’’شروع شروع میں ایک نگ (چھلنی) بنانے میں آدھی کلاک (آدھا گھنٹہ) لگتی تھی میری،‘‘ اپنی انگلیوں کے کٹے ہوئے سروں کو انگوٹھے سے دباتے ہوئے محمّد بھائی چھلنی بنانے کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ وہ اب بھی کام کے دوران اپنی انگلیاں کاٹ لیتے ہیں، لیکن وقت اور تجربے کے ساتھ یہ کام ان کے لیے قدرے آسان ہو گیا ہے۔ وہ ایک خاص قسم کی ہندی بولتے ہیں، ایک ایسی ہندی جو گجراتی مسلمانوں کے درمیان اکثر بولی جاتی ہے، اور جس میں گجراتی الفاظ کی فراخ دلانہ آمیزش ہوتی ہے۔ ’’ایک مہینہ تکلیف پڑی میرے کو۔ اب ایک نگ پانچ منٹ میں بن جاتا ہے،‘‘ وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں۔

ہم احمد آباد کی قطبی عمارت کے ایک ۱۰ ضرب ۱۰ کے کمرے میں بیٹھے ہیں، جو ۴۳ سالہ محمّد چرنا والا اور ان کی ۷۶ سالہ امّی (والدہ) رقیہ معز حسینی کا گھر ہے۔ احمد آباد کے کالوپورہ اسٹیشن کے قریب داؤدی بوہروں کا روضہ، جو ایک دومنزلہ چال ہے اور جہاں محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے ۲۴ گھرانے آباد ہیں۔ ان میں سے ایک گھر ان کا بھی ہے۔ جدید نظر آنے والے ریلوے اسٹیشن کی دوسری جانب قدم رکھتے ہی آپ پرانے شہر میں داخل ہو جائیں گے۔

گلیوں، کھانے پینے کی دکانوں، لڑائی جھگڑے کے دوران کبھی کبھی اٹھنے والی گالی گلوچ کی آوازوں، اور آہستہ رو ٹریفک سے گزرتے ہوئے آپ سڑکوں کے ایک جال سے جا ملتے ہیں۔ کوئی سڑک آڑی ترچھی نکلی چلی جا رہی ہے، تو کوئی پیچ کھاتی ہوئی دائیں مڑتی ہے تو کوئی بائیں مڑ کر ایک دم سے ختم ہو جاتی ہے اور کوئی بل کھاتی ہوئی سیدھی ہوکر ایک دوسری سڑک میں ضم ہو جاتی ہے۔ یہ وہی سڑک ہے جو داؤدی بوہروں کے روضہ میں موجود بوہرہ ٹرسٹ سے تعلق رکھنے والی قطبی عمارت تک آپ کی رہنمائی کرے گی، جہاں کل ۱۱۰ کنبے آباد ہیں۔

محمّد بھائی یہیں سے اپنی ٹھیلہ گاڑی دھکیلتے ہوئے ہفتے میں تین دن شہر میں تقریباً ۳۰ کلومیٹر پیدل چلتے ہیں۔ وہ صبح چھ بجے انہیں علاقوں کی طرف جاتے ہیں ’’جہاں ان کے والد جایا کرتے تھے!‘‘ رقیہ اپنے شوہر کو یاد کرتے ہوئے اور اپنی چُنّی سے اپنا چہرہ پونچھتے ہوئے کہتی ہیں۔ ’’وہ ندی عبور کرکے سابرمتی کی دوسری جانب جایا کرتے تھے اور رات ۹ یا ۱۰ بجے تک واپس آتے تھے۔‘‘ فروری ۲۰۲۳ میں محمّد بھائی کے والد معز حسینی کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت ان کی عمر ۷۹ سال تھی۔

Mohamad Charnawala.
PHOTO • Umesh Solanki
His mother Ruqaiya Moiz Charnawala
PHOTO • Umesh Solanki

بائیں: محمّد چرنا والا۔ دائیں: ان کی والدہ رقیہ معز چرنا والا

Left: Sieves and mesh to be placed in the sieves are all over his kitchen floor.
PHOTO • Umesh Solanki
Right: Mohamad bhai, checking his work
PHOTO • Umesh Solanki

بائیں: ان کے باورچی خانے کے فرش پر چھلنیاں اور ان میں لگانے کے لیے جالیاں رکھی ہوئی ہیں۔ دائیں: محمّد بھائی اپنے کام کی جانچ کر رہے ہیں

محمّد بھائی نے یہ ہنر اپنے والد سے نہیں سیکھا۔ ’’ہو گئی ہمت تو کر لیا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’میں نے انہیں گھر میں [چھلنی] بناتے ہوئے دیکھتا تھا۔ لیکن جب تک وہ زندہ رہے میں نے کبھی کسی ٹکڑے کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ مجھے لگتا ہے کہ میں نے دیکھ کر سیکھا ہے۔‘‘ ان کے والد اپنے ماموں کی چائے کی دکان پر کام کرتے تھے، لیکن ان سے جھگڑے کے بعد انہوں نے وہ کام چھوڑ دیا اور چھلنی بنانے لگے۔ محمّد بھائی یاد کرتے ہیں کہ ’’۱۹۷۴سے جب ہم سِرسپور آئے تب سے میرے والد ٹھیلہ گاڑی لے کر باہر جاتے تھے‘‘ اور مرتے دم تک انہوں نے یہی کام کیا۔

بہرحال، محمّد بھائی کے لیے یہ کام نیا ہے۔ اس کام کو انہوں نے اپنے والد کی موت کے پانچ ماہ بعد شروع کیا تھا۔ اور ہفتے میں تین دن یہ کام کرتے ہیں۔ ’’دوسرے دنوں میں بڑی صنعتی اکائیوں میں استعمال ہونے والے ڈیزل، پیٹرول، اور گیس کے لیے ۲۵۰-۲۰۰ کلو والو پینٹ کرتا ہوں۔ میں صبح ۹ بجے سے شام ۷:۳۰ بجے تک کام کرتا ہوں، جس میں دوپہر کے کھانے کے لئے آدھے گھنٹے کا وقفہ بھی شامل ہوتا ہے۔ اس کام کے لیے مجھے روزانہ ۴۰۰ روپے ملتے ہیں۔‘‘ چھلنی کی مرمت سے انہیں اس سے زیادہ پیسے نہیں ملتے۔ ’’کوئی دن سو آئے۔ کوئی دن پانچ سو بھی لے کر آئے۔ کوئی دن نہیں بھی لائے۔ کوئی نکی نہیں [کچھ طے نہیں ہے]،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

تو پھر وہ ہفتے کے سبھی دنوں میں والو کی پینٹنگ کا کام کیوں نہیں کرتے؟

’’اگر آپ کوئی کاروبار کر رہے ہیں تو آپ ترقی کی امید کر سکتے ہیں، ترقی کر سکتے ہیں۔ دوسری چیز کو نوکری کہتے ہیں، آپ صبح جاتے ہیں رات کو واپس آتے ہیں۔‘‘ وہ ایک ساتھ تھکے ہوئے اور پرامید دونوں دکھائی دیتے ہیں۔

میں نے ساتویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔ آٹھویں جماعت میں میرا داخلہ ہو گیا تھا، لیکن اس کے بعد دنگے بھڑک اٹھے، پھر میں کبھی اسکول واپس نہیں گیا۔ اس کے بعد کام شروع کیا۔ پرائمس کے چولہے ٹھیک کرنے والی دکان میں ۵ روپے یومیہ پر کام کیا۔ میں نے مٹی کے تیل کے پمپ، ویلڈنگ کی سلاخیں بھی بنائیں۔ بہت ساری چیزیں کیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ چھلنی کی مرمت اور چھلنی بنانا ان کا تازہ ترین کاروبار ہے۔

احمد آباد اور دوسرے شہروں میں چھلنی کی مرمت کرنے والے بہت سے کاریگر ہیں، لیکن ایسے بہت کم ہیں جو محمّد بھائی کی طرح گھر گھر جاکر اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ ’’پہلے صرف میرے والد جایا کرتے تھے اور اب میں جاتا ہوں۔ میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو اپنے ٹھیلے پر چھلنی کی مرمت کرتا ہو۔ کسی کے بارے میں نہیں سنا، کسی کو نہیں دیکھا۔ میں اکیلا ہی ہوں جو اس ٹھیلے کے ساتھ گھوم رہا ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

ان کے ٹھیلے پر مختلف چیزیں لدی ہوئی ہیں، جن میں الگ الگ موٹائی اور مضبوطی والی لوہے کی جالیاں، کچھ پرانی چھلنیاں، ایک چھینی، چند کیلیں، ایک پلائیر، قدرے بڑی قینچیوں کا ایک جوڑا، دو ہتھوڑے اور تقریباً تین فٹ لمبا ریلوے ٹریک کا ایک ٹکڑا شامل ہیں۔ وہ کبھی کرتا پاجامے میں تو کبھی شلوار اور قمیض میں ملبوس نظر آتے ہیں۔ پیروں میں پرانی چپل پہنے اور چہرہ پونچھنے کے لیے کندھے پر رومال ڈالے اپنے ۱۰۰ کلو گرام وزنی ٹھیلے کو لے کر وہ شہر کی گلیوں میں چکر لگاتے ہیں۔

Mohamad bhai pushing his repairing cart through lanes in Saraspur
PHOTO • Umesh Solanki
Mohamad bhai pushing his repairing cart through lanes in Saraspur
PHOTO • Umesh Solanki

محمّد بھائی سِرسپور میں اپنے ٹھیلے کو گلیوں میں دھکیل رہے ہیں

ایک چھلنی بنانے کا مطلب ہے بازار کا کئی بار چکر لگانا۔ محمّد بھائی پہلے بازار سے ٹین کی چادر خریدتے ہیں، پھر چادر کو مطلوبہ لمبائی اور چوڑائی کے مطابق کاٹتے ہیں۔ اس کے بعد کٹی ہوئی چادروں کو موڑنے اور رِم (گول) کی شکل دینے کی غرض سے تیار سیدھی پٹیاں بنانے کے لیے بازار میں ایک پریس والے کے یہاں جاتے ہیں۔ جسے وہ ’پریس‘ کہتے ہیں وہ ایک چھوٹی سی دکان کی طرح ہے، جہاں وہ لوہے کی چادریں کاٹتے اور دباتے ہیں۔

گھر آکر وہ سیدھی پٹیوں کو دو کیلوں کے سہارے جوڑتے ہیں، اور پھر بازار جاتے ہیں، اس بار ’’کور-کندورو‘‘ لینے کے لیے۔ یہ ایک  ایک ایسا عمل ہے جس میں انہیں فریم اور اس پر جالی لگانے کے لیے ایک رِنگ تیار کرنا ہوتا ہے۔ گھر پہنچنے کے بعد وہ تار کی جالی کو گول فریم میں لگا کر کیل سے مستحکم کرتے ہیں۔

’’آپ پاپ کارن، چاول کے مرمروں، بھنے چنے اور سُپاری کے لیے موٹی جالی استعمال کرتے ہیں۔ ہم اس کو موٹی جالی ’نمبر ۵‘ کہتے ہیں۔ باقی سبھی ’ایک جیسی‘ ہوتی ہیں، جنہیں جو، گندم، چاول، باجرہ اور باقی اناجوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے،‘‘ محمّد بھائی ایک بڑی چھلنی میرے سامنے رکھتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’میں ایک نئی چھلنی ۷۰ روپے میں بیچتا ہوں، اور پرانی کی مرمت کے لیے چالیس یا پینتالیس روپے لیتا ہوں۔ قیمتوں کا انحصار جالیوں کے معیار پر ہوتا ہے۔‘‘

وہ وضاحت کرتے ہیں کہ جالی کا معیار اس کے سائز کے علاوہ چھلنی کی شناخت کا ایک اور طریقہ ہے۔ ’’وہ مختلف سائز میں آسکتے ہیں - ۱۰، ۱۲، ۱۳، ۱۵ یا ۱۶ انچ کے قطر میں اور ہر ایک میں مختلف معیار کی جالی لگی ہو سکتی ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔

’’تار سی بُنی جالی کے ۳۰ میٹر کے ایک رول کی قیمت تقریباً ۴۰۰۰ روپے ہوتی ہے۔ ایک عام چھلنی کے لیے  میں ۱۰ سے ۴۰ روپے لیتا ہوں۔ نمبر ۱۲ کے لیے میں ۷۰ یا ۸۰ روپے کا مطالبہ کر سکتا ہوں، یہ سب خریدار پر منحصر ہے۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو مجھے ۹۰ یا ۱۰۰ روپے دینے کو بھی تیار رہتے ہیں۔‘‘

ہر دو تین مہینوں بعد وہ خام مال پر ۳۵ ہزار روپے خرچ کرتے ہیں۔ ان کی ماہانہ کمائی چھ سے سات ہزار روپے ہوتی ہے۔ اخراجات بہت زیادہ ہیں۔ وہ ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ہم صرف دو لوگ ہیں اور پھر بھی میں جو بھی گھر لاتا ہوں وہ ہم تقریباً سب کچھ خرچ کر دیتے ہیں ۔‘‘ پھر وہ اچانک مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، ’’میں اتوار کو کہیں کام پر نہیں جاتا۔ ایک دن آرام کرتا ہوں۔‘‘

Mohamad bhai with his a door-to-door repairing service cart on the Anil Starch road in Bapunagar, Ahmedabad
PHOTO • Umesh Solanki

محمّد بھائی احمد آباد کے باپو نگر میں انل اسٹارچ روڈ پر گھر گھر گھوم کر مرمت کی خدمات انجام دینے والی ٹھیلہ گاڑی کے ساتھ


'First it was only my father and now it is me. I do not know of anyone else who runs a repair servicing cart,' he says
PHOTO • Umesh Solanki

’پہلے صرف میرے والد تھے اور اب صرف میں ہوں۔ میں کسی اور کو نہیں جانتا جو ٹھیلا گاڑی پر مرمت کی خدمات انجام دیتا ہو،‘ وہ کہتے ہیں


He walks from his home for about 30 kilometres, pushing his wooden cart across the city, every three days a week
PHOTO • Umesh Solanki

وہ ہفتے میں تین دن اپنے لکڑی کی ٹھیلہ گاڑی کے ساتھ پورے شہر میں تقریباً ۳۰ کلومیٹر پیدل چلتے ہیں


Mohamad bhai earns litte from repairing sieves. 'Some days I bring 100 rupees, some days I may bring 500 rupees, someday there will be nothing at all. Nothing is fixed'
PHOTO • Umesh Solanki

چھلنیوں کی مرمت سے محمّد بھائی کی بہت کم آمدنی ہوتی ہے۔ ’کسی دن ۱۰۰ روپے لاتا ہوں، کسی دن ۵۰۰ روپے اور کسی دن کچھ بھی نہیں۔ کچھ بھی طے نہیں ہے‘


What Mohamad bhai makes from repairing sieves can depend from customer to customer.  'For No. 12 I may charge rupees 70 or 80, it all depends on the customer. There are those who are willing to give me 90 or 100 also'
PHOTO • Umesh Solanki

چھلنی بنانے سے محمّد بھائی کی کیا آمدنی ہوگی اس کا انحصار الگ الگ گاہکوں پر ہوتا ہے۔ ’نمبر ۱۲ کے لیے مجھے ۷۰ یا ۸۰ روپے مل سکتے ہیں، سب کچھ گاہکوں کے اوپر ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو مجھے ۹۰ یا ۱۰۰ روپے دینے کو تیار رہتے ہیں‘

Seventy-five-year-old Shabbir H. Dahodwala in the press, folding and pressing the tin sheets
PHOTO • Umesh Solanki

پچھتر سالہ شبیر ایچ داہود والا پریس میں بیٹھے ٹین کی چادروں کو موڑ کر دباتے ہوئے

Mohamad bhai Charnawala, 'I don’t go to work anywhere on a Sunday. One day I rest'
PHOTO • Umesh Solanki

محمّد بھائی چرنا والا، ’میں اتوار کو کہیں کام پر نہیں جاتا۔ ایک دن آرام کرتا ہوں‘

مترجم: شفیق عالم

Umesh Solanki

Umesh Solanki is an Ahmedabad-based photographer, reporter, documentary filmmaker, novelist and poet. He has three published collections of poetry, one novel-in-verse, a novel and a collection of creative non-fiction to his credit.

Other stories by Umesh Solanki
Editor : Pratishtha Pandya

Pratishtha Pandya is a Senior Editor at PARI where she leads PARI's creative writing section. She is also a member of the PARIBhasha team and translates and edits stories in Gujarati. Pratishtha is a published poet working in Gujarati and English.

Other stories by Pratishtha Pandya
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam