کومل کو ٹرین میں سوار ہونا ہے۔ وہ اپنے گھر رنگیا جنکشن (آسام) جا رہی ہیں۔

یہ وہ جگہ تھی جہاں انہوں نے کبھی واپس نہ لوٹنے کا عہد لے رکھا تھا، ذہنی طور پر معذور اپنی ماں سے ملنے کے لیے بھی نہیں۔

دہلی میں جی بی روڈ کے طوائف خانوں میں رہنا اور کام کرنا ان کے لیے گھر واپس جانے سے بہتر تھا۔ وہ گھر جہاں ان کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ جس خاندان میں انہیں واپس بھیجا جا رہا ہے، اس میں ان کا ۱۷سالہ کزن بھی شامل ہے جس نے مبینہ طور پر کئی دفعہ ان کے ساتھ عصمت دری کی تھی۔ اس وقت وہ محض ۱۰سال کی تھیں۔ ’’میں اپنے [کزن] بھائی کا چہرہ تک نہیں دیکھنا چاہتی۔ میں اس سے نفرت کرتی ہوں،‘‘ کومل کہتی ہیں۔ وہ اکثر ان پر تشدد کرتا تھا اور دھمکی دیتا تھا کہ اگر انہوں نے روکنے کی کوشش کی تو وہ ان کی ماں کو جان سے مار ڈالے گا۔ ایک دفعہ اس نے کسی دھار دار چیز سے ان پر حملہ کیا، جو ان کی پیشانی پر ایک گہرا نشان چھوڑ گیا۔

کومل پولیس کے ساتھ اپنی بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیں، ’’ہے کارونے  مور گھور جابو مون نائے۔ موئی کیمان بار کوئیسو ہی ہوٹوک [یہی وجہ ہے کہ میں گھر واپس نہیں جانا چاہتی۔ میں ان سے کئی بار کہہ چکی ہوں]۔‘‘ اس کے باوجود پولیس نے بغیر کسی انتظام کے انہیں آسام جانے والی ٹرین پر بٹھا کر ۳۵ گھنٹے کے سفر پر روانہ کر دیا۔ یہاں تک کہ انہیں ایک سم کارڈ تک نہیں دیا گیا، تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ بحفاظت گھر پہنچ گئیں، یا جب وہ گھر پر ہوں گی تو مزید تشدد سے محفوظ رہیں گی۔

کومل کو دراصل ٹریفکنگ کے شکار نابالغ اور نوعمر بالغوں کی ضروریات کے لیے مخصوص امدادی خدمات کی ضرورت تھی۔

Komal trying to divert her mind by looking at her own reels on her Instagram profile which she created during her time in Delhi’s GB Road brothels. She enjoys the comments and likes received on the videos
PHOTO • Karan Dhiman

کومل اپنے انسٹاگرام پروفائل پر اپنی خود کی ریلوں کو دیکھ کر اپنا دھیان بٹانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ پرفائل انہوں نے دہلی کے جی بی روڈ پر واقع طوائف خانوں میں اپنے قیام کے دوران بنائی تھی۔ وہ ویڈیوز پر موصول ہونے والے تبصروں اور لائکس سے لطف اندوز ہوتی ہیں

*****

کومل (تبدیل شدہ نام) کو یاد ہے کہ اس سال کے شروع میں جب وہ اپنے تقریباً ۶ بائی ۴ فٹ کے ماچس نما کمرے سے لوہے کی سیڑھیوں کے ذریعہ اتر رہی تھیں، تو دو پولیس افسران اس طوائف خانہ میں آئے تھے، جہاں وہ کام کر رہی تھیں۔ یہ کمرے راہگیروں کی نظروں سے اوجھل تھے۔ صرف لوہے کی سیڑھیاں اشارہ کرتی ہیں کہ یہاں، دہلی کے بدنام زمانہ ریڈ لائٹ علاقے شردھانند مارگ جسے بول چال کی زبان میں جی بی روڈ کہا جاتا ہے، جسم فروشی کا کام ہوتا ہے۔

کومل نے انہیں بتایا کہ وہ ۲۲ سال کی ہیں۔ کومل اپنی مادری زبان آسامی میں کہتی ہیں ، ’’کومو ہوبو پاریں… بھالکے نا جانو موئے [کم بھی ہو سکتی ہے، مجھے صحیح صحیح نہیں معلوم]۔‘‘ ان کی عمر ۱۷ یا ۱۸ سال سے زیادہ نظر نہیں آتی۔ یہ یقین کرلینے کے بعد کہ وہ نابالغ ہیں، اس دن پولیس نے انہیں طوائف خانے سے ’نکالا‘ تھا۔

دیدیوں (طوائف خانہ کی مالکان) نے افسروں کو نہیں روکا، کیونکہ انہیں بھی کومل کی اصل عمر کا اندازہ نہیں تھا۔ انہوں نے کومل کو سمجھایا تھا کہ اگر کوئی پوچھے تو وہ کہیں کہ ان کی عمر ۲۰ سال سے زیادہ ہے، اور یہ کہ وہ ’’اپنی مرضی سے‘‘ سیکس ورک کر رہی ہے۔

کومل کو یہ بات سچی لگی۔ انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے آزادانہ زندگی گزارنے کے لیے دہلی منتقل ہوکر جسم فروشی کے کام کا انتخاب کیا ہے۔ لیکن اس ’انتخاب‘ کے بعد انہیں تکلیف دہ تجربات کے ایک سلسلہ سے گزرنا پڑا، جس میں بطور نابالغ عصمت دری اور ٹریفکنگ کا شکار ہونا شامل تھا۔ اور اس سے نمٹنے، صحت یاب ہونے اور متبادل راستے تلاش کرنے میں مدد بہم پہنچانے کے لیے کوئی معاون نظام دستیاب نہیں تھا۔

جب انہوں نے پولیس کو بتایا کہ وہ اپنی مرضی سے طوائف خانے پر ہیں، تو پولیس کو یقین نہیں آیا۔ انہوں نے اپنے فون میں موجود اپنی پیدائش کے سرٹیفکیٹ کی کاپی بھی دکھائی اور ان سے اس حقیقت کی تصدیق کرلینے کو کہا کہ وہ ۲۲ سال کی ہیں۔ لیکن پولیس نے ان کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ یہ شناخت کا واحد ذریعہ تھا جو ان کے پاس موجود تھا، لیکن ان کی شناخت کے لیے ناکافی تھا۔ کومل کو وہاں سے ’نکال‘ کر پولیس اسٹیشن لے جایا گیا اور انہیں کے اندازے کے مطابق دو گھنٹے تک ان کی کاؤنسلنگ کی گئی۔ اس کے بعد انہیں نابالغوں کے لیے مخصوص ایک سرکاری شیلٹر (پناہ گاہ) میں بھیج دیا گیا، جہاں انہوں نے ۱۸ دنوں تک قیام کیا۔ کومل کو بتایا گیا کہ قانونی عمل کے مطابق انہیں ان کے کنبے کے پاس بھیج دیا جائے گا، کیونکہ یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ نابالغ ہیں۔

شیلٹر میں ان کے قیام کے دوران پولیس نے طوائف خانے سے ان کی چیزیں برآمد کیں، جن میں ان کے کپڑے، دو فون، اور دیدیوں کے حوالے کیے گئے ان کی کمائی کے ۲۰ ہزار روپے شامل تھے۔

کومل کا یہ ویڈیو دیکھیں جس میں وہ ایک رشتہ دار کے ذریعہ جنسی زیادتی کا نشانہ بننے کے بعد اپنی زندگی کے بارے میں بتا رہی  ہیں

جسم فروشی کے کام میں شامل ہونے کے بعد کومل کو کئی تکلیف دہ تجربات سے گزرنا پڑا، جن میں بطور نابالغ عصمت دری اور ٹریفکنگ کا شکار ہونا شامل تھا، اور جن سے نمٹنے یا صحت یاب ہونے کے لیے کوئی معاون نظام دستیاب نہیں تھا

’’حکام کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ نابالغوں کی دوبارہ ٹریفکنگ نہ ہو۔ نابالغ متاثرین کو ترجیح دینا ضروری ہے، خواہ وہ اپنے کنبے میں واپس جانا چاہتے ہوں یا پناہ گاہ میں ہی رہنا پسند کرتے ہوں۔ متاثرین کو ان کے اہل خانہ کے حوالے کرنے سے پہلے ان کی مناسب طریقے سے کاؤنسلنگ کو بھی ترجیح دی جانی چاہیے،‘‘ دہلی میں انسانی حقوق کے وکیل اتکرش سنگھ کہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ چائلڈ ویلفیئر کمیٹی (سی ڈبلو سی) ، جو کہ جووینائل جسٹس ایکٹ، ۲۰۱۵ کے تحت تشکیل شدہ ایک خود مختار ادارہ ہے، کو یقینی بنانا چاہیے کہ کومل جیسے معاملات میں بازآبادکاری کا طریقہ کار قانون کے مطابق ہو۔

*****

کومل کا گاؤں آسام کے بوڈولینڈ ٹیریٹوریل ریجن کے باکسا ضلع میں واقع ہے۔ ریاست کا یہ مغربی خطہ، جسے بی ٹی آر کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک خود مختار ڈویژن اور ایک مجوزہ ریاست ہے، جسے ہندوستانی آئین کے و۶یں شیڈول کے تحت تشکیل دیا گیا ہے۔

کومل کی عصمت دری کا ویڈیو گاؤں کے بہت سے لوگوں نے دیکھا تھا، جسے ان کے ماموں زاد بھائی نے فلم بند کر کے پھیلایا تھا۔ ’’میرے ماموں [کزن کے والد] ہر چیز کا الزام مجھی پر عائد کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ میں نے ہی ان کے بیٹے کو بہلایا پھسلایا ہے۔ وہ میری ماں کے سامنے مجھے اس وقت بھی بے رحمی سے مارتے پیٹتے تھے، جب وہ روتے ہوئے انہیں روکنے کی التجا کرتی تھی،‘‘ کومل بتاتی ہیں۔ کسی طرح کی مدد کی عدم دستیابی یا مصیبتوں کا خاتمہ نظر نہ آنے پر، ۱۰سالہ کومل اکثر خود کو نقصان پہنچاتی تھیں۔ ’’مجھے جس شدید غصے اور تکلیف کا سامنا تھا، اس سے نجات پانے کے لیے میں نے اسٹینلیس اسٹیل کے بلیڈ سے اپنا ہاتھ کاٹ لیا تھا۔ میں اپنی زندگی ختم کرنا چاہتی تھی۔‘‘

جن لوگوں نے وہ ویڈیوز دیکھی تھیں ان میں بکاش بھیا (کزن کا دوست) بھی شامل تھا۔ اس نے خود تجویز کردہ ایک ’حل‘ کے ساتھ ان سے رابطہ کیا۔

’’اس نے مجھے اپنے ساتھ سلی گوڑی [قریبی شہر] جانے اور جسم فروشی میں شامل ہونے کے لیے کہا۔ [اس نے کہا] میں پیسہ کما کر کم از کم اپنی ماں کا خیال تو رکھ سکوں گی۔ اس نے کہا کہ گاؤں میں رہ کر عصمت دری کا شکار ہونے اور بدنام ہونے سے یہ بہتر ہے،‘‘ کومل بتاتی ہیں۔

کچھ ہی دنوں میں بکاش نے اس نوعمر لڑکی کو اپنے ساتھ بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ دس سالہ کومل نے خود کو مغربی بنگال کے سلی گوڑی شہر کے کھالپاڑہ علاقے کے طوائف خانوں میں پایا۔ تعزیرات ہند ۱۸۶۰ کی دفعہ ۳۷۰ کے تحت انسانی ٹریفیکنگ کا تعارف دھمکی، طاقت، دباؤ، اغوا، دھوکہ دہی، فریب، عہدے کا غلط استعمال، یا لالچ  جیسے غیرقانونی افعال کا استعمال جسم فروشی، بچہ مزدوری، بندھوا مزدوری، جبری مشقت، جنسی زیادتی وغیرہ کے مقاصد کے لیے کسی دوسرے شخص کے استحصال کے طور پر کیا گیا ہے۔ غیر اخلاقی ٹریفک (روک تھام) ایکٹ (آئی ٹی پی اے)، ۱۹۵۶ کے سیکشن ۵ میں ان لوگوں کے لیے سزا کا اہتمام ہے جو جسم فروشی کے مقاصد کے لیے کسی فرد (افراد) کو خریدتے ہیں، اکساتے ہیں یا کہیں لے کر جاتے ہیں۔ ’’کسی شخص کی مرضی کے خلاف یا کسی بچے کے خلاف اس طرح کے جرائم کے لیے زیادہ سے زیادہ سزا چودہ سال یا عمرقید تک ہو سکتی ہے۔‘‘ آئی ٹی پی اے کے مطابق، ’’بچہ‘‘ سے مراد وہ شخص ہے جس کی عمر ۱۶سال تک نہیں پہنچی ہے۔

کومل کی ٹریفکنگ میں بکاش کے واضح کردار کے باوجود، اس کے خلاف کوئی رسمی شکایت نہ ہونے کی وجہ سے، اس بات کا امکان نہیں ہے کہ اسے ان قوانین کے مکمل نتائج کا سامنا کرنا پڑے۔

Komal's self harming herself was a way to cope with what was happening to her, she says
PHOTO • Karan Dhiman

کومل کہتی ہیں کہ ان کا خود کو نقصان پہنچانا ان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا تھا اس سے نمٹنے کا ایک طریقہ تھا

سلی گڑی لے جانے کے تقریباً تین سال بعد کومل کو پولیس نے ایک چھاپے کے دوران کھالپاڑہ سے بچایا تھا۔ انہیں یاد ہے کہ انہیں سی ڈبلیو سی کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا، اور نابالغوں کے لیے مخصوص ایک پناہ گاہ میں تقریباً ۱۵ دنوں تک رکھا گیا تھا۔ اس کے بعد انہیں تنہا آسام جانے والی ٹرین میں بٹھا کر گھر بھیج دیا گیا تھا – بالکل اسی طرح جس طرح ۲۰۲۴میں ایک بار پھر بھیجا جائے گا۔

کومل جیسے ٹریفکینگ کے شکار بچوں کے لیے ۲۰۱۵ اور ۲۰۲۴ دونوں بار مناسب کارروائی نہیں کی گئی۔

تجارتی جنسی استحصال ‘ اور ’جبری مشقت‘ کے لیے ٹریفکنگ کے جرائم کی تحقیقات سے متعلق حکومت کے معیاری آپریٹنگ طریقہ کار (ایس او پی) کے تحت تفتیشی افسر (آئی آو) کو پیدائش کا سرٹیفکیٹ، اسکول سرٹیفکیٹ، راشن کارڈ یا کوئی اور سرکاری دستاویز حاصل کرنی ہوتی ہے۔ اگر متاثرہ بچے کی عمر کا ثبوت دستیاب نہ ہو یا غیر نتیجہ خیز ہو، تو اسے ’’عدالت کے حکم پر عمر کے تعین کے ٹیسٹ‘‘ کے لیے بھیجا جا سکتا ہے۔ نیز، جنسی جرائم سے بچوں کے تحفظ کے ایکٹ (پاکسو)، ۲۰۱۲ کی دفعہ ۳۴(۲)  تقاضہ کرتی ہے کہ خصوصی عدالت سے بچے کی اصل عمر کا تعین کرنے اور ’’عمر کے تعین کی وجوہات تحریری طور پر ریکارڈ کی جائے۔‘‘

کومل کے پیدائش کے سرٹیفکیٹ کو ان پولیس افسران نے ہی خارج کر دیا تھا، جنہوں نے انہیں دہلی میں ’بچایا‘ تھا۔ انہیں طبی-قانونی معالے (ایم ایل سی) کے تحت کبھی بھی قانونی طبی معائنے کے لیے نہیں لے جایا گیا، اور نہ ہی انہیں ڈی ایم یا سی ڈبلیو سی کے سامنے پیش کیا گیا۔ ان کی اصل عمر کا تعین کرنے کے لیے ہڈیوں کے اوسیفکیشن ٹیسٹ کرانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔

اگر حکام کے درمیان اتفاق رائے ہے کہ متاثرہ شخص کی باز آبادکاری کی جانی چاہیے یا ان کے اہل خانہ کے ساتھ دوبارہ ملایا جانا چاہیے ، تو یہ تفتیشی افسر (آئی او) یا سی ڈبلیو سی کی ذمہ داری ہے کہ وہ پہلے ’’گھر کی تصدیق مناسب طریقے سے کیے جانے کے عمل‘‘ کو یقینی بنائے۔ اس کے علاوہ حکام کو ’’متاثرہ افراد کی گھر واپسی کی صورت میں ان کے لیے معاشرے میں دوبارہ ضم ہونے کے مواقع‘‘ کی شناخت اور ریکارڈ کرنا بھی ضروری ہے۔

کسی بھی صورت میں متاثرین کی واپسی پہلے والے کام کی جگہ پر نہیں ہونی چاہیے یا انہیں ’’مزید خطرے کے حالات‘‘ سے دوچار نہیں ہونا چاہیے۔ کومل کو آسام واپس بھیجا جانا جہاں ان کی عصمت دری ہوئی تھی اور جہاں سے ان کی ٹریفکنگ کی گئی تھی، اس کی صریح خلاف ورزی تھی۔ گھر کی کوئی تصدیق نہیں کی گئی۔ کسی نے بھی کومل کے خاندان کے بارے میں مزید جانکاری لینے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی کسی این جی او سے رابطہ کیا گیا تاکہ بحثیت نابالغ جنسی ٹریفکنگ کا شکار ہونے پر ان کی نام نہاد بازآباد کاری میں مدد کی جا سکے۔

Komal says she enjoys creating reels on classic Hindi film songs and finds it therapeutic as well
PHOTO • Karan Dhiman

کومل کا کہنا ہے کہ انہیں کلاسک ہندی فلمی گیتوں پر ریلز بنانا پسند ہے اور اس سے ان کی طبیعت بحال ہوتی ہے

اس کے علاوہ، حکومت کی اجولا اسکیم کے مطابق، ٹریفکنگ اور جنسی استحصال کے متاثرین کو ’’فوری اور طویل مدتی باز آباد کاری کی خدمات اور بنیادی سہولیات/ضروریات‘‘ بشمول مشاورت، رہنمائی اور پیشہ ورانہ تربیت فراہم کی جانی چاہیے۔ چائلڈ کاؤنسلر اینی تھیوڈور، جنہیں جنسی ٹریفکنگ کے معاملات سے نمٹنے کا تجربہ ہے، نے بھی متاثرین کی زندگیوں میں نفسیاتی مدد کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’سب سے بڑا چیلنج معاشرے میں متاثرین کی دوبارہ شمولیت یا ان کے سرپرستوں کے حوالے کرنے کے بعد بھی ان کی کاؤنسلنگ جاری رکھنا ہے۔‘‘

کومل کو دہلی کے طوائف خانوں سے ’بچانے‘ کے بعد، ان کی باز آباد کاری کا عمل جلد بازی میں شروع کرنے سے پہلے ان کی دو گھنٹے تک کاؤنسلنگ کی گئی تھی۔ کاؤنسلر اینی پوچھتی ہیں، ’’کوئی شخص جس نے سالوں تک صدمے برداشت کیے ہوں وہ صرف دو سے تین ماہ کے کاؤنسلنگ سیشنز میں، یا چند دنوں میں کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے؟‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ سسٹم متاثرین سے یہ توقع کرنے میں کچھ زیادہ ہی سخت ہے کہ وہ صحت یاب ہونے اور شفا یاب ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی آزمائش کے دنوں کے بارے میں کھل کر بات کریں کیونکہ ایجنسیاں ایسا چاہتی ہیں۔

کئی ماہرین کا خیال ہے کہ ریاستی ایجنسیاں بچائے گئے متاثرین کی نازک ذہنی صحت کو مزید خراب کر دیتی ہیں۔ انہیں یا تو دوبارہ ٹریفکنگ کا شکار ہونے یا جسم فروشی کے کاموں میں واپس جانے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ ’’مسلسل پوچھ گچھ اور بے حسی متاثرین کو دوبارہ اس صدمے کے احساس سے گزرنے پر مجبور کرتی ہے جن سے وہ باہر نکل کر آئے ہیں۔ پہلے اسمگلروں، طوائف خانے کے مالکان، دلالوں اور دیگر مجرموں نے انہیں ہراساں کیا، لیکن اب سرکاری ادارے بھی ایسا ہی کر رہے ہیں،‘‘ اینی نتیجہ اخذ کرتی ہیں۔

*****

کومل کو جب پہلی دفعہ بچایا گیا تھا تو ان کی عمر ۱۳ سال سے زیادہ نہیں تھی۔ دوسری بار شاید وہ ۲۲ سال کی تھیں؛ انہیں ’بچا‘ کر ان کی خواہش کے خلاف دہلی سے باہر بھیج دیا گیا۔ مئی ۲۰۲۴ میں، وہ آسام کے لیے ٹرین میں سوار ہوئیں – لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ محفوظ طریقے سے آسام پہنچ گئیں؟ کیا وہ اپنی ماں کے ساتھ رہیں گی، یا کیا وہ خود کو کسی اور ریڈ لائٹ ایریا میں پائیں گی؟

یہ اسٹوری ہندوستان میں جنسی اور صنف پر مبنی تشدد (ایس جی بی وی) کے شکار افراد کی نگہداشت کی راہ میں حائل سماجی، ادارہ جاتی اور ساختیاتی رکاوٹوں پر مرکوز ملک گیر رپورٹنگ کے پروجیکٹ کا حصہ ہے۔ اس پروجیکٹ کو ’ڈاکٹرز وِداؤٹ بارڈرز انڈیا‘ کا تعاون حاصل ہے۔

متاثرین اور ان کے اہل خانہ کی شناخت کے تحفظ کے لیے ان کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔

مترجم: شفیق عالم

Pari Saikia

Pari Saikia is an independent journalist and documents human trafficking from Southeast Asia and Europe. She is a Journalismfund Europe fellow for 2023, 2022, and 2021.

Other stories by Pari Saikia
Illustration : Priyanka Borar

Priyanka Borar is a new media artist experimenting with technology to discover new forms of meaning and expression. She likes to design experiences for learning and play. As much as she enjoys juggling with interactive media she feels at home with the traditional pen and paper.

Other stories by Priyanka Borar

Anubha Bhonsle is a 2015 PARI fellow, an independent journalist, an ICFJ Knight Fellow, and the author of 'Mother, Where’s My Country?', a book about the troubled history of Manipur and the impact of the Armed Forces Special Powers Act.

Other stories by Anubha Bhonsle
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam