منوہر ایلاورتی کو ۱۹ اپریل ۲۰۲۴ کو بنگلورو کی سب سے بڑی جھگی بستی دیورا جیونا ہلّی میں کویئر حقوق کے لیے بیداری مہم چلانی تھی۔ ایلاورتی صنفی اور جنسی اقلیتوں کے حقوق سے متعلق تنظیم ’سنگم‘ کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ ان کا ارادہ ایل جی بی ٹی کیو آئی اے+ (لیسبیئن، گے، بائی سیکسوئل، ٹرانس جینڈر، کویئر، انٹرسیکس، اور سیکسوئل، اور ’’+‘‘ کا مطلب ان تمام برادریوں سے ہے، جن کی شناخت ان مخففات [ایکرونم] میں درج نہیں ہے) برادری کے مسائل کے علاوہ، گزربسر کے اخراجات میں مسلسل اضافہ، بے روزگاری، اور مقامی لوگوں کے ساتھ تعصب جیسے وسیع سماجی پس منظر پر کھلی بحث کرانے کا تھا۔

اتفاق کی بات تھی کہ یہ ہندوستان میں سال ۲۰۲۴ کے عام انتخابات کا پہلا دن تھا، اور ایک ہفتہ بعد ہی کرناٹک کے بنگلورو میں ووٹروں کو اپنے حق رائے دہی کا استعمال بھی کرنا تھا۔

جیسے ہی ایلاورتی نے اپنی انتخابی مہم شروع کی، حزب اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے ۱۰ لوگوں نے، جن کے گلے میں پارٹی کے علامتی نشان والے زعفرانی رومال لپیٹے ہوئے تھے، نے انہیں اور مجھے (یہ رپورٹر، جو خاص طور پر اسی مہم کو کور کرنے پہنچی تھی) دیورا جیونا ہلّی، جسے یہاں ڈی جے ہلّی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کی تنگ گلیوں میں گھیر لیا۔ یہاں کے زیادہ تر ووٹر دیہی علاقوں کے مہاجر ہیں، جن میں بہت سے لوگ مسلمان ہیں۔

’’تم کانگریس پارٹی کے ایجنٹ ہو!‘‘ بی جے پی کے ایک کارکن نے اپنے ساتھیوں کو دیکھ کر چیختے ہوئے کہا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہاں جی ایس ایم کی مہم کی مخالفت کرنے کے لیے بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے۔ جی ایس ایم کی پرچیاں لہراتے ہوئے بی جے پی کے لوگوں نے اعلان کیا کہ ’’یہ غیر قانونی ہیں۔‘‘

PHOTO • Sweta Daga
PHOTO • Sweta Daga

بائیں: بی جے پی کے مقامی پارٹی دفتر کے نائب صدر منی مارن راجو (بائیں)، اور صنفی اور جنسی اقلیتوں کے حقوق سے متعلق تنظیم ’سنگم‘ کے شریک کار بانی منوہر ایلاورتی۔ دائیں: منی مارن راجو (لال سفید چار خانہ کی قمیض پہنے ہوئے) کی قیادت میں بی جے پی کے کارکن منوہر (داڑھی میں، نیلی قمیض پہنے ہوئے) کو گھورتے ہوئے، جب منوہر مدد کے لیے جی ایس ایم کے دوسرے ساتھیوں کو آواز دینے کی کوشش کر رہے ہیں

سول سوسائٹی کے کسی بھی گروپ کو قانونی طور پر حزب اقتدار پارٹی کی تنقید کرنے کے لیے پرچے بانٹنے کا حق ہے۔ حالانکہ، الیکشن کمیشن کسی سیاسی پارٹی کو کسی دوسری سیاسی پارٹی کی تنقید کرنے والے پرچے بانٹنے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔

منوہر نے بی جے پی کے ناراض کارکنوں کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی، لیکن اچانک ان کی توجہ میرے اوپر آ گئی اور انہوں نے موقع پر میری موجودگی سے متعلق سوال اٹھانا شروع کر دیا اور مجھ پر میرا کیمرہ بند کرنے کا دباؤ ڈالنے لگے۔

یہ معلوم ہونے کے بعد کہ میں ایک صحافی ہوں، ان کے برتاؤ میں تھوڑی نرمی آئی۔ ان کے اس بدلتے ہوئے رویہ کا فائدہ اٹھا کر منوہر اور میں دوسرے سماجی کارکنوں سے ملنے کے لیے آگے بڑھ گئے۔ اس گروپ میں بی جے پی کے مقامی نائب صدر منی مارن راجو بھی شامل تھے۔ انہوں نے ہمیں آگے بڑھنے کی اجازت دے دی۔

حالانکہ، حالات تیزی سے تب دوبارہ تبدیل ہو گئے، جب ہمیں دوگنی تعداد میں بی جے پی کارکنوں نے پھر سے گھیر لیا۔ الیکشن کمیشن کے اہلکاروں اور پولیس کو لے کر ایک سرکاری گاڑی بھی موقع پر آ کھڑی ہوئی۔

کچھ ہی منٹوں میں منوہر، جی ایس ایم کارکنوں اور مجھے دیورا جیون ہلّی پولیس اسٹیشن میں طلب کیا گیا۔ یہ سب اس سے پہلے ہی ہو گیا، جب کوئی بیداری مہم ابھی شروع بھی نہیں ہوئی تھی۔

PHOTO • Sweta Daga

الیکشن کمیشن کے اہلکار اور فلائنگ اسکواڈ ٹیم کے ایک رکن ایم ایس اُمیش (پیلی قمیض میں) کے ساتھ منوہر۔ تصویر میں بی جے پی کے پارٹی کارکن، الیکشن کمیشن کے دوسرے ممبران اور پولیس آفیسر بھی دکھائی دے رہے ہیں

*****

سال ۲۰۱۴ سے وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی برسر اقتدار رہی ہے، اور ۲۰۲۴ میں اپنی مدت کار کو تیسری بار بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ علاقہ بنگلورو شمالی لوک سبھا حلقہ انتخاب میں آتا ہے اور یہاں سے امیدوار کے طور پر بی جے پی کی شوبھا کرندلجے اور کانگریس کے ایم وی راجیو گوڑا کھڑے ہیں۔

جی ایس ایم کے پرچے اور پوسٹروں میں گیس سیلنڈر کی بڑھتی قیمت، نوجوانوں کی بے روزگاری اور گزشتہ دس برسوں میں ملک میں تیزی سے بڑھتے مذہبی عدم تحمل کے رویہ کی مذمت کی گئی تھی۔

’’ان کے لیڈر مسلسل اپنی تقریروں کے ذریعے ہمیں مذہب، ذات اور زبان کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ ہم انہیں کرناٹک میں نفرت کا ماحول پیدا کرنے کی چھوٹ کیسے دے سکتے ہیں؟ یہ امن و ہم آہنگی کی سرزمین ہے،‘‘ ایسے سوال پرچے میں شامل تھے۔

’’جب جمہوریت پر خطرہ منڈلا رہا ہو، ہم صرف ایک برادری کے حقوق کی حفاظت کی بات کیسے سوچ سکتے ہیں۔ ہمیں جمہوریت کے وسیع تصور کے بارے میں سوچنا ہوگا،‘‘ منوہر کہتے ہیں۔ ’’ایسا نہیں ہے کہ ہم کانگریس کو جی ایس ایم کے لیے سب سے اچھی پارٹی مانتے ہیں، لیکن موجودہ انتظامیہ ہمارے آئین، سیکولرازم اور جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اگر جمہوریت کی شکست ہوتی ہے، تو اپنے بنیادی حقوق سے محروم تمام کمزور افراد بھی اپنی لڑائی ہار جائیں گے،‘‘ جھگی بستی کی تنگ گلیوں میں چہل قدمی کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں۔

’’کرناٹک کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ ایل جی بی ٹی کیو آئی اے+ برادری کے لوگ اتنی بڑی تعداد میں کسی الیکشن میں اکٹھا ہوئے ہیں،‘‘ ایک کویئر محقق سدھارتھ گنیش کہتے ہیں۔ جی ایس ایم میں کرناٹک کے مختلف ضلعوں، جیسے – کولار، بنگلورو شہر، بنگلورو گرامین، چکبلّاپور، رام نگر، تمکور، چتر دُرگا، وجے نگر، بلّاری، کوپّل، رائے چور، یادگیری، کلبرگی، بیدر، بیجاپور، بیلگاوی، دھارواڑ، گڈگ، شموگا، چکّمگلورو، ہاسن اور چامراج نگر کے کویئر برادری کے لوگ اور ان کے حامی شامل ہیں۔

’’جی ایس ایم کے بینر تلے متحد ہوئے کویئر برادری  کے لوگ سماج کے تمام اقلیتوں کے لیے برابری کا درجہ حاصل کرنے کی مہم میں باہم تعاون کرنے کے خواہش مند ہیں،‘‘ سدھارتھ کہتے ہیں۔ وہ ’کولیشن فار سیکسوئل مائنارٹی اینڈ سیکس ورکرز رائٹس (سی ایس ایم آر) سے بھی وابستہ ہیں، جو وسیع ترین جی ایس ایم کی ایک اکائی ہے۔

*****

PHOTO • Sweta Daga
PHOTO • Sweta Daga

بائیں: بی جے پی کے کارکنوں سے گھرے منوہر (نیلی قمیض اور کالے بیگ کے ساتھ)، الیکشن کمیشن کے پولیس اہلکار سید منیاز (خاکی وردی میں) اور ایم ایس امیش۔ دائیں: سید منیاز پولیس اسٹیشن میں کارکنوں سے بات چیت کر رہے ہیں

ہمارے سماجی کارکنوں، جنہیں ناراض پارٹی کارکنوں نے گھیر رکھا تھا، سے خطاب کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے اہلکار سید منیاز نے کہا، ’’قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔‘‘ منیاز، جو الیکشن کمیشن کے فلائنگ اسکواڈ کے رکن ہیں، بی جے پی کے ذریعے دائر شکایت کی جانچ کر رہے تھے۔ جب ہم نے شکایت دکھائے جانے کی بات کی، تو انہوں نے کہا کہ وہ صرف ایک زبانی شکایت تھی۔

’’ہمارے لوگوں کے خلاف کیا شکایت کی گئی ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’انہوں نے قانون توڑا ہے، اس لیے ان کو جانا ہوگا،‘‘ پرچوں کی تقسیم کا ذکر کرتے ہوئے منیاز نے کہا۔ جی ایس ایم کے کارکنوں نے حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے حکم کی تعمیل کرنے میں ہی اپنی خیر سمجھی۔

جب ہم پولیس اسٹیشن کی طرف جا رہے تھے، تو بھگوا رومال لپیٹے کچھ موٹر سائیکل سوار تنگ گلیوں میں ہم سے تقریباً رگڑتے ہوئے تیزی سے آگے نکلے۔ وہ چیختے ہوئے ہم پر فقرے کس رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے، ’’تم لوگوں کو مر جانا چاہیے،‘‘ ’’پاکستان چلے جاؤ،‘‘ اور ’’تم لوگ ہندوستانی نہیں ہو۔‘‘

پولیس اسٹیشن میں ۲۰ دیگر مرد ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ جب جی ایس ایم رضاکار اور میں اندر گئے، تو انہوں نے ہمیں گھیر لیا۔ وہ تمام پارٹی کارکن تھے۔ انہوں نے مجھے دھمکایا کہ وہ میرا موبائل اور کیمرہ چھین لیں گے۔ ان میں سے کچھ لوگ میری طرف بڑھے بھی، لیکن دیگر لوگوں نے ان کو روک دیا۔ جب ہمارے کارکنوں سے پولیس پوچھ گچھ کرنے لگی، تو ان لوگوں نے مجھے کمرے سے باہر نکل جانے کو کہا۔

تقریباً آدھے گھنٹے تک پولیس اسٹیشن میں ہمیں روکے رکھنے کے بعد گروپ کو چھوڑ دیا گیا۔ ان کے خلاف کوئی تحریری شکایت درج نہیں کی گئی۔ جی ایس ایم کے کارکنوں کو پولیس اسٹیشن سے چلے جانے کے لیے کہا گیا، کیوں کہ قانون کے مدنظر ان سے پوچھ گچھ کرنے لائق کوئی بات نہیں تھی۔ انہیں اس دن بیداری مہم چلانے سے بھی روک دیا گیا۔

PHOTO • Sweta Daga
PHOTO • Sweta Daga

بائیں: منیاز زور زبردستی کرنے والے ان دو موٹر سائیکل سواروں سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں، جو جی ایس ایم کارکنوں پر فقرے کس رہے تھے۔ دائیں: جی ایس ایم کارکنوں کو پولیس اسٹیشن لے جاتے منیاز

PHOTO • Sweta Daga
PHOTO • Sweta Daga

بائیں: پولیس اسٹیشن میں جی ایس ایم کارکنوں کا انتظار کرتے بی جے پی کے پارٹی کارکن۔ دائیں: جی ایس ایم کارکن پولیس کو یہ بتا رہے ہیں کہ مہم میں استعمال کیے گئے ان کے پوسٹر اور پرچے پوری طرح قانون کے مطابق ہیں

’’صدیوں تک ریاست کے ذریعے غیر قانونی مانے جانے کے بعد، یہ تحریک ریاست کی اندیکھی، غیر حساسیت اور تشدد کی مخالفت کرنے کے ساتھ ساتھ کویئر برادری کی سیاسی نمائندگی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے،‘‘ بنگلورو میں کویئر تحریک کا مطالعہ کرنے والے دانشور سدھارتھ کہتے ہیں۔

حالانکہ، اس اسٹوری کو میں جس طرح کور کرنا چاہتی تھی اس طرح نہیں کر پائی، لیکن اس واقعہ کا ذکر کرنا مجھے ضروری لگا۔

جب بی جے پی کے منی مارن راجو سے ان کے ساتھیوں کے برتاؤ کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا، ’’میں کیا کہہ سکتا ہوں؟ میری سجھ میں کچھ نہیں آ رہا ہے۔ میں جلد ہی ان سے اس بارے میں بات کروں گا۔ انہیں ایسا برتاؤ نہیں کرنا چاہیے تھا [کیمرہ کو چھیننے کی کوشش جیسا برتاؤ]۔‘‘

انتخابی عمل میں اب ایک مہینہ سے بھی کم وقت بچا ہے، ایسے میں نہ صرف الیکشن کمیشن کو ملک کے کونے کونے سے شکایتیں مل رہی ہیں، بلکہ ووٹنگ کے عمل میں عام شہریوں کو ڈرائے دھمکائے جانے کے واقعات میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔

بہرحال، میرے ساتھ ساتھ وہ کارکن بھی بچ نکلنے میں کامیاب رہے۔ ہمیں کسی قسم کا جسمانی نقصان نہیں پہنچا، لیکن سوال اپنی جگہ اب بھی موجود ہے – جمہوری حقوق کا استعمال کرنے کی وجہ سے کتنے اور لوگوں کو اس طرح دھمکایا جاتا رہے گا؟

مترجم: قمر صدیقی

Sweta Daga

Sweta Daga is a Bengaluru-based writer and photographer, and a 2015 PARI fellow. She works across multimedia platforms and writes on climate change, gender and social inequality.

Other stories by Sweta Daga
Editor : PARI Desk

PARI Desk is the nerve centre of our editorial work. The team works with reporters, researchers, photographers, filmmakers and translators located across the country. The Desk supports and manages the production and publication of text, video, audio and research reports published by PARI.

Other stories by PARI Desk
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique