ان سب کی شروعات کاغذ کے ایک ٹکڑے اور ایک اجنبی انسان کے سوال سے ہوئی تھی۔

کملیش ڈانڈولیا، جو تب ۱۲ سال کے تھے، راتیڑ گاؤں میں اپنے گھر کے قریب سیاحوں کے ایک گیسٹ ہاؤس کے پاس گھوم رہے تھے، تبھی ان کی نظر ایک پردیسی پر پڑی۔ ’’اس نے پوچھا کہ کیا میں بھاریا جانتا ہوں۔‘‘ اس سے پہلے کہ کملیش جواب دے پاتے، ’’اُس آدمی نے مجھے ایک کاغذ پکڑا دیا اور پڑھنے کو کہا۔‘‘

وہ اجنبی انسان موقع کا فائدہ اٹھا رہا تھا – یہاں تامیا بلاک کی پاتال کوٹ وادی میں بھاریا برادری کے تمام لوگ رہتے ہیں، جو مدھیہ پردیش میں خاص طور سے کمزور درج فہرست قبائلی گروہ (پی وی ٹی جی) کے طور پر درج ہے۔ کملیش، بھاریا برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور برادری کی زبان – بھریاٹی پوری روانی سے بول لیتے تھے۔

چھوٹی عمر کے لڑکے نے خود اعتمادی کے ساتھ کاغذ کو پڑھنا شروع کیا۔ اس میں ان کی برادری کے بارے میں عام معلومات لکھی ہوئی تھیں۔ اور چونکہ رسم الخط دیوناگری تھا، ’’مجھے یہ آسان لگا۔‘‘ دوسرے حصہ میں، جس میں سامانوں کے نام لکھے تھے، کملیش لڑکھڑانے لگے۔ ’’الفاظ تو یقیناً بھریاٹی میں لکھے ہوئے تھے،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں، ’’ان کی آواز میں جانتا تھا، لیکن الفاظ اجنبی سنائی دے رہے تھے۔‘‘

وہ ایک منٹ کے لیے رکتے ہیں اور یادداشت پر زور دیتے ہیں، تاکہ کچھ یاد کر سکیں۔ ’’کوئی ایک لفظ تھا، جو کسی جنگلی جڑی بوٹی [ادویاتی پودے] کا نام تھا۔ کاش میں نے اسے لکھ لیا ہوتا،‘‘ وہ افسردگی میں اپنا سر ہلاتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’اب مجھے وہ لفظ یا اس کا معنی یاد نہیں آ رہا ہے۔‘‘

اس مشکل نے کملیش کو سوچنے پر مجبور کر دیا: ’’میں نے سوچا کہ بھریاٹی کے اور کتنے لفظ ہوں گے جو مجھے نہیں آتے۔‘‘ وہ جانتے تھے کہ انہیں روانی سے بھریاٹی آتی ہے – وہ اپنے دادا دادی سے بھریاٹی میں بات کرتے بڑے ہوئے تھے، جنہوں نے ان کی پرورش کی تھی۔ ’’نوعمری تک میں صرف یہی زبان بولنا جانتا تھا۔ مجھے اب بھی روانی کے ساتھ ہندی بولنے میں پریشانی ہوتی ہے،‘‘ وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔

PHOTO • Ritu Sharma
PHOTO • Ritu Sharma

بائیں: کملیش ڈانڈولیا (۲۹) کسان ہیں اور زبان کی حفاظت کے کام میں لگے ہوئے ہیں، اور خاص طور سے کمزور درج فہرست قبائلی گروہ (پی وی ٹی جی) بھاریا برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ دائیں: مدھیہ پردیش کے چھندواڑہ ضلع کے راتیڑ گاؤں میں ان کا گھر

PHOTO • Ritu Sharma
PHOTO • Ritu Sharma

بائیں: پاتال کوٹ وادی میں داخل ہوتے وقت تامیا بلاک کا نام لکھاہوا ملتا ہے۔ ستپوڑہ پہاڑیوں میں واقع اس وادی کے ۱۲ گاؤوں میں بھاریا برادری کے لوگ رہتے ہیں۔ تصویر میں نظر آ رہی اس جگہ پر مقامی لوگ جمع ہوتے ہیں، جو اکثر گھر واپس جانے کے لیے شیئرنگ ٹیکسیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ دائیں: کملیش کے گھر کے باہر کی سڑک مدھیہ پردیش کے کئی مشہور سیاحتی مقامات کی طرف جاتی ہے

مدھیہ پردیش میں بھاریا برادری کے تقریباً دو لاکھ لوگ رہتے ہیں (درج فہرست قبائل کا شماریاتی پروفائل، ۲۰۱۳ )، لیکن صرف ۳۸۱ لوگوں نے بھریاٹی کو اپنی مادری زبان کہا ہے۔ حالانکہ، یہ معلومات ہندوستانی زبان کی مردم شماری کے ذریعہ شائع ۲۰۰۱ کے اعدادوشمار سے لی گئی ہے، اور اس کے بعد اس سے جڑی کوئی معلومات نہیں ملتی ہے، کیوں کہ ۲۰۱۱ کی مردم شماری میں بھریاٹی کو الگ سے درج نہیں کیا گیا۔ یہ زبان گمنام مادری زبانوں کے زمرے میں چھپی ہوئی ہے، جو اکثر ان زبانوں کو نظر انداز کر دیتی ہے جنہیں ۱۰ ہزار سے کم لوگ بولتے ہیں۔

سرکار کے ذریعہ جاری اس ویڈیو کے مطابق، کسی زمانے میں یہ برادری مہاراشٹر کے راجاؤں کے قلی ہوا کرتے تھے۔ ناگپور کے مُدھوجی دوئم (جنہیں اپّا صاحب کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) کو تیسری اینگلو مراٹھا جنگ کے دوران سال ۱۸۱۸ کی لڑائی میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور وہاں سے فرار ہونا پڑا۔ بہت سے بھاریا لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا اور مدھیہ پردیش کے چھندواڑہ، بیتول اور پچ مڑھی کے جنگلات میں آباد ہو گئے۔

آج یہ برادری اپنی پہچان بھاریا (یا بھارتی) بتاتی ہے۔ ان کا روایتی پیشہ جھوم کھیتی کا تھا۔ انہیں ادویاتی پودوں اور جڑی بوٹیوں کا بھی گہرا علم تھا، جس کی وجہ سے لوگ سال بھر ان کے گاؤں آتے رہتے ہیں۔ ’’وہ ہم سے جڑی بوٹی خریدنے کے لیے یہاں آتے ہیں۔ کئی بزرگوں کے پاس اب لائسنس ہے اور وہ کہیں بھی جا کر ان ادویاتی پودوں کو فروخت کر سکتے ہیں،‘‘ کملیش بتاتے ہیں۔

حالانکہ، زبان کی طرح ہی ان پودوں کا علم بھی، ’’اب گاؤں کے بزرگوں تک ہی محدود ہے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔

نوجوان نسل، جس نے روایتی علم حاصل نہیں کیا ہے، بھُرٹے (بھُٹّے یا مکئی کا بھریاٹی لفظ) کی کھیتی اور چارک (چرونجی کے لیے بھریاٹی لفظ)، مہو (مہوا)، آنولہ اور جلاون کی لکڑیوں جیسی موسمی جنگلاتی پیداوار کے سہارے پورے سال گزارہ کرتی ہے۔

برادری کی سڑکوں کی حالت بھی بہت خراب ہے، جب کہ مہادیو مندر اور راجا کھوہ کے غار جیسے مشہور سیاحتی مقامات ان کی وادی میں ہیں۔ برادری کے لوگ عموماً ستپوڑہ کوہستانی سلسلہ کے دامن میں واقع پاتال کوٹ علاقہ میں آباد ۱۲ گاؤوں میں رہتے ہیں۔ یہاں کے بچے تعلیم حاصل کرنے کے لیے عام طور پر اندور جیسے قریبی شہروں کے رہائشی اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔

PHOTO • Ritu Sharma
PHOTO • Ritu Sharma

بائیں: کملیش (سب سے بائیں) گھر کے باہر اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ ان کے بھائی کی بیوی اور بیٹے سندیپ (زعفرانی بنیان میں) اور امت، کملیش کی ماں پھُلّے بائی (سب سے دائیں)؛ اور دادی سُکتی بائی (گلابی بلاؤز میں)۔ دائیں: برادری کا روایتی پیشہ جھوم کھیتی رہا ہے۔ آج کی نوجوان نسل مکئی کی کھیتی کرتی ہے اور گزر بسر کے لیے جلاون کی لکڑیوں جیسی موسمی جنگلاتی پیداوار جمع کرتی ہے

*****

تقریباً دس سال بعد، بالغ ہو چکے کملیش وسطی ہندوستان کی پہاڑیوں میں اپنی گائے اور بکریاں چرا رہے تھے، جب ایک بار پھر ان کی ملاقات ایک اجنبی سے ہوئی۔ وہ اس لمحہ کو یاد کر کے مسکرانے لگتے ہیں جب انہیں محسوس ہوا تھا کہ وقت خود کو دہرا رہا ہے۔ اس اجنبی نے کملیش سے کچھ پوچھنے کے لیے اپنی کار روکی تھی، تو انہوں نے من ہی من سوچا، ’’شاید وہ بھی مجھ سے پڑھوانے کے لیے کاگت [کاغذ] پکڑائے گا!‘‘

کھیتی میں گھر والوں کی مدد کرنے کے لیے کملیش نے ۱۲ویں میں پڑھائی چھوڑ دی تھی؛ گھر والوں کے پاس ان کی اور ان کے سات بھائی بہنوں کی کالج اور اسکول کی فیس ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ گاؤں میں ایک پرائمری اسکول تھا، جہاں ۵ویں تک پڑھائی ہوتی تھی۔ اس کے بعد، گھر کے لڑکے تامیا اور ارد گرد کے شہروں کے رہائشی اسکولوں میں پڑھنے چلے گئے، جب کہ لڑکیوں کی پڑھائی چھوٹ گئی۔

اس اجنبی نے ۲۲ سالہ کملیش سے پوچھا کہ کیا وہ اپنی مادری زبان کو محفوظ کرنا چاہیں گے، تاکہ اگلی نسل کو یہ معلوم رہے کہ بھریاٹی کیسے بولی جاتی ہے۔ اس سوال نے انہیں کافی متاثر کیا اور وہ فوراً اس کے لیے راضی ہو گئے۔

وہ اجنبی کوئی اور نہیں، دہرہ دون میں واقع انسٹی ٹیوٹ آف لینگویجز اینڈ لنگوئسٹکس کے لسانی محقق پون کمار تھے، جو بھریاٹی کی دستاویز بندی کرنے کے لیے وہاں آئے تھے۔ وہ پہلے ہی کئی دوسرے گاؤوں کا دورہ کر چکے تھے، جہاں انہیں اس زبان کو پوری روانی سے بولنے والا کوئی نہیں ملا۔ پون کمار تین چار سال تک اس علاقہ میں رہے اور ’’ہم نے کئی کہانیاں ڈیجیٹل طور پر شائع کیں اور بھریاٹی میں ایک کتاب بھی شائع ہوئی،‘‘ کملیش بتاتے ہیں۔

PHOTO • Ritu Sharma
PHOTO • Ritu Sharma

بائیں: کملیش پیشہ سے کسان ہیں۔ کھیتی میں گھر والوں کی مدد کرنے کے لیے کملیش نے ۱۲ویں میں پڑھائی چھوڑ دی تھی۔ دائیں: کملیش کی دادی سُکتی بائی ڈانڈولیا، جو تقریباً ۸۰ سال کی ہیں، صرف بھریاٹی بولنا جانتی ہیں اور انہوں نے ہی کملیش کو یہ زبان سکھائی تھی

PHOTO • Ritu Sharma
PHOTO • Ritu Sharma

بائیں: بھریاٹی کے حروف تہجی، جنہیں کملیش اور لینگویج ڈیولپمنٹ ٹیم نے تیار کیا ہے۔ دائیں: انہوں نے کئی کتابیں بھی لکھی ہیں، جن میں بھریاٹی میں اِملا سے متعلق گائیڈ بھی شامل ہے

کملیش کی رضامندی کے بعد پہلا کام ایک ایسی جگہ کو تلاش کرنا تھا، جہاں وہ بغیر کسی پریشانی کے کام کر سکیں۔ ’’یہاں بہت شور شرابہ ہوتا تھا، کیوں کہ ٹورسٹوں [سیاحوں] کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔‘‘ انہوں نے بھاریا لینگویج ڈیولپمنٹ ٹیم بنانے کے لیے دوسرے گاؤں جانے کا فیصلہ کیا۔

ایک مہینہ کے اندر ہی کملیش اور ان کی ٹیم نے بھریاٹی کے حروف تہجی کا چارٹ کامیابی کے ساتھ تیار کر دیا، ’’میں نے ہر حرف کے سامنے دی گئی تصویر بنائی۔‘‘ بزرگوں نے لفظوں کے انتخاب میں مدد کی۔ لیکن وہ یہیں نہیں رکے۔ محقق (ریسرچر) کی مدد سے ان کی ٹیم حروف تہجی کی ۵۰۰ سے زیادہ کاپیاں پرنٹ کرانے میں کامیاب رہی۔ دو گروہوں میں تقسیم ہو کر وہ موٹرسائیکل سے نرسنگھ پور، سیونی، چھندواڑہ اور ہوشنگ آباد (اب نرمدا پورم) سمیت کئی الگ الگ شہروں کے پرائمری اسکولوں اور آنگن واڑیوں میں ان چارٹوں کو تقسیم کرنے لگے۔ کملیش پاری کو بتاتے ہیں، ’’میں اکیلے ہی تامیا، ہرّئی اور یہاں تک کہ جُنّاردیو کے ۲۵۰ سے زیادہ پرائمری اسکولوں اور آنگن واڑیوں میں گیا ہوں گا۔‘‘

دوریاں بہت زیادہ تھیں، اور کبھی کبھی تو وہ ۸۵ کلومیٹر دور تک بھی گئے۔ ’’ہم تین چار دنوں تک اپنے گھر نہیں آتے تھے۔ ہم رات کو کسی کے بھی گھر رک جاتے تھے، اور صبح واپس چارٹ بانٹنے لگتے۔‘‘

کملیش کہتے ہیں کہ پرائمری اسکول کے زیادہ تر ٹیچر، جن سے وہ ملے، ان کی برادری کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تھے، ’’لیکن وہ ہماری کوششوں کی بہت تعریف کرتے تھے، جس سے ہمیں ان گاؤوں تک پہنچنے میں مدد ملی جہاں اب بھریاٹی نہیں بولی جاتی ہے۔‘‘

PHOTO • Ritu Sharma
PHOTO • Ritu Sharma

اریا (مدھیچی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) دیوار میں بنے طاق یا اس جگہ کو کہتے ہیں، جس کا استعمال روزمرہ کے سامان رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ بچوں کو آس پاس کی چیزوں کی پہچان کرانے میں مدد کرنے کے لیے کملیش نے اس کا استعمال بھریاٹی حروف تہجی میں کیا ہے

PHOTO • Ritu Sharma
PHOTO • Ritu Sharma

بائیں: کملیش آخری بچے کچھ چارٹ پیپر دکھاتے ہیں، جن کا استعمال انہوں نے بھریاٹی زبان کی دستاویز بندی میں کیا تھا، اور اب ایک باکس میں بند ہیں۔ کئی دوسرے چارٹ کورونا وبائی مرض کے دوران گم ہو گئے تھے۔ دائیں: یہ چارٹ پیپر اجتماعی گفتگو کے بعد تیار کیے گئے تھے، اور ان میں صحت اور صفائی سے متعلق پیغامات شامل ہیں

ایک سال پورا ہوتے ہوتے کملیش اور ان کی لینگویج ڈیولپمنٹ ٹیم نے بھریاٹی زبان میں کئی کتابیں مکمل کر لیں۔ ان میں سے ایک املا سے متعلق گائیڈ تھی، تین صحت پر مرکوز اور تین اخلاقی کہانیوں کی کتابیں شامل تھیں۔ ’’شروع میں ہم نے سب کچھ کاغذ پر لکھا،‘‘ اپنے گھر کے ایک باکس میں ترتیب سے رکھے رنگ برنگے چارٹ پیپر نکالتے ہوئے وہ بتاتے ہیں۔ بعد میں برادری کی کوششوں سے بھریاٹی میں ایک ویب سائٹ کی شروعات کی گئی۔

راتیڑ کے اپنے گھر میں ہم سے بات چیت کرتے وقت وہ بتاتے ہیں، ’’ہم ویب سائٹ کے دوسرے مرحلہ کے بارے میں کافی پرجوش تھے۔ میں پاکیٹ بُک، لوک گیت، بچوں کے لیے پہیلیاں اور الفاظ سے جڑے کھیل، اور بہت سی دوسری چیزیں اس پر شیئر کرنے والا تھا…لیکن وبائی مرض نے پورے منصوبے پر پانی پھیر دیا۔‘‘ ٹیم کی تمام سرگرمیوں کو ملتوی کرنا پڑا۔ سب سے برا تو تب ہوا، جب کملیش کے فون کو ری سیٹ کرتے وقت اس میں محفوظ تمام ڈیٹا ڈیلیٹ ہو گیا۔ ’’سب چلا گیا،‘‘ وہ مایوسی کے ساتھ کہتے ہیں۔ ’’ہم ہاتھ سے لکھی ہوئی کاپی بھی نہیں محفوظ رکھ پائے۔‘‘ ان کے پاس اسمارٹ فون بھی نہیں تھا؛ اسی سال انہوں نے ای میل کرنا سیکھا ہے۔

جو کچھ بھی بچا رہ پایا تھا، اسے انہوں نے دوسرے گاؤں کے اپنی ٹیم کے ممبران کے حوالے کر دیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ اب ان ممبران کے ساتھ ان کا کوئی رابطہ نہیں ہے، ’’پتہ نہیں ان کے پاس بھی وہ چیزیں ابھی تک محفوظ ہیں یا نہیں۔‘‘

حالانکہ، صرف وبائی مرض کے سبب ہی ان کے کام میں رخنہ نہیں پڑا۔ وہ بتاتے ہیں کہ بھریاٹی کی دستاویز بندی میں سب سے بڑی رکاوٹ برادری کے نوجوانوں اور بزرگوں میں دلچسپی کی کمی ہے۔ ’’بزرگوں کو لکھنا نہیں ہے اور بچوں کو بولنا نہیں ہے،‘‘ وہ شکایتی لہجہ میں کہتے ہیں۔ ’’دھیرے دھیرے میں بھی نا امید ہونے لگا اور ایک دن اس کام کو پوری طرح روک دیا۔‘‘

PHOTO • Ritu Sharma

کملیش اور ان کی بھریاٹی لینگویج ڈیولپمنٹ ٹیم کی کوششوں کے سبب بھریاٹی اور انگریزی میں ایک کثیر لسانی ویب سائٹ کی شروعات ہوئی

PHOTO • Ritu Sharma

ویب سائٹ کی شروعات کے پہلے دور میں کملیش اور ٹیم نے اپنی برادری، زبان اور معاش سے متعلق معلومات کے ساتھ ساتھ اپنے ذریعہ تحریر کردہ کئی کتابیں – جن میں ایک املا سے متعلق گائیڈ، صحت سے متعلق اور اخلاقی تعلیم کی کہانیاں شامل تھیں، کو اپ لوڈ کیا

کملیش کی ٹیم میں ان کے ساتھ کھیتی کرنے والے کسان شامل تھے، جو اپنا زیادہ تر وقت کھیتوں پر گزارتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ دن بھر کھیتوں میں کڑی محنت کرنے کے بعد وہ شام کو گھر لوٹنے کے بعد کھانا کھا کر جلدی سو جاتے تھے۔ ایک وقت کے بعد انہوں نے بھی اس کام میں دلچسپی لینا کم کر دیا۔

’’یہ سب میں تنہا تو نہیں کر سکتا تھا،‘‘ کملیش کہتے ہیں۔ ’’یہ ایک آدمی کا کام ہے بھی نہیں۔‘‘

*****

گاؤں کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے کملیش ایک گھر کے سامنے رک جاتے ہیں۔ ’’جب کبھی میں اپنے دوستوں سے ملتا ہوں، تو ہم اکثر دیولو بھیا کے بارے میں باتیں کرتے ہیں۔‘‘

دیولو بگداریہ ۴۸ سالہ فوک ڈانسر اور گلوکار ہیں، اور اکثر مدھیہ پردیش حکومت کے ذریعہ منعقد ثقافتی پروگراموں میں بھاریا برادری کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ’’وہ اکیلے شخص ہیں جو اس بات کی سنجیدگی کو سمجھتے ہیں کہ ہماری ثقافت کے لیے ہماری زبان کتنی ضروری ہے،‘‘ کملیش کہتے ہیں۔

پاری کی ٹیم دیولو سے راتیڑ میں ان کے گھر کے باہر ملی۔ وہ اپنے پوتے پوتیوں کو بھریاٹی میں ایک گیت گا کر سنا رہے تھے، جو اپنی ماں کے لوٹنے کے انتظار میں تھے۔ ان کی ماں جنگل سے جلاون کی لکڑیاں لانے گئی تھی۔

’’لکھنا اور بولنا دونوں ہی ضروری ہے،‘‘ دیولو، کملیش کی طرف دیکھتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’ہوسکتا ہے کہ جس طرح انگریزی اور ہندی زبان مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی ہے، اسی طرح بھریاٹی اور دوسری آدیواسی مادری زبانیں بھی کبھی اختیاری مضامین کی طرح پڑھائی جانے لگیں؟‘‘ وہ اپنے سب سے چھوٹے چھاوا (پوتے) کو کملیش کے ذریعہ بنائے گئے حروف تہجی کے چارٹ دکھانے لگتے ہیں۔

ان کا پوتا چارٹ میں دھنڈوؤں (بندر) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہنسنے لگتا ہے۔ دیولو کہتے ہیں، ’’جلد ہی یہ بھاریا سیکھ جائے گا۔‘‘

PHOTO • Ritu Sharma
PHOTO • Ritu Sharma

بائیں: کملیش کی ٹیم کے رکن ۴۸ سالہ دیولو بگداریہ (بائیں) فوک ڈانسر اور گلوکار ہیں، جو عام طور پر مدھیہ پردیش حکومت کے ذریعہ منعقد ثقافتی پروگراموں میں بھاریا برادری کی نمائندگی کرتے ہیں۔ دائیں: دیولو اپنے پوتے امرت کے ساتھ بھریاٹی حروف تہجی کا چارٹ دیکھ رہے ہیں

کملیش اتنی آسانی سے مطمئن نہیں ہوتے ہیں۔ انہوں نے برادری کے ساتھ کام کرتے ہوئے مشکل چیلنجز کا سامنا کیا ہے۔ ’’اگر وہ رہائشی اسکولوں میں جانے لگے گا، تو وہ بھریاٹی کبھی نہیں بولے گا۔ صرف ہمارے ساتھ یہاں رہ کر ہی بھریاٹی بول سکے گا،‘‘ اپنی زبان کی بقا کے لیے فکرمند کملیش کہتے ہیں۔

’’ویسے تو ۱۰۰ میں سے ۷۵ فیصد معدوم ہی ہو چکی ہے ہماری زبان،‘‘ کملیش کہتے ہیں۔ ’’ہم بھریاٹی میں چیزوں کے اصلی نام تک بھول چکے ہیں۔ آہستہ آہستہ سب کچھ ہندی میں مل چکا ہے۔‘‘

جب سے لوگ زیادہ سفر کرنے لگے ہیں، اور بچے اسکول جانے لگے ہیں، تب سے وہ ہندی کے الفاظ و انداز گفتگو کے ساتھ گھر لوٹنے لگے ہیں اور اپنے ماں باپ سے ہندی میں ہی بات چیت کرنے لگے ہیں۔ اب تو پرانی نسل بھی اپنے بچوں کی طرح ہی بات چیت کرنے لگی ہے، اور بھریاٹی میں بولنے کا رواج کم ہونے لگا ہے۔

’’اسکولوں کی شروعات کے بعد تو میں بھی بھریاٹی کم بولنے لگا، کیوں کہ میرا زیادہ تر وقت اُن دوستوں کے ساتھ گزرنے لگا جو ہندی بولتے تھے۔ آہستہ آہستہ میری بھی عادت بن گئی،‘‘ کملیش بتاتے ہیں۔ وہ ہندی اور بھریاٹی دونوں بولنا جانتے ہیں، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ کبھی بھی ایک زبان بولتے ہوئے دوسری زبان کا استعمال نہیں کرتے ہیں۔ ’’میں انہیں ایک دوسرے سے نہیں ملاتا ہوں، جیسا کہ دوسرے لوگ عام طور پر کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میری پرورش بھریاٹی بولنے والی دادی کے ساتھ ہوئی۔‘‘

کملیش کی دادی سُکتی بائی ۸۰ پار کر چکی ہیں، لیکن ابھی بھی ہندی نہیں بولتی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اب ان کی دادی بھلے ہی ہندی سمجھنے لگی ہیں، لیکن اب بھی بول نہیں پاتی ہیں۔ ان کے بھائی بہن زیادہ نہیں بولتے ہیں، کیوں کہ ’’ان کو جھجک ہوتی ہے۔ وہ ہندی میں ہی بات چیت کرنا پسند کرتے ہیں۔‘‘ ان کی بیوی انیتا بھی اپنی مادری زبان میں بات چیت نہیں کرتی ہیں، لیکن وہ ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

PHOTO • Ritu Sharma

کملیش بتاتے ہیں کہ لوگ باہر گئے اور انہوں نے دوسری زبانیں سیکھیں۔ اس طرح وہ بھریاٹی میں چیزوں کے اصلی نام بھولتے گئے

’’بھریاٹی کا استعمال ہی کیا ہے؟ کیا یہ ہمیں روزگار فراہم کرنے کے قابل ہے؟ صرف اپنی زبان بولنے سے گھر چلتا ہے؟‘‘ اپنی زبان کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے یہ دونوں انسان ان سوالوں کا سامنا کرتے رہے ہیں۔

’’ہم چاہتے ہوئے بھی ہندی کو نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں،‘‘ عملی طور پر سوچنے والے دیولو کہتے ہیں۔ ’’پھر بھی ہمیں اپنی زبان کو زندہ رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘‘

کملیش دلیل دیتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ان دنوں اپنی شناخت ثابت کرنے کے لیے آدھار یا ڈرائیونگ لائسنس کی ضرورت پڑتی ہے۔‘‘

لیکن دیولو شکست تسلیم نہیں کرتے۔ ’’اگر کوئی ان کاغذات کے بغیر تمہاری شناخت ثابت کرنے کے لیے کہے، تو تم کیسے کروگے؟‘‘

کملیش ہنستے ہیں اور کہتے ہیں، ’’میں بھریاٹی میں بات کروں گا۔‘‘

’’بالکل ٹھیک۔ زبان سے بھی ہماری شناخت ہے،‘‘ دیولو پختگی کے ساتھ کہتے ہیں۔

اپنی پیچیدہ تاریخ کے سبب بھریاٹی کی لسانی درجہ بندی ابھی بھی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ کبھی دراوڑی قبیل کی نظر آتی اس زبان میں اب واضح طور پر ہند آریائی علامتیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ خاص طور پر لغات اور صوتیات کے تجزیہ کے نظریہ سے اس کی ابتدا وسطی ہندوستان میں ہوئی محسوس ہوتی ہے، اور دراوڑی اور ہند آریائی – دونوں لسانی خاندانوں سے اس کا قریبی رشتہ واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اس کی درجہ بندی کی یہ وضاحت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس پر آریائی اور دراوڑی دونوں زبانوں کا گہرا اثر پڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین لسانیات کے لیے اس کی واضح درجہ بندی بہت آسان کام نہیں ہے۔

رپورٹر، پرارتھ سمیتی کی منجری چاندے اور رام داس ناگرے اور پلّوی چترویدی کا شکریہ ادا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ، خالصہ کالج کے محقق اور لکچرر انَگھ مینن اور آئی آئی ٹی کانپور کے ہیومینٹیز اور سوشل سائنسز ڈپارٹمنٹ کے ماہر لسانیات اور اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر چِنمَے دھاروڈکر نے بھی معلومات فراہم کیں۔

عظیم پریم جی یونیورسٹی کی مدد سے پاری نے ’معدومیت کی شکار زبانوں کا پروجیکٹ‘ شروع کیا ہے۔ اس پروجیکٹ کا مقصد ہندوستان کی معدوم ہوتی زبانوں کا، انہیں بولنے والے عام عوام اور ان کی زندگی کے تجربات کے ذریعہ دستاویز بندی کرنا ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Ritu Sharma

Ritu Sharma is Content Editor, Endangered Languages at PARI. She holds an MA in Linguistics and wants to work towards preserving and revitalising the spoken languages of India.

Other stories by Ritu Sharma
Editor : Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique