ہر بار کی طرح اس بار بھی انل نارکنڈے نے بڑی محنت سے شادی کا منڈپ تیار کیا تھا، لیکن کہانی میں ایک ایسا موڑ بھی آسکتا ہے انہیں اس کا اندازہ نہیں تھا!

انل ایک چھتیس سالہ کسان ہیں، جو بھنڈارا کے الیِسُر گاؤں میں کاشتکاری کے ساتھ ساتھ سجاوٹ اور موسیقی فراہم کرنے کا بھی کام کرتے ہیں۔ انہوں نے پڑوس کے گاؤں میں ایک شادی کے لیے پیلے رنگ کا ایک بڑا شامیانہ نصب کیا اور پنڈال کو دسیوں پلاسٹک کے پھولوں سے سجایا۔ مہمانوں کے لیے کرسیاں منگوائیں۔ دولہا اور دلہن کے لیے ایک گہرے سرخ رنگ کا خصوصی عروسی صوفہ لگایا اور شادی میں موسیقی کے لیے ڈی جے آلات اور منڈپ کو روشن کرنے لیے لائٹ کا انتظام کیا۔

شادی کی وجہ سے اینٹ اور مٹی سے تعمیر شدہ دولہے کے معمولی مکان کی صورت بدل گئی تھی۔ دلہن ست پورہ پہاڑیوں کی دوسری جانب سے مدھیہ پردیش کے سیونی ضلع سے آ رہی تھی۔

آئندہ موسم گرما کے شادی کے سیزن میں اپنے کاروبار کے شاندار آغاز کے منتظر انل کا کہنا ہے کہ شادی کے رنگ میں اس وقت بھنگ پڑ گیا، جب  شادی سے ایک دن پہلے ۲۷ سالہ دولہا، جو دوسری ریاستوں میں مہاجر مزدور کے طور پر کام کرتا تھا، فرار ہو گیا۔

انل یاد کرتے ہیں، ’’اس نے اپنے والدین کو فون کیا اور کہا کہ اگر شادی نہیں روکی گئی تو وہ زہر کھا لے گا۔ وہ کسی اور کو پسند کرتا تھا۔‘‘

جب تک شادی منسوخ کرنے کا اعلان کیا جاتا، دلہن اور اس کی شادی کی پارٹی وہاں پہنچ چکی تھی۔ خوشی کا موقع لڑکے کے والدین اور اس کے گاؤں والوں کے لیے ایک بڑی شرمندگی کا باعث بن چکا تھا۔

دولہے کے افسردہ والد نے انل کو بتایا کہ وہ ان کے شامیانہ کا کرایہ بھی ادا نہیں کرسکیں گے۔

PHOTO • Jaideep Hardikar
PHOTO • Jaideep Hardikar

بائیں: انل نارکنڈے کے ذریعہ بھنڈارا کی تُمسَر تحصیل میں واقع الیِسُر کے قریب (جہاں وہ رہتے ہیں) سجایا گیا شادی کا منڈپ۔ شادی میں ایک عجیب و غریب موڑ اس وقت آگیا جب دولہا شادی کے موقع پر فرار ہو گیا، جس کے نتیجہ میں شادی منسوخ کردی گئی۔ دولہے کا باپ انل کا کرایہ ادا کرنے کا متحمل نہیں تھا۔ دائیں: کاشتکاری اب آمدنی کا مستحکم ذریعہ نہیں رہی، اس لیے انل جیسے بہت سے لوگوں نے روزی روٹی کمانے کے لیے چھوٹے کاروباروں کا رخ کیا ہے۔ انل نے گزشتہ کچھ برسوں کے دوران اپنے سجاوٹ کے کاروبار میں ۱۲ لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کی ہے

بھنڈارا کے ایک گاؤں الیِسُر میں اپنے گھر میں بیٹھے انل کہتے ہیں، ’’میں اتنا سخت دل نہیں تھا کہ ان سے پیسوں کا مطالبہ کرتا۔‘‘ یہاں کے زیادہ تر لوگ چھوٹے کسان اور زرعی مزدور ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’وہ لوگ بے زمین دِھیوَر [ماہی گیروں کی ایک ذات] ہیں؛ دولہے کے والد کو اپنے رشتہ داروں سے قرض لینا پڑا تھا۔‘‘ انل نے اس شخص سے صرف اپنے مزدوروں کی مزدوری ادا کرنے کو کہا، اور اپنے واجبات کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔

سجاوٹ کے ساز و سامان سے بھرا اپنا گوادم دکھاتے ہوئے انل کہتے ہیں کہ اس عجیب حادثہ میں انہیں ۱۵ ہزار روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ بانس کے کھمبوں، اسٹیج کے فریموں، بڑے بڑے اسپیکروں اور ڈی جے کے آلات، پنڈال کے رنگین کپڑے، اور نوبیاہتا جوڑوں کے لیے خصوصی صوفے اور دیگر سازوسامان کو رکھنے کے لیے انل نے اپنے معمولی سیمنٹ کے مکان سے ملحق ایک کشادہ ہال بنوایا ہے۔

الیسُر گاؤں تُمسَر تحصیل کی جنگلاتی پٹی میں ست پورہ پہاڑیوں کے دامن میں واقع ہے۔ اس ایک فصلی علاقہ میں کسان اپنے کھیتوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پر دھان اگاتے ہیں، اور فصل کی کٹائی کے بعد، زیادہ تر لوگ کام کی تلاش میں نقل مکانی کرتے ہیں۔ روزگار پیدا کرنے والی کوئی بڑی صنعت یا دیگر خدمات نہ ہونے کی بناپر اس علاقہ میں قبائلی اور پسماندہ طبقے کی آبادی کی ایک بڑی اکثریت گرمیوں میں اپنی روزی روٹی کے لیے جنگل پر انحصار کرتی ہے۔ اور جب بات منریگا کے کام کی ہو، تو تُمسَر کی ساکھ اس معاملے میں اچھی نہیں ہے۔

لہٰذا، انل جیسے بہت سے لوگ اپنے معاش کے لیے چھوٹے موٹے کاروبار کرتے ہیں، لیکن یہ کاروبار بھی کاشتکاری کی جمود یا آمدنی میں تخفیف کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں۔

دیہی علاقوں میں ڈی جے اور سجاوٹ کے کاروبار نے زور پکڑا ہے، لیکن مشکل وقت میں کاروبار چلانا آسان نہیں ہے، انل کہتے ہیں۔ ’’گاؤں والوں کی معاشی حالت بہت نازک ہے۔‘‘

انل ہمیشہ سے بی جے پی کے ووٹر رہے ہیں۔ بی جے پی کے مقامی لیڈروں سے ان کی گاولی برادری کی قربت رہی ہے، لیکن اب وہ گاؤں والوں کی سیاسی پسند میں تبدیلی دیکھ رہے ہیں (عام انتخابات کے پہلے مرحلہ میں  بھنڈارا-گوندیا لوک سبھا حلقہ میں ۱۹ اپریل کو ووٹ ڈالا گیا تھا)۔ وہ کہتے ہیں، ’’لوکانا کام ناہیں، ترست آہیت [لوگوں کے پاس کوئی کام نہیں ہے۔ وہ پریشان ہیں]۔‘‘ موجودہ بی جے پی ایم پی سنیل مینڈھے کے خلاف اقتدار مخالف تحریک کو اس حقیقت نے بھی ہوا دی ہے کہ انہوں نے اپنی پارلیمنٹ کی رکنیت کے پانچ سالہ دور میں ایک بار بھی لوگوں سے ملنے کے لیے اس علاقے کا دورہ نہیں کیا، یہ باتیں الگ الگ لوگوں سے پاری کی بات چیت کے دوران نکل کر سامنے آئیں۔

PHOTO • Jaideep Hardikar
PHOTO • Jaideep Hardikar

انل اپنے گھر کے گودام میں نئے شادی شدہ جوڑوں کے لیے صوفے، ڈی جے سیٹ، اسپیکر، شامیانے کا کپڑا اور فریم کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سی چیزیں رکھتے ہیں

انل کا کہنا ہے کہ یہاں خواتین روزانہ بڑے کھیتوں پر کام کرنے کے لیے جاتی ہیں۔ اگر آپ صبح کے وقت گاؤں آئیں، تو آپ انہیں موٹر گاڑیوں پر سوار ہو کر کام پر نکلتے اور شام کو دیر سے واپس لوٹتے ہوئے دیکھیں گے۔ وہ کہتے ہیں، ’’نوجوان دوسری ریاستوں کی صنعتوں میں، سڑکوں یا نہروں کی تعمیر کے مقامات پر اور بھاری کاموں کے لیے سفر کرتے ہیں۔‘‘

اگر ان کی صحت بہتر ہوتی تو وہ بھی کام کے لیے ہجرت کر سکتے تھے، انل کہتے ہیں۔ ان کے دو بچے ہیں، جن میں سے ایک ڈاؤن سنڈروم سے متاثر ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں دسویں کلاس میں فیل ہونے کے بعد ناگپور چلا گیا تھا اور وہاں ویٹر کے طور پر کام کیا تھا۔‘‘ لیکن وہ گھر واپس آ گئے، لون لیا اور خواتین مزدوروں کو لانے لے جانے کے لیے ایک ٹیمپو خریدا۔ جب ٹیمپو چلانا غیرمنافع بخش اور گراں بار ہو گیا، تو انہوں نے اپنی گاڑی بیچ دی اور تقریباً پانچ سال پہلے سجاوٹ کا کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ان تقریبات کے لیے بھی وہ زیادہ تر ادھاری (بقایا) پر کام کرتے ہیں۔ ’’لوگ میری خدمات حاصل کرتے ہیں اور مجھے بعد میں ادائیگی کرنے کا وعدہ کرتے ہیں،‘‘ انل کہتے ہیں۔

’’میں اپنے ان گاہکوں سے کرایہ نہیں لیتا، جو مجھ سے موت کے بعد کی رسومات کے لیے پنڈال لگانے کو کہتے ہیں۔‘‘ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’اور میں شادیوں کے لیے صرف ۱۵ سے ۲۰ ہزار روپے کا مطالبہ کرتا ہوں، کیونکہ یہاں لوگ اس سے زیادہ کرایہ ادا نہیں کرسکتے ہیں۔‘‘

انل نے اس کاروبار میں تقریباً ۱۲ لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔ انہوں نے اپنی سات ایکڑ اراضی کی ضمانت پر ایک بینک سے قرض لے رکھا ہے، جسے وہ قسطوں میں ادا کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں، ’’مجھے کاشتکاری اور دودھ کے کاروبار سے کوئی معقول آمدنی نہیں ہو رہی ہے۔ میں بچھایت [سجاوٹ] کے کاروبار کے ساتھ اپنی قسمت آزما رہا ہوں، لیکن اس کاروبار میں زیادہ لوگ آ رہے ہیں۔‘‘

*****

کام کے دور دراز مقامات پر نوجوان مہاجر مزدوروں کی حادثاتی اموات کا المیہ بھی آہستہ آہستہ عوام کے غصے کو بھڑکا رہا ہے۔ ایسے زیادہ تر معاملات میں نہ تو کلوزر رپورٹ داخل ہوتی ہے اور نہ تفتیش میں مدد ملتی ہے۔

مثال کے طور پر، اپریل کے اوائل میں پاری نے جن دو کنبوں سے ملاقات کی، ان میں سے ایک کو لیتے ہیں۔ ۲۷ سالہ غیرشادی شدہ وجیش کووالے کا تعلق بے زمین گواری (درج فہرست قبیلہ) برادری سے تھا۔ ۳۰ مئی، ۲۰۲۳ کو آندھرا پردیش کے ضلع چتور کے گاؤں سونّیگوونی پلّی کے قریب ایک بڑے باندھ (ڈیم) کی زیر زمین نہر کی سائٹ پر کام کرتے ہوئے ان کی موت واقع ہوگئی تھی۔

PHOTO • Jaideep Hardikar

بھنڈارا کے الیسُر میں رمیش کووالے اور ان کی بیوی جنابائی اب بھی اپنے بیٹے وجیش کی حادثاتی موت کا ماتم کر رہے ہیں، جو ہر سال کام کے لیے آندھرا پردیش جاتے تھے۔ کووالے کنبہ اس سال اپنے بیٹے کی پہلی برسی اس وقت منائے گا، جب بطور ٹرک ڈرائیور کام کرنے والے اپنے بڑے بیٹے راجیش کی شادی کی تیاری کر رہا ہوگا۔ کبنہ اب اپنے دوسرے بیٹوں کو تعمیراتی یا بھاری کاموں کے لیے دوسری ریاستوں میں بھیجنے کی اجازت دینے سے انکار کرتا ہے

’’اس کی لاش کو گاؤں واپس لانے اور آخری رسومات ادا کرنے میں ہمیں ڈیڑھ لاکھ روپے خرچ کرنے پڑے تھے،‘‘ ان کے والد رمیش کووالے بتاتے ہیں۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ان کے بیٹے کی ناگہانی موت کی ظاہری وجہ ’’بجلی کا کرنٹ لگنا‘‘ تھا۔

پہلی اطلاعاتی رپورٹ (ایف آئی آر) بتاتی ہے کہ وجیش نے سائٹ پر نشہ کی حالت میں غلطی سے بجلی کے ایک زندہ تار کو چھو لیا تھا اور علاقے کے ایک ہسپتال میں دم توڑا تھا، جہاں انہیں علاج کے لیے منتقل کیا گیا تھا۔

’’ہمیں اس کی کمپنی نے وعدے کے باوجود کوئی معاوضہ نہیں دیا،‘‘ کووالے کہتے ہیں۔ ’’مجھے اب بھی پچھلے سال اپنے رشتہ داروں سے لیے گئے دستی قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے۔‘‘ وجیش کے بڑے بھائی راجیش، جن کی شادی ہونے والی ہے، ٹرک ڈرائیور کا کام کرتے ہیں، جب کہ ان کے چھوٹے بھائی ستیش مقامی کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں۔

رمیش کہتے ہیں، ’’ہمیں اس کی لاش کو بذریعہ سڑک ایمبولینس سے لانے میں دو دن کا وقت لگا تھا۔‘‘

انل کا کہنا ہے کہ پچھلے ایک سال میں، وجیش جیسے گاؤں کے چار سے پانچ نوجوان اپنے دور افتادہ کام کے مقامات پر حادثات میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ لیکن وہ ایک الگ کہانی ہے۔

چکھلی گاؤں میں، سکھ دیو اُئیکے کو اپنے جوان اور اکلوتے بیٹے اتُل کی موت کی کلوزر رپورٹ نہیں ملی ہے۔

گاؤں میں مزدور کے طور پر کام کرنے والے ایک چھوٹے کسان، اُئیکے کہتے ہیں، ’’آیا اس کے اپنے گروپ کے لوگوں نے اس کا قتل کیا تھا یا وہ کسی حادثہ کا شکار ہوا، ہمیں نہیں معلوم۔ ہمیں اس کی لاش تک دیکھنے کو نہیں ملی تھی، کیونکہ آندھرا پردیش پولیس نے ہمیں بغیر اطلاع دیے یا ہم سے رابطہ کیے بغیر اس کی آخری رسومات ادا کر دی تھیں۔‘‘

PHOTO • Jaideep Hardikar

اتُل اُئیکے کی موت مئی ۲۰۲۳ میں آندھرا پردیش کے راجمندری کے قریب واقع ہوئی تھی، جہاں وہ کام پر گئے ہوئے تھے۔ ان کے والد سکھ دیو، ماں اور بہن شالو مڈاوی اب بھی موت کی وجہ کی تلاش میں ہیں۔ عام انتخابات میں ووٹ ڈالنا ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے

دسمبر ۲۰۲۲ میں اتُل اس علاقہ کے مہاجر مزدوروں کے ایک گروپ کے ساتھ آندھرا پردیش کے راجمندری کے لیے ایک تھریشر آپریٹر کے طور پر دھان کے کھیتوں میں کام کرنے کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ ۲۲ مئی، ۲۰۲۳ کو انہوں نے اپنے والدین کو فون کیا تھا کہ وہ گھر کی واپسی کے سفر پر ہیں۔

’’یہ اس کی آخری کال تھی،‘‘ اُئیکے یاد کرتے ہیں۔ اس کے بعد اتُل کا فون بند ہو گیا تھا۔ ان کی بہن شالو مڈاوی کا کہنا ہے کہ وہ کبھی گھر نہیں لوٹے، ’’ہمیں ان کی موت کی جانکاری ایک ہفتہ کے بعد ملی جب ہم نے تفتیش شروع کی اور اس جگہ کا دورہ کیا۔‘‘

اتل کے اہل خانہ کو کچھ ویڈیو کلپس دکھائی گئیں، جن کی وجہ سے معاملہ مزید الجھ گیا۔ کلپس میں اتل کو سڑک کے کنارے ایک شراب خانہ کے پاس پڑا ہوا دکھایا گیا ہے۔ ’’لوگوں نے سوچا کہ وہ نشہ کی حالت میں ہے۔ لیکن اسے ضرور مارا گیا ہوگا،‘‘ ان کے والد کہتے ہیں۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ان کے سر کے پچھلے حصے پر گہرے زخم کا ذکر ہے۔ ’’پولیس ہمیں اس جگہ لے گئی جہاں اس کی آخری رسومات ادا کی گئیں تھیں،‘‘ پاری کو ایف آئی آر اور پوسٹ مارٹم رپورٹ دکھاتے ہوئے اُئیکے پریشان ہو جاتے ہیں۔ ’’یہ ایک معمہ ہی ہے کہ ہمارے بیٹے کے ساتھ دراصل ہوا کیا تھا۔‘‘ جو لوگ ان کے ساتھ گئے تھے وہ ان کی موت کے بارے میں خاموش ہیں۔ انہوں نے پاری کو بتایا کہ ان میں سے زیادہ تر اس موسم میں کام کے لیے گاؤں چھوڑ چکے ہیں۔

’’مہاجر مزدوروں کی اس طرح کی حادثاتی اموات بہت عام ہیں، لیکن ہم اس میں بہت زیادہ مدد نہیں کر سکتے،‘‘ چکھلی کی سرپنچ سلوچنا مہر کہتی ہیں، جنہوں نے بھنڈارا پولیس سے معاملے کی جانکاری حاصل کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔

اُئیکے اور ان کے اہل خانہ ہندوستان کے عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے سے زیادہ اتُل کی موت کی سچائی تلاش کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ عوامی نمائندوں کے بارے میں سکھ دیو کا یہ کہنا کہ ’’ان کا کوئی فائدہ نہیں ہے‘‘ اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ ممبران پارلیمنٹ اور اسمبلی کا نچلی سطح کے عوام سے رابطہ ٹوٹ چکا ہے۔

اب واپس الیسُر میں آتے ہیں، جہاں انل کا کہنا ہے کہ وہ دوںوں غمزدہ کنبوں – کووالے اور اُئیکے – کو جانتے ہیں، کیونکہ انہوں نے ان کے گھروں میں موت کے بعد کی رسومات کے دوران مفت میں منڈپ [خیمے] لگائے تھے۔ ’’میں اپنے کاروبار اور اپنی کھیتی کی وجہ سے بہتر حالت میں ہوں، بھلے ہی آمدنی زیادہ نہیں ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’کم از کم، میں زندہ تو ہوں۔‘‘

مترجم: شفیق عالم

Jaideep Hardikar

Jaideep Hardikar is a Nagpur-based journalist and writer, and a PARI core team member.

Other stories by Jaideep Hardikar
Editor : Sarbajaya Bhattacharya

Sarbajaya Bhattacharya is a Senior Assistant Editor at PARI. She is an experienced Bangla translator. Based in Kolkata, she is interested in the history of the city and travel literature.

Other stories by Sarbajaya Bhattacharya
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam