گھر کے اندر کرسی پر خاموش بیٹھے گوما راما ہزارے کا وقت گاؤں کی خالی پڑی سڑک کو دیکھتے ہوئے گزرتا ہے۔

کبھی کبھی وہ راہگیروں سے بات کر لیتے ہیں، جو ان کی خبر خیریت لینے آ جاتے ہیں۔ تقریباً ایک ہفتہ پہلے ہی طویل علالت کے بعد ان کی بیوی کی موت ہو گئی تھی۔

شام کے ۵ بجے ہیں۔ وسط اپریل کی تیز گرمی سر پر ہے۔ شمالی گڑھ چرولی میں آرمولی تحصیل کے بانس اور ساگوان سے بھرے جنگلات کی گود میں آباد پلسگاؤں میں قبرستان جیسی خاموشی ہے۔ گڑھ چرولی-چیمور لوک سبھا حلقہ میں کچھ ہی دنوں میں پولنگ ہونی ہے۔ اس سیٹ پر موجودہ بی جے پی رکن پارلیمنٹ اشوک نیتے دوبارہ انتخابی میدان میں ہیں۔ مگر لوگوں میں کوئی جوش نہیں ہے، فکرمندیاں ضرور ہیں۔

دو مہینے سے گوما کے پاس کوئی کام نہیں ہے۔ عموماً اس دوران ۶۰ سال سے زیادہ عمر کے بے زمین مزدور گوما اور ان جیسے کئی لوگ مہوا یا تیندو کے پتے اکٹھا کر رہے ہوتے تھے یا جنگل میں بانس کاٹ رہے ہوتے یا پھر کھیت کا کام کر رہے ہوتے تھے۔

گوما کہتے ہیں، ’’لوگ گھر پر ہی ہیں۔‘‘ تپتی گرمی والے دن ہیں۔ آپ باہر نہیں نکل سکتے۔ کئی گاؤں اس قسم کے کرفیو کے عادی ہیں، کیوں کہ گڑھ چرولی چار دہائیوں سے حفاظتی دستوں اور مسلح ماؤ نوازوں کے درمیان خونی تصادم کا سامنا کر رہا ہے۔ مگر اس بار مہمان کوئی اور ہے اور وہ گاؤں والوں کی زندگی اور روزی روٹی کے لیے سیدھا خطرہ ہے۔

پلسگاؤں کے ارد گرد ۲۳ جنگلی ہاتھیوں کا ایک جھنڈ ڈیرہ ڈالے ہوئے ہے۔ اس میں زیادہ تر مادہ ہاتھی ہیں، جن کے ساتھ ان کے بچے بھی ہیں۔

PHOTO • Jaideep Hardikar
PHOTO • Jaideep Hardikar

مہاراشٹر کے پلسگاؤں میں ایک بے زمین کسان گوما راما ہزارے (بائیں) کو اس گرمی میں گاؤں کے ارد گرد موجود جنگلی ہاتھیوں کے جھنڈ کی وجہ سے اپنا معاش کھونا پڑا ہے۔ لوک سبھا انتخابات کے اس موسم میں گاؤں والے پارلیمانی ووٹنگ سے زیادہ جنگلی ہاتھیوں کے بارے میں فکرمند ہیں۔ انہیں اور ان کے اہل خانہ کو مہوا اور تیندو کے پتے اکٹھا نہ کر پانے کی وجہ سے ہر فرد کے حساب سے دو مہینے میں کل ۲۵ ہزار روپے کا نقصان ہوگا

PHOTO • Jaideep Hardikar
PHOTO • Jaideep Hardikar

بائیں: ہزارے پلسگاؤں میں خالی پڑی سڑک پر۔ دائیں: وسط اپریل میں ہی درجہ حرارت بڑھنے کے سبب گاؤں تقریباً سنسان ہو جاتا ہے۔ کچھ گھروں میں مہوا کے پھول دھوپ میں سُکھائے جا رہے ہیں۔ یہ پھول ارد گرد کے کھیتوں سے اکٹھا کیے گئے ہیں۔ عموماً اس وقت گاؤں مہوا اور تیندو کے پتوں سے بھرا ہوتا ہے، مگر اس سال ایسا نہیں ہوا

تقریباً ایک مہینہ سے ہاتھیوں کا جھنڈ شمالی چھتیس گڑھ سے آیا ہوا ہے۔ یہ جھنڈ جھاڑیوں، بانس کے جنگل اور دھان کی فصلیں کھا رہا ہے۔ اس سے دیہی اور ضلعی فاریسٹ آفیسرز فکرمند ہیں۔ تقریباً چار سال قبل ہاتھی مہاراشٹر کے مشرقی ودربھ علاقے میں داخل ہو گئے تھے، کیوں کہ کانکنی اور جنگلات کی کٹائی سے ان کی قدرتی پناہ گاہ اور شمال میں آمد و رفت کے راستے متاثر ہو رہے تھے۔

مہاراشٹر کے گوندیا، گڑھ چرولی اور چندر پور کے تین ضلعوں اور چھتیس گڑھ کے بستر (پہلے ’دنڈکارنیہ‘ کا حصہ) میں گھومتے یہ ہاتھی چھتیس گڑھ کے ہاتھیوں کے ایک بڑے جھنڈ کا حصہ ہیں۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ یہ شاید ان سے الگ ہو گئے ہیں اور مہاراشٹر کی جنگلاتی حیات میں شامل ہو گئے ہیں۔

گڑھ چرولی ضلع کے جنوبی حصوں میں کچھ تربیت یافتہ ہاتھی بھی ہیں، جو محکمہ جنگلات کو ان کے نقل و حمل کے کام میں مدد کرتے ہیں۔ مہاراشٹر کے مشرقی حصوں میں ڈیڑھ صدی یا شاید اس سے بھی زیادہ عرصے کے بعد جنگلی ہاتھیوں کی واپسی دیکھی گئی ہے۔ مغربی گھاٹ پر تو جنگلی ہاتھی عام طور پر مل جاتے ہیں۔

جنگلات کے افسران نے پلسگاؤں کے لوگوں سے کہا ہے کہ جب تک یہ مہمان کہیں اور نہیں چلے جاتے، وہ اپنے گھر پر ہی بنے رہیں۔ ان لوگوں میں زیادہ تر آدیواسی کنبے ہیں، اور اس لیے ۱۴۰۰ لوگوں (مردم شماری ۲۰۱۱) کے اس گاؤں اور پڑوسی وہرگاؤں جیسے گاؤوں کے بے زمین لوگوں اور چھوٹے کسانوں کو اپنے جنگلات پر مبنی معاش کو چھوڑنا پڑا ہے۔

ریاست کا محکمہ جنگلات فصل کے نقصان کی تلافی تو فوراً کر دیتا ہے، مگر جنگلی پیداوار سے ہونے والی آمدنی کے نقصان کے لیے کوئی معاوضہ نہیں دیتا۔

گوما کہتے ہیں، ’’میری فیملی گرمی کے پورے موسم میں مہوا اور تیندو کے پتوں پر منحصر رہتی ہے۔‘‘

آمدنی کا وہ راستہ بند ہونے کے بعد پلسگاؤں صرف یہی دعا کر سکتا ہے کہ جنگلی ہاتھی جلد از جلد یہاں سے چلے جائیں، تاکہ لوگ اپنے کام پر لوٹ سکیں۔

PHOTO • Jaideep Hardikar
PHOTO • Jaideep Hardikar

بائیں: جنگلات کے افسران نے پلسگاؤں کے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ کام پر نکلنے سے پہلے ہاتھیوں کے کہیں اور چلے جانے کا انتظار کریں۔ دائیں: پلسگاؤں کے کسان پھول چند واگھاڑے کو پچھلے موسم میں نقصان ہوا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا تین ایکڑ کھیت ہاتھیوں نے برباد کر دیا تھا

گڑھ چرولی کے چیف کنزرویٹر آف فاریسٹ (سی سی ایف) ایس رمیش کمار کہتے ہیں، ’’یہ جھنڈ گزشتہ تین گرمیوں کی طرح چھتیس گڑھ کی طرف نہیں گیا۔ شاید اس لیے، کیوں کہ ان میں سے ایک مادہ نے کچھ دن پہلے ایک بچے کو جنم دیا تھا۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ جھنڈ میں کچھ بچے ہیں۔ ہاتھیوں میں ماؤں کی چلتی ہے۔

پچھلے سال (۲۰۲۳ میں) یہی جھنڈ پلسگاؤں سے تقریباً ۱۰۰ کلومیٹر دور گوندیا ضلع کے قریب ارجنی مورگاؤں تحصیل میں تھا۔ وہاں اس نے نانگل-ڈوہا کے ۱۱ گھروں والے گاؤں میں ہنگامہ برپا کیا تھا اور گھنے جنگلوں میں کچھ مہینے رہا تھا۔

بھرنولی گاؤں کے پاس مقبوضہ زمین کے ٹکڑے پر رہنے والے لوگوں میں سے وجے مڑاوی یاد کرتے ہیں، ’’اس رات ہاتھیوں کی دہشت سے ایک بھی جھونپڑی نہیں بچی تھی۔ وہ آدھی رات کو آئے تھے۔‘‘

اُس رات نانگل-ڈوہا کو خالی کرا کر لوگوں کو بھرنولی کے ضلع پریشد اسکول میں رکھا گیا تھا، جہاں وہ سال ۲۰۲۳ کی پوری گرمیوں میں رہے۔ گرمی کی چھٹیوں کے بعد جب اسکول شروع ہوا، تو انہوں نے گاؤں کے باہر جنگل کی زمین کا ایک حصہ صاف کر کے بغیر بجلی پانی کے عارضی جھونپڑیاں بنا لی تھیں۔ عورتیں کھیت کے کنویں سے پانی لانے کچھ میل تک پیدل جاتی ہیں، مگر گاؤں کے تمام لوگوں نے کھیتی کی اپنی چھوٹی چھوٹی زمینیں گنوا دیں، جنہیں وہ کبھی جنگل جھاڑیاں صاف کرنے کے بعد جوتتے تھے۔

بے گھر ہو چکیں اوشا ہولی پوچھتی ہیں، ’’ہمیں اپنا گھر کب ملے گا؟‘‘ خالی کرائے گئے گھروں کے لوگ باز آبادکاری پیکیج اور مستقل گھر کا انتظار کر رہے ہیں۔

جیسے جیسے ہاتھی اپنی جگہ بدلتے ہیں ویسے ویسے ان تین ضلعوں کے کسانوں کو فصل کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ پہلے اس کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔

PHOTO • Jaideep Hardikar
PHOTO • Jaideep Hardikar

پچھلی گرمیوں (سال ۲۰۲۳) میں جنگلی ہاتھیوں نے گوندیا ضلع کی ارجنی مورگاؤں تحصیل میں نانگل-ڈوہا گاؤں کی تمام جھونپڑیاں تباہ کر دی تھیں۔ یہاں کے ۱۱ کنبوں نے پاس کے گاؤں بھرنولی میں جنگل کی زمین کے ایک ٹکڑے پر عارضی جھونپڑیاں بنا لی ہیں۔ وہ ریاستی حکومت سے باز آبادکاری اور معاوضہ کا پیکیج ملنے کا انتظار کر رہے ہیں

شمالی گڑھ چرولی علاقے میں جنگلی ہاتھیوں کے جھنڈ کے بندوبست کی مشکل کے بارے میں رمیش کمار کہتے ہیں کہ جنوب کی معمولی آبادی کے مقابلے ہندوستان کے شمال میں بہت گھنی آبادی ہے۔ بڑا مسئلہ فصل کی بربادی ہے۔ شام کو ہاتھی اپنے علاقے سے باہر آتے ہیں اور کھڑی فصل کو روند ڈالتے ہیں، خواہ وہ اسے کھاتے نہ ہوں۔

میدان پر جنگلات کے افسران کے پاس فوری ردعمل والی ٹریکنگ ٹیم اور ابتدائی وارننگ دینے والے گروپ ہیں جو ڈرون اور تھرمل امیجنگ کی مدد سے چوبیسوں گھنٹے جھنڈ کا پیچھا کرتے رہتے ہیں۔ آگے بڑھتے ہاتھیوں سے اچانک ٹکراؤ سے بچانے کے لیے وہ گاؤں کے لوگوں کو آگاہ کرتے رہتے ہیں۔

شام ڈھلتے ہی پلسگاؤں میں سات ایکڑ زمین والے کسان، نتن مانے اور گاؤں کے پانچ لوگوں پر مشتمل ایک گروپ رات میں پہرہ دینے کے لیے ہُلّا گینگ میں شامل ہو جاتے ہیں۔ فاریسٹ گارڈ یوگیش پندرام کی قیادت میں وہ جنگلی ہاتھیوں پر نظر رکھنے کے لیے جنگلوں میں گھومتے ہیں۔ جنگلی ہاتھوں کے انتظام میں ماہر ہُلّا گینگ کو مقامی افسران کی مدد اور گاؤں کے نوجوانوں کو تربیت دینے کے لیے مغربی بنگال سے کام پر رکھا گیا ہے۔ نتن کہتے ہیں کہ وہ ہاتھیوں پر ہوائی نظر رکھنے کے لیے کھیت میں دو ڈرون تعینات کرتے ہیں اور ہاتھیوں کی جگہ کا پتہ لگانے کے بعد ان کے ارد گرد گھومتے ہیں۔

مانا آدیواسی اور پلسگاؤں کی پہلی خاتون سرپنچ بنیں جے شری دڑھمل کہتی ہیں، ’’کچھ گاؤں والوں کو ہُلّا گینگ میں شامل کیا گیا ہے، تاکہ اگر ہاتھی گاؤں میں داخل ہونے کی کوشش کریں، تو وہ انہیں بھگا دیں۔ لیکن یہ میرا سر درد ہو گیا ہے۔ لوگ مجھ سے ہاتھیوں کے بارے میں شکایت کرتے ہیں اور اپنی ناراضگی مجھ پر نکالتے ہیں۔‘‘ وہ پوچھتی ہیں، ’’ہاتھیوں کے لیے میں ذمہ دار کیسے ہوں؟‘‘

PHOTO • Jaideep Hardikar
PHOTO • Jaideep Hardikar

بائیں: پلسگاؤں کے ایک نوجوان کسان نتن مانے ہُلّا گینگ کا حصہ ہیں، جو ایک فوری ردعمل والی ٹیم ہے۔ اسے محکمہ جنگلات نے ڈرون کی مدد سے جنگلی ہاتھیوں پر نظر رکھنے اور جھنڈ کے گاؤں میں داخل ہونے کی کوشش کرنے پر اسے بھگانے کے لیے تعینات کیا ہے۔ دائیں: جنگلات کے افسران اور ہُلّا گینگ کے ممبران کی ٹیم رات کی نگرانی کے لیے تیاری کر رہی ہے

PHOTO • Jaideep Hardikar
PHOTO • Jaideep Hardikar

پلسگاؤں کی سرپنچ جے شری دڑھمل اپنے کھیت سے مہوا سے بھری ٹوکری لاتی ہیں، مگر جنگلی ہاتھیوں کے موجود ہونے کی وجہ سے وہ پیداوار اکٹھا کرنے جنگل میں نہیں جا سکتیں

مشکل یہ ہے کہ پلسگاؤں میں حالات معمول پر ہونے کے بعد جن گاؤوں کے ارد گرد جنگلی ہاتھی اپنا ٹھکانہ بنائیں گے، ان کے لیے مشکل برقرار رہے گی۔ جنگلات کے افسر کہتے ہیں کہ اس علاقے کو جنگلی ہاتھیوں سے نمٹتے ہوئے زندگی بسر کرنا سیکھنا ہوگا۔

جے شری کو گاؤں والوں سے ہمدردی ہے، کیوں کہ اس سال خود ان کا جنگل سے مہوا اکٹھا کرنا چھوٹ گیا۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہاتھیوں کی وجہ سے ہمیں تیندو پتے اکٹھا کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔‘‘ ہر فیملی کو کم از کم دو مہینے میں ۲۵ ہزار روپے کا نقصان ہوگا۔ اپنی کمائی کی بنیاد پر وہ یہ اندازہ لگاتی ہیں۔

گوما پوچھتے ہیں، ’’پہیلیج ماہگائی ڈوکیاوَر آہے، اتا ہتّی آلے، کا کراوے آمی؟ [مہنگائی پہلے سے ہی ایک مسئلہ تھی، اب ہاتھی بھی آ گئے ہیں، ہم کیا کریں؟‘‘]

اس سوال کا کوئی آسان جواب نہیں، ہیں تو صرف اور صرف سوال۔

ان سوالوں میں سب سے اہم یہ نہیں ہے کہ یہاں سے پارلیمنٹ میں کون جائے گا، بلکہ یہ ہے کہ کون جنگل جلدی چھوڑے گا۔

(درج فہرست قبائل کے لیے ریزرو گڑھ چرولی-چیمور لوک سبھا حلقہ میں ۱۹ اپریل کو پہلے مرحلہ میں ۸۸ء۷۱ فیصد ووٹنگ ہوئی تھی۔)

مترجم: قمر صدیقی

Jaideep Hardikar

Jaideep Hardikar is a Nagpur-based journalist and writer, and a PARI core team member.

Other stories by Jaideep Hardikar
Editor : Medha Kale

Medha Kale is based in Pune and has worked in the field of women and health. She is the Marathi Translations Editor at the People’s Archive of Rural India.

Other stories by Medha Kale
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique