’’میں نے کئی بار ۱۰۸ نمبر [ایمبولینس سروس کے لیے] پر فون کیا۔ یا تو ہمیشہ لائن مصروف ملتی تھی یا پہنچ سے باہر بتائی جاتی تھی۔‘‘ گنیش پہاڑیا کی بیوی کو حمل میں انفیکشن تھا اور علاج جاری رہنے کے باوجود ان کی حالت کافی نازک ہو گئی تھی۔ اُس وقت تک رات ہو چکی تھی اور ان کا درد بڑھتا جا رہا تھا۔ گنیش انہیں جلد از جلد طبی سہولیات فراہم کرنے کے لیے پریشان تھے۔

’’تھک ہار کر میں نے مقامی وزیر کے معاون سے رابطہ کیا۔ مجھے امید تھی کہ اس سے کوئی مدد ملے گی۔ اس نے اپنے چناؤ پرچار کے دوران ہمیں مدد کرنے کا وعدہ کیا تھا،‘‘ گنیش یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ لیکن معاون نے یہ کہتے ہوئے اپنی لاچاری کا اظہار کیا کہ وہ کہیں باہر ہے۔ ’’اس نے ایک طرح سے مجھے ٹال دیا۔‘‘

مایوس و پریشان گنیش مزید بتاتے ہیں، ’’اگر وقت پر ایمبولینس آ گئی ہوتی، تو میں اسے بوکارو یا رانچی [بڑے شہر] کسی طرح سرکاری اسپتال تک لے جا سکتا تھا۔‘‘ بہرحال، انہیں اپنی بیوی کو لے کر قریب کے کسی پرائیویٹ کلینک جانا پڑا، اور اس کے لیے اپنے کسی رشتہ دار سے ۶۰ ہزار روپے کا قرض بھی لینا پڑا۔

’’الیکشن کے وقت وہ تمام قسم کی باتیں کرتے ہیں – یہ کریں گے، وہ کریں گے…بس ہمیں جیت دلا دیجئے۔ لیکن بعد میں اگر آپ ان سے ملنے بھی جائیں، تو ان کے پاس آپ کے لیے وقت نہیں ہوتا ہے،‘‘ ۴۲ سال کے گنیش کہتے ہیں، جو گاؤں کے مکھیا بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت ان کی پہاڑیا برادری کے لوگوں کی بنیادی سہولیات کا بھی خیال نہیں رکھتی ہے۔

دھن گھڑا، پاکوڑ ضلع کے ہرن پور بلاک کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ یہاں پہاڑیا آدیواسیوں کے ۵۰ گھر ہیں۔ یہ برادری خاص طور پر کمزور آدیواسی گروہ (پی جی ٹی وی) میں شامل ہے۔ راج محل کی پہاڑیوں سے ملحق اس الگ تھلگ بستی تک پہنچنے کے لیے ایک ٹوٹی پھوٹی سڑک سے ہو کر آٹھ کلومیٹر کا لمبا راستہ طے کرنا پڑتا ہے۔

’’ہمارا اسکول خستہ حالت میں ہے۔ ہم نے نئی عمارت کا مطالبہ کیا تھا، لیکن وہ بھی پورا نہیں ہوا،‘‘ گنیش کہتے ہیں۔ برادری کے زیادہ تر بچے اسکول نہیں جاتے ہیں، اور اس لیے وہ حکومت کے ذریعہ لازمی مڈ ڈے میل (دوپہر کا کھانا) اسکیم سے محروم ہیں۔

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

بائیں: گنیش پہاڑیا، دھن گھڑا گاؤں کے مکھیا ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب نیتا لوگ ووٹ مانگنے کے لیے آتے ہیں، تو وہ بہت سے وعدے کرتے ہیں، لیکن انہیں کبھی پورا نہیں کرتے۔ دائیں: پچھلے لوک سبھا انتخابات میں اس گاؤں کے لوگوں سے ایک اچھی سڑک بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا، لیکن الیکشن کو ہوئے مہینوں گزر چکے ہیں اور اس سمت میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے

برادری کے لوگوں نے اپنے گاؤں اور دوسرے گاؤں کے درمیان بھی سڑک بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ ’’آپ خود ہی سڑک کی حالت دیکھ لیجئے،‘‘ گنیش چھوٹے کنکڑوں سے بھرے کچے راستے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ وہ گاؤں کے اکلوتے ہینڈ پمپ کو بھی دکھاتے ہیں جہاں عورتوں کو اپنی باری کے انتظار میں لمبے وقت تک قطار میں کھڑے رہنا پڑتا ہے۔ ’’ہم سے اس وقت کہا گیا تھا کہ ہمارے مطالبات کو پورا کیا جائے گا۔ الیکشن کے بعد ہر کوئی بھول جاتا ہے!‘‘ گنیش کہتے ہیں۔

گنیش ہرن پور بلاک کے دھن گھڑا گاؤں کے مکھیا، یعنی پردھان ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ۲۰۲۴ کے عام انتخابات میں جھارکھنڈ کے سنتال پرگنہ علاقہ کے پاکوڑ ضلع میں لیڈروں نے بڑے پیمانہ پر دورہ کیا تھا، لیکن ان آدیواسیوں کی زندگی میں اس کے بعد بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

جھارکھنڈ اسمبلی کے لیے ۸۱ سیٹوں پر ووٹنگ دو مراحل میں ختم ہوگی – ووٹنگ کا پہلا مرحلہ ۱۳ نومبر کو اور دوسرا مرحلہ ۲۰ نومبر کو ہوگا۔ پاکوڑ میں بھی ووٹنگ دوسرے مرحلہ میں ہوگی۔ انتخابی مقابلہ جھارکھنڈ مکتی مورچہ (جے ایم ایم) کی قیادت والے ’انڈیا‘ محاذ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والے این ڈی اے کے درمیان ہوگا۔

یہ گاؤں لٹّی پاڑہ اسمبلی حلقہ میں آتا ہے۔ سال ۲۰۱۹ میں یہاں سے جھارکھنڈ مُکتی مورچہ کے دنیش ولیم مرانڈی ۶۶ ہزار ۶۷۵ ووٹوں کے ساتھ جیتے تھے، اور بی جے پی کے ڈینئل کسکو کو ۵۲ ہزار ۷۷۲ ووٹ ملے تھے۔ اس بار جے ایم ایم کے امیدوار ہیم لال مُرمو ہیں، جب کہ بی جے پی نے بابودھن مرمو کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔

ماضی میں لوگوں سے بہت سارے وعدے کیے گئے تھے۔ ’’سال ۲۰۲۲ میں گرام پریشد کی میٹنگ میں امیدواروں نے وعدہ کیا تھا کہ گاؤں میں ہونے والی ہر شادی میں وہ کھانا پکانے کے لیے برتن مہیا کرائیں گے،‘‘ مقامی باشندہ میرا پہاڑن کہتی ہیں۔ لیکن ایسا صرف ایک بار ہی ہوا۔

لوک سبھا انتخابات کے بارے میں وہ بتاتی ہیں، ’’انہوں نے ہمیں صرف ایک ہزار روپے دیے اور پھر غائب ہو گئے۔ ہیمنت [جے ایم ایم پارٹی کے کارکن] آئے، ہر مرد اور عورت کو ایک ایک ہزار روپے دیے، الیکشن جیتا اور اب اپنے عہدہ پر مست ہیں۔‘‘

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

بائیں: مینا پہاڑن بیچنے کے مقصد سے جلاون کی لکڑی اور چروتا اکٹھا کرنے کے لیے روزانہ ۱۰ سے ۱۲ کلومیٹر پیدل چلتی ہیں۔ دائیں: شمسی توانائی سے چلنے والے گاؤں کے اکلوتے ہینڈ پمپ سے پانی بھرتی عورتیں

جھارکھنڈ کے اس سنتال پرگنہ علاقے میں ۳۲ آدیواسی برادریوں کے لوگ رہتے ہیں۔ پہاڑیا کی طرح ہی یہاں اسُر، بیرہور، بیرجیا، کوروا، مال پہاڑیا، پرہیا، سوریا پہاڑیا اور سبر جیسی دوسری خاص طور پر کمزور (پی وی ٹی جی) آدیواسی برادریاں بھی رہتی ہیں۔ سال ۲۰۱۳ کی ایک رپورٹ کے مطابق، جھارکھنڈ میں کل پی وی ٹی جی آبادی چار لاکھ سے زیادہ ہے، جس میں شاید پانچ فیصد پہاڑیا برادری کے لوگ ہیں۔

چھوٹی آبادی والا دور افتادہ یہ گاؤں کم تر شرح خواندگی، مالی مسائل اورپرانے زمانے کی زرعی تکنیک پر انحصار جیسے تمام دوسرے مسائل کا بھی سامنا کر رہا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔ پڑھیں: محنت کا پہاڑ ، جو پی سائی ناتھ کی کتاب ’ایوری باڈی لوز اے گُڈ ڈراؤٹ‘ کا ایک حصہ ہے۔

’’گاؤں میں زیادہ تر لوگ مزدوری ہی کرتے ہیں، سروس میں تو نہیں ہے کوئی۔ اور یہاں دھان کا کھیت بھی نہیں ہے، خالی پہاڑ پہاڑ ہے،‘‘ گنیش پاری سے کہتے ہیں۔ عورتیں جنگلوں میں لکڑی اور چروتا [سورٹیا] اکٹھا کرنے جاتی ہیں، جسے وہ بازار میں بیچتی ہیں۔

پہاڑیا آدیواسی، جھارکھنڈ کے سنتال پرگنہ علاقہ کے قدیم باشندوں میں سے ایک ہیں۔ وہ تین شاخوں میں تقسیم ہیں – سوریا پہاڑیا، مال پہاڑیا، اور کمار بھاگ پہاڑیا۔ یہ تینوں برادریاں راج محل کی پہاڑیوں میں کئی صدیوں سے رہ رہی ہیں۔

تاریخی دستاویز بتاتے ہیں کہ وہ مالی آدیواسی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس رسالہ کے مطابق، سفیر اور مؤرخ میگستھنیز نے بھی اس بات کا ذکر کیا ہے، جو چندر گپت موریہ کے دور حکومت ۳۰۲ قبل مسیح میں ہندوستان آیا تھا۔ ان کی تاریخ سنتالوں اور برطانوی نوآبادیاتی حکومت کے خلاف جدوجہد سے معمور رہی ہے، جس کی وجہ سے انہیں مجبور ہو کر اپنے آباء و اجداد کے میدانی علاقوں سے نقل مکانی کر کے پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی۔ انہیں لٹیری اور مویشیوں کو چُرانے والی برادری بھی کہا گیا۔

جھارکھنڈ کے دُمکا میں واقع سدو کانہو یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر کمار راکیش اس رپورٹ میں لکھتے ہیں، ’’ایک برادری کے طور پر پہاڑیا آدیواسی خاموشی سے زندگی گزارتے ہیں۔ ماضی میں سنتالوں اور برطانوی راج کے خلاف لڑتے ہوئے انہیں کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے اور اس کی مار سے وہ ابھی تک باہر نہیں نکل پائے ہیں۔‘‘

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

بائیں: مینا کے گھر کے باہر رکھا لکڑی کا گٹھر، جس میں سے کچھ کھانا پکانے اور بقیہ بیچنے کے کام آئے گا۔ دائیں: جنگل سے لائے گئے چروتا کو سُکھا کر ۲۰ روپے فی کلو کے حساب سے قریب کے بازار میں بیچا جاتا ہے

*****

ہلکے جاڑے کی دھوپ میں دھن گھڑا گاؤں میں بچوں کے کھیلنے، بکریوں کے ممیانے اور بیچ بیچ میں مرغوں کے بانگ لگانے کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں۔

مینا پہاڑن اپنے گھر کے باہر پڑوس کی دوسری عورتوں سے مقامی مالتو زبان میں بات چیت کر رہی ہیں۔ ’’ہم سبھی جُگ باسی ہیں۔ کیا آپ کو اس کا مطلب معلوم ہے؟‘‘ وہ اس رپورٹر سے پوچھتی ہیں۔ ’’اس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ پہاڑ اور جنگل ہمارے گھر ہیں،‘‘ وہ سمجھاتی ہیں۔

ہر روز دوسری عورتوں کے ساتھ وہ صبح ۸ یا ۹ بجے تک جنگل کی طرف روانہ ہو جاتی ہیں اور دوپہر تک واپس لوٹتی ہیں۔ ’’جنگل میں چروتا ہے؛ ہم دن بھر اسے اکٹھا کرتے ہیں، اس کے بعد اسے سُکھا کر بیچنے لے جاتے ہیں،‘‘ وہ اپنے مٹی کے گھر کی چھت پر سوکھنے کے لیے رکھی گئی شاخوں کو دکھاتے ہوئے بتاتی ہیں۔

’’کسی دن ہم دو کلو چروتا جمع کر لیتے ہیں، کسی دن تین کلو۔ کبھی کبھی قسمت نے ساتھ دیا تو پانچ کلو تک بھی مل جاتا ہے۔ یہ محنت کا کام ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ چروتا ۲۰ روپے فی کلو کے حساب سے فروخت ہوتا ہے۔ اس میں بہت سی ادویاتی خوبیاں ہوتی ہیں، اور لوگ اس کا کاڑھا پیتے ہیں۔ مینا کہتی ہیں، ’’اسے کوئی بھی پی سکتا ہے – بچے، بوڑھے – کوئی بھی۔ یہ پیٹ کے لیے اچھا ہوتا ہے۔‘‘

چروتا کے علاوہ، مینا جنگل سے جلاون کی لکڑی بھی لاتی ہیں اور اس کے لیے وہ روزانہ ۱۲-۱۰ کلومیٹر پیدل گھومتی ہیں۔ ’’لکڑی کے گٹھر وزنی ہوتے ہیں اور ایک گٹھر لکڑی ۱۰۰ روپے کی فروخت ہوتی ہے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ سوکھی لکڑیوں کے گٹھر ۱۵ سے ۲۰ کلو تک وزنی ہوتے ہیں، لیکن اگر لکڑی گیلی ہے تو اس کا وزن ۳۰-۲۵ کلو تک ہو سکتا ہے۔

مینا بھی گنیش کی اس بات سے متفق ہیں کہ حکومت صرف وعدے کرتی ہے، لیکن انہیں پورا نہیں کرتی ہے۔ ’’پہلے تو کوئی ہمیں پوچھتا بھی نہیں تھا، لیکن پچھلے کچھ سالوں سے لوگ ہمارے پاس آنے لگے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’بہت سے وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم آئے اور گئے، لیکن ہمارے حالات نہیں بدلے۔ بجلی اور راشن کے سوا ہمیں کچھ اور نہیں ملا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔

’’بے دخلی اور نقل مکانی آج بھی سب سے بڑے مسائل ہیں، جن سے جھارکھنڈ کے آدیواسیوں کو گزرنا پڑ رہا ہے۔ نام نہاد قومی دھارے کی ترقیاتی اسکیمیں ان کی سماجی و ثقافتی خصوصیات کی نشاندہی کرنے میں ناکام ہیں اور سب کے لیے ’یکساں نقطہ نظر اور پیمانہ‘ اپناتی رہی ہیں،‘‘ ریاست میں آدیواسیوں کے معاش پر ۲۰۲۱ میں آئی رپورٹ یہ کہتی ہے۔

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

تعداد میں بہت کم ہونے کی وجہ سے پہاڑیا آدیواسی سب سے الگ تھلگ ہیں، اور متعدد معاشی مسائل کا سامنا کرنے کے لیے مجبور ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے ان کے لیے کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔ گاؤں کے لوگ کہتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں لیڈروں نے ایک نئے اسکول کا وعدہ کیا تھا، لیکن وہ آج تک پورا نہیں ہوا

’’یہاں لوگوں کے پاس کام ہی نہیں ہے۔ بالکل بھی نہیں! اس لیے ہم ہجرت کرنے کو مجبور ہیں،‘‘ مینا باہر جا چکے تقریباً ۳۰۰-۲۵۰ لوگوں کی طرف سے کہتی ہیں۔ ’’باہر جانا مشکل کام ہے؛ کسی بھی جگہ پہنچنے میں تین چار دن لگ جاتے ہیں۔ اگر یہاں ان کے لیے کام ہوتا، تو ناگہانی حالات میں وہ جلد گھر لوٹ سکتے تھے۔‘‘

’ڈاکیہ یوجنا‘ کے توسط سے پہاڑیا برادری ۳۵ کلوگرام راشن فی خاندان کے حساب سے اپنے گھر بیٹھے حاصل کرنے کی حقدار ہے۔ لیکن جیسا کہ مینا بتاتی ہیں، یہ ۱۲ لوگوں کی ان کی فیملی کے لیے کافی نہیں ہے۔ ’’ایک چھوٹی فیملی اس میں گزارہ بھلے ہی کر سکتی ہے، لیکن ہمارے لیے اتنے میں ۱۰ دن بھی پیٹ بھرنا مشکل ہے۔‘‘

اپنے گاؤں کی حالت کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ غریبوں کے دکھوں کی کسی کو پرواہ نہیں ہے۔ ’’ہمارے یہاں تو ایک آنگن باڑی تک نہیں ہے،‘‘ مینا بتاتی ہیں۔ قومی غذائی تحفظ کے قانون کے مطابق، چھ مہینے سے لے کر چھ سال تک کی عمر کے بچوں اور حاملہ عورتوں کو آنگن باڑی سے امدادی غذا فراہم کیے جانے کا انتظام ہے۔

کمر کی اونچائی تک ہاتھ اٹھاتے ہوئے مینا بتاتی ہیں، ’’دوسرے گاؤوں میں اتنے بڑے بچوں کو مقوی غذا ملتی ہے – ستّو، چاول، چنا، دال… لیکن ہمیں یہ سب نہیں ملتا ہے۔ صرف پولیو ڈراپ پلاتے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’دو گاؤوں پر ایک مشترکہ آنگن باڑی ہے، لیکن وہ ہمیں کچھ نہیں دیتے۔‘‘

بہرحال، گنیش کی بیوی کے علاج کے پیسے بقایا ہیں۔ انہیں ۶۰ ہزار روپے کے قرض پر الگ سے سود پر ادا کرنا پڑتا ہے۔ ’’کیا کہیں کیسے دیں گے، اب کسی سے لیے ہیں تو دیں گے ہی…تھوڑا تھوڑا کر کے ادا کریں گے کسی طرح،‘‘ وہ اس رپورٹر سے کہتے ہیں۔

اس الیکشن میں مینا نے سختی سے ایک فیصلہ کیا ہے، ’’ہم کسی سے کچھ نہیں لیں گے۔ ہم اسے ووٹ نہیں دیں گے جسے دیتے آئے ہیں؛ ہم اپنا ووٹ اسے دیں گے جو واقعی میں ہمارا بھلا کرے گا۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Ashwini Kumar Shukla

Ashwini Kumar Shukla is a freelance journalist based in Jharkhand and a graduate of the Indian Institute of Mass Communication (2018-2019), New Delhi. He is a PARI-MMF fellow for 2023.

Other stories by Ashwini Kumar Shukla
Editor : Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique