بھارتی کستے (۲۳) کے لیے اس دنیا میں اپنی فیملی سے بڑھ کر کوئی اور چیز نہیں تھی۔ انہوں نے ۱۰ویں جماعت کے بعد اپنی پڑھائی چھوڑ دی اور چھوٹی بہنوں کی تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے نوکری کرنے لگیں۔ وہ ایک کمپنی میں بطور ہیلپر (مددگار) کام کرتی تھیں، جہاں وہ کڑی محنت کرتیں تاکہ اپنے والد اور بڑے بھائی کو تھوڑا آرام پہنچا سکیں کیوں کہ وہ دونوں بھی محنت و مزدوری کرتے تھے۔ انہیں ہمیشہ اپنی فیملی کی دیکھ بھال کی فکر رہتی تھی۔ یہ سلسلہ مئی ۲۰۲۱ تک چلا۔

اس کے بعد وہ فیملی ہی نہیں بچی جس کی وہ فکر کرتیں۔

۱۳ مئی ۲۰۲۱ کی رات کو، بھارتی کی فیملی کے پانچ ممبر مدھیہ پردیش کے دیواس ضلع میں اپنے گاؤں نیماور سے اچانک لاپتہ ہو گئے۔ ان میں ان کی دو بہنیں، روپالی (۱۷) اور دِویہ (۱۲)، ماں ممتا (۴۵)، اور چچیری بہن اور بھائی، پوجا (۱۶) اور پون (۱۴) شامل تھے۔ ’’میں ان سے رابطہ نہیں کر پا رہی تھی،‘‘ بھارتی بتاتی ہیں۔ ’’ایک دن بعد جب وہ واپس نہیں لوٹے تو ہم کافی پریشان ہو گئے۔‘‘

بھارتی نے تھانہ میں جا کر گمشدگی کی شکایت درج کرائی، جس کے بعد پولیس نے انہیں کھوجنا شروع کیا۔

ایک دن گزرا، دو دن گزرا، تین دن گزرا۔ لیکن فیملی کے لوگ واپس نہیں لوٹے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی گمشدگی کا خوف بھی بڑھنے لگا۔ بھارتی کافی فکرمند تھیں۔ گھر کی خاموشی انہیں کاٹنے کو دوڑ رہی تھی۔

انہیں کسی انہونی کا خوف ستانے لگا۔

Five of Bharti's family went missing on the night of May 13, 2021 from their village, Nemawar in Madhya Pradesh’s Dewas district.
PHOTO • Parth M.N.

بھارتی کی فیملی کے پانچ ممبر ۱۳ مئی، ۲۰۲۱ کی رات کو مدھیہ پردیش کے دیواس ضلع میں اپنے گاؤں نیماور سے اچانک لاپتہ ہو گئے

پانچوں کے لاپتہ ہونے کے ۴۹ دن بعد، ۲۹ جون ۲۰۲۱ کو پولیس ایک بری خبر لے کر آئی۔ ان پانچوں کی لاشیں گاؤں کی رسوخ دار راجپوت برادری کے ایک رکن، سریندر چوہان کے کھیت سے کھود کر باہر نکالی گئیں۔ چوہان کا تعلق دائیں بازو کی ہندو تنظیم سے ہے اور اسے اپنے علاقہ کے بی جے پی ایم ایل اے، آشیش شرما کا قریبی بتایا جاتا ہے۔

’’ہمیں بھی اسی کا اندیشہ تھا، لیکن خبر سن کر بڑا جھٹکا لگا،‘‘ گونڈ قبیلہ سے تعلق رکھنے والی بھارتی کہتی ہیں۔ ’’ایک ہی رات میں فیملی کے پانچ لوگوں کو کھو دینے کا صدمہ کیا ہوتا ہے، میں آپ کو بتا نہیں سکتی۔ ہم تو کسی کرشمہ کی امید کر رہے تھے۔‘‘

نیماور میں، آدیواسی فیملی نے ایک ہی رات میں اپنے پانچ ممبران کو کھو دیا۔

پولیس نے اس قتل عام کے لیے سریندر اور اس کے چھ دیگر ساتھیوں کو گرفتار کیا۔

*****

مدھیہ پردیش میں آدیواسیوں کی آبادی تقریباً ۲۱ فیصد ہے اور ان میں گونڈ، بھیل اور سہریا آدیواسی شامل ہیں۔ اتنی بڑی آبادی ہونے کے باوجود وہ محفوظ نہیں ہیں: نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو (این سی آر بی) کے ذریعہ شائع ہندوستان میں جرائم ۲۰۲۱ کے مطابق، ۲۰۲۱-۲۰۱۹ کے درمیان ریاست میں درج فہرست قبائل (ایس ٹی) کے خلاف ظلم و زیادتی کے واقعات سب سے زیادہ درج کیے گئے۔

سال ۲۰۱۹ میں، ریاست میں ایس ٹی کے خلاف مظالم کے ۱۹۲۲ معاملے درج کیے گئے، جو دو سال بعد بڑھ کر ۲۶۲۷ ہو گئے تھے۔ یہ ۳۶ فیصد کا اضافہ ہے اور ۱۶ فیصد کے قومی اوسط سے دو گنا ہے۔

سال ۲۰۲۱ میں، ہندوستان میں ایس ٹی کے خلاف جرائم کے ۸۸۰۲ معاملے درج کیے گئے – جن میں ۲۶۲۷ واقعات کے ساتھ مدھیہ پردیش کا حصہ ۳۰ فیصد تھا۔ یعنی ایک دن میں سات واقعات۔ سب سے دلدوز واقعات تو قومی اخباروں کی سرخیاں بن جاتے ہیں، لیکن دھمکی اور زور زبردستی کرنے کے روزمرہ کے واقعات درج نہیں ہوتے۔

'I can’t describe what it's like to lose five members of the family in one night,' says Bharti from a park in Indore.
PHOTO • Parth M.N.

’ایک ہی رات میں فیملی کے پانچ لوگوں کو کھو دینے کا صدمہ کیا ہوتا ہے، میں آپ کو بتا نہیں سکتی،‘ اندور کے ایک پارک میں بیٹھی بھارتی کہتی ہیں

جاگرت آدیواسی دلت سنگٹھن (جے اے ڈی ایس) کی لیڈر، مادھوری کرشنا سوامی کا کہنا ہے کہ مدھیہ پردیش میں آدیواسی برادریوں کے خلاف جرائم اتنے زیادہ ہو رہے ہیں کہ ایک کارکن کے لیے ان سب پر نظر رکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ’’اہم بات یہ ہے کہ ان میں سے کچھ سنگین معاملے برسر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈروں کے سیاسی حلقوں میں پیش آئے ہیں،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔

اسی سال جولائی میں، ریاست کے سدھی ضلع سے ایک دل دہلا دینے والا ویڈیو وائرل ہوا تھا: جس میں شراب کے نشہ میں دھت پرویش شکلا کو ایک آدیواسی کے اوپر پیشاب کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ شکلا بی جے پی کا ایک کارکن ہے، جسے سوشل میڈیا پر اس ویڈیو کے وائرل ہوتے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

لیکن، عوام کے غصے کا سبب بننے والا ایسا کوئی ویڈیو نہ ہونے کی حالت میں قانون اتنی تیزی سے کام نہیں کرتا ہے۔ مادھوری کہتی ہیں، ’’آدیواسی برادریوں کو اکثر بے گھر یا ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں نقل مکانی کرنے کو مجبور کر دیا جاتا ہے۔ یہ انہیں غیر محفوظ بناتا ہے۔ مزید برآں، قانون بھی طاقتور اور غالب برادریوں کو ان پر حملہ کرنے اور ذلیل کرنے کا موقع دیتا ہے۔‘‘

نیماور میں بھارتی کی فیملی کا قتل عام کرنے کے پیچھے مبینہ طور پر اس کی چھوٹی بہن روپالی کے ساتھ سریندر کا عشق تھا۔

دونوں ایک دوسرے کو لمبے عرصے سے چاہتے تھے، لیکن یہ رشتہ اُس دن اچانک ختم ہو گیا جب سریندر نے کسی اور عورت کے ساتھ منگنی کر لی۔ روپالی یہ سن کر کافی دنگ رہ گئی۔ بھارتی بتاتی ہیں، ’’اس نے وعدہ کیا تھا کہ ۱۸ سال کی ہونے پر وہ روپالی کے ساتھ شادی کر لے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اس کے ساتھ صرف جسمانی رشتہ بنانا چاہتا تھا۔ اس نے اسے استعمال کیا اور پھر کسی اور کے ساتھ شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔‘‘

غصے سے بھری روپالی نے سریندر کو سوشل میڈیا پر ایکسپوز کرنے کی دھمکی دی۔ لہٰذا، سریندر نے ایک دن شام کو اسے اپنے کھیت پر بلایا اور معاملہ کو آپس میں سلجھانے کی پیشکش کی۔ پون بھی روپالی کے ساتھ وہاں گیا تھا، لیکن سریندر کے دوست نے اسے کچھ دوری پر ہی روک لیا۔ روپالی کی ملاقات سریندر سے ہوئی جہاں وہ ایک سنسان کھیت میں لوہے کی ایک راڈ کے ساتھ اس کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ جیسے ہی وہاں پہنچی، اس نے زور سے اس کے سر پر حملہ کر دیا جس کی وجہ سے وہیں اس کی موت ہو گئی۔

اس کے بعد سریندر نے پون کو پیغام بھیجا کہ روپالی اپنی جان لینے کی کوشش کر رہی ہے اور اسے فوراً اسپتال لے جانے کی ضرورت ہے۔ اس نے پون سے روپالی کی ماں اور بہن کو بھی ساتھ لانے کے لیے کہا جو اُس وقت اپنے گھر پر تھیں۔ دراصل، سریندر اس فیملی کے تمام لوگوں کو مار دینا چاہتا تھا کیوں کہ وہ یہ جان گئے تھے کہ اس نے روپالی کو اپنے پاس بلایا ہے۔ ان کے وہاں آنے پر اس نے ویسا ہی کیا۔ سریندر نے ایک ایک کرکے سبھی کا قتل کیا اور پھر انہیں اپنے کھیت میں ہی دفن کر دیا۔ ’’کیا یہ پوری فیملی کو مار دینے کی وجہ ہوتی ہے؟‘‘ بھارتی سوال کرتی ہیں۔

From 2019 to 2021, there was a 36 per cent increase in atrocities against STs in Madhya Pradesh.
PHOTO • Parth M.N.

سال ۲۰۱۹ سے ۲۰۲۱ کے درمیان، مدھیہ پردیش میں درج فہرست قبائل کے خلاف مظالم کے واقعات میں ۳۶ فیصد کا اضافہ دیکھنے کو ملا

جب لاشوں کو کھود کر باہر نکالا گیا، تو روپالی اور پوجا کے جسم پر کپڑے نہیں تھے۔ ’’ہمیں شک ہے کہ مارنے سے پہلے اس نے ان کی عصمت دری کی ہوگی،‘‘ بھارتی کہتی ہیں۔ ’’اس نے ہماری زندگی برباد کر دی۔‘‘

این سی آر بی کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، مدھیہ پردیش میں سال ۲۰۲۱ میں عصمت دری کے ۳۷۶ واقعات درج کیے گئے (یعنی ایک دن میں ایک سے زیادہ)، جن میں سے ۱۵۴ واقعات نابالغوں کے تھے۔

بھارتی کہتی ہیں، ’’ہم پہلے بھی کوئی اچھی زندگی بسر نہیں کر رہے تھے، لیکن فیملی کے تمام لوگوں کا ساتھ ضرور تھا۔ ہم ایک دوسرے کے لیے کڑی محنت کرتے تھے۔‘‘

*****

رسوخ دار برادریوں کے ذریعہ آدیواسیوں پر ظلم ڈھانے کے کئی اسباب ہیں۔ قبائلی برادریوں پر حملہ کرنے کا سب سے بڑا بہانہ زمینی تنازع ہے۔ ریاست کی طرف سے جب آدیواسیوں کو زمین دی جاتی ہے تو معاش کے لیے زمینداروں کے اوپر سے ان کا انحصار کم ہونے لگتا ہے، جس سے گاؤں میں ان کا برسوں سے چلا آ رہا دبدبہ خطرے میں پڑ جاتا ہے۔

سال ۲۰۰۲ میں، جب دگ وجے سنگھ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ تھے، تقریباً ساڑھے تین لاکھ بے زمین دلتوں اور آدیواسیوں کو زمین کا مالکانہ حق دینے کا وعدہ کیا گیا تھا تاکہ انہیں با اختیار بنایا جا سکے۔ بعد کے برسوں میں، ان میں سے کچھ لوگوں کو ضروری کاغذات بھی ملے۔ لیکن زیادہ تر معاملوں میں اُن زمینوں پر غالب ذات کے زمینداروں کا ہی قبضہ برقرار ہے۔

جب حاشیہ بردار برادریوں نے اپنا حق حاصل کرنے کی کوشش کی، تو انہیں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔

جون ۲۰۲۲ کے آخر میں، انتظامیہ کے لوگ گُنا ضلع میں رام پیاری سہریا کے گاؤں دھنوریا پہنچے، تاکہ ان کی زمین کی حد بندی کی جا سکے۔ انتظامیہ نے اُس دن زمین کی حد بندی کرکے اُن کے اس خواب کو پورا کر دیا تھا، جس کے لیے سہریا آدیواسی فیملی دو دہائیوں سے جدوجہد کر رہی تھی۔

لیکن اُس زمین پر وہاں کی شہ زور دھاکڑ اور برہمن برادریوں کے دو خاندانوں کا قبضہ تھا۔

Jamnalal's family belongs to the Sahariya Adivasi tribe. He is seen here chopping soyabean in Dhanoriya.
PHOTO • Parth M.N.

جمنا لال کی فیملی کا تعلق سہریا آدیواسی قبیلہ سے ہے۔ اس تصویر میں وہ دھنوریا گاؤں میں سویابین کی فصل کاٹ رہے ہیں

رام پیاری جب ۲ جولائی ۲۰۲۲ کو اپنے ۳ ایکڑ کے اُس کھیت کی طرف جا رہی تھیں، تو انہیں کافی فخر محسوس ہو رہا تھا کہ اب وہ زمین کی مالک بن چکی ہیں۔ لیکن وہ جیسے ہی اپنے کھیت پر پہنچیں، تو دیکھا کہ دو شہ زور خاندانوں کے لوگ اس میں ٹریکٹر چلا رہے ہیں۔ رام پیاری نے ان سے کہا کہ وہ ان کی زمین کو خالی کر دیں، جس کے بعد ان میں بحث ہونے لگی۔ پھر ان لوگوں نے رام پیاری کو بری طرح پیٹا، اور انہیں آگ کے حوالے کر دیا۔

’’ہم نے جب اس کے بارے میں سنا، تو ان کے شوہر ارجن کھیت کی طرف بھاگے اور دیکھا کہ ان کی بیوی بری طرح سے جل چکی ہیں،‘‘ ارجن کے چچا جمنا لال (۷۰) بتاتے ہیں۔ ’’ہم انہیں فوراً گُنا کے ضلع اسپتال لے گئے، جہاں سے انہیں بھوپال ریفر کر دیا گیا کیوں کہ ان کی حالت بہت نازک تھی۔‘‘

چھ دنوں کے بعد، بری طرح جل جانے کی وجہ سے ان کی موت ہو گئی۔ ان کی عمر محض ۴۶ سال تھی۔ اپنے پیچھے وہ اپنے شوہر اور چار بچوں کو چھوڑ گئیں، جن میں سبھی شادی شدہ ہیں۔

سہریا قبیلہ سے تعلق رکھنے والی یہ فیملی مزدوری کرکے اپنا گزارہ کرتی تھی۔ ’’ہمارے پاس آمدنی کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں تھا،‘‘ دھنوریا گاؤں میں ایک کھیت پر سویابین کی فصل کاٹتے ہوئے جمنا لال بتاتے ہیں۔ ’’زمین مل جانے کے بعد ہم نے یہی سوچا تھا کہ اپنے کھانے کے لیے کھیت سے کچھ نہ کچھ اگا لیں گے۔‘‘

اس واقعہ کے بعد، رام پیاری کی فیملی نے ڈر کے مارے اپنا گاؤں چھوڑ دیا ہے۔ جمنا لال اب بھی گاؤں میں ہی رہتے ہیں، لیکن وہ اُن لوگوں کے ٹھکانہ کے بارے میں کسی کو نہیں بتاتے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہم سبھی لوگ اسی گاؤں میں پیدا ہوئے، یہیں پلے بڑھے۔ لیکن میں اکیلا ہی یہاں مروں گا۔ مجھے نہیں لگتا کہ ارجن اور اس کے والد کبھی واپس لوٹیں گے۔‘‘

رام پیاری کے قتل کے الزام میں پانچ لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ پولیس نے گنہگاروں کو گرفتار کرنے میں کافی مستعدی دکھائی تھی۔

Jamnalal continues to live and work there but Rampyari's family has left Dhanoriya. 'I don’t think Arjun [her husband] and his father will return,' he says
PHOTO • Parth M.N.
Jamnalal continues to live and work there but Rampyari's family has left Dhanoriya. 'I don’t think Arjun [her husband] and his father will return,' he says
PHOTO • Parth M.N.

جمنا لال اب بھی دھنوریا میں ہی رہتے ہیں اور وہیں کام کرتے ہیں، لیکن رام پیاری کی فیملی نے گاؤں چھوڑ دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’مجھے نہیں لگتا کہ ارجن [ان کے شوہر] اور اس کے والد کبھی واپس لوٹیں گے‘

*****

لوگ جب ظلم کرتے ہیں، تو انصاف پانے کے لیے متاثرین ریاستی مشینری کے پاس جاتے ہیں۔ لیکن چین سنگھ کے معاملے میں، ریاستی مشینری نے ہی ان کا قتل کر دیا۔

اگست ۲۰۲۲ میں، چین سنگھ اور ان کے بھائی مہندر سنگھ ایک دن مدھیہ پردیش کے ودیشہ ضلع میں اپنے گاؤں رائے پورہ کے قریب واقع جنگل سے بائک (موٹر سائیکل) سے لوٹ رہے تھے۔ ’’ہمیں گھر کے کام کے لیے کچھ لکڑیوں کی ضرورت تھی،‘‘ مہندر (۲۰) بتاتے ہیں۔ ’’بائک میرے بھائی چلا رہے تھے، اور میں لکڑی کو پکڑ کر ان کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔‘‘

رائے پورہ چونکہ ودیشہ کے گھنے جنگلات والے علاقوں کے قریب پڑتا ہے، اس لیے سورج ڈوبتے ہی وہاں بالکل اندھیرا ہو جاتا ہے۔ سڑکوں پر کوئی لائٹ نہیں ہے۔ لہٰذا، دونوں بھائی اپنی بائک کی ہیڈ لائٹ کے سہارے ہی اس اوبڑ کھابڑ علاقے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔

جنگل کے علاقے کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کو احتیاط سے پار کرنے کے بعد، بھیل قبیلہ سے تعلق رکھنے والے چین سنگھ اور مہندر جیسے ہی مین روڈ پر پہنچے، تو دیکھا کہ فاریسٹ گارڈوں سے بھری ہوئی دو جیپ ان کے سامنے کھڑی ہے۔ بائک کی ہیڈ لائٹس سیدھے ان جیپوں سے جا کر ٹکرائی۔

’’میرے بھائی نے فوراً بائک روک دی،‘‘ مہندر بتاتے ہیں۔ ’’لیکن ان میں سے ایک فاریسٹ گارڈ نے ہم پر گولی چلا دی۔ حالانکہ ہم نے انہیں کچھ نہیں کہا تھا۔ ہم تو صرف لکڑی لے کر جا رہے تھے۔‘‘

چین سنگھ (۳۰) کی وہیں موت ہو گئی۔ انہوں نے بائک کے اوپر اپنا قابو کھو دیا اور نیچے گر پڑے۔ پیچھے بیٹھے مہندر کو بھی گولی لگی تھی۔ انہوں نے جو لکڑی اکٹھا کی تھی وہ ان کے ہاتھوں سے گر پڑی اور بائک کے ساتھ وہ بھی زمین پر گر پڑے، جس کے بعد ان کی موت ہو گئی۔ ’’مجھے لگا کہ میں بھی مر جاؤں گا،‘‘ مہندر بتاتے ہیں۔ ’’میں نے سوچا کہ میں سورگ (جنت) میں تیر رہا ہوں۔‘‘ آگے انہیں بس اتنا یاد ہے کہ جب ان کی آنکھ کھلی تو وہ ہسپتال میں تھے۔

Mahendra's (in the photo) brother Chain Singh was shot dead by a forest guard near their village Raipura of Vidisha district
PHOTO • Parth M.N.

مہندر (تصویر میں) کے بھائی چین سنگھ کو ودیشہ ضلع میں ان کے گاؤں رائے پورہ کے قریب ایک فاریسٹ گارڈ نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا

ودیشہ کے ڈسٹرکٹ فاریسٹ آفیسر اومکار مسکولے کا کہنا تھا کہ واقعہ کی عدالتی انکوائری چل رہی ہے۔ ’’ملزم کو برخاست کر دیا گیا تھا، لیکن اب اسے بحال کر دیا گیا ہے،‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’عدالتی انکوائری کی رپورٹ جب سامنے آ جائے گی، تب ہم اسی کے حساب سے مناسب کارروائی کریں گے۔‘‘

مہندر کو شک ہے کہ جس فاریسٹ رینجر نے ان کے بھائی کو گولی ماری تھی، اسے کوئی سزا مل پائے گی۔ وہ کہتے ہیں، ’’مجھے امید ہے کہ اس نے جو کیا ہے اس کی اسے سزا ملے گی۔ ورنہ آپ کیا پیغام دیں گے؟ یہی نا کہ کسی آدمی کو مارنا جائز ہے۔ کیا ہماری زندگی اتنی سستی ہے؟‘‘

اس واقعہ نے چین سنگھ کی فیملی کو پوری طرح سے تباہ کر دیا ہے؛ وہ اپنے گھر کے کمانے والے واحد دو ممبران میں سے ایک تھے۔ دوسرے مہندر ہیں، جو ایک سال گزر جانے کے بعد آج بھی لنگڑا کر چلتے ہیں۔ مہندر کہتے ہیں، ’’میرا بھائی چلا گیا اور زخم کی وجہ سے میں زیادہ مزدوری نہیں کر سکتا۔ ان کے چار چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کون کرے گا؟ ہمارے پاس ایک ایکڑ زمین ہے، جس پر ہم اپنے کھانے کے لیے چنا اُگاتے ہیں۔ لیکن ایک سال سے ہاتھ میں ایک پیسہ نہیں آ رہا ہے۔‘‘

*****

بھارتی بھی اُس واقعہ کے بعد کچھ نہیں کما پا رہی ہیں۔

نیماور میں فیملی کے قتل عام کے بعد، انہوں نے اپنے والد موہن لال اور بڑے بھائی سنتوش کے ساتھ گاؤں کو چھوڑ دیا تھا۔ بھارتی کہتی ہیں، ’’وہاں پر ہمارے پاس کھیتی کی کوئی زمین نہیں تھی۔ صرف ہماری فیملی تھی۔ جب وہ فیملی ہی نہیں بچی، تو وہاں رہنے کا کوئی مطلب نہیں تھا۔ ان کی یادیں تو تھیں، لیکن وہاں رہنا محفوظ نہیں تھا۔‘‘

Bharti's father and brother wanted to let go of the case and start afresh. 'Maybe they are scared. But I want to ensure the people who killed my family get punishment. How can I start afresh when there is no closure?' she says.
PHOTO • Parth M.N.

بھارتی کے والد اور بھائی معاملے کو رفع دفع کر کے ایک نئی شروعات کرنا چاہتے تھے۔ ’ہو سکتا ہے کہ وہ ڈر گئے ہوں۔ لیکن میں چاہتی ہوں کہ جن لوگوں نے میری فیملی کا قتل کیا ہے انہیں سزا ضرور ملے۔ جب تک فیصلہ نہیں ہوگا میں نئی شروعات کیسے کر سکتی ہوں؟‘ بھارتی کہتی ہیں

اس کے بعد موہن لال اور سنتوش کے ساتھ بھارتی کا اختلاف ہو گیا۔ اب وہ ایک ساتھ نہیں رہتے۔ ’’میں یہاں اندور میں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رہتی ہوں، اور وہ لوگ پیتھم پور میں رہتے ہیں،‘‘ بھارتی بتاتی ہیں۔ ’’میرے والد اور بھائی معاملے کو رفع دفع کر کے ایک نئی شروعات کرنا چاہتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ڈر گئے ہوں۔ لیکن میں چاہتی ہوں کہ جن لوگوں نے میری فیملی کا قتل کیا ہے انہیں سزا ضرور ملے۔ جب تک فیصلہ نہیں ہوگا میں نئی شروعات کیسے کر سکتی ہوں؟‘‘

روپالی ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں۔ پون کی خواہش آرمی میں جانے کی تھی۔ بھارتی، جنہوں نے اپنے بھائی بہنوں کا پیٹ پالنے کے لیے سڑکوں پر بھیک بھی مانگی ہے، انصاف کے علاوہ کسی اور چیز کے بارے میں نہیں سوچ سکتیں۔

جنوری ۲۰۲۲ میں انہوں نے نیماور سے بھوپھال تک ’نیائے یاترا‘ نکالی۔ ایک ہفتہ میں مکمل کیے گئے ۱۵۰ کلومیٹر کے اس پیدل سفر کو اپوزیشن کانگریس پارٹی کی حمایت حاصل تھی۔ موہن لال اور سنتوش نے اس میں حصہ نہیں لیا تھا۔ بھارتی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’وہ مجھ سے زیادہ بات نہیں کرتے۔ وہ میری خبر خیریت بھی نہیں پوچھتے ہیں۔‘‘

مدھیہ پردیش کی حکومت نے جانوں کے زیاں پر فیملی کے لیے ۴۱ لاکھ روپے کے معاوضہ کا اعلان کیا تھا۔ یہ رقم تین حصوں میں تقسیم کی گئی – بھارتی، موہن لال اور سنتوش، اور ان کے چچا کی فیملی کے درمیان۔ بھارتی ابھی اسی پیسے سے اپنا گزارہ کر رہی ہیں۔ ان کی نوکری چلی گئی کیوں کہ وہ اپنے کام پر توجہ نہیں دے پا رہی تھیں۔ وہ اب دوبارہ اسکول جا کر اپنی تعلیم کو مکمل کرنا چاہتی ہیں جسے انہوں نے اپنی فیملی کی دیکھ بھال کی خاطر درمیان میں ہی چھوڑ دیا تھا۔ لیکن یہ تبھی ہوگا، جب کیس کا نمٹارہ ہو جائے۔

بھارتی کو ڈر ہے کہ سریندر کے خلاف چلنے والا مقدمہ اس کے سیاسی تعلقات کی وجہ سے کمزور پڑ سکتا ہے۔ ایسا نہ ہو، اس کے لیے وہ قابل اعتبار اور سستے وکیلوں سے ملاقاتیں کر رہی ہیں۔ پچھلے دو سالوں میں، بھارتی کی زندگی میں ہر ایک چیز بدل چکی ہے، صرف ایک کو چھوڑ کر: وہ اب بھی اپنی فیملی کے بارے میں ہی سوچتی ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Parth M.N.

Parth M.N. is a 2017 PARI Fellow and an independent journalist reporting for various news websites. He loves cricket and travelling.

Other stories by Parth M.N.
Editor : PARI Desk

PARI Desk is the nerve centre of our editorial work. The team works with reporters, researchers, photographers, filmmakers and translators located across the country. The Desk supports and manages the production and publication of text, video, audio and research reports published by PARI.

Other stories by PARI Desk
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique