’’میرے پھیپھڑے گویا اکڑ کر پتھر کے ہو گئے ہیں۔ میں چل بھی نہیں پاتا ہوں،‘‘ مانک سردار کہتے ہیں۔

نومبر ۲۰۲۲ میں ۵۵ سال کے مانک میں سلیکوسس کی علامت پائی گئی، جو کہ ایک لاعلاج مرض ہے۔ ’انتخابات میں میری کوئی دلچسپی نہیں ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’مجھے بس اپنی فیملی کی فکر ہے۔‘‘

نب کمار منڈل بھی سلیکوسس کے مریض ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’انتخابات جھوٹ کی بنیاد پر لڑے جاتے ہیں۔ ہمارے لیے ووٹ ڈالنا روزمرہ کے دوسرے کاموں جیسا ہی ہے۔ کوئی جیتے یا ہارے، ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے حالات نہیں بدلیں گے۔‘‘

مانک اور نب دونوں ہی مغربی بنگال کے میناکھان بلاک کے جھوپ کھلی گاؤں میں رہتے ہیں۔ یہاں ۲۰۲۴ کے عام انتخابات کے آخری مرحلے میں یکم جون کو ووٹنگ ہونی ہے۔

یہ دونوں ہی اپنی گرتی ہوئی صحت اور ان فیکٹریوں میں سلیکا کے ذرات کے درمیان سانس لینے کی وجہ سے آمدنی میں ہوئے نقصان کو برداشت کر رہے ہیں، جن میں انہوں نے ایک ڈیڑھ سال کے لیے بیچ بیچ میں کام کیا تھا۔ انہیں کسی قسم کا معاوضہ اس لیے نہیں مل پایا، کیوں کہ زیادہ تر ریمنگ ماس فیکٹریاں، کارخانوں کے ڈائریکٹوریٹ کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہیں، اور اگر دو چار ہیں بھی تو وہ اپنے مزدوروں کے نام کوئی تقرری نامہ یا شناختی کارڈ جاری نہیں کرتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ زیادہ تر فیکٹریاں یا تو غیر قانونی ہیں یا جزوی طور پر ہی قانونی ہیں، اور ان میں کام کرنے والے مزدوروں کو رجسٹرڈ نہیں کیا گیا ہے۔

PHOTO • Ritayan Mukherjee
PHOTO • Ritayan Mukherjee

مانک سرکار (بائیں) اور ہارا پائک (دائیں) مغربی بنگال کے شمالی ۲۴ پرگنہ کے جھوپ کھلی گاؤں میں رہتے ہیں۔ دونوں ریمنگ ماس یونٹ میں کام کرنے گئے تھے، جہاں سلیکا کی گرد کے رابطہ میں آنے سے انہیں سلیکوسس ہو گیا

ایسے کام میں واضح طور پر دکھائی دینے والے موجودہ خطرات کے باوجود تقریباً ایک دہائی تک (سال ۲۰۰۰ سے ۲۰۲۹ تک) مانک اور نب کمار کی طرح شمالی ۲۴ پرگنہ میں رہنے والے بہت سے لوگ بہتر معاش کی تلاش میں ان فیکٹریوں میں کام کرنے چلے گئے۔ ماحولیاتی تبدیلی اور زرعی پیداوار کی گھٹتی قیمتوں کے سبب ان کا روایتی ذریعہ معاش اب پہلے کی طرح منافع بخش نہیں رہ گیا تھا۔

’’ہم تو وہاں کام کی تلاش میں گئے تھے،‘‘ جھوپ کھلی گاؤں کے ہی ایک دوسرے رہائشی ہارا پائک کہتے ہیں، ’’ہمیں یہ تھوڑے ہی معلوم تھا کہ ہم موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔‘‘

ریمنگ ماس اکائیوں میں کام کرنے والے مزدور اپنی سانسوں میں سلیکا کے انتہائی چھوٹے ذرات کو لگاتار اپنے اندر لیتے رہتے ہیں۔

ریمنگ ماس کباڑ کی دھاتوں، اور غیر دھاتی معدنیات کو گلانے اور ’لیڈل اور کریڈل ٹرانسفر کار‘ اور اسٹیل کی پیداوار میں کام آنے والی انڈکشن بھٹیوں پر پرت چڑھانے کے لیے بنیادی اجزاء کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

ان فیکٹریوں میں مزدور لگاتار سلیکا کے انتہائی چھوٹے ذرات کے رابطہ میں رہتے ہیں۔ ’’میں جہاں سوتا تھا وہ جگہ کافی قریب ہی تھی۔ نیند میں بھی سلیکا کے ذرات گرد ناک میں گھس جاتے تھے،‘‘ ایک فیکٹری میں ۱۵ مہینے تک کام کر چکے ہارا بتاتے ہیں۔ حفاظتی آلات نہ ہونے کی وجہ سے ان کا سلیکوسس کی زد میں آنا طے تھا۔

PHOTO • Ritayan Mukherjee
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں: سال ۲۰۰۲-۲۰۰۱ سے، ماحولیاتی تبدیلی اور فصل کی گھٹتی قیمتوں کے سبب شمالی ۲۴ پرگنہ کے کئی کسان مہاجرت کرنے لگے۔ سال ۲۰۰۹ میں سمندری طوفان آئیلا کے ذریعہ قہر برپا کرنے کے بعد اور بھی زیادہ لوگ مہاجرت کرنے لگے۔ کئی مہاجرین نے کرشنگ اور ملنگ کا کام شروع کیا، جو کافی خطرے سے بھرا اور خطرناک کام ہوتا ہے۔ دائیں: سلیکوسس پھیپھڑے کا ایک لاعلاج مرض ہے۔ اگر گھر کا کمانے والا مرد بیمار ہو جاتا ہے یا اس کی موت ہو جاتی ہے، تو ساری ذمہ داری عورتوں کے کندھوں پر آ جاتی ہے، جو پہلے سے ہی صدمے اور تکلیف برداشت کر رہی ہوتی ہیں

سال ۱۰-۲۰۰۹ سے میناکھان سندیش کھلی بلاک کے الگ الگ گاؤوں کے ۳۴ مزدور سلیکوسس سے بے موت مر چکے ہیں۔ ان لوگوں نے ریمنگ ماس انڈسٹری میں نو مہینے سے لے کر تین سالوں کی مدت تک کام کیا ہوا تھا۔

جب مزدور سانس لیتے ہیں، تو سلیکا کے ذرات پھیپھڑوں کی ہوا والی نلی میں جمع ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے پھیپھڑے آہستہ آہستہ سخت ہونے لگتے ہیں۔ ابتدائی علامت کے طور پر سلیکوسس کے مریض لگاتار کھانستے رہتے ہیں اور انہیں سانس لینے میں دقت پیش آنے لگتی ہے، ان کا وزن کم ہونے لگتا ہے اور جلد کا رنگ سیاہ پڑنے لگتا ہے۔ دھیرے دھیرے انہیں سینہ میں درد کی شکایت بنی رہتی ہے اور وہ کافی کمزور ہو جاتے ہیں۔ بعد میں حالات اتنے سنگین ہو جاتے ہیں کہ مریض کو لگاتار آکسیجن پر منحصر رہنا پڑتا ہے۔ عام طور پر سلیکوسس کے مریض کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوتی ہے اور اس کی وجہ آکسیجن کی کمی ہوتی ہے۔

سلیکوسس ایک لاعلاج بیماری ہے، جو نیمونیا کی ہی ایک مخصوص قسم ہے۔ اس کا راست تعلق اس صنعت یا پیشہ سے ہے جس سے مریض وابستہ ہے۔ اس بیماری میں مریض کی حالت لگاتار بدتر ہوتی جاتی ہے۔ پیشہ پر مبنی امراض کے ماہر ڈاکٹر کنال کمار دتہ کہتے ہیں، ’’سلیکوسس کے مریضوں میں تپ دق کے انفیکشن کا امکان ۱۵ فیصد زیادہ رہتا ہے۔‘‘ اس مرض کو سلیکو ٹیوبر کلوسس یا سلیکوٹک ٹی بی کہتے ہیں۔

لیکن لوگوں کو روزگار کی اتنی زیادہ ضرورت ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے لوگ لگاتار کام کی تلاش میں مہاجرت کرنے کے لیے مجبور ہیں۔ سال ۲۰۰۰ میں گوالدہ گاؤں کے تقریباً ۳۵-۳۰ مزدور تقریباً ۳۰۰ کلومیٹر دور کُلٹی میں واقع ریمنگ ماس پروڈکشن یونٹ میں کام کرنے گئے۔ تقریباً دو سال بعد میناکھان بلاک کے گوالدہ، دیبی تلا، کھری بیریا اور جے گرام جیسے گاؤوں میں خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والے کسان باراسات کے دتّ پوکور واقع ایک اکائی میں گئے۔ ایسی ہی مہاجرت ۲۰۰۶-۲۰۰۵ میں سندیش کھلی بلاک ۱ اور ۲ کے سندری کھلی، سربیریا، باتیدہ، اگرہاٹی، جیلیا کھلی، راجباڑی اور جھوپ کھلی گاؤوں کے کسانوں نے بھی کی۔ اسی زمانے میں ان بلاکوں میں کام کرنے والے مزدور جاموریا کی ریمنگ ماس اکائی میں چلے گئے۔

’’ہم کرشر مشین میں بال مل [ایک قسم کا گرائنڈر] اور سیمولینا اور چینی جیسے دانوں کا استعمال کر کے کوارٹزائٹ پتھر سے ایک باریک پاؤڈر بناتے ہیں،‘‘ جھوپ کھلی کے ایک دوسرے رہائشی امے سردار بتاتے ہیں۔ ’’وہاں اتنی مقدار میں گرد و غبار اڑتے تھے کہ ایک ہاتھ کے فاصلہ پر سامنے کھڑا دوسرا آدمی بھی مشکل سے دکھائی دیتا تھا۔ میں بری طرح ان گرد و غبار میں ڈوب جاتا تھا،‘‘ وہ مزید بتاتے ہیں۔ سال ۲۰۲۲ سے دو سال کام کرنے کے بعد، امے نومبر میں سلیکوسس میں مبتلا پائے گئے۔ وہ ایسا کوئی بھی کام کرنے کے قابل نہیں رہے جس میں بھاری وزن اٹھانے کی ضرورت پڑے۔ ’’میں اپنی فیملی کی کفالت کرنے کے لیے روزگار حاصل کرنا چاہتا تھا، اور اس بیماری کے چنگل میں پھنس گیا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

سال ۲۰۰۹ میں آئیلا نام کے خطرناک سمندری طوفان کے ذریعہ سندربن کے علاقے میں قابل کاشت زمین کی تباہی کے بعد اس مہاجرت میں مزید تیزی آ گئی۔ خاص طور پر نوجوانوں کو روزگار کی تلاش میں ریاست اور ملک کے دیگر دور افتادہ حصوں کی طرف نکلنا پڑا۔

PHOTO • Ritayan Mukherjee
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں: دو سال تک کام کرنے کے بعد، امے سردار سلیکوسس میں مبتلا پائے گئے۔ وہ کہتے ہیں، ’میں نے اپنی فیملی کی کفالت کے لیے روزگار حاصل کرنا چاہا، لیکن اس مرض کے چنگل میں پھنس گیا۔‘ دائیں: ابھرتے کیرتن گلوکار مہانندا سردار، سلیکوسس کا شکار ہونے کے بعد اب لگاتار نہیں گا پاتے

PHOTO • Ritayan Mukherjee
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں: سندیش کھلی اور میناکھان بلاک کے کئی سلیکوسس مریضوں کو لگاتار آکسیجن کے سپورٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔ دائیں: ایک ٹیکنیشین ایکس رے کی جانچ کر رہے ہیں۔ سلیکوسس ایک ایسی بیماری ہے جو لگاتار بگڑتی جاتی ہے۔ وقتاً فوقتاً ایکس رے کے ذریعہ اس پر نظر رکھی جا سکتی ہے

مہانندا سردار گلوکار بننا چاہتے تھے، لیکن طوفان آئیلا کے آنے کے بعد وہ جاموریا کی ایک ریمنگ ماس فیکٹری میں کام کرنے چلے گئے، جہاں انہیں سلیکوسس نے اپنی گرفت میں لے لیا۔ ’’میں اب بھی کیرتن گاتا ہوں، لیکن اب لمبے وقت تک نہیں گا پاتا، کیوں کہ مجھے سانس سے متعلق پریشانیاں ہیں،‘‘ جھوپ کھلی سے تعلق رکھنے والے مہانندا بتاتے ہیں۔ سلیکوسس کا شکار ہونے کے بعد مہانندا ایک کنسٹرکشن سائٹ پر کام کرنے کے لیے چنئی چلے گئے۔ لیکن وہاں وہ ایک حادثہ کے شکار ہو گئے اور مئی ۲۰۲۳ میں انہیں واپس لوٹنا پڑا۔

سندیش کھلی اور میناکھان بلاک کے بہت سے مریض دوسری جگہوں پر جا سکتے تھے، لیکن وہ اپنی خراب صحت سے لڑنے کے بعد بھی دہاڑی مزدور کے طور پر ریاست اور باہر کے علاقوں میں کام کرتے رہے۔

*****

سلیکوسس کی علامات جلدی پکڑ میں آنے سے بیماری کو کنٹرول کرنا تھوڑا آسان ہو جاتا ہے۔ انڈین کاؤنسل آف میڈیکل ریسرچ – نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف آکیوپیشنل ہیلتھ کے ڈائرکٹر، ڈاکٹر کملیش سرکار کہتے ہیں، ’’بیماری کو کامیابی کے ساتھ کنٹرول کرنے کے لیے اسے جلد از جلد پہچاننا ضروری ہے۔ کلارا سیل پروٹین ۱۶ [سی سی ۱۶] جس کی جانچ انگلی کے سرے سے لی گئی خون کی ایک بوند سے کی جا سکتی ہے، سلیکوسس سمیت پھیپھڑوں کی کئی دوسری بیماریوں کی بائیومارکر ہے۔‘‘ ایک عام طور سے صحت مند انسان کے جسم میں سی سی ۱۶ کی سطح فی ملی لیٹر ۱۶ نینو گرام (این جی/این جی ایم ایل) ہوتی ہے، جب کہ سلیکوسس کے مریض میں یہ سطح بیماری بڑھنے کے ساتھ بالترتیب گھٹتی چلی جاتی ہے اور آخر میں صفر تک پہنچ جاتی ہے۔

’’حکومت کو ایک مناسب قانون بنا کر خطرناک صنعتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے لیے ایک متعینہ مدت کے اندر سی سی ۱۶ کی جانچ کو لازمی کر دینا چاہیے، تاکہ ان کی صحت پر مسلسل یا درمیان میں سلیکا کے ذرات کے رابطہ کے اثرات کو درج کیا جا سکے،‘‘ ڈاکٹر سرکار کہتے ہیں۔

’’ہمارے آس پاس کوئی اسپتال نہیں ہے،‘‘ ربندر ہلدر کہتے ہیں، جو ۲۰۱۹ سے ہی سلیکوسس کے مریض ہیں۔ سب سے قریبی بلاک اسپتال کھلنا میں ہے۔ وہاں پہنچنے کے لیے جھوپ کھلی میں رہنے والے ربندر کو دو بار کشتیوں پر سوار ہونا پڑتا ہے۔ ’’سربیریا میں ایک شرم جیوی ہاسپیٹل ہے، لیکن وہاں کوئی خاص سہولیات نہیں ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں، ’’کسی خطرناک حالت میں ہمیں کولکاتا جانا پڑتا ہے۔ وہاں پہنچنے کے لیے ایمبولینس کو ۱۵۰۰ سے ۲۰۰۰ روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔‘‘

PHOTO • Ritayan Mukherjee
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں: جھوپ کھلی کے ایک دوسرے رہائشی ربندر ہلدر کا کہنا ہے کہ انہیں سب سے نزدیکی اسپتال تک جانے کے لیے دو بار کشتی کی سواری کرنی پڑتی ہے۔ دائیں: گوالدہ گاؤں کے رہائشی شفیق ملّا کو لگاتار آکسیجن کے سپورٹ کی ضرورت پڑتی ہے

گوالدہ میں واقع اپنے گھر میں ۵۰ سالہ محمد شفیق ملّا پچھلے تقریباً دو سالوں سے سانس کی خطرناک تکلیفوں کی وجہ سے اپنے بستر پر ہی پڑے ہیں۔ ’’میرا وزن ۲۰ کلو کم ہو گیا ہے اور مجھے لگاتار آکسیجن پر منحصر رہنا پڑتا ہے۔ میں روزہ بھی رکھ پانے لائق نہیں ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’مجھے اپنی فیملی کی فکر ہے۔ میرے مرنے کے بعد ان کا کیا ہوگا؟‘‘

سال ۲۰۲۱ کی فروری میں ان کی فیملی کو ریاستی حکومت کے ذریعے ۲ لاکھ روپے کا معاوضہ ملا۔ ’’سمت کمار کر نے ہماری طرف سے ایک معاملہ دائر کیا تھا،‘‘ شفیق کی بیگم تسلیمہ بی بی کہتی ہیں۔ لیکن معاوضہ میں ملا پیسہ جلد ہی ختم ہو گیا۔ ’’ہم نے انہیں گھر کے اخراجات اور ہماری بڑی بیٹی کی شادی میں استعمال کر لیا،‘‘ تسلیمہ بتاتی ہیں۔

آکیوپیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ ایسوسی ایشن آف جھارکھنڈ (او ایس اے جے ایچ، انڈیا) کے سمِت کمار کر جھارکھنڈ اور مغربی بنگال میں گزشتہ دو دہائیوں سے سلیکوسس سے متاثر مزدوروں کے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ادارہ ان کی طرف سے سماجی تحفظ اور مالی معاوضہ کے لیے شکایت درج کرتا ہے۔

او ایس اے جے ایچ، انڈیا نے ۲۰۲۳-۲۰۱۹ کے درمیان مغربی بنگال میں سلیکوسس سے مرنے والے ۲۳ مزدوروں کے اہل خانہ میں ہر ایک کو ۴ لاکھ روپے کے علاوہ سلیکوسس سے متاثر ہر ایک مزدور کو ۲ لاکھ روپے کا معاوضہ دلوانے میں مدد کی ہے۔ اس کے علاوہ، ریاستی حکومت کے ذریعہ دیگر فلاحی اسکیموں اور پنشن کے لیے ۱۰ کروڑ روپے منظور کیے گئے ہیں۔

’’فیکٹری ایکٹ، ۱۹۴۸ کے مطابق، ریمنگ ماس اور سلیکا پاؤڈر بنانے والی فیکٹریوں کو ایک منظم صنعت کے طور پر زمرہ بند کیا گیا ہے، کیوں کہ ان میں ۱۰ سے زیادہ لوگ کام کرتے ہیں اور اس کام میں بجلی کی کھپت ہوتی ہے۔ اس لیے، اس صنعت میں فیکٹری سے متعلق تمام قاعدے قانون لاگو ہوتے ہیں،‘‘ سمِت کہتے ہیں۔ یہ فیکٹریاں ایمپلائیز اسٹیٹ انشورنس ایکٹ ۱۹۴۸، اور ورک مین (ایمپلائیز) کمپنسیشن ایکٹ ۱۹۲۳ کے تحت آتی ہیں۔ فیکٹری ایکٹ میں درج قابل اطلاع مرض کا مطلب ہے کہ اگر کوئی ڈاکٹر کسی مریض کو سلیکوسس میں مبتلا پاتا ہے، تو اس کی اطلاع کارخانہ کے چیف انسپکٹر کو دینا ضروری ہے۔

PHOTO • Ritayan Mukherjee
PHOTO • Ritayan Mukherjee

انیتا منڈل (بائیں) اور بھارتی ہلدر (دائیں) دونوں نے اپنے شوہروں کو سلیکوسس کی وجہ سے کھو دیا۔ بہت سی ریمنگ ماس اکائیاں غیر قانونی ہیں یا جزوی طور پر ہی قانونی ہیں اور مزدوروں کو رجسٹر نہیں کیا جاتا ہے

۳۱ مارچ، ۲۰۲۴ کو کولکاتا میں او ایس ایچ اے جے، انڈیا کے ذریعہ منعقد ایک ورکشاپ میں ماہرین کے ایک پینل نے اس بات کو سنجیدگی کے ساتھ نمایاں کیا کہ اس تصور کے برعکس کہ سلیکوسس کا خطرہ سلیکا کے ذرات سے صرف طویل مدتی رابطہ کی وجہ سے ہوتا ہے، سانس کے ذریعہ گرد و غبار کے ذرات کے قلیل مدتی رابطہ کے ذریعہ بھی اس بیماری کے ہونے کا امکان اتنا ہی ہے۔ ریمنگ ماس صنعتوں میں کام کر رہے شمالی ۲۴ پرگنہ کے سلیکوسس مریضوں کو دیکھ کر اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ گرد و غبار کے ساتھ رابطہ کی مدت کتنی بھی رہی ہو، پینل کا یہ ماننا تھا کہ ذرات کے ارد گرد ریشہ دار بافتوں کا بننا طے ہے۔ ان بافتوں کے بننے سے آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائڈ کے لین دین میں دقت ہونے لگتی ہے اور سانس کے مسائل شروع ہونے لگتے ہیں۔

سمت مزید بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ سلیکوسس ایک پیشہ سے منسلک بیماری بھی ہے، جس کے لیے مزدوروں کو معاوضہ کا حق ہے۔ لیکن زیادہ تر مزدور رجسٹرڈ نہیں ہوتے ہیں۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان فیکٹریوں کی پہچان کرے جہاں سلیکوسس میں مبتلا مزدور کام کر رہے ہیں۔ مغربی بنگال کی حکومت نے اپنی راحت اور باز آبادکاری کی پالیسی (ذیلی شق ۴ء۱۱) میں یہ کہا ہے کہ مزدور موجودہ قانون کے علاوہ بھی اپنے مالکوں کے سامنے نقصان کی تلافی کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔

لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ سمت کہتے ہیں، ’’کئی موقعوں پر میں نے دیکھا ہے کہ انتظامیہ ڈیتھ سرٹیفیکٹ پر موت کی وجہ کے طور پر سلیکوسس کا ذکر کرنے سے منع کر دیتی ہے۔‘‘ اور اس سے پہلے فیکٹریاں بیمار پڑتے ہی مزدور کو نوکری سے نکال دیتی ہیں۔

مئی ۲۰۱۷ میں جب انیتا منڈل کے شوہر سبرن سلیکوسس سے مرے، تو کولکاتا کے نیل رتن ہاسپیٹل کے ذریعہ دیے گئے ڈیتھ سرٹیفکیٹ میں ’’لیور سیروسس اور متعدی پیریٹونیٹس‘‘ کو ان کی موت کی وجہ بتایا گیا۔ سُبرن، جاموریا کی ریمنگ ماس فیکٹری میں کام کرتے تھے۔

’’میرے شوہر کو کبھی بھی لیور کی بیماری نہیں رہی،‘‘ انیتا کہتی ہیں، ’’انہیں سلیکوسس بتایا گیا تھا۔‘‘ جھوپ کھلی میں رہنے والی انیتا زرعی مزدوری کرتی ہیں اور ان کا بیٹا مہاجر مزدور ہے جو کولکاتا اور ڈائمنڈ ہاربر کے کنسٹرکشن سائٹوں پر کام کرتا ہے۔ ’’مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے ڈیتھ سرٹیفکیٹ پر کیا لکھا، مجھے تب ہوش کہاں تھا! اور میں ان قانونی الفاظ کو کیسے سمجھ سکتی ہوں؟ میں تو گاؤں کی ایک معمولی سی گھریلو عورت ہوں۔‘‘

بیٹے کی اور اپنی آمدنی کو جوڑ کر انیتا اپنی بیٹی کی اعلیٰ تعلیم کا خرچ اٹھا رہی ہیں۔ انہیں بھی انتخابات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ’’گزشتہ سات برسوں میں دو انتخاب ہو چکے ہیں۔ لیکن میری غریبی ویسی ہی ہے۔ آپ ہی بتائیے، مجھے انتخابات سے کیا فائدہ؟‘‘ وہ پوچھتی ہیں۔

مترجم: قمر صدیقی

Ritayan Mukherjee

Ritayan Mukherjee is a Kolkata-based photographer and a PARI Senior Fellow. He is working on a long-term project that documents the lives of pastoral and nomadic communities in India.

Other stories by Ritayan Mukherjee
Editor : Sarbajaya Bhattacharya

Sarbajaya Bhattacharya is a Senior Assistant Editor at PARI. She is an experienced Bangla translator. Based in Kolkata, she is interested in the history of the city and travel literature.

Other stories by Sarbajaya Bhattacharya
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique