پنجاب سے تعلق رکھنے والے سماجیات کے طالب علم دویندر سنگھ بھنگو، ۱۳ فروری ۲۰۲۴ کو کسانوں کے اس مظاہرے میں شامل ہونے کے لیے اپنے دوستوں کے ہمراہ شمبھو بارڈر گئے تھے۔ جب وہ دو بجے کے قریب وہاں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ہریانہ سرحد پر مامور ریپڈ ایکشن فورس (آر اے ایف) اور ہریانہ پولیس پہلے سے ہی کارروائیوں میں مصروف تھی۔

دویندر کے دوست ترن ویر سنگھ بتاتے ہیں، ’’ہم ایک گروپ کی شکل میں پرامن طریقے سے کھڑے تھے کہ ربڑ کی گولی اچانک اس کی بائیں آنکھ پر آ لگی۔ دویندر زخموں کی تاب نہ لاکر فوراً ہی گر پڑا۔ جب ہم نے اسے اٹھانے کی کوشش کی تو پولیس نے ہم پر بھی تین یا چار آنسو گیس کے گولے داغے۔‘‘ یہ سب کچھ سہ پہر تین بجے کے قریب ہوا، ان کے احتجاج والے مقام پر پہنچنے کے ایک گھنٹے کے اندر ہی یہ حادثہ پیش آیا۔

کسانوں نے ۱۳ فروری کو ’دہلی چلو‘ کے نعرے کے ساتھ اپنا پرامن مارچ شروع کیا تھا، جس میں دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ ایم ایس پی (کم از کم امدادی قیمت) کی قانونی ضمانت کا مطالبہ کیا گیا۔ انہیں پنجاب اور ہریانہ کے درمیان شمبھو بارڈر پر پولیس اور آر اے ایف نے روک دیا۔ انہیں دہلی کی طرف کوچ کرنے سے روکنے کے لیے بیریکیڈ لگا دیے گئے ہیں۔ جب کسانوں نے مارچ کرنے کی کوشش کی تو ان پر آنسو گیس کے گولوں اور ربڑ کے چھروں سے حملہ کیا گیا (یہ بھی پڑھیں: ’ایسا لگتا ہے کہ مجھے شمبھو بارڈر پر قید کر لیا گیا ہے‘

آنسو گیس کے گولوں سے نکلنے والے تیز دھوئیں کو برداشت کرتے ہوئے، دویندر کے دوست حرکت میں آ گئے، انہیں فوراً ہی وہاں سے اٹھایا کیونکہ ان کا بہت زیادہ خون بہہ رہا تھا۔ وہ لوگ اس ۲۲ سالہ نوجوان کو بذریعہ ایمبولینس بنور کے سرکاری اسپتال لے گئے، جو جائے حادثہ سے تقریباً ۲۰ کلومیٹر دور ہے۔ وہاں کے ڈاکٹروں نے انہیں چنڈی گڑھ کے گورنمنٹ میڈیکل کالج اور اسپتال ریفر کیا، جہاں ۱۵ فروری کو ان کی آنکھ کا آپریشن کیا گیا۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان کی بائیں آنکھ میں بینائی بحال ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔

دویندر کے والد منجیت سنگھ جو ایک کسان ہیں، نے میڈیا کو بتایا کہ ان کے بیٹے نے بیرون ملک نہ جانے کا فیصلہ کیا اور اس کے بجائے پولیس فورس میں شامل ہونے کی تیاری کرنے لگا۔

Left: Davinder Singh Bhangu went to the Shambhu border with his friends to join the farmers’ protest. Within an hour of their arrival, he was struck in his left eye by a pellet fired by the forces and had to be rushed to the hospital.
PHOTO • Arshdeep Arshi
Right: His father, Manjit Singh, said that Davinder had chosen not to go abroad so that he could prepare to join the police force
PHOTO • Arshdeep Arshi

بائیں: دویندر سنگھ بھنگو کسانوں کے احتجاج میں شامل ہونے کے لیے اپنے دوستوں کے ساتھ شمبھو بارڈر گئے۔ ان کے پہنچنے کے ایک گھنٹہ کے اندر، پولیس اہلکاروں کی طرف سے داغے گئے آنسو گیس کے گولے سے ان کی بائیں آنکھ میں شدید چوٹ لگی جس کے باعث انہیں فوری طور پر ہسپتال لے جانا پڑا۔ دائیں: ان کے والد منجیت سنگھ نے بتایا کہ دویندر نے بیرون ملک نہ جانے کا انتخاب کیا تھا، تاکہ وہ پولیس فورس میں شامل ہونے کے لیے تیاری کر سکے

Left: Farmers moving towards the make-shift stage set up on a tractor at Shambhu .
PHOTO • Arshdeep Arshi
Right: A poster put up by the protesting farmers says – 'We are farmers, not terrorists'
PHOTO • Arshdeep Arshi

بائیں: شمبھو میں کسان مظاہرین ٹریکٹر پر سوار ہوکر وہاں بنائے گئے عارضی اسٹیج کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ دائیں: احتجاج کرنے والے کسانوں کی طرف سے لگائے گئے ایک پوسٹر میں لکھا ہے – ’ہم کسان ہیں، دہشت گرد نہیں‘

یہ خاندان پٹیالہ ضلع کے شیخوپور گاؤں میں آٹھ ایکڑ زمین کا مالک ہے اور اس نے ۲۰۲۰-۲۱ میں دہلی کی سرحدوں پر تین زرعی قوانین کے خلاف ہونے والے کسانوں کے احتجاج میں حصہ لیا تھا۔ تحریک سے متعلق پاری کی اسٹوریز پڑھیں: زرعی قوانین کے خلاف احتجاجی مظاہرے: مکمل کوریج

احتجاج کے مقام پر موجود کسان یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہریانہ پولیس، حکومت پنجاب کے دائرہ اختیار میں آنے والی سرحدوں کے اطراف پیلٹ اور آنسو گیس کے گولے کیسے چلا سکتی ہے؟ ’’اگر ہم اپنی ہی ریاست میں محفوظ نہیں ہیں، تو پھر کہاں ہوں گے؟‘‘ وہ پوچھتے ہیں اور یہ زور دے کر کہتے ہیں کہ پولیس نے پرامن مظاہرین کو نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت پنجاب کو اس ضمن میں کچھ کرنا چاہیے۔

ایک کسان رہنما، گُرمیت سنگھ نے پاری کو بتایا کہ انہوں نے یہ مسئلہ پنجاب پولیس اور یہاں تک کہ ڈپٹی کمشنر کے سامنے بھی اٹھایا ہے۔ انہیں بتایا گیا کہ پولیس نے انبالہ میں اپنے ہم منصبوں سے بات کی ہے۔ لیکن آنسو گیس کی شیلنگ ابھی تک نہیں رکی ہے۔

پانی کی بوچھاروں، آنسو گیس کے گولوں اور پیلٹ کے استعمال سے ۱۰۰ سے زائد مظاہرین زخمی ہو چکے ہیں۔ تین اپنی آنکھیں گنوا چکے ہیں۔ یہاں تک کہ وزیر صحت نے بھی کسانوں کے خلاف ’بلا اشتعال‘ کارروائی کے لیے ہریانہ پولیس کی مذمت کی ہے۔

ترن تارن ضلع کے دھاریوال گاؤں کے ایک کسان جرنیل سنگھ کو ۱۳ فروری کو لاٹھی چارج کے دوران سر میں چوٹ لگی تھی۔ اس ۴۴ سالہ نوجوان کے سر میں پانچ ٹانکے لگے ہیں لیکن وہ گھر واپس نہیں جانا چاہتا۔ ’’یہاں ہر کوئی احتجاج کر رہا ہے، میں اپنے گاؤں کیوں جاؤں گا،‘‘ وہ سوالیہ انداز میں کہتے ہیں۔

ڈاکٹر مندیپ سنگھ، جو احتجاج کے مقام پر میڈیکل کیمپ چلا رہے ہیں، نے کہا کہ احتجاج شروع ہونے کے بعد سے اب تک وہ زخمیوں اور دیگر امراض میں مبتلا کم از کم ۴۰۰ مریضوں کا علاج کر چکے ہیں۔

Left: Farmers have come to the protest prepared with their trolley houses.
PHOTO • Arshdeep Arshi
Right: Dr Mandeep Singh attending to Jarnail Singh who was hit in the head during  a lathi charge and had to get five stitches
PHOTO • Arshdeep Arshi

بائیں: کسان اپنے ٹرالی گھروں کے ساتھ تیار ہوکر احتجاج میں شامل ہونے کے لیے آئے ہیں۔ دائیں: ڈاکٹر مندیپ سنگھ، جرنیل سنگھ کا علاج کر رہے ہیں جنہیں لاٹھی چارج کے دوران سر میں چوٹ لگی تھی اور انہیں پانچ ٹانکے لگے تھے

Left: Farmer unions have started providing signed IDs to journalists after several were attacked by miscreants. Farmer leader Ranjit Singh Raju (centre) notes down details of journalists and informs them about the volunteers to help them in any situation.
PHOTO • Arshdeep Arshi
Right: A ppointed volunteers act as guards or Pehredars of the farmer unions keep a check on miscreants
PHOTO • Arshdeep Arshi

بائیں: کسان یونینوں نے صحافیوں کو شرپسندوں کے حملے کے بعد دستخط شدہ شناختی کارڈ فراہم کرنا شروع کر دیا ہے۔ کسان رہنما رنجیت سنگھ راجو (درمیان میں) صحافیوں کی تفصیلات نوٹ کرتے ہیں اور انہیں ان رضاکاروں کے بارے میں بتاتے ہیں جو کسی بھی طرح کی صورتحال میں ان کی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ دائیں: وہاں پر مامور فرض شناس رضاکار کسان یونینوں کے محافظ یا پہریدار کے طور پر کام کرتے ہیں اور شرپسند عناصر پر نظر رکھتے ہیں

پنجاب کے وزیر صحت ڈاکٹر بلبیر سنگھ، جو خود بھی آنکھوں کے سرجن ہیں، احتجاج کے دوران زخمی ہونے والے مریضوں کی عیادت کر رہے ہیں۔ ۱۴ فروری کو انہوں نے اعلان کیا کہ احتجاج کے دوران زخمی ہونے والے کسانوں کے علاج معالجے کے تمام اخراجات حکومت پنجاب برداشت کرے گی۔

احتجاج کے مقام پر شرپسندوں کی جانب سے متعدد صحافیوں کو بھی زدوکوب کیا گیا اور ان پر حملہ کیا گیا۔ پریس کی مدد کرنے اور ایسے شرپسندوں پر قابو پانے کے لیے کسان یونینوں نے نگرانی کے لیے رضاکاروں کو پہریدار یا محافظ کے طور پر مامور کیا ہے۔

احتجاج کی کوریج کے لیے آنے والے صحافیوں کو کسان یونین کے لوگ اپنے دائرہ اختیار کے تحت میڈیا کارڈ بھی جاری کر رہے ہیں۔ کسان رہنما رنجیت سنگھ راجو کا کہنا ہے کہ یہ صحافیوں کی حفاظت کے لیے ہے۔ کارڈ میں صحافی کی تفصیلات ہوتی ہیں اور اس پر ایک رہنما کے دستخط ہوتے ہیں، جو ایک رجسٹر میں ان کی تفصیلات درج کر رہا ہوتا ہے۔

*****

دویندر کی طرح احتجاج کے مقام شمبھو بارڈر پر آئے بہت سے لوگ ۲۰۲۰-۲۰۲۱ کے احتجاج میں بھی شامل تھے۔

کار سیوا ٹیم کے رکن بابا لابھ سنگھ نے دہلی کی سرحد پر احتجاج کے دوران اپنے چچازاد بھائی کو کھو دیا تھا۔ ’’میرے چچازاد بھائی اَجَیب سنگھ کی احتجاج والی جگہ پر نمونیا کی وجہ سے موت ہوگئی تھی۔ ان کی بیوی کا پہلے ہی انتقال ہو چکا تھا۔ اس کے دو بچے یتیم ہو چکے ہیں،‘‘ ۶۲ سالہ بزرگ نے ۱۸ فروری کو شمبھو بارڈر پر ایک اجتماع سے خطاب کے دوران یہ باتیں کہیں۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’انتخابات کے دوران یہ لوگ ہمارے پاس ہاتھ جوڑ کر آتے ہیں، لیکن جب ہم اپنے مطالبات لے کر ان کے پاس آتے ہیں تو یہ کان نہیں دھرتے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ حکومتیں تو آتی جاتی رہتی ہیں، لیکن لوگوں کو ہمیشہ اپنے لیے لڑنا پڑتا ہے۔

Left: Baba Labh Singh, who lost his cousin brother in the 2020-21 agitation addresses farmers at Shambu.
PHOTO • Arshdeep Arshi
Right: Harbhajan Kaur (right) has travelled for two days to reach Shambhu. 'My son did not want to bring me here but I persisted,' she says
PHOTO • Arshdeep Arshi

بائیں: بابا لابھ سنگھ، جنہوں نے ۲۰۲۰-۲۱ کی زرعی تحریک میں اپنے چچازاد بھائی کو کھو دیا تھا، شمبھو بارڈر پر کسانوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ دائیں: ہربھجن کور (دائیں) نے شمبھو پہنچنے کے لیے دو دن کا طویل سفر کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’میرا بیٹا مجھے یہاں نہیں لانا چاہتا تھا، لیکن میں بضد ہو گئی‘

Left: Protesting farmers want to know how the Haryana police are able to shoot pellets and tear gas shells in the jurisdiction of Punjab. 'If we are not safe in our state, where will we be?' they ask and add that the police have targeted peaceful protesters.
PHOTO • Arshdeep Arshi
Right: Like many of the protestors, the vehicles at Shambhu border were also a part of the 2020-21 protests. The quote on this tractor reads: 'Haar paawange, haar puaawange...Sun Dilliye, par haar ke nahi jawange' [Will honour you and will be honoured...Listen Delhi, but we will not return defeated/dishonoured]
PHOTO • Arshdeep Arshi

بائیں: احتجاج کے مقام پر موجود کسان یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہریانہ پولیس حکومت پنجاب کے دائرہ اختیار میں آنے والی سرحدوں کے اطراف پیلٹ اور آنسو گیس کے گولے کیسے داغ سکتی ہے؟ ’اگر ہم اپنی ہی ریاست میں محفوظ نہیں ہیں، تو پھر کہاں ہوں گے؟‘ وہ پوچھتے ہیں اور زور دے کر کہتے ہیں کہ پولیس نے پرامن مظاہرین کو نشانہ بنایا ہے۔ دائیں: بہت سے مظاہرین کی طرح، شمبھو بارڈر پر گاڑیاں بھی ۲۰۲۱-۲۲ کے احتجاج کا حصہ تھیں۔ اس ٹرک پر یہ سلوگن درج ہے: ’ہار پاوَنگے، ہار پوآوںگے…سن دلّیے، پر ہار کے نہیں جاونگے‘ [آپ کو عزت دیں گے اور عزت پائیں گے…دہلی یہ بات کان کھول کر سن لو کہ ہم ہار کر اور رسوا ہوکر واپس نہیں جائیں گے]

ہربھجن کور خواتین کسانوں کے اس گروپ کا حصہ ہیں جنہوں نے گرداس پور کے ڈوگری سے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ وہ دو دن کا سفر کر کے شمبھو بارڈر تک پہنچی ہیں۔ ۷۸ سالہ بزرگ خاتون کہتی ہیں، ’’میرا بیٹا مجھے نہیں لانا چاہتا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ میں گاؤں میں تنہا رہ کر کیا کروں گی؟ اگر ایسی کوئی نوبت آئی تو میں کسی سے بھی پہلے مر جاؤں گی۔‘‘

وہ اپنے گاؤں کی دیگر خواتین کے ساتھ ۲۰۲۰-۲۱ کے احتجاج کے دوران بھی دہلی کی سرحدوں پر ڈٹی رہی تھیں۔

صرف لوگ ہی نہیں، یہاں ایسی گاڑیاں بھی موجود ہیں جو گزشتہ احتجاج کا حصہ تھیں۔ شمبھو بارڈر پر موجود ایک ٹریکٹر پر تین سال پہلے ایک سلوگن لکھا گیا تھا: ’’ہار پاوَنگے، ہار پوآوںگے…سن دلّیے، پر ہار کے نہیں جاوَنگے [آپ کو عزت دیں گے اور عزت پائیں گے…دہلی یہ بات کان کھول کر سن لو کہ ہم ہار کر اور رسوا ہوکر واپس نہیں جائیں گے]۔‘‘

ایک کار پر لکھا ہے: ’’جدوں پتا ہووے سینیاں چ چھیک ہونگے، اودوں جنگ جان والے بندے عام نہیوں ہوندے [جب یہ معلوم ہی ہے کہ سینے میں (گولی باری سے) سوراخ ہو جائیں گے، تو جنگ پر جانے والے یہ سورما کوئی عام آدمی نہیں ہیں]۔‘‘

کسان رہنماؤں نے ۱۸ فروری، اتوار کی شام کو دلی چلو مارچ کو عارضی طور پر اس وقت روک دیا تھا جب مرکزی وزراء کی جانب سے ایک نئی کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کی تجویز پیش کی گئی۔ اس کا جائزہ لینے کے بعد، کسانوں نے تجویز کو ٹھکرا دیا ہے اور اب وہ ۲۱ فروری کو اپنا مارچ دوبارہ شروع کرنے والے ہیں۔

Protesters sit on the concrete barricades, facing Haryana
PHOTO • Arshdeep Arshi

مظاہرین کنکریٹ سے بنے بیریکیڈ پر ہریانہ کی طرف رخ کرکے بیٹھے ہوئے ہیں

A protesting farmer reciting Gurbani (Sikh hymns), 100 metres from the barricades
PHOTO • Arshdeep Arshi

احتجاج میں شامل ایک کسان وہاں لگے بیریکیڈ سے ۱۰۰ میٹر دور گربانی (سکھ بھجن) کا پاٹھ کر رہا ہے

Protesters reciting satnam waheguru in front of the barricades
PHOTO • Arshdeep Arshi

مظاہرین بیریکیڈز کے سامنے ستنام واہے گرو کا ورد کر رہے ہیں

An elderly farmer sits with his union's flag
PHOTO • Arshdeep Arshi

ایک بزرگ کسان اپنی یونین کا جھنڈا لے کر بیٹھے ہیں

Elderly farmers using the flag poles as support while listening to the speakers at the protest site
PHOTO • Arshdeep Arshi

احتجاج کے مقام پر مقررین کی باتوں کو سنتے ہوئے بزرگ کسان جھنڈے کے کھمبے کو سہارا کے طور پر استعمال کر رہے ہیں

On the other side of the road, protesters and the forces sit facing each other across the Ghaggar river
PHOTO • Arshdeep Arshi

سڑک کے دوسری طرف، گھگر ندی کے پار مظاہرین اور سیکورٹی دستوں کے لوگ آمنے سامنے بیٹھے ہیں

Farmers facing the Haryana police and RAF at the Shambhu border
PHOTO • Arshdeep Arshi

شمبھو بارڈر پر کسانوں کو ہریانہ پولیس اور آر اے ایف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے

The debris in front of the barricades
PHOTO • Arshdeep Arshi

بیریکیڈز کے سامنے ملبہ پڑا ہوا ہے

مترجم: سبطین کوثر

Arshdeep Arshi

Arshdeep Arshi is an independent journalist and translator based in Chandigarh and has worked with News18 Punjab and Hindustan Times. She has an M Phil in English literature from Punjabi University, Patiala.

Other stories by Arshdeep Arshi
Editor : Sarbajaya Bhattacharya

Sarbajaya Bhattacharya is a Senior Assistant Editor at PARI. She is an experienced Bangla translator. Based in Kolkata, she is interested in the history of the city and travel literature.

Other stories by Sarbajaya Bhattacharya
Translator : Sibtain Kauser

Sibtain Kauser is a Delhi based journalist and translator. He has also worked with central news agency and many reputed TV and news networks, digital media platforms.

Other stories by Sibtain Kauser