گدّمیڈی راجیشوری ۲۰۱۸ میں ہی زمین کی مالکن بن گئی تھیں۔ ’’میں بہت خوش تھی! آخر میں وہ عورت تھی جس کے پاس خود کے مالکانہ حق والی زمین تھی۔‘‘

یا اس وقت انہوں نے اپنے ہاتھوں میں سرکاری کاغذ دیکھ کر فخر کے ساتھ یہی سوچا ہوگا۔

حالانکہ، تب سے پانچ سال گزر چکے ہیں اور وہ ابھی بھی اس انتظار میں ہیں کہ حکومت برواڈ میں ان کی ۲۸ء۱ ایکڑ زمین پر ان کی ملکیت کو ایک دن تسلیم کر لے گی۔ اس زمین کے لیے انہوں نے ۳۰ ہزار روپے ادا کیے تھے، جو ینکے پلّی گاؤں میں واقع ان کے گھر سے تقریباً ۳۰ کلومیٹر دور ہے۔

زمین خریدنے کے کچھ مہینوں کے اندر ہی راجیشوری کو مالکانہ حق کا کاغذ، دعوے کی تفصیلات اور وہ تمام کاغذات مل گئے جن کی ضرورت انہیں ایک پٹّہ دار پاس بک حاصل کرنے کے لیے تھی۔ لیکن یہ سب ان کے کچھ خاص کام آنے والا نہیں تھا۔ ’’پانچ سال گزر چکے ہیں اور مجھے ابھی تک میرا پٹّہ دار [زمین کی ملکیت کا] پاس بک نہیں ملا ہے۔ پٹہ دار پاس بک کے بغیر کیا یہ زمین میری مانی جائے گی؟‘‘

زمین رجسٹری کے کاغذ سے صرف یہی پتہ چلتا ہے کہ زمین کا مالکانہ حق منتقل نہیں ہوا ہے، لیکن پٹہ دار پاس بک ملکیت سے متعلق دیگر تمام معلومات فراہم کرنے کے قابل ہے۔ اس میں پٹہ دار کا نام، سروے نمبر، زمین کی قسم اور دیگر ضروری معلومات شامل ہیں۔ اس میں زمین کے مالک کی پاسپورٹ فوٹو لگی ہونے کے ساتھ ساتھ تحصیل دار (ریوینیو کلکٹر) کا دستخط بھی ہوتا ہے۔

Gaddamidi Rajeshwari holding the title deed for the land she bought in 2018. ' It’s been five years now and I still haven’t received my pattadar [land owner] passbook'
PHOTO • Amrutha Kosuru

گدّمیڈی راجیشوری اپنے ساتھ اُس زمین کے کاغذات لیے کھڑی ہیں جسے انہوں نے ۲۰۱۸ میں خریدا تھا۔ ’زمین کو خریدے ہوئے مجھے پانچ سال ہو چکے ہیں، لیکن مجھے ابھی تک میرا پٹہ دار پاس بک نہیں ملا ہے‘

اکتوبر ۲۰۲۰ میں تلنگانہ زمینی حقوق اور پٹہ دار پاس بک قانون، ۲۰۲۰ کے تحت ایک آن لائن زمینی ریکارڈ کے بندوبست کا نظام – دھرنی پورٹل کی شروعات کے ساتھ راجیشوری کے من میں امید کی ایک نئی روشنی پھوٹی۔

اس پورٹل کی شروعات کرتے ہوئے تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ نے اسے کسانوں کی مدد کرنے والی ایک نئی پہل بتاتے ہوئے کہا تھا، ’’اس پلیٹ فارم کے ذریعے رجسٹریشن کا عمل پہلے سے آسان اور تیز ہو جائے گا۔ لوگوں کو اب الگ الگ دفتروں کے چکر لگانے سے راحت مل سکے گی۔‘‘

راجیشوری کے شوہر رامولو کہتے ہیں، ’’ہم نے سوچا تھا کہ دھرنی ہمارے مسائل کو حل کر دے گی اور ہمیں ہمارا پاس بک بھی مل جائے گا۔ سال ۲۰۱۹ کے آخر تک ہم مہینے میں کم از کم دو بار تحصیل دار کے دفتر جاتے رہے۔‘‘

سال ۲۰۲۰ میں، جب میاں بیوی نے دھرنی پورٹل پر معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی، تب انہیں یہ پتہ چلا کہ پورٹل میں ان کی زمین کا سروے نمبر ہی درج نہیں تھا۔ یہ اندراج ہاتھ سے نہیں کیا جا سکتا تھا۔

’’دھرنی پورٹل کی بڑی خامیوں میں ایک یہ بھی ہے کہ اس میں نام، ایکڑ اور سروے نمبر نہ ہونے سے متعلقہ کمیوں کو درست یا تبدیل کرنے کا متبادل فی الحال بہت محدود ہے،‘‘ وکار آباد میں کسان متر کی ضلع کوآرڈی نیٹر اور صلاح کار بھارگوی وُپّلا یہ مانتی ہیں۔

Left: Ramulu and Rajeshwari spent Rs. 30,000 to buy 1.28 acres of land in Barwad, 30 kilometres from their home in Yenkepalle village.
PHOTO • Amrutha Kosuru
Right: Mudavath Badya in his home in Girgetpalle village in Vikarabad district
PHOTO • Amrutha Kosuru

بائیں: رامولو اور راجیشوری نے ینکے پلّی گاؤں میں اپنے گھر سے تقریباً ۳۰ کلومیٹر دور برواڈ میں ۳۰ ہزار روپے میں ۲۸ء۱ ایکڑ زمین خریدی تھی۔ دائیں: وکار آباد ضلع میں گرگیٹ پلّی گاؤں کے اپنے گھر میں مُداوت بدّیا

زمین کے مالک کے نام میں گڑبڑی کے سبب تقریباً ۲۰ کلومیٹر دور واقع گرگیٹ پلّی میں مُداوت بدّیا اپنی ہی زمین کے قانوناً مالک نہیں بن پائے ہیں۔ یہ گاؤں وکار آباد ضلع میں ہے۔ پورٹل میں ان کا نام ’بدّیا لمباڈا‘ کے طور پر درج ہے، جب کہ نام کے طور پر جو دوسرا لفظ درج ہے وہ ان کی برادری کا نام ہے اور تلنگانہ میں درج فہرست قبائل کے طور پر درج ہے۔ پورٹل میں ان کا نام ’مُداوت بدّیا‘ لکھا ہونا چاہیے تھا۔

بدّیا دو ایکڑ زمین کے مالک ہیں، جسے انہوں نے ۴۰ سال پہلے خریدا تھا۔ ’’میں دوسروں کے کھیتوں میں کام کرتا تھا، اور کئی سال تک میں نے مکانوں کی تعمیر کے مقامات اور اینٹ بھٹوں پر مزدوری بھی کی۔ تب جا کر زمین خریدنے لائق بن سکا،‘‘ ۸۰ سال کے بدّیا بتاتے ہیں۔ وہ مکئی اور جوار کی کھیتی کرتے تھے، لیکن کہتے ہیں، ’’کھیتی سے ہونے والی آمدنی ہمارے گزارہ کے لیے کبھی کافی نہیں رہی۔ زیادہ تر فصلیں بھاری بارش کے سبب برباد ہو جاتی تھیں۔‘‘

چونکہ ان کا نام ہی غلط درج ہوا ہے، اس لیے وہ رعیتو بندھو اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھا پا رہے ہیں۔ تلنگانہ کی اس فلاحی اسکیم کے تحت کم از کم ایک ایکڑ قابل کاشت زمین کی ملکیت والے کسانوں کو ربیع اور خریف کے موسموں میں، یعنی سال میں دو بار ۵۰۰۰ روپیے فی ایکڑ کے حساب سے ادائیگی کا التزام ہے۔

وکار آباد ضلع کلکٹر کے ایک ملازم اپنا نام نہیں شائع کیے جانے کی شرط پر بتاتے ہیں کہ دھرنی کی خامیاں اب ایک سیاسی ہتھیار کی شکل اختیار کر چکی ہیں، بھلے ہی ان کے حل تلاش کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ فی الحال پورٹل میں زمین کے مخصوص معاملوں سے متعلق ۱۰ ایسی خامیاں ہیں، جنہیں فوراً دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان خامیوں میں نام، آدھار، فوٹو، صنف اور ذات خاص طور پر اہم ہیں۔

تقریباً ۴۰ کلومیٹر دور بوپن ورم گاؤں میں رہنے والے رنگیّا کو بھی رعیتو بندھو اسکیم کے پیسے نہیں ملتے ہیں، جب کہ ان کا نام دھرنی پورٹل پر بالکل صحیح لکھا ہوا ہے۔ رنگیا کے پاس بوپن ورم میں پانچ ایکڑ زمین ہے۔ یہ زمین انہیں ۱۹۸۹ میں دی گئی تھی۔ رنگیا بیڑ جنگم برادری سے تعلق رکھتے ہیں، جسے ریاست میں درج فہرست ذات کا درجہ دیا گیا ہے۔

Left: Rangayya suddenly stopped receiving money from the Rythu Bandhu scheme even though his name is spelt perfectly on the Dharani portal
PHOTO • Amrutha Kosuru
Badya bought two acres in Girgetpalle but his name was spelt incorrectly, he has not received the Rythu Bandhu money. Badya with his youngest son Govardhan (black shirt) in their one-room house
PHOTO • Amrutha Kosuru

بائیں: رنگیّا کو اچانک رعیتو بندھو اسکیم کے پیسے ملنے بند ہو گئے، جب کہ دھرنی پورٹل پر ان کا نام بالکل صحیح لکھا ہوا تھا۔ دائیں: بدّیا نے گرگیٹ پلّی میں دو ایکڑ زمین خریدی تھی، لیکن نام غلط درج ہو جانے کی وجہ سے رعیتو بندھو اسکیم کے پیسے انہیں نہیں مل پا رہے تھے۔ بدّیا اور کالی قمیض پہنے ان کے چھوٹے بیٹے گووردھن اپنے ایک کمرے کے گھر میں بیٹھے ہیں

’’سال ۲۰۲۰-۲۰۱۹ کے درمیان مجھے تین قسطیں ملیں۔ لیکن جیسے ہی میری زمین دھرنی پورٹل کے ڈیٹا کا حصہ بنی، مجھے پیسے ملنے بند ہو گئے،‘‘ ۶۷ سال کے رنگیّا بتاتے ہیں۔ فی ایکڑ ۵۰۰۰ روپے کے حساب سے انہیں ہر قسط میں ۲۵ ہزار روپے ملتے تھے۔

’’کوئی بھی افسر مجھے صاف صاف جواب نہیں دیتا ہے۔ ایسا شاید اس لیے ہے کہ ان کو بھی یہ معلوم نہیں ہے کہ کیا جواب دینا ہے یا ایسا کیوں ہو رہا ہے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔

بھارگوی کہتی ہیں کہ پورٹل پر تفصیلات سے متعلق جو غلطیاں ہیں، انہیں مینوئل طریقے سے ٹھیک کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ وہ کلکٹریٹ میں صلاح کار کے عہدہ پر فائز ہیں اور بتاتی ہیں، ’’تقسیم کی گئی زمین کے معاملے میں پورٹل کے پاس واحد متبادل وارث کے نام میں تبدیلی کرنا ہے۔‘‘ تقسیم کی گئی زمین کو بیچا نہیں جا سکتا ہے، اسے صرف وارثین کو دیا جا سکتا ہے۔

بدّیا اپنے ایک کمرے کے کچے مکان میں چھوٹے بیٹے گووردھن کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کی بیوی کا چھ سال پہلے ہی انتقال ہو گیا تھا۔

ایسا نہیں ہے کہ انہیں صرف رعیتو بندھو اسکیم کے ہی پیسے نہیں مل رہے ہیں، بلکہ مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی قانون (منریگا) کے تحت ہونے والی ۲۶۰ روپے کی یومیہ کمائی بھی بند ہو گئی ہے، کیوں کہ ان کے گاؤں گرگیٹ پلّی کو وکار آباد میونسپلٹی علاقے میں شامل کر لیا گیا ہے۔

انہوں نے ۲۰۲۱ میں اپنے نام کو بدلنے کے لیے وکار آباد کے محکمہ مال میں ایک شکایت عرضی بھی دائر کی، لیکن اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔

’’میرا چھوٹا بیٹا مجھ سے ہمیشہ کہتا رہا کہ میں زمین بیچ دوں۔ اس نے کہا کہ ان پیسوں سے وہ ایک کار خریدے گا اور ٹیکسی ڈرائیور بنے گا۔ لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ شاید مجھے یہی کرنا چاہیے تھا،‘‘ بدّیا کہتے ہیں۔

*****

'Cotton is the only crop we can plant due to the lack of money and water in the region,' says Ramulu.
PHOTO • Amrutha Kosuru
Rajeshwari making jonne roti in their home in Yenkepalle village
PHOTO • Amrutha Kosuru

’پیسے اور پانی کی کمی کے سبب ہم اس علاقے میں صرف کپاس کی کھیتی ہی کر سکتے ہیں،‘ رامولو بتاتے ہیں۔ ینکے پلّی گاؤں کے اپنے گھر میں راجیشوری جوار کی روٹی بنا رہی ہیں

آخرکار نومبر ۲۰۲۲ میں راجیشوری اور رامولو نے وکار آباد کے کلکٹر آفس میں اپنے گم سروے نمبر کے بارے میں ایک درخواست دی۔

اس کے بعد سے وہ ہر ہفتے کوٹے پلّی کے تحصیل دار آفس اور وکار آباد کلکٹر کے دفتر کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ وکار آباد کلکٹر کا دفتر ان کے گھر سے تقریباً ۳۰ کلومیٹر دور ہے۔ وہاں جانے کے لیے وہ بس پر منحصر ہیں، اور ایک آدمی کے ایک بار جانے آنے پر ۴۵ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ انہیں علی الصبح ہی نکلنا ہوتا ہے اور لوٹتے لوٹتے شام ہو جاتی ہے۔ ’’ہمارے دونوں بچے اسکول کے لیے نکل جاتے ہیں اور ہم بھی اس امید سے نکلتے ہیں کہ اپنا پاس بک جاری کرا لیں گے،‘‘ راجیشوری کہتی ہیں۔

وہ برواڈ میں اپنی ۲۸ء۱ ایکڑ زمین پر ۲۰۱۸ کے آخر سے ہی کھیتی کرنے لگے ہیں۔ ’’ہم جون میں کپاس بوتے ہیں اور اس کے پھول آتے آتے نصف جنوری نکل جاتی ہے۔ پیسوں کی تنگی اور اس علاقے میں پانی کی کمی کے سبب ہم یہاں صرف کپاس کی ہی کھیتی کر سکتے ہیں،‘‘ رامولو کہتے ہیں۔ وہ ہر سال ایک کوئنٹل کپاس اُگا لیتے ہیں اور اسے ۷۷۵۰ روپے میں بیچ دیتے ہیں۔

پاس بک نہ ہونے کی وجہ سے وہ رعیتو بندھو اسکیم کی سہولیات حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ میاں بیوی بتاتے ہیں کہ انہیں ابھی تک تقریباً آٹھ قسطوں کی ادائیگی کا نقصان اٹھانا پڑا ہے، جو ۴۰ ہزار روپے کے آس پاس ہے۔

بھارگوی بتاتی ہیں کہ ان کے معاملے میں بقیہ رقم کی ادائیگی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

Left: Rangayya finds it odd that he doesn't get money under Rythu Bandhu but recieves money under a central government's scheme.
PHOTO • Amrutha Kosuru
Right: Rajeshwari and Ramulu have started herding goats after taking a loan from a moneylender
PHOTO • Amrutha Kosuru

بائیں: رنگیا کو یہ بات عجیب لگتی ہے کہ انہیں رعیتو بندھو اسکیم کے پیسے نہیں ملتے ہیں، لیکن مرکزی حکومت کی ایک اسکیم کے پیسے مل جاتے ہیں۔ دائیں: راجیشوری اور رامولو نے ایک مہاجن سے قرض لے کر بکری پالنے کا کام شروع کیا ہے

بوپن ورم گاؤں کے رنگیا رعیتو بندھو اسکیم کے فائدوں سے محروم ہیں اور کہتے ہیں کہ پیسوں کی کمی کے سبب وہ جون سے دسمبر تک صرف جوار اور ہلدی کی کھیتی کرتے ہیں۔

رنگیا کے حق میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت کے پورٹل پر ان سے متعلق تفصیلات کا اندراج صحیح ہے، اور وہ پردھان منتری کسان سمّان ندھی ( پی ایم کسان ) کے تحت امدادی رقم پاتے رہے ہیں۔ اس اسکیم کے تحت چھوٹے اور بٹائی دار کسانوں کو سال میں ۶۰۰۰ روپے ملتے ہیں، جو ان کے آدھار سے جڑے بینک کھاتے میں براہ راست جمع ہوتے ہیں۔

’’اگر مرکزی حکومت مجھے ایک مستفید کے طور پر قبول کرتی ہے، تو ریاستی حکومت نے مجھے مستفیدین کی فہرست سے کیوں ہٹا دیا،‘‘ رنگیا کا سیدھا سوال ہے۔ ’’یہ سب دھرنی کی شروعات کے بعد ہی شروع ہوا۔‘‘

*****

جنوری ۲۰۲۳ میں قانونی طور پر زمین کے ایک مالک کے طور پر پہچانے جانے کے لمبے انتظار سے تھک کر راجیشوری اور رامولو نے آخرکار مویشی پروری کا کام شروع کر دیا۔ ان کا تعلق گولاّ برادری سے ہے، جو روایتی طور پر مویشی پرور طبقہ رہا ہے۔ رامولو نے ایک نجی مہاجن سے ماہانہ ۳ فیصد شرح سود پر ایک لاکھ روپے کا قرض لیا اور ان پیسوں سے ۱۲ بکریاں خریدیں۔ انہیں ایک سال تک ہر مہینے ۳۰۰۰ روپے ادا کرنے ہوں گے، لیکن یہ صرف سود کے پیسے ہیں۔

’’کچھ مہینوں کے بعد ہم بکریوں کو بیچنا شروع کر دیں گے۔ ایک میمنہ ۳۰۰۰-۲۰۰۰ روپے میں فروخت ہوگا، اور بڑی بکریاں ۵۰۰۰ سے ۶۰۰۰ روپے میں جائیں گی۔ یہ ان کی صحت پر منحصر ہے،‘‘ رامولو بتاتے ہیں۔

انہوں نے طے کر لیا ہے کہ وہ اس سال بھی پاس بک حاصل کرنے کی کوشش کرنا نہیں چھوڑیں گے، لیکن راجیشوری تھوڑا تھکے ہوئے لہجے میں کہتی ہیں، ’’شاید اپنی زمین کا مالک ہونا میری قسمت میں ہی نہیں ہے۔‘‘

یہ اسٹوری رنگ دے کے مالی تعاون سے کی گئی ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Amrutha Kosuru

Amrutha Kosuru is a 2022 PARI Fellow. She is a graduate of the Asian College of Journalism and lives in Visakhapatnam.

Other stories by Amrutha Kosuru
Editor : Sanviti Iyer

Sanviti Iyer is Assistant Editor at the People's Archive of Rural India. She also works with students to help them document and report issues on rural India.

Other stories by Sanviti Iyer
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique