 2022, but immediately donated the cash prize of Rs. 10 lakhs to the Chief Minister’s Relief Fund, adding another 5,000 rupees to it
PHOTO • P. Sainath

آر نلّ کنّو نے ۱۵ اگست، ۲۰۲۲ کو تمل ناڈو حکومت کے معروف تگئیسل تملر ایوارڈ کو قبول کیا، لیکن اس کے ساتھ ملنے والے ۱۰ لاکھ روپے کے نقد انعام میں فوراً اپنی طرف سے ۵۰۰۰ روپے جوڑ کر وزیر اعلیٰ راحت فنڈ میں عطیہ کر دیا

اب وہ اپنے قصوں میں آزادی سے پہلے اور بعد کے دور میں آمد و رفت کرنے لگے ہیں۔ ایک طرف یہ الجھن میں ڈال سکتا ہے۔ دوسری طرف، اس دور کی پیچیدگی بھی سامنے آتی ہے۔ جیسے کہ بہت سی چیزوں سے آزادی درکار تھی۔ جیسے کہ ان میں سے کچھ تحریکوں کی شروعات کب ہوئی کوئی نہیں جانتا، اور ان کا اختتام کب ہوگا یہ بھی معلوم نہیں۔ اور آر این کے جیسے سپاہی سبھی محاذوں پر آزادی کی تلاش میں لڑتے رہے۔

’’ان دہائیوں میں ہم مزدوروں کی پٹائی اور اذیت کے خلاف بھی لڑتے رہے۔

’’سال ۱۹۴۳ میں بھی دلت مزدوروں کو کوڑے مارے جا رہے تھے۔ اور پھر زخموں پر پانی میں گھولا ہوا گوبر چھڑک دیتے تھے۔ انہیں صبح مرغوں کی آواز کے ساتھ اٹھ کر ۴ یا ۵ بجے کام پر جانا پڑتا تھا۔ انہیں مویشیوں کو نہلانے، گوبر جمع کرنے اور پھر کھیتوں میں پانی دینے کے لیے میراث داروں کی زمین پر جانا پڑتا تھا۔ اس وقت تنجاوُر ضلع میں واقع تیروتورئی پونڈی کے پاس ایک گاؤں میں ہم نے ان کے لیے احتجاجی مظاہرہ کیا۔

’’شری نواس راؤ کی صدارت میں کسان سبھا نے وسیع احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔ ماحول کچھ ایسا تھا کہ ’اگر وہ آپ کو لال جھنڈا اٹھانے پر مارتے ہیں، تو آپ ان پر پلٹ وار کرو۔‘ آخر میں تیروتورئی پونڈی کے میراث داروں اور مودلیاروں نے معاہدہ پر دستخط کیے کہ اب کوڑنے مارنے، زخم پر گوبر کے پانی کا استعمال اور دیگر کسی قسم کی بربریت بند کر دیں گے۔‘‘

آر این کے نے ۱۹۴۰ سے لے کر ۱۹۶۰ کی دہائی تک اور اس کے بعد بھی ان بڑی تحریکوں میں اپنا اہم رول ادا کیا۔ انہوں نے تمل ناڈو میں آل انڈیا کسان سبھا (اے آئی کے ایس) کے صدر کے طور پر شری نواس راؤ کی جگہ لی۔ سال ۱۹۴۷ کے بعد کی دہائیوں میں، یہ پیدل سپاہی کسانوں اور مزدوروں کی تحریک کے ایک مضبوط سپہ سالار کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔

*****

دونوں کافی پرجوش اور جذباتی ہو گئے ہیں۔ ہم ایک انٹرویو کے لیے، سی پی ایم لیڈر اور مجاہد آزادی این شنکریہ کے گھر پر موجود ہیں۔ یعنی ہم این شنکریہ اور نلّ کنّو دونوں سے ایک ساتھ بات کر رہے ہیں۔ آٹھ دہائیوں سے جدوجہد کے ساتھی رہے دونوں کامریڈ ایک دوسرے کا جس طرح خیر مقدم کرتے ہیں، اس سے کمرے میں موجود سبھی لوگ بھی جذباتی ہو اٹھے۔

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

تقریباً ۶۰ سال قبل جب کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا دو حصوں میں تقسیم ہو گئی، تو آٹھ دہائیوں کے ان ساتھیوں – ۹۷ سالہ نلّ کنّو اور ۱۰۱ سالہ کامریڈ شنکریہ – الگ الگ راستوں پر ضرور چل پڑے، لیکن آزادی اور انصاف کے ایشو پر ساتھ مل کر لڑتے رہے

ہم نے ان سے پوچھا کہ ۶۰ سال پہلے جب کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا دو حصوں میں تقسیم ہو گئی، تو وہ دونوں اپنے الگ الگ راستوں پر چل پڑے۔ کیا ان کے من میں ایک دوسرے کے تئیں کوئی تلخی یا کوئی اداسی نہیں پیدا ہوئی؟ آخر یہ تقسیم کسی خوشگوار موڑ پر نہیں ہوئی تھی۔

نلّ کنّو کہتے ہیں، ’’لیکن ہم نے اس کے بعد بھی کئی ایشوز اور تحریکوں میں ساتھ مل کر کام کیا۔ پہلے کی طرح ہی۔ ایک دوسرے کے تئیں ہمارا برتاؤ نہیں بدلا۔‘‘

شنکریہ کہتے ہیں، ’’اب بھی جب ہم ملتے ہیں، تو ہم ایک پارٹی ہی ہوتے ہیں۔‘‘

ہم نے ان سے پوچھا کہ دورِ حاضر میں ملک میں بڑھ رہا فرقہ وارانہ تشدد اور نفرت کے بارے میں ان کے کیا خیالات ہیں؟ کیا انہیں ملک کے وجود پر خطرہ منڈلاتا نظر آتا ہے؟ آخر بات اس ملک کی ہے جسے آزادی دلانے میں انہوں نے برابر کی حصہ داری کی ہے۔

نلّ کنّو کہتے ہیں، ’’جدوجہد آزادی کے دوران بھی ایسا وقت آیا تھا جب چیزیں دھندلی نظر آ رہی تھیں۔ ہم سے کہا گیا تھا کہ آپ جیت نہیں سکتے۔ آپ دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ہم میں سے کچھ کے خاندانوں کو ہمیں جدوجہد سے دور رکھنے کی وارننگ دی گئی تھی۔ لیکن ہم نے ان وارننگز اور دھمکیوں سے پار پا لیا۔ اور بس لڑتے رہے۔ اس لیے ہم آزاد ہیں۔‘‘

دونوں کا کہنا ہے کہ پورے ملک میں بڑے پیمانے پر اتحاد پیدا کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ماضی کی طرح ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ سکیں اور دوسروں سے سیکھیں۔ آر این کے کہتے ہیں، ’’جہاں تک مجھے یاد ہے، ای ایم ایس [نمبودری پاد] کے کمرے میں بھی گاندھی کی تصویر لگی ہوتی تھی۔‘‘

ملک کی موجودہ حالت کے بارے میں جانتے ہوئے بھی وہ دونوں اتنے مطمئن اور امید سے لبریز کیسے ہیں، جب کہ ہم جیسے لاکھوں کروڑوں لوگ اس سے ڈرے ہوئے ہیں؟ نلّ کنّو کندھے اچھالتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ہم نے اس سے بھی برا وقت دیکھا ہے۔‘‘

پس نوشت:

سال ۲۰۲۲ میں یوم آزادی کے موقع پر – جس وقت تک ’دا لاسٹ ہیروز: فوٹ سولجرز آف انڈین فریڈم‘ پریس میں چھپنے جا چکی تھی – تمل ناڈو حکومت نے آر این کے کو تگئیسل تملر ایوارڈ سے سرفراز کیا۔ یہ ریاست کا سب سے بڑا ایوارڈ ہے، جس کی شروعات سال ۲۰۲۱ میں کی گئی۔ یہ انعام ان مخصوص لوگوں کو دیا جاتا ہے جنہوں نے تمل ناڈو اور تمل لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے عظیم تعاون دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے فورٹ سنٹ کالج کی فصیل پر آر این کے کو اس انعام اور اس کے ساتھ ملنے والے ۱۰ لاکھ روپے سے نوازا تھا۔

مترجم: قمر صدیقی

P. Sainath is Founder Editor, People's Archive of Rural India. He has been a rural reporter for decades and is the author of 'Everybody Loves a Good Drought' and 'The Last Heroes: Foot Soldiers of Indian Freedom'.

Other stories by P. Sainath
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique