’’اپنے شاگردوں سے بے پناہ محبت اور انہیں پوری طرح قبول کرنا۔ ایک ٹیچر کے طور پر میں نے یہی سیکھا ہے!‘‘

میدھا ٹینگشے اپنی بات انتہائی نرمی سے لیکن پوری مضبوطی کے ساتھ رکھتی ہیں۔ وہ اسپیشل ایجوکیٹر (خاص معلمہ) ہیں اور ’سادھنا ولیج‘ کے بانی ممبران میں سے ایک ہیں۔ اس ولیج میں الگ الگ عمر اور الگ الگ دماغی صلاحیتوں کے حامل ۳۰ سے زائد افراد رہتے ہیں جنہیں تھوڑے بہت آرٹ، میوزک اور ڈانس کے ساتھ ساتھ زندگی کے بنیادی ہنر سکھائے جاتے ہیں۔

سادھنا ولیج، پونے ضلع کے مُلشی بلاک میں واقع ہے۔ یہ دماغی طور سے معذور بالغوں کا ایک رہائشی ادارہ ہے، جہاں طلباء کو ’وشیش متر‘ (خاص دوست) کہا جاتا ہے۔ صحافت کی تربیت حاصل کر چکیں میدھا تائی خود کو یہاں رہنے والے ۱۰ بچوں کی ’گرہ ماتا‘ کہتی ہیں – یعنی ’’ایک ایسی ماں جو ٹیچر بھی ہیں۔‘‘

پونے میں سماعت سے محروم بچوں کے لیے چلائے جا رہے دھائری اسکول کی خاص معلمہ ستیہ بھاما الہٹ کا بھی یہی ماننا ہے۔ ’’رہائشی اسکول میں ہم جیسے ٹیچر بچوں کے ماں باپ کا رول بھی ادا کرتے ہیں۔ ہم اپنے طلباء کو گھر کی کمی محسوس نہیں ہونے دیتے۔‘‘ کچھ لڑکیوں کو ’پھوگڑی‘ سکھاتے ہوئے وہ پاری سے بات کر رہی ہیں۔ پھوگڑی ایک روایتی کھیل ہے، اور اُس دن ناگ پنچمی بھی، جو ساون کے پانچویں دن منائی جاتی ہے۔ دھائری ایک پرائمری اسکول ہے جس میں پڑھنے والے ۴۰ طلباء وہیں رہتے ہیں اور ۱۲ بچے دن میں پڑھائی کرنے کے لیے آتے ہیں۔ یہ بچے مہاراشٹر، کرناٹک، دہلی، مغربی بنگال اور راجستھان جیسے مقامات سے یہاں آئے ہیں۔

Left: Medha Tengshe, founder member of Sadhana Village says all teachers should visit at least one school for special children to see what can be achieved through gentle words.
PHOTO • Urja
Right: Kanchan Yesankar says, ‘All the 30 friends here fight but they also love each other’
PHOTO • Urja

بائیں: سادھنا ولیج کی بانی رکن میدھا ٹینگشے کہتی ہیں کہ تمام اساتذہ کو مخصوص طلباء کے لیے بنائے گئے کم از کم ایک اسکول کا دورہ کرنا چاہیے، تاکہ وہ یہ دیکھ سکیں کہ محبت سے بھرے الفاظ کے ذریعے کیا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ دائیں: کانچن یہ شنکر کہتی ہیں، ’سبھی ۳۰ دوست یہاں لڑتے ہیں، لیکن ایک دوسرے سے پیار بھی کرتے ہیں‘

Satyabhama Alhat is a special teacher at the Dhayari School for the Hearing Impaired in Pune . She plays phugadi and other traditional games with girls and boys as they celebrate Nag Panchami. ‘A teacher at a residential school like ours is also a parent,' she says
PHOTO • Urja
Satyabhama Alhat is a special teacher at the Dhayari School for the Hearing Impaired in Pune . She plays phugadi and other traditional games with girls and boys as they celebrate Nag Panchami. ‘A teacher at a residential school like ours is also a parent,' she says
PHOTO • Urja

ستیہ بھاما الہٹ، پونے میں سماعت سے محروم بچوں کے لیے چلائے جا رہے دھائری اسکول میں خاص معلمہ ہیں۔ ناگ پنچمی منانے کے دوران، وہ لڑکیوں اور لڑکوں کے ساتھ پھوگڑی اور دیگر روایتی کھیل کھیلتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’رہائشی اسکول میں ہم جیسے ٹیچر بچوں کے ماں باپ کا رول بھی ادا کرتے ہیں‘

ستیہ بھاما پاری کو بتاتی ہیں کہ والدین اپنے بچوں کو اس اسکول میں بھیجنا چاہتے ہیں، کیوں کہ انہوں نے یہاں سے فارغ ہونے طلباء سے سہولیات اور ٹیچروں کے بارے میں اچھی باتیں سنی ہیں۔ فیس نہ ہونے اور یہاں رہائش کا انتظام ہونے کی وجہ سے یہ لوگوں کو متوجہ کرتا ہے۔ ساڑھے چار سال کی عمر تک کے بچے بھی یہاں آ سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس اسکول میں داخلہ لینے کے لیے صرف سماعت سے معذور بچوں کے والدین ہی نہیں آتے۔ ستیہ بھاما بتاتی ہیں، ’’جو بچے سن سکتے ہیں ان کے والدین بھی یہاں داخلہ کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں، کیوں کہ انہیں اسکول پسند آتا ہے۔ ہمیں انہیں لوٹانا پڑتا ہے۔‘‘

معذوری کے شکار لوگوں کو پڑھانے والے اساتذہ کو ’اسپیشل ایجوکیٹر‘ کہتے ہیں، جو طلباء کو اس طرح پڑھاتے ہیں کہ ان کی الگ الگ شناخت، معذوری اور خاص ضروریات کو پورا کر کے انہیں خود کفیل بنایا جا سکے۔ ان میں سے زیادہ تر ٹیچروں کا ماننا ہے کہ یہ مخصوص اساتذہ تکنیکوں اور طریقوں سے کہیں الگ چیز ہیں۔ یہ ایک استاد اور شاگرد کے درمیان اعتماد اور تعلقات پر قائم ہے۔

سال ۱۹-۲۰۱۸ میں پہلی کلاس سے ۱۲ویں تک مخصوص ضرورت والے ۳۰۰۴۶۷ بچوں کا داخلہ ہوا تھا۔ مہاراشٹر میں خاص ضرورت والے بچوں کے لیے ۱۶۰۰ اسکول ہیں۔ معذوری کے شکار بچوں کے لیے سال ۲۰۱۸ میں بنی سرکاری پالیسی کے تحت، ان بچوں کو تعلیم حاصل کرنے میں مدد کے لیے ہر اسکول میں کم از کم ایک اسپیشل ایجوکیٹر کی ترقی کرنے کا ہدف طے کیا گیا۔ مگر میدھا تائی کے مطابق، ۹۶ گاؤوں والے پورے ملشی بلاک میں ۲۰۱۸ میں صرف نو مخصوص اساتذہ ہی تعینات کیے گئے تھے۔

معذوری کے شکار بچوں کے ٹیچر اپنے طلباء کو اس طرح پڑھاتے ہیں کہ ان کی الگ الگ شناخت، معذوری اور خاص ضروریات کو پورا کر کے انہیں خود کفیل بنایا جا سکے

ویڈیو دیکھیں: خاص بچوں کے مخصوص استاد

*****

ایک اسپیشل ایجوکیٹر کو پڑھانے کا خاص ہنر بھی چاہیے ہوتا ہے۔ یہ آسان نہیں ہوتا، ’’اوپر سے تب، جب طالب علم آپ کے والدین کی عمر کے ہوں،‘‘ وردھا کے ۲۶ سالہ سماجی کارکن راہل وان کھیڑے کہتے ہیں، جو پچھلے سال سے یہاں ہیں۔ وردھا کی ہی ان کی ساتھی ٹیچر ۲۷ سالہ کانچن یہ شنکر طلباء کو پانچ سال سے پڑھا رہی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ان طلباء نے انہیں خوش رہنا سکھایا ہے۔

بیس سال کے کنال گورجر کا بایاں ہاتھ معذوری کا شکار ہے اور انہیں چیزوں کو سمجھنے میں پریشانی ہوتی ہے۔ سماجی کارکن ۳۴ سالہ میوری گائکواڑ اور ان کے ساتھیوں نے ان کے اور ساتھ مخصوص بچوں کے لیے کلاسیں چلائیں۔ پونے کے پاس ہڈشی کے کالیکر واڑی کے دیورائی مرکز میں اپنے ٹیچروں کے بارے میں کنال نے بتایا، ’’انہوں نے مجھے گانے اور پہاڑے سکھائے اور ورزش کرنا سکھایا۔ ہات اسے کرائیچے، مگ اسے، مگ تسے [ہاتھوں کو اس طرح ہلائیں اور پھر اُس طرح]۔‘‘

میوری، کاتکری آدیواسی بچوں کے ساتھ بھی کام کرتی ہیں اور لائبریری چلاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس رول کے لیے ان بچوں کے ساتھ پیار اور استقلال کا جذبہ بہت ضروری ہے۔ میوری کسان اور سماجی کارکن بھی ہیں۔ معذوری کے شکار بچوں کے ساتھ ان کا پیار اور لگن ہی تھا، جس نے انہیں دیورائی مرکز میں ٹیچر کا رول نبھانے کو آمادہ کیا۔

سنگیتا کالیکر کے بیٹے سوہم کو مرگی کے دورے آتے ہیں اور وہی اس کی واحد ٹیچر رہی ہیں۔ وہی اسے اٹھنے بیٹھنے سے لے کر بات کرنے تک سب کچھ سکھاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’وہ اب ’آئی، آئی‘ کہہ لیتا ہے۔‘‘ دس سالہ سوہم چابی سے کھیل رہا ہے، اسے زمین سے گرتے دیکھ کر آوازیں نکال رہا ہے۔

At Sadhana Village, Rahul Wankhede (left) in a dance session with special friends. ‘We have to teach them according to their mood,’ he says. Kanchan Yesankar is a social worker and teacher and is seen here (right) in a dance session. ‘I try to use dance to get my students to be active. I also use many dance therapies,’ she says
PHOTO • Urja
At Sadhana Village, Rahul Wankhede (left) in a dance session with special friends. ‘We have to teach them according to their mood,’ he says. Kanchan Yesankar is a social worker and teacher and is seen here (right) in a dance session. ‘I try to use dance to get my students to be active. I also use many dance therapies,’ she says
PHOTO • Urja

سادھنا ولیج میں راہل وان کھیڑے (بائیں) اپنے خاص دوستوں کے ساتھ ڈانس کی ایک کلاس میں۔ وہ کہتے ہیں، ’ہمیں انہیں ان کے موڈ [مزاج] کے مطابق پڑھانا ہوتا ہے۔‘ کانچن یہ شنکر سماجی کارکن اور ٹیچر ہیں اور یہاں (دائیں) ڈانس کی ایک کلاس میں نظر آ رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’میں اپنے طلباء کی سرگرمی بڑھانے کے لیے رقص کا استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ میں کئی ڈانس تھیراپی کا بھی استعمال کرتی ہوں

Left: Sangita Kalekar's 10-year-old son Soham has severe epileptic seizures and cannot speak much, but ‘he can now say aai, aai ,’ says his mother.
PHOTO • Urja
Right: In Hadshi, Phulabai Loyare (far left) with her daughter, Nanda, Sangita Kalekar (in red) with K unal Gujar and Mayuri Gaikwad (far right)
PHOTO • Urja

بائیں: سنگیتا کالیکر کے ۱۰ سالہ بیٹے سوہم کو مرگی کے دورے آتے ہیں اور وہ زیادہ بول بھی نہیں پاتا، لیکن اس کی ماں بتاتی ہیں کہ ’وہ اب آئی، آئی پکار لیتا ہے۔‘ دائیں: ہڈشی میں پھولا بائی لوئرے (سب سے بائیں) اپنی بیٹی نندا کے ساتھ ہیں، سنگیتا کالیکر (لال کپڑوں میں) کنال گورجر اور میوری گائکواڑ (سب سے دائیں) کے ساتھ موجود ہیں

پونے میں سماعت سے محروم بچوں کے لیے چلائے جا رہے اسکول میں، جب بھی کلاس میں کوئی بچہ آواز نکالتا ہے تو ٹیچر اسے بولنے کی جانب ایک قدم مانتے ہیں۔ گزشتہ ۲۴ سال سے یہاں کام کر رہی ستیہ بھاما الہٹ بتاتی ہیں کہ ان آوازوں اور اشاروں کو چھوڑ دیں، تو ’’وہ اپنی عمر کے ’عام‘ بچوں سے الگ نہیں ہیں۔‘‘

یہ اسکول ۵۰ سال سے مخصوص ٹیچروں کو ٹریرننگ دے رہے پونے کے سوہرد منڈل انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے سماعت سے محروم بچوں کے لیے شروع کیے گئے ۳۸ اسکولوں میں سے ایک ہے۔ ان ٹیچروں نے یا تو بی ایڈ (سماعت سے محروم) کیا ہے یا ڈپلومہ کورس کی پڑھائی کی ہے اور مخصوص ٹیچر بننے کا فیصلہ کیا۔

چوتھی کلاس کا بلیک بورڈ عمارت، گھوڑے، کتے اور تالاب کی خوبصورت تصویروں سے بھرا پڑا ہے، جسے موہن کانیکر اپنے شاگردوں کو پڑھانا چاہتے ہیں۔ تقریباً ۲۱ سال کا تجربہ لیے ۵۴ سال کے تربیت یافتہ استاد کانیکر ٹوٹل کمیونی کیشن کا طریقہ استعمال کرتے ہوئے پڑھاتے ہیں، جس میں سماعت سے محروم لوگوں کو پڑھاتے وقت بولنے، ہونٹ پڑھنے، اشارہ اور تحریر کا مشترکہ طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کے شاگرد ہر اشارہ پر ردعمل دیتے ہیں اور الفاظ کو الگ الگ آوازوں میں دہرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان آوازوں سے کانیکر کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ جاتی ہے اور وہ پھر ہر بچے کا تلفظ درست کرتے جاتے ہیں۔

At the Dhayari School for the Hearing Impaired, Aditi Sathe (left) using picture cards . Sunita Zine (right) is the hostel superintendent and is teaching colours and Marathi alphabets to the youngest students
PHOTO • Urja
At the Dhayari School for the Hearing Impaired, Aditi Sathe (left) using picture cards . Sunita Zine (right) is the hostel superintendent and is teaching colours and Marathi alphabets to the youngest students
PHOTO • Urja

سماعت سے محروم بچوں کے لیے چلائے جا رہے دھائری اسکول میں ادیتی ساٹھے (بائیں) پکچر کارڈ کا استعمال کر رہی ہیں۔ سنیتا زِنے (دائیں) ہاسٹل کی نگراں ہیں اور سب سے کم عمر کے طلباء کو رنگوں کے بارے میں مراٹھی حروف سکھا رہی ہیں

Mohan Kanekar (left) is an experienced special teacher at Dhayari School for the Hearing Impaired. He is teaching Marathi words to Class 4. ‘You have to be good at drawing if you want to teach these students,’ he says. A group of girls (right) in his class following the signs and speech of their teacher
PHOTO • Urja
Mohan Kanekar (left) is an experienced special teacher at Dhayari School for the Hearing Impaired. He is teaching Marathi words to Class 4. ‘You have to be good at drawing if you want to teach these students,’ he says. A group of girls (right) in his class following the signs and speech of their teacher
PHOTO • Urja

موہن کانیکر (بائیں) سماعت سے محروم بچوں کے لیے چلائے جا رہے دھائری اسکول کے ایک تجربہ کار ٹیچر ہیں۔ وہ چوتھی کلاس کے بچوں کو مراٹھی لفظ سکھا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’اگر آپ ان طالب علموں کو پڑھانا چاہتے ہیں، تو آپ کو اچھی پینٹنگ آنی چاہیے۔‘ ان کی کلاس میں لڑکیوں کا ایک گروپ (دائیں) اپنے ٹیچر کے اشاروں اور آوازوں کی نقل کر رہا ہے

ایک اور کلاس میں، ادیتی ساٹھی کی خود کی بولنے میں آنے والی پریشانی ’مرحلہ ۳‘ کی کلاس کے سات طلباء کو پڑھانے کے راستے میں رکاوٹ نہیں پیدا کرتی۔ وہ ۱۹۹۹ سے اسکول میں معاون کے طور پر کام کر رہی ہیں۔

وہ اور ان کے طالب علم اسی ہال میں دوسری کلاس کے ’شور‘ سے پریشان نہیں ہیں، جہاں سنیا زِنے یہاں کے سب سے چھوٹے طلباء کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ ہاسٹل کی یہ ۴۷ سالہ نگراں انہیں رنگوں کے بارے میں سکھا رہی ہیں اور طالب علم رنگوں کی تلاش میں ہال میں آزاد ہو کر دوڑ رہے ہیں۔ ایک نیلا بیگ، ایک لال ساڑی، کالے بال، پیلے پھول…طلباء خوشی سے چیختے ہیں، کچھ آوازیں نکال رہے ہیں، تو کچھ صرف ہاتھوں سے اشارے کر رہے ہیں۔ تربیت یافتہ ٹیچر کے طور پر ان کا اشارتی چہرہ اپنے طلباء سے مخاطب ہے۔

میدھا تائی کہتی ہیں، ’’آج جب معاشرے میں تشدد اور اشتعال بڑھ رہا ہے، تو ہمیں اسکولوں میں ذہانت اور کامیابی کی، تہذیب اور سزا کے اپنے تصورات پر سوال کھڑے کرنے چاہیے۔‘‘ وہ تمام اساتذہ سے مخصوص بچوں کے لیے چلائے جا رہے کم از کم ایک اسکول میں جا کر یہ دیکھنے کی اپیل کرتی ہیں کہ ’’محبت بھرے الفاظ کے ذریعے کیا حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘‘

رپورٹرز اس اسٹوری کی رپورٹنگ کے وقت ملے تعاون کے لیے سوہرد منڈل کی ڈاکٹر انورادھا پھترپھوڑ کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہیں۔

Hand prints on the wall by special friends and volunteers working at Sadhana Village
PHOTO • Urja

وشیش متروں اور سادھنا ولیج میں کام کرنے والے رضاکاروں کے دیوار پر چھپے ہاتھ کے نشان

Special friends sharing happy moments with their teachers
PHOTO • Urja

وشیش متر اپنے ٹیچروں کے ساتھ خوشی کے لمحات شیئر کر رہے ہیں

A stall set up by special friends living at Sadhana Village selling rakhi and other handmade items like handbags and pouches made by them. ‘They like to make things with their hands,’ says Kanchan Yesankar, a social worker and teacher
PHOTO • Urja

سادھنا ولیج میں رہنے والے وشیش متروں کے ذریعے لگایا گیا ایک اسٹال، جس میں راکھی اور ان کے ذریعے ہاتھ سے تیار کردہ ہینڈ بیگ و پاؤچ جیسی دیگر چیزیں بیچی جا رہی ہیں۔ سماجی کارکن اور ٹیچر کانچن یہ شنکر کہتی ہیں، ’انہیں اپنے ہاتھوں سے چیزیں بنانا پسند ہے‘

A special friend showing mehendi on his hands on the occasion of Nag Panchami celebrated on the fifth day of Shravan
PHOTO • Urja

ساون کے پانچویں دن منائی جانے والی ناگ پنچمی کے موقع پر ایک وشیش متر (خاص دوست) اپنے ہاتھوں پر لگی مہندی دکھا رہے ہیں

Sunita Zine is a trained special teacher
PHOTO • Urja

سنیا زِنے تربیت یافتہ اسپیشل ایجوکیٹر ہیں

Students learning to make signs for the Marathi alphabet
PHOTO • Urja

طلباء مراٹھی حروف کے لیے اشارتی نشان بنانا سیکھ رہے ہیں

Mohan Kanekar teaching words using Total Communication, a method that combines speech, lip-reading, sign and writing
PHOTO • Urja

موہن کانیکر ’ٹوٹل کمیونی کیشن‘ طریقہ کا استعمال کرتے ہوئے لفظ سکھا رہے ہیں، جس میں پڑھاتے وقت بولنے، ہونٹ پڑھنے، اشارہ اور تحریر کا مشترکہ طریقہ استعمال ہوتا ہے

Girls learning signs from their teacher Mohan Kanekar respond to each sign and try and repeat the words in different notes and tones
PHOTO • Urja

ٹیچر موہن کانیکر سے اشارتی زبان سیکھنے والی لڑکیاں ہر اشارتی نشان پر ردعمل دیتی ہیں اور الفاظ کو الگ الگ آواز اور لہجے میں دہرانے کی کوشش کرتی ہیں

Children at the Dhayari School for the Hearing Impaired chat with each other. ‘Sometimes, children come up with their own sign,’ says Satyabhama Alhat, a special teacher working with the school
PHOTO • Urja

سماعت سے محروم بچوں کے لیے چلائے جانے والے دھائری اسکول کے بچے ایک دوسرے سے بات چیت کر رہے ہیں۔ اسکول میں پڑھانے والی خاص معلمہ دستیہ بھاگا الہٹ کہتی ہیں، ’کبھی کبھی بچے اپنے ذاتی اشارتی نشان بناتے ہیں‘

A hearing impaired child joined the hostel at the Dhayari school. Not yet five years old, he is learning the names of animals while playing with the rubber models
PHOTO • Medha Kale

عثمان آباد کا یہ بچہ سن نہیں پاتا ہے، اور اس نے دھائری اسکول کے ہاسٹل میں داخلہ لیا ہے۔ وہ ابھی پانچ سال کا نہیں ہوا ہے، اور ربڑ کے بنے ماڈلوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے جانوروں کے نام سیکھ رہا ہے

Teachers use a blackboard for drawing and writing words. Here Aditi Sathe has drawn birds and instruments at the Dhayari school
PHOTO • Medha Kale

ٹیچر پینٹنگ کرنے اور لفظ لکھنے کے لیے بلیک بورڈ کا استعمال کرتے ہیں۔ دھائری اسکول میں ادیتی ساٹھے نے پرندوں اور آلات موسیقی کی تصویریں بنائی ہیں

Sudents following their teacher’s sign and learning the word kaavla (crow) through actions
PHOTO • Medha Kale

بچے اپنے ٹیچر کے اشارتی نشان کو دہرا رہے ہیں اور کاولا (کوا) لفظ سیکھ رہے ہیں

A child learning to write numbers
PHOTO • Urja

ایک بچہ نمبر لکھنا سیکھ رہا ہے

Sunita Zine teaching colours to the youngest class at Dhayari school
PHOTO • Medha Kale

دھائری اسکول کے سب سے چھوٹے بچوں کی کلاس کو سنیتا زِنے رنگ پہچاننا سکھا رہی ہیں

Students with Bairagi, their art teacher
PHOTO • Medha Kale

اپنے آرٹ ٹیچر بیراگی کے ساتھ طالبات

A child shows a paper bunny
PHOTO • Urja

کاغذ سے بنا خرگوش دکھاتی ایک طالبہ

At Dhayari school, art and artwork are part of the curriculum
PHOTO • Urja

دھائری اسکول میں آرٹ اور خاکے بنانا نصاب کا حصہ ہیں

Children from Class 1 show paper bunnies, paper boats and other artwork
PHOTO • Urja

پہلی جماعت کے بچے کاغذ کی بنی کشتیاں، خرگوش اور دیگر خاکے دکھا رہے ہیں

مترجم: محمد قمر تبریز

Medha Kale

Medha Kale is based in Pune and has worked in the field of women and health. She is the Marathi Translations Editor at the People’s Archive of Rural India.

Other stories by Medha Kale
Photos and Video : Urja

Urja is Senior Assistant Editor - Video at the People’s Archive of Rural India. A documentary filmmaker, she is interested in covering crafts, livelihoods and the environment. Urja also works with PARI's social media team.

Other stories by Urja
Editor : Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique