شری بھادریا ماتا جی مندر کے مرکزی دروازہ پر گاتے ہوئے موسیقاروں کی آوازیں ہمارے سیڑھیوں سے نیچے اترنے کے ساتھ آہستہ آہستہ کم ہوتی جاتی ہیں۔ نیچے ہم تقریباً ۲۰۰ سال پرانے ایک ڈھانچہ میں پہنچتے ہیں۔ پھر اچانک سبھی آوازیں پوری طرح سنائی دینی بند ہو جاتی ہیں – ہم زمین کے تقریباً ۲۰ فٹ نیچے پہنچ چکے ہیں۔

ہمارے سامنے تقریباً ۱۵ ہزار مربع فٹ کے رقبے میں پھیلی ایک لائبریری کا منظر کھلا ہوا ہے جو اپنی ساخت کے لحاظ سے کم و بیش کسی بھول بھلیاں کی طرح ہے۔ لائبریری میں تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر ۵۶۲ الماریوں کی قطاریں بنی ہیں اور ان میں دو لاکھ سے زیادہ کتابیں رکھی ہوئی ہیں۔ چمڑے کی جلد چڑھے نسخے، چھال پر تحریر کردہ پرانے مخطوطات، ہندو ازم، اسلام، عیسائیت اور دوسرے مذاہب سے لے کر قانون اور علم الادویہ جیسے موضوعات کے پیپر بیک اور پرانی جلدیں، فلسفہ، جغرافیہ، تاریخ اور نہ جانے کتنے دیگر موضوعات پر لکھی گئی بے شمار کتابیں یہاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ادب سے متعلق کتابوں کا گوشہ بھی اتنا ہی شاندار ہے۔ ان میں کلاسیکی ناولوں سے لے کر دور حاضر میں لکھے گئے ناول بھی شامل ہیں۔ لائبریری کی زیادہ تر کتابیں ہندی زبان میں ہیں، لیکن انگریزی اور سنسکرت میں لکھی گئی کتابوں کی بھی یہاں کوئی کمی نہیں ہے۔

اس لائبریری کو قائم کرنے کے پیچھے ہرونش سنگھ نرمل کا دماغ تھا جو پنجاب کے ایک مذہبی اسکالر تھے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کے ۲۵ سال اسی مندر کے احاطہ میں ایک غار کے اندر گزارے تھے، اور مندر کے نیچے اس لائبریری کو بنانے کی بات سوچی تھی۔ حالانکہ نرمل ۲۰۱۰ میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے، لیکن اس سے بہت پہلے انہوں نے تعلیم اور مویشیوں کی فلاح کے مقصد سے پیسے جمع کرکے کام شروع کر دیا تھا۔

’’وہ سچے انسانیت نواز تھے۔ سبھی مذاہب کا ایک ہی بنیادی پیغام ہے: انسان کی جلد اور بالوں کے رنگ بھلے ہی مختلف ہوں، لیکن اندر سے ہم سبھی ایک جیسے ہی ہیں،‘‘ شری جگدمبا سیوا سمیتی نام کے ٹرسٹ کے سکریٹری جگل کشور کہتے ہیں۔ مندر اور لائبریری کو چلانے کی ذمہ داری اسی ٹرسٹ کی ہے۔ یہ ٹرسٹ ایک گئوشالہ کا انتظام بھی کرتا ہے، جس میں تقریباً ۴۰ ہزار گائیں ہیں۔

The underground library at  Shri Bhadriya Mata Ji temple near Dholiya in Jaisalmer district of Rajasthan
PHOTO • Urja

راجستھان کے جیسلمیر کے دھولیہ کے قریب شری بھادریا ماتا جی مندر میں بنی زیر زمین لائبریری

Left:  The late Shri Harvansh Singh Nirmal, was a religious scholar who founded the library.
PHOTO • Urja
Right: Jugal Kishore, Secretary of the Shri Jagdamba Seva Samiti, a trust that runs the temple, library and cow shelter
PHOTO • Urja

بائیں: آنجہانی ہرونش سنگھ نرمل ایک مذہبی اسکالر تھے جنہوں نے یہ لائبریری قائم کی۔ دائیں: جگل کشور، جو شری جگدمبا سیوا سمیتی نام کے ٹرسٹ کے سکریٹری ہیں۔ یہ ٹرسٹ مندر کے علاوہ اس لائبریری اور ایک گئوشالہ کو چلانے کا کام بھی کرتا ہے

لائبریری کی تعمیر کا کام ۱۹۸۳ میں شروع ہوا اور ۱۹۹۸ میں مکمل ہو گیا۔ اس کے بعد لائبریری کے لیے کتابیں جمع کرنے کا کام شروع ہوا۔ ’’وہ [نرمل] اس لائبریری کو علم کے ایک مرکز اور ایک یونیورسٹی کے طور پر تیار کرنا چاہتے تھے،‘‘ کشور بتاتے ہیں، ’’مہاراجہ جی چاہتے تھے کہ لوگ دور دراز سے یہاں آئیں، اور جو علم کہیں دستیاب نہ ہو، وہ انہیں یہاں آسانی سے حاصل ہو سکے۔‘‘

لائبریری کے منتظمین بتاتے ہیں کہ اسے قائم کرنے کے لیے اس زیر زمین جگہ کا انتخاب اس لیے کیا گیا، تاکہ گرد و غبار اور نقصان سے حتی الامکان بچا جا سکے۔ پوکھرن میں واقع ہندوستانی فوج کا فائرنگ رینج یہاں سے ۱۰ کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے، اور راجستھان کے سبز گھاس کے میدانوں میں جب تیز ہوائیں چلتی ہیں تب کہیں بھی گرد و غبار سے بچنا مشکل ہے۔

اشوک کمار دیوپال لائبریری کی دیکھ ریکھ کرنے والی ٹیم میں کام کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ لائبریری کو چھ ایگزھاسٹ پنکھوں کی مدد سے سوکھا رکھا جاتا ہے۔ ہوا کو خشک رکھنے کے لیے باقاعدگی سے کپور جلائے جاتے ہیں۔ پھپھوند سے بچاؤ کے لیے، ’’ہم کتابوں کو وقتاً فوقتاً ہوا دکھاتے رہتے ہیں۔ ہم سات آٹھ لوگ دو سے بھی زیادہ مہینوں تک یہی کام کرتے ہیں۔‘‘

Left: Collections of books.
PHOTO • Priti David
Right: Ashok Kumar Devpal works in the library maintenance team
PHOTO • Urja

بائیں: کتابوں کا ذخیرہ۔ دائیں: لائبریری کی دیکھ ریکھ کرنے والی ٹیم میں کام کرنے والے اشوک کمار دیوپال

مندر کے ٹرسٹ کے پاس ۲۵ء۱ لاکھ بیگھہ (تقریباً ۲۰ ہزار ایکڑ) زمین کی ملکیت ہے۔ بھادریا اورن (مقدس نالہ) کی روایت کے مطابق، ’’یہاں لگے درختوں کی ایک شاخ بھی نہیں کاٹی جا سکتی ہے،‘‘ ۷۰ کے آس پاس کے کشور کہتے ہیں۔ وہ ٹرسٹ کی ایک گئوشالہ کا انتظام و انصرام بھی دیکھتے ہیں، جن میں ۴۰ ہزار سے زیادہ گائیں ہیں۔ یہاں ہر سال تقریباً ۲ سے ۳ لاکھ سیاح اور عقیدت مند آتے ہیں۔ دیگر لوگوں کے علاوہ یہاں راجپوت، بشنوئی اور جین فرقوں کے لوگ بھی بڑی تعداد میں چار سالانہ تہواروں کے موقع پر آتے ہیں۔ جب تک لائبریری نہیں کھلتی ہے، تب تک سیاحوں کو نیچے اتر کر وہاں گھومنے کی اجازت ہوتی ہے۔

لائبریری کے علاوہ یہاں ایک بہت بڑی گئوشالہ بھی ہے جس میں گیر، تھار پارکر، راٹھی اور ناگوری نسل کی ہزاروں گائیں اور بیل موجود ہیں۔ ان کی دیکھ بھال کرنے کے لیے ۱۵۰ ملازمین کی ایک علیحدہ ٹیم ہے۔ ’’ اورن چرند و پرند کے لیے ہی ہیں،‘‘ ٹرسٹ کے منتظم اشوک سوڈانی بتاتے ہیں۔ یہ جانور یہاں تب لائے جاتے ہیں، جب ان کی قوت افزائش ختم ہو چکی ہوتی ہے اور ان میں ۹۰ فیصد نر مویشی ہیں۔ ’’ہمارے پاس گئوشالہ میں ۱۴ ٹیوب ویل ہیں۔ ٹرسٹ سالانہ تقریباً ۲۵ کروڑ روپے مویشیوں اور پرندوں کے چارے پر خرچ کرتا ہے،‘‘ سوڈانی بتاتے ہیں، ’’ہریانہ، پنجاب اور مدھیہ پردیش جیسی دور دراز کی ریاستوں سے چارے سے بھرے ۴-۳ ٹرک یہاں روزانہ آتے ہیں۔‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ یہ کام حسب معمول چلتا رہے اس کے لیے دان (عطیہ) میں ملے پیسوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔

جب ہم ان نالے نما غاروں سے باہر نکل کر کھلے آسمان کے نیچے آتے ہیں تب ڈھولی برادری کے پریم چوہان اور لکشمن چوہان کے ذریعے ہارمونیم بجانے اور گانے کی آوازیں ہمیں دوبارہ سنائی دیتی ہیں۔ وہ دیوی کا بھجن گا رہے ہیں۔ شری بھادریا ماتا صرف اس مندر کی ہی نگہبان نہیں ہیں، بلکہ اس کے نیچے کی زمین اور آس پاس کے علاقوں پر بھی انھیں کی مرضی چلتی ہے۔

The temple attracts many devotees through the year, and some of them also visit the library
PHOTO • Urja

مندر میں ہر سال بے شمار عقیدت مند آتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کی دلچسپی اس لائبریری کو دیکھنے میں بھی رہتی ہے


At the entrance to the Shri Bhadriya Mata Ji temple in Jaisalmer district of Rajasthan
PHOTO • Urja

راجستھان کے جیسلمیر ضلع میں واقع شری بھادریا ماتا جی مندر کا مرکزی دروازہ


Visitors to the temple also drop into the library, now a tourist attraction as well
PHOTO • Priti David

مندر میں آنے والے عقیدت مندوں میں کئی لوگ لائبریری بھی گھومنے آتے ہیں۔ اس لیے اب یہ ایک سیاحتی مقام بن چکا ہے


The library is spread across 15,000 square feet; its narrow corridors are lined with 562 cupboards that hold over two lakh books
PHOTO • Urja

لائبریری ۱۵ ہزار مربع فٹ کے رقبہ میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس کے تنگ گلیارے میں ۵۶۲ الماریوں کی قطاریں ہیں جن میں دو لاکھ سے بھی زیادہ کتابوں کا ذخیرہ ہے


Old editions are kept under lock and key
PHOTO • Urja

پرانی جلدیں بہت حفاظت سے رکھی جاتی ہیں


A few 1,000-year-old manuscripts are kept in boxes that only library staff can access
PHOTO • Urja

ان میں سے کچھ ۱۰۰۰ سال پرانے مخطوطات بھی ہیں جو بکسوں میں بند ہیں اور صرف لائبریری کے ملازم ہی ان تک پہنچ سکتے ہیں


Religious texts on Hinduism, Islam, Christianity and other religions
PHOTO • Urja

ایسی مقدس کتابوں میں ہندو ازم، اسلام، عیسائیت اور دوسرے مذاہب اور فرقوں کی کتابیں اہم ہیں


Copies of the Quran and other books written Hindi, Urdu and English
PHOTO • Priti David

ان کتابوں میں قرآن و حدیث کے نسخوں کے علاوہ ہندی، اردو اور انگریزی میں لکھی اسلامی کتابیں بھی شامل ہیں

A collection of Premchand’s books
PHOTO • Urja

یہاں پریم چند کی تمام کتابیں دستیاب ہیں


Books on the history of America and the history of England
PHOTO • Urja

اور امریکی اور برطانوی تاریخ کی بھی کتابیں ہیں


Books on media and journalism
PHOTO • Urja

میڈیا اور صحافت سے متعلق کتابوں کا ذخیرہ بھی یہاں موجود ہے


The Samadhi shrine of the founder of the library, Harvansh Singh Nirmal
PHOTO • Urja

لائبریری کے بانی ہرونش سنگھ نرمل کی سمادھی کی جگہ


A letter signed by library founder, Harvansh Singh Nirmal is displayed prominently
PHOTO • Urja

لائبریری کے بانی ہرونش سنگھ نرمل کے دستخط والے ایک خط کو یہاں نمایاں جگہ پر رکھا گیا ہے


The gaushala (cow shelter) houses  roughly 44,000 cows and bulls of different breeds – Gir, Tharparkar, Rathi and Nagori
PHOTO • Priti David

گئوشالہ میں گیر، تھار پارکر، راٹھی اور ناگوری جیسی مختلف نسلوں کی تقریباً ۴۴ ہزار گائیں اور بیل ہیں

There is small bustling market outside the temple selling items for pujas, toys and snacks
PHOTO • Urja

مندر کے باہر گہما گہمی سے بھرا ایک چھوٹا سا بازار ہے جہاں پوجا پاٹھ کے سامان، کھلونے اور کھانے پینے کی چیزیں فروخت ہوتی ہیں

مترجم: محمد قمر تبریز

Urja is Senior Assistant Editor - Video at the People’s Archive of Rural India. A documentary filmmaker, she is interested in covering crafts, livelihoods and the environment. Urja also works with PARI's social media team.

Other stories by Urja
Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Editor : Riya Behl

Riya Behl is Senior Assistant Editor at People’s Archive of Rural India (PARI). As a multimedia journalist, she writes on gender and education. Riya also works closely with students who report for PARI, and with educators to bring PARI stories into the classroom.

Other stories by Riya Behl
Photo Editor : Binaifer Bharucha

Binaifer Bharucha is a freelance photographer based in Mumbai, and Photo Editor at the People's Archive of Rural India.

Other stories by Binaifer Bharucha
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique