اشوک تانگڑے ایک دوپہر اپنے فون پر کچھ دیکھ رہے تھے کہ تبھی ایک وہاٹس ایپ پیغام ملا۔ یہ شادی کا ڈیجیٹل کارڈ تھا، جس میں نوجوان دولہا دولہن ایک دوسرے کو عجیب طریقے سے دیکھ رہے تھے۔ کارڈ میں شادی کا وقت، تاریخ اور مقام بھی درج تھا۔

مگر تانگڑے کو بھیجا گیا یہ کارڈ شادی کی تقریب کا دعوت نامہ نہیں تھا۔

اُس کارڈ کو تانگڑے کے ایک مخبر نے مغربی ہندوستان میں واقع اپنے ضلع سے بھیجا تھا۔ شادی کے کارڈ کے ساتھ انہوں نے دولہن کا برتھ سرٹیفکیٹ بھی بھیجا تھا۔ وہ ۱۷ سال کی تھی، یعنی قانون کی نظر میں نابالغ۔

کارڈ پڑھتے ہی ۵۸ سال کے تانگڑے کو لگا کہ شادی تو بس گھنٹہ بھر میں ہونے والی ہے۔ انہوں نے فوراً اپنے رفیق کار اور دوست تتوشیل کامبلے کو فون کیا اور دونوں فوراً کار سے روانہ ہو گئے۔

جون ۲۰۲۳ کے اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے تانگڑے بتاتے ہیں، ’’بیڈ شہر میں جہاں ہم رہتے ہیں، وہاں سے یہ جگہ تقریباً آدھے گھنٹہ کی دوری پر تھی۔ راستے میں ہم نے یہ تصویریں مقامی پولیس اسٹیشن اور گرام سیوک کو وہاٹس ایپ کر دیں، تاکہ وقت برباد نہ ہو۔‘‘

تانگڑے اور کامبلے حقوق اطفال کے کارکن ہیں، جو مہاراشٹر کے بیڈ ضلع میں ایسے معاملوں کو اجاگر کرتے رہتے ہیں۔

اس کام میں ان کی مدد کرنے والے لوگوں کی ایک لمبی چوڑی فوج ہے۔ ان میں دولہن سے محبت کرنے والے گاؤں کے لڑکے سے لے کر اسکول میں پڑھانے والے ٹیچر یا پھر سماجی کارکن تک سبھی شامل ہیں؛ یعنی کوئی بھی آدمی جو یہ سمجھتا ہے کہ کم عمری کی شادی ایک جرم ہے ان کو خبر دے سکتا ہے۔ اور ان برسوں کے دوران دونوں نے ضلع بھر میں ۲۰۰۰ سے زیادہ مخبروں کا ایک نیٹ ورک کھڑا کر لیا ہے، جو انہیں کم عمری کی شادی پر نظر رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔

Tatwasheel Kamble (left) and Ashok Tangde (right) are child rights activists working in Beed, Maharashtra. In the past decade, they have together prevented over 4,000 child marriages
PHOTO • Parth M.N.

تتوشیل کامبلے (بائیں) اور اشوک تانگڑے (دائیں) مہاراشٹر کے بیڈ میں کام کر رہے حقوق اطفال کے کارکن ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی میں انہوں نے ساتھ مل کر ۴۰۰۰ سے زیادہ کم عمری کی شادیاں رکوائی ہیں

وہ مسکراتے ہوئے بتاتے ہیں، ’’لوگ ہم تک پہنچنے لگے اور اس طرح ہم نے گزشتہ ایک دہائی میں اپنے مخبر تیار کیے۔ ہمارے فون پر باقاعدگی سے شادی کے کارڈ آتے رہتے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی دعوت نامہ نہیں ہوتا۔‘‘

کامبلے کا کہنا ہے کہ وہاٹس ایپ کے ذریعہ خبر دینے والا آدمی آسانی سے دستاویز کی تصویر کھینچ کر بھیج سکتا ہے۔ اگر دستاویز ہاتھ میں نہیں ہے، تو وہ برتھ سرٹیفکیٹ مانگنے کے لیے لڑکی کے اسکول سے رابطہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’اس طرح مخبر گمنام بنے رہتے ہیں۔ وہاٹس ایپ سے پہلے مخبروں کو خود جا کر ثبوت جمع کرنے پڑتے تھے، جو خطرناک کام ہوتا تھا۔ اگر گاؤں کے کسی آدمی کو مخبر بتا دیا جائے، تو لوگ اس کی زندگی جنہم بنا سکتے ہیں۔‘‘

کامبلے (۴۲) کہتے ہیں کہ وہاٹس ایپ نے انہیں جلدی ثبوت اکٹھا کرنے اور فیصلہ کن موقع پر لوگوں کو جمع کرنے کی سہولت فراہم کر کے ان کے مقصد میں کافی مدد کی ہے۔

انٹرنیٹ اینڈ موبائل ایسوسی ایشن آف انڈیا ( آئی اے ایم اے آئی ) کی ۲۰۲۲ کی رپورٹ کے مطابق، ملک میں ۹ء۷۵ کروڑ فعال انٹرنیٹ صارفین میں سے ۹ء۳۹ کروڑ دیہی ہندوستان کے ہیں، جن میں سے زیادہ تر وہاٹس ایپ استعمال کرتے ہیں۔

کامبلے کے مطابق، ’’ضروری قانونی مدد اور پولیس دستہ کے ساتھ وقت پر پہنچنا سب سے بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ ہمارے آنے کی بات کسی کو معلوم نہ ہو۔ وہاٹس ایپ سے پہلے یہ بہت بڑا چیلنج ہوا کرتا تھا۔‘‘

تانگڑے کہتے ہیں کہ شادی کے مقام پر مخبروں کے ساتھ بات چیت اکثر مزیدار ہوتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’ہم انہیں عام برتاؤ کرنے کے لیے کہتے ہیں اور ہمیں نہ پہچاننے کو کہتے ہیں۔ مگر ہر کوئی اس میں اچھا نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی ہمیں سب کے سامنے خبر دینے والے کے ساتھ بدتمیزی کا ناٹک کرنا پڑتا ہے، تاکہ کم عمری کی شادی رکنے کے بعد کسی کو ان کے اوپر شک نہ ہو۔‘‘

قومی خاندانی صحت سروے ۲۱-۲۰۱۹ ( این ایف ایچ ایس۔۵ ) کی تازہ رپورٹ کے مطابق، ہندوستان میں ۲۰ سے ۲۴ سال کی عمر کی ۳ء۲۳ فیصد خواتین نے کہا ہے کہ ۱۸ سال کا ہونے سے پہلے ہی ان کی شادی ہو گئی تھی، جو ملک میں شادی کی قانونی عمر ہے۔ تقریباً ۳۰ لاکھ کی آبادی والے بیڈ ضلع میں یہ تعداد قومی اوسط سے تقریباً دوگنی ہے، یعنی ۷ء۴۳ فیصد۔ کم عمر میں شادی صحت عامہ کے بڑے مسئلہ کو بڑھاتی ہے۔ کم عمر میں حاملہ ہونے کی وجہ سے ماں کی شرح اموات اور سوء تغذیہ کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔

WhatsApp has greatly helped their cause by allowing them to quickly gather evidence and mobilise people at the last minute. O ver the years, the two activists have cultivated a network of over 2,000 informants
PHOTO • Parth M.N.

وہاٹس ایپ نے کم عمری کی شادی روکنے والے کارکنوں کو جلد ثبوت اکٹھا کرنے اور فیصلہ کن موقع پر لوگوں کو جمع کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اس سے ان کے مقصد میں کافی مدد ملتی ہے۔ ان برسوں میں دونوں کارکنوں نے ۲۰۰۰ سے زیادہ مخبروں کا نیٹ ورک تیار کیا ہے

بیڈ میں کم عمری کی شادی کا ریاست میں چینی کی صنعت سے گہرا تعلق ہے۔ یہ ضلع مہاراشٹر میں گنّے کی کٹائی کرنے والوں کا مرکز ہے۔ یہ لوگ چینی کارخانوں کے لیے گنّے کی کٹائی کی خاطر ہر سال سینکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے ریاست کے مغربی علاقے میں جاتے ہیں۔ بہت سے مزدور درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے ہیں، جو ہندوستان میں حاشیہ پر گزر بسر کر رہے ہیں۔

بڑھتی پیداواری لاگت، فصل کی گرتی قیمتوں اور ماحولیاتی تبدیلی کے سبب، اس ضلع کے کسان اور مزدور آمدنی کے لیے صرف کھیتی پر منحصر نہیں رہ سکتے۔ چھ مہینے کے لیے وہ مہاجرت کرتے ہیں اور اس محنت طلب کام سے انہیں تقریباً ۲۵ ہزار سے ۳۰ ہزار روپے کی کمائی ہو جاتی ہے (پڑھیں: گنّے کے کھیتوں کا طویل سفر

مزدوروں کو کام پر رکھنے والے ٹھیکہ دار شادی شدہ جوڑوں کو کام پر رکھنا پسند کرتے ہیں، کیوں کہ دو لوگوں کو مل کر کام کرنا پڑتا ہے، ایک گنّا کاٹنے کے لیے اور دوسرا بنڈل بنانے اور انہیں ٹریکٹر پر لوڈ کرنے کے لیے۔ جوڑے کو اکائی کے طور پر مانا جاتا ہے، جس سے انہیں ادائیگی کرنا آسان ہوتا ہے اور اس سے وہ غیر رشتہ دار مزدوروں کے درمیان تنازع سے بچ جاتے ہیں۔

تانگڑے بچوں کی شادی کی روک تھام کا قانون، ۲۰۰۶ کے تحت غیر قانونی روایت کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’زندگی کی جدوجہد کے سبب زیادہ تر [گنّے کی کٹائی کرنے والے] کنبے اس [کم عمری کی شادی] کے لیے مجبور ہوتے ہیں۔ یہ سمجھنا آسان نہیں ہے۔ دولہے کی فیملی کے لیے اس سے آمدنی کا ایک ذریعہ مل جاتا ہے۔ دولہن کی فیملی کے لیے کھلانے کو ایک پیٹ کم ہو جاتا ہے۔‘‘

مگر اس کا مطلب یہ ہے کہ تانگڑے اور کامبلے جیسے کارکن مصروف رہتے ہیں۔

بیڈ ضلع میں تانگڑے جووینائل جسٹس ایکٹ، ۲۰۱۵ کے تحت تشکیل کردہ ایک خود مختار تنظیم چائلڈ ویلفیئر کمیٹی (سی ڈبلیو سی) کی پانچ رکنی ٹیم کے سربراہ ہیں۔ ان کے ساتھی اور ضلع میں سی ڈبلیو سی کے سابق رکن رہ چکے کامبلے فی الحال حقوق اطفال کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم سے وابستہ ہیں۔ تانگڑے کہتے ہیں، ’’پچھلے پانچ سال میں ہم میں سے کسی ایک کے پاس انتظامی اختیار رہے ہیں اور دوسرا انسان زمین پر کام کرتا رہا ہے۔ ہم نے ساتھ مل کر مضبوط ٹیم بنائی ہے۔‘‘

*****

Early marriages in Beed are closely linked to the state's sugar industry. Contractors prefer to hire married couples as the job requires two people to work in tandem; the couple is treated as one unit, which makes it easier to pay them and also avoids conflict
PHOTO • Parth M.N.

بیڈ میں کم عمر میں شادی کا ریاست میں چینی کی صنعت سے گہرا تعلق ہے۔ ٹھیکہ دار شادی شدہ جوڑوں کو کام پر رکھنا چاہتے ہیں، کیوں کہ اس کام میں دو لوگوں کو مل کر لگنا پڑتا ہے۔ جوڑے کو ایک اکائی مانا جاتا ہے، جس سے انہیں ادائیگی کرنا آسان ہو جاتا ہے اور تنازع سے بھی بچا جا سکتا ہے

پوجا، بیڈ میں اپنے چچا سنجے اور چچی راج شری کے ساتھ رہتی ہیں، جو گزشتہ ۱۵ برسوں سے گنّے کی کٹائی کے لیے مہاجرت کرتے ہیں۔ جون ۲۰۲۳ میں تانگڑے اور کامبلے ان کی غیر قانونی شادی رکوانے گئے تھے۔

جب دونوں کارکن شادی کے منڈپ میں پہنچے، تو گرام سیوک اور پولیس پہلے سے وہاں موجود تھی اور افراتفری مچی ہوئی تھی۔ پہلے تو تقریب کا جوش فکرمندی اور الجھن میں بدلا، اور پھر لگا جیسے کسی آخری رسم کا ماحول ہو۔ شادی کے پیچھے موجود لوگوں کو محسوس ہو گیا تھا کہ ان کے خلاف پولیس کیس درج ہوگا۔ کامبلے کہتے ہیں، ’’سینکڑوں مہمان ہال سے باہر جا رہے تھے۔ دولہا دولہن کے گھر والے پولیس کے قدموں پر گر گئے اور معافی مانگنے لگے۔‘‘

شادی کا انتظام کرنے والے ۳۵ سال کے سنجے کو احساس ہو گیا تھا کہ ان سے غلطی ہو گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں ایک غریب گنّا مزدور ہوں۔ میں کچھ اور نہیں سوچ پایا۔‘‘

جب پوجا اور ان کی بڑی بہن اورجا کافی چھوٹی ہی تھیں، تبھی ان کے والد کی ایک حادثہ میں موت ہو گئی تھی اور ان کی ماں نے بعد میں دوسری شادی کر لی تھی۔ نئی فیملی نے ان لڑکیوں کو نہیں اپنایا، جن کی پرورش سنجے اور راج شری نے کی تھی۔

پرائمری اسکول کی پڑھائی کے بعد سنجے نے اپنی بھتیجیوں کا داخلہ بیڈ سے تقریباً ۲۵۰ کلومیٹر دور پونے شہر کے ایک رہائشی اسکول میں کرا دیا۔

جب اورجا پڑھائی کر کے نکل گئی، تو اسکول کے بچوں نے پوجا کا مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ وہ بتاتی ہے، ’’وہ ’گنواروں جیسی‘ کہہ کر میرا مذاق اڑاتے تھے۔ جب میری بہن وہاں تھی، تو وہ مجھے بچاتی تھی۔ اس کے جانے کے بعد میں اسے برداشت نہیں کر پائی اور بھاگ کر گھر آ گئی۔‘‘

'Most of the [sugarcane-cutting] families are forced into it [child marriage] out of desperation. It isn’t black or white...it opens up an extra source of income. For the bride’s family, there is one less stomach to feed,'  says Tangde
PHOTO • Parth M.N.


تانگڑے کہتے ہیں، ’زیادہ تر [گنّے کی کٹائی کرنے والے] کنبے افسردگی کے سبب اس [کم عمری کی شادی] کے لیے مجبور ہیں۔ اسے سمجھنا آسان نہیں ہوتا… اس سے آمدنی کا ایک اضافی ذریعہ مل جاتا ہے۔ دولہن کی فیملی کے لیے کھلانے کو ایک پیٹ کم ہو جاتا ہے‘

اس کے بعد، نومبر ۲۰۲۲ میں سنجے اور راج شری چھ مہینے کے گنّا کاٹنے کے کام کے لیے پوجا کو تقریباً ۵۰۰ کلومیٹر دور اپنے ساتھ مغربی مہاراشٹر کے ستارا ضلع لے گئے۔ دونوں اسے وہاں اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ حالانکہ، ان کے مطابق سائٹ پر رہنے کے حالات قابل رحم ہوتے ہیں۔

سنجے کہتے ہیں، ’’ہم گھاس سے بنی عارضی جھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔ کوئی بیت الخلاء نہیں ہوتا۔ رفع حاجت کے لیے ہمیں کھیتوں میں جانا پڑتا ہے۔ ہم دن میں ۱۸ گھنٹے تک گنّے کی کٹائی کر کے کھلے آسمان کے نیچے کھانا بناتے ہیں۔ اتنے سال میں ہم اس کے عادی ہو گئے ہیں، لیکن پوجا کے لیے یہ مشکل تھا۔‘‘

ستارا سے لوٹ کر سنجے نے اپنے رشتہ داروں کی مدد سے پوجا کے لیے رشتہ ڈھونڈا اور نابالغ ہونے کے باوجود اس کی شادی کرنے کا فیصلہ لے لیا۔ میاں بیوی کے پاس گھر پر رہنے اور آس پاس کام تلاش کرنے کا متبادل نہیں تھا۔

سنجے کہتے ہیں، ’’کھیتی کے لیے موسم کا کوئی پتہ نہیں۔ اپنی دو ایکڑ زمین پر اب ہم صرف اپنے کھانے لائق فصلیں ہی اُگا پاتے ہیں۔ میں نے وہی کیا، جو مجھے لگا کہ اس کے لیے سب سے اچھا ہوگا۔ اگلی بار مہاجرت پر ہم اسے ساتھ نہیں لے جا سکتے تھے اور سیکورٹی کے مدنظر ہم اسے پیچھے نہیں چھوڑ سکتے تھے۔‘‘

*****

اشوک تانگڑے کو تقریباً ۱۵ سال قبل پہلی بار بیڈ میں گنّا کاٹنے والے خاندانوں کے درمیان کم عمری کی شادی کا علم ہوا تھا، جب وہ اپنی بیوی اور مشہور سماجی کارکن منیشا ٹوکلے کے ساتھ پورے ضلع کا دورہ کر رہے تھے، جن کا کام گنّے کی کٹائی کرنے والی خواتین مزدوروں پر مرکوز ہے۔

وہ بتاتے ہیں، ’’جب میں منیشا کے ساتھ ان میں سے کچھ خواتین سے ملا، تو مجھے لگا کہ ان سبھی کی شادی نوجوانی میں یا اس سے پہلے ہی ہو چکی تھی۔ تبھی میں نے سوچا کہ ہمیں اس پر خاص طور سے کام کرنا پڑے گا۔‘‘

انہوں نے کامبلے سے رابطہ کیا، جو بیڈ میں ترقیاتی شعبے میں کام کرتے تھے اور دونوں نے ساتھ مل کر کام کرنے کا فیصلہ کیا۔

تقریباً ۱۲-۱۰ سال قبل جب پہلی بار انہوں نے کم عمری کی شادی رکوائی، تب بیڈ میں یہ ایک ان سنی بات تھی۔

According to the latest report of National Family Health Survey 2019-21, a fifth of women between the age of 20-24 were married before they turned 18. In Beed, a district with a population of roughly 3 million, the number is almost double the national average
PHOTO • Parth M.N.

قومی خاندانی صحت سروے ۲۱-۲۰۱۹ کی تازہ رپورٹ کے مطابق، ۲۰ سے ۲۴ سال کی عمر کے درمیان کی ۳ء۲۳ فیصد خواتین کی شادی ۱۸ سال کی ہونے سے پہلے ہو گئی تھی۔ تقریباً ۳۰ لاکھ کی آبادی والے ضلع بیڈ میں یہ تعداد قومی اوسط سے تقریباً دوگنی ہے

تانگڑے کہتے ہیں، ’’لوگ حیرت میں تھے اور انہوں نے ہماری معتبریت پر سوال اٹھائے۔ اس میں شامل بالغوں کو یقین نہیں تھا کہ ایسا کچھ ہو سکتا ہے۔ کم عمری کی شادی کو سماجی سطح پر مکمل منظوری حاصل تھی۔ کبھی کبھی ٹھیکہ دار خود شادی کی تقریب کے لیے پیسے دیتے تھے اور دولہا دولہن کو گنّا کٹوانے لے جاتے تھے۔‘‘

پھر دونوں نے لوگوں کا نیٹ ورک تیار کرنے کے لیے بسوں اور دو پہیہ گاڑیوں پر بیڈ کے گاؤوں میں گھومنا شروع کیا، جو آخرکار ان کے مخبر بن گئے۔ کامبلے کے مطابق، مقامی اخباروں نے بیداری مہم چلانے کے ساتھ ساتھ ضلع میں انہیں مقبول بنانے میں بھی اہم رول ادا کیا ہے۔

گزشتہ ۱۰ برسوں میں انہوں نے ضلع میں ساڑھے چار ہزار سے زیادہ کم عمری کی شادیوں کا پردہ فاش کیا ہے۔ شادی رکوانے کے بعد اس میں شامل بالغوں کے خلاف بچوں کی شادی کی روک تھام کا قانون، ۲۰۰۶ کے تحت پولیس کیس درج کیا جاتا ہے۔ اگر شادی ہو چکی ہوتی ہے، تو جنسی جرائم سے بچوں کی حفاظت سے متعلق قانون ( پاکسو ) کے تحت مردوں کے خلاف معاملہ درج کیا جاتا ہے، اور سی ڈبلیو سی کم عمر کی لڑکی کو اپنی حفاظت میں لے لیتی ہے۔

تانگڑے کہتے ہیں، ’’ہم لڑکی اور اس کے ماں باپ کی کاؤنسلنگ کرتے ہیں اور انہیں کم عمری کی شادی کے قانونی نتائج کے بارے میں بتاتے ہیں۔ پھر سی ڈبلیو سی ہر مہینے فیملی سے رابطہ کرتی ہے، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ لڑکی کی دوبارہ شادی نہ ہو۔ اس میں شامل زیادہ تر والدین گنّے کی کٹائی کرنے والے مزدور ہیں۔‘‘

*****

جون ۲۰۲۳ کے پہلے ہفتہ میں، تانگڑے کو بیڈ کے ایک دور دراز کے پہاڑی گاؤں میں کم عمری کی شادی کی خبر ملی، جو ان کے گھر سے دو گھنٹے دور ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں نے اس تعلقہ میں اپنے جاننے والے کو دستاویز بھیجے، کیوں کہ میں وقت پر نہیں پہنچ پاتا۔ اس نے وہی کیا جو کرنا ضروری تھا۔ میرے لوگ اب اس طریقہ کو جان گئے ہیں۔‘‘

جب افسر موقع پر گئے اور شادی کا پردہ فاش کیا، تو انہیں پتہ چلا کہ یہ لڑکی کی تیسری شادی تھی۔ پچھلی دونوں شادیاں کووڈ۔۱۹ کے دو سال کے اندر ہوئی تھیں۔ وہ لڑکی لکشمی صرف ۱۷ سال کی تھی۔

مارچ ۲۰۲۰ میں کووڈ۔۱۹ کی وبا تانگڑے اور کامبلے کی سالوں کی کڑی محنت کے لیے بڑا جھٹکا تھا۔ حکومت کے ذریعہ لاگو لاک ڈاؤن کے سبب اسکول کالج لمبے عرصے کے لیے بند ہو گئے تھے، جس سے بچے گھر پر ہی رہے۔ مارچ ۲۰۲۱ میں جاری یونیسیف کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ اسکول بند ہونے، بڑھتی غریبی، والدین کی موت اور کووڈ۔۱۹ کی وجہ سے پیدا ہونے والے دیگر اسباب نے ’’لاکھوں لڑکیوں کے لیے پہلے سے ہی مشکل حالت کو اور بھی بدتر بنا دیا ہے۔‘‘

تانگڑے نے اسے اپنے ضلع بیڈ میں قریب سے دیکھا، جہاں کم عمر کی لڑکیوں کی بڑے پیمانے پر شادیاں کی گئیں (پڑھیں: غریبی، بدحالی اور کورونا: بیڈ میں لڑکیاں کم عمر میں ہی شادی کو مجبور

An underage Lakshmi had already been married twice before Tangde and Kamble prevented her third marriage from taking place in June 2023
PHOTO • Parth M.N.

تانگڑے اور کامبلے نے جون ۲۰۲۳ میں ایک نابالغ لڑکی لکشمی کی تیسری شادی کو رکوایا تھا، جس کی پہلے دو بار شادی ہو چکی تھی

سال ۲۰۲۱ میں مہاراشٹر میں لاک ڈاؤن کے دوسرے دور کے دوران لکشمی کی ماں وجئے مالا نے بیڈ ضلع میں اپنی بیٹی کے لیے ایک دولہا تلاش کیا۔ تب لکشمی ۱۵ سال کی تھی۔

وجئے مالا (۳۰ٌ) کہتی ہیں، ’’میرا شوہر شرابی ہے۔ ان چھ مہینوں کو چھوڑ کر، جب ہم گنّا کاٹنے کے لیے باہر جاتے ہیں، وہ زیادہ کام نہیں کرتا۔ وہ شراب پی کر گھر آتا ہے اور میرے ساتھ مار پیٹ کرتا ہے۔ جب میری بیٹی اسے روکنے کی کوشش کرتی ہے، تو وہ اسے بھی پیٹتا ہے۔ میں بس یہی چاہتی تھی کہ وہ اس سے دور رہے۔‘‘

مگر لکشمی کے سسرال والے بھی ظالم نکلے۔ ایک مہینہ بعد اس نے اپنے شوہر اور اس کے اہل خانہ سے بچنے کے لیے خودکشی کرنے کی کوشش کی اور اپنے اوپر پٹرول چھڑک لیا۔ اس کے بعد سسرال والے اسے واپس اس کے میکے چھوڑ گئے اور پھر کبھی نہیں آئے۔

تقریباً چھ مہینے بعد نومبر میں وجئے مالا اور ان کے شوہر ۳۳ سالہ پرشوتم کو گنّا کاٹنے کے لیے مغربی مہاراشٹر جانا پڑا۔ وہ لکشمی کو ساتھ لے گئے، تاکہ وہ ان کی مدد کر سکے۔ لکشمی کو وہاں کے برے حالات کا علم تھا۔ مگر آگے جو ہونے والا تھا اس سے نمٹنے کے لیے وہ تیار نہیں تھی۔

گنّے کے کھیتوں میں پرشوتم کی ملاقات شادی کرنے کے خواہش مند ایک آدمی سے ہوئی۔ اس نے اسے اپنی بیٹی کے بارے میں بتایا اور وہ آدمی مان گیا۔ وہ ۴۵ سال کا تھا۔ اس نے لکشمی اور وجئے مالا کی خواہش کے خلاف اس کی شادی ایک ایسے شخص سے کر دی جو عمر میں اس سے تقریباً تین گنا بڑا تھا۔

وجئے مالا کہتی ہیں، ’’میں نے ان سے ایسا نہ کرنے کی منتیں کیں۔ لیکن انہوں نے پوری طرح سے میری اندیکھی کر دی۔ مجھے خاموش رہنے کو کہا گیا اور میں اپنی بیٹی کی مدد نہیں کر پائی۔ اس کے بعد میں نے ان سے کبھی بات نہیں کی۔‘‘

ایک مہینہ بعد لکشمی اس دوسری ذلت آمیز شادی سے بچ کر گھر لوٹ آئی۔ وہ کہتی ہیں، ’’کہانی پھر سے وہی تھی۔ وہ نوکرانی چاہتا تھا، بیوی نہیں۔‘‘

Laxmi's mother Vijaymala says, 'my husband is a drunkard [...] I just wanted her to be away from him.' But Laxmi's husband and in-laws turned out to be abusive and she returned home. Six months later, her father found another groom, three times her age, who was also abusive
PHOTO • Parth M.N.
Laxmi's mother Vijaymala says, 'my husband is a drunkard [...] I just wanted her to be away from him.' But Laxmi's husband and in-laws turned out to be abusive and she returned home. Six months later, her father found another groom, three times her age, who was also abusive
PHOTO • Parth M.N.

لکشمی کی ماں وجئے مالا کہتی ہیں، ’میرا شوہر شرابی ہے…میں بس یہی چاہتی تھی کہ وہ ان سے دور رہے۔‘ لیکن لکشمی کا شوہر اور سسرال والے ظالم نکلے اور وہ گھر لوٹ آئی۔ چھ مہینے بعد اس کے والد کو اس کی عمر سے تین گنا بڑا ایک اور دولہا ملا۔ وہ بھی اس کی بیٹی پر ظلم ڈھاتا تھا

اس کے بعد لکشمی ایک سال سے زیادہ عرصے تک اپنے والدین کے ساتھ رہی۔ وجئے مالا جب اپنے چھوٹے سے کھیت میں کام کرتی تھیں، تب وہ گھر سنبھالتی تھی۔ اس کھیت میں فیملی خود کے کھانے کے لیے باجرہ اُگاتی ہے۔ وجئے مالا کہتی ہیں، ’’میں اضافی آمدنی کے لیے دوسرے لوگوں کے کھیتوں میں مزدوری کرتی ہوں۔‘‘ ان کی ماہانہ آمدنی تقریباً ۲۵۰۰ روپے ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں، ’’میری غریبی ہی میری بدقسمتی ہے۔ مجھے انھیں حالات میں گزارہ کرنا ہوگا۔‘‘

مئی ۲۰۲۳ میں فیملی کا ایک رکن شادی کی تجویز لے کر وجئے مالا کے پاس آیا۔ وہ کہتی ہیں، ’’لڑکا اچھی فیملی سے تھا۔ مالی اعتبار سے وہ ہم سے کہیں بہتر تھے۔ میں نے سوچا کہ یہ اس کے لیے اچھا ہوگا۔ میں ایک ناخواندہ عورت ہوں۔ میں نے اپنی طرف سے اچھا ہی سوچا تھا۔‘‘ یہی وہ شادی تھی جس کے بارے میں تانگڑے اور کامبلے کو خبر ملی تھی۔

آج وجئے مالا کہتی ہیں، ایسا کرنا صحیح نہیں تھا۔

وہ کہتی ہیں، ’’میرے والد شرابی تھے اور انہوں نے ۱۲ سال کی عمر میں میری شادی کر دی تھی۔ تب سے میں اپنے شوہر کے ساتھ گنّا کاٹنے کے لیے باہر جا رہی ہوں۔ جب میں نوجوان تھی، تبھی لکشمی پیدا ہو گئی تھی۔ بغیر جانے میں نے وہی کیا جو میرے والد نے کیا تھا۔ مسئلہ یہ ہے کہ میرے پاس یہ بتانے والا کوئی نہیں ہے کہ کیا صحیح ہے کیا غلط۔ میں بالکل اکیلے ہی سب کچھ کرتی ہوں۔‘‘

لکشمی پچھلے تین سال سے اسکول سے باہر ہے اور پڑھائی کرنے کی خواہش مند نہیں ہے۔ وہ کہتی ہے، ’’میں نے ہمیشہ گھر کی دیکھ بھال کی ہے اور گھریلو کام کیے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں اسکول جا پاؤں گی یا نہیں۔ میرے اندر خود اعتمادی کی کمی ہے۔‘‘

*****

تانگڑے کو شک ہے کہ لکشمی کے ۱۸ سال کا ہونے کے فوراً بعد، اس کی ماں اس کی دوبارہ شادی کرنے کی کوشش کرے گی۔ مگر یہ اتنا آسان نہیں ہوگا۔

تانگڑے کہتے ہیں، ’’ہمارے سماج کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی لڑکی کی دو شادیاں ناکام ہو گئیں اور ایک شادی نہیں ہو پائی، تو لوگ سوچتے ہیں کہ اس کے ساتھ ہی کچھ گڑبڑ ہے۔ ان مردوں سے کوئی سوال نہیں کرتا جن سے اس کی شادی ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج بھی شبیہ کے مسئلہ سے لڑتے رہتے ہیں۔ ہمیں ایسے لوگوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو شادی میں رکاوٹ ڈالتے ہیں اور لڑکی کی شبیہ خراب کرتے ہیں۔‘‘

While Tangde and Kamble have cultivated a network of informants across the district and work closely with locals, their help is not always appreciated. 'We have been assaulted, insulted and threatened,' says Kamble
PHOTO • Parth M.N.

تانگڑے اور کامبلے نے پورے ضلع میں مخبروں کا ایک نیٹ ورک بنایا ہے اور وہ مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں، مگر ان کی مدد کی ہمیشہ تعریف نہیں ہوتی۔ کامبلے کہتے ہیں، ’ہم پر حملہ کیا گیا، بے عزت کیا گیا اور ہمیں دھمکی دی گئی‘

ٹھیک ایسا ہی سنجے اور راج شری بھی ان دونوں کارکنوں کے بارے میں مانتے ہیں جن کی بھتیجی پوجا کی شادی انہوں نے نہیں ہونے دی تھی۔

راج شری (۳۳) کہتی ہیں، ’’انہیں شادی ہونے دینی چاہیے تھی۔ وہ اچھی فیملی تھی۔ وہ اس کی دیکھ بھال کرتے۔ اس کے ۱۸ سال کا ہونے میں ابھی ایک سال باقی ہے اور وہ تب تک انتظار کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ہم نے شادی کے لیے دو لاکھ روپے اُدھار لیے تھے۔ ہمیں تو نقصان اٹھانا پڑے گا۔‘‘

تانگڑے کہتے ہیں کہ اگر سنجے اور راج شری کی جگہ گاؤں کا کوئی طاقتور خاندان ہوتا، تو انہیں دشمنی جھیلنی پڑتی۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہم نے اپنا کام کرنے کے دوران کئی دشمن بنائے ہیں۔ جب بھی ہمیں کوئی خبر ملتی ہے، تو ہم اس میں شامل خاندانوں کے بیک گراؤنڈ کی جانچ کرتے ہیں۔‘‘

اگریہ مقامی سیاست دانوں سے تعلق رکھنے والا خاندان ہوتا ہے، تو دونوں پہلے سے ہی انتظامیہ کو فون کر دیتے ہیں اور مقامی پولیس اسٹیشن سے اضافی پولیس دستے بھی بلوا لیتے ہیں۔

کامبلے کہتے ہیں، ’’ہمارے اوپر حملہ کیا گیا ہے، بے عزت کیا جا چکا ہے اور دھمکی دی گئی ہے۔ ہر کوئی اپنی غلطی قبول نہیں کرتا۔‘‘

تانگڑے نے ایک بار کا واقعہ بتایا کہ دولہے کی ماں نے مخالفت میں اپنا سر دیوار پر دے مارا اور اس کے سر سے خون بہنے لگا تھا۔ یہ عہدیداروں کو جذباتی طور پر بلیک میل کرنے کی کوشش کی تھی۔ تانگڑے ہنستے ہوئے کہتے ہیں، ’’کچھ مہمان خاموشی سے کھانا کھاتے رہے۔ اس فیملی کو قابو میں کرنا بہت مشکل رہا تھا۔ کبھی کبھی کم عمری کی شادی رکوانے کے لیے ہمارے ساتھ مجرموں جیسا سلوک ہوتا ہے، تو آپ کچھ نہیں کر سکتے، مگر تعجب ہوتا ہے کہ کیا اس کام کا کوئی مطلب بھی ہے۔‘‘

In May 2023, three years after they stopped the wedding of a 17-year-old girl, her father walked into the duo's office with a box of sweets. Tangde and Kamble were finally invited to a wedding
PHOTO • Parth M.N.

تقریباً ۱۷ سال کی ایک لڑکی کی شادی رکوانے کے تین سال بعد، مئی ۲۰۲۳ میں اس کے والد مٹھائی کا ڈبہ لے کر دونوں کے دفتر آئے۔ آخرکار تانگڑے اور کامبلے کو ایک شادی میں مدعو کیا گیا تھا

لیکن کچھ ایسے تجربے بھی ہیں جو ان کے اس کام کو معنویت عطا کرتے ہیں۔

سال ۲۰۲۰ کی شروعات میں تانگڑے اور کامبلے نے ۱۷ سال کی ایک لڑکی کی شادی رکوائی تھی۔ اس نے ۱۲ویں کلاس کا بورڈ امتحان دیا تھا۔ گنّا کاٹنے والے والد نے غریبی کو دیکھتے ہوئے فیصلہ لیا تھا کہ اب اس کی شادی کا وقت آ گیا ہے۔ دونوں کارکنوں کو جب اس شادی کا پتہ چلا، تو انہوں نے اسے درمیان میں ہی رکوا دیا۔ یہ ان کچھ شادیوں میں سے ایک تھی جنہیں وہ کووڈ۔۱۹ وبائی مرض کے بعد روکنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

تانگڑے یاد کرتے ہیں، ’’ہم نے اس طریقہ کار پر عمل کیا جو ہم عام طور پر کرتے ہیں۔ ہم نے ایک پولیس کیس درج کرایا، کاغذی کارروائی مکمل کی اور والد کو صلاح دینے کی کوشش کی۔ مگر لڑکی کی دوبارہ شادی ہونے کا خطرہ ہمیشہ برقرار رہتا ہے۔‘‘

مئی ۲۰۲۳ میں لڑکی کے والد بیڈ میں تانگڑے کے دفتر آئے۔ کچھ دیر تک تانگڑے انہیں پہچان نہیں پائے۔ دونوں کو ملے کافی وقت ہو چکا تھا۔ والد نے پھر اپنا تعارف کرایا اور تانگڑے کو بتایا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی طے کرنے سے پہلے اس کے گریجویٹ ہونے کا انتظار کیا۔ اس کے راضی ہونے کے بعد ہی لڑکے کو منظوری دی گئی۔ انہوں نے تانگڑے کا ان کی خدمت کے لیے شکریہ ادا کیا اور ایک تحفہ بھی دیا۔

یہ پہلی بار تھا، جب تانگڑے کو شادی کا ایسا کارڈ ملا تھا جس میں انہیں مدعو کیا گیا تھا۔

اس اسٹوری میں بچوں اور ان کے رشتہ داروں کے نام سیکورٹی کے مدنظر بدل دیے گئے ہیں۔

یہ اسٹوری تھامسن رائٹرس فاؤنڈیشن کی مدد سے لکھی گئی ہے۔ مواد کی پوری ذمہ داری مصنف اور پبلشر کی ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Parth M.N.

Parth M.N. is a 2017 PARI Fellow and an independent journalist reporting for various news websites. He loves cricket and travelling.

Other stories by Parth M.N.
Editor : Sarbajaya Bhattacharya

Sarbajaya Bhattacharya is a Senior Assistant Editor at PARI. She is an experienced Bangla translator. Based in Kolkata, she is interested in the history of the city and travel literature.

Other stories by Sarbajaya Bhattacharya
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique